انسٹھویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انسٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس التاسع الخمسون فی عدم المداھنۃ‘‘ ہے۔

منعقده 9 /رجب 546 بروز جمعہ بمقام مدرسہ قادریہ

 حریص کی بات خودغرضی اور خوشامد سے خالی نہیں ہوتی :

حریص کی بات خود غرضی اور خوشامد سے خالی نہیں ہوتی، اس لئے کہ سچ بولنا ممکن نہیں ہے، اس کا بولنا مغز کے بغیر پوست ہے،صورت ہے معنی نہیں، جس طرح لفظ طمع کے حروف  ط ۔م۔ ع نقطوں سے خالی ہیں ، ایسے ہی لفظ طامع (لالچ کرنے والا ) کے حروف بھی نقطوں سے خالی ہیں،  اے اللہ کے بندوسچ بولواور فلاح پاؤ ، سچے کی ہمت آسمان سے بلند ہے، کسی کی بات اسے نقصان نہیں دیتی ، اللہ اپنے امر پر غالب ہے، جب تجھ سے کسی کام کا ارادہ کرے گا تو اس کے لئے تجھے تیار کر دے گا ۔

کسی بے ادب نے سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ کہا، اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”تمہارے احوال کی سچائی مجھے بولنے پر مجبور کر دیتی ہے اور تمہارا جھوٹ مجھے خاموش کر دیتا ہے، جیسے تم خریدار ہوں ویسے ہی میں بیچنے والا ہوں، “

عالم کے دو پیر ،زاہد کے دو ہاتھ :

اے بیٹا! اگر تیرے پاس علم کا پھل اور برکت ہوتی تو اپنے نفس کی خواہشات اور لذات کے لئے بادشاہوں کے دروازوں پر مارا مارا نہ پھرتا ، عالم کے پاس وہ پیر ہی نہیں ہوتے جن سے وہ مخلوق کے دروازوں کی طرف دوڑے، اور زاہد کے پاس وہ دو ہاتھ ہی نہیں ہوتے جن سے وہ لوگوں کے مال لے اور اللہ کے محب کے پاس وہ دو آنکھیں ہی نہیں ہوتیں جن سے وہ غیر اللہ کی طرف دیکھے۔ سچامحب جو اپنی محبت میں سچا ہے، اگر اس کی ساری مخلوق سے ملاقات ہو اور مخلوق کی طرف دیکھنا اس کے لئے حلال نہ ہوتو وہ اپنے محبوب کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھتا،اس کے سر کی آنکھوں میں دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ،اس کے دل کی آنکھوں میں آخرت کی کوئی قدرو قیمت نہیں،- اس کے باطن کی آنکھوں میں اللہ کے سوا کسی کی قدر و قیمت نہیں ، ، تم عقل سے کام لو تمہاری کوئی حقیقت نہیں ہے تم میں سے کئی چیخنے چلانے والوں کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں ، . بہت سے واعظوں کا وعظ زبانی جمع خرچ ہوتا ہے دل سے نہیں ہوتا ، منافق کی ٹھنڈی آہیں محض زبان دسر سے ہوتی ہیں جبکہ سچے آدمی کی ٹھنڈی آہیں اس کے قلب و باطن سے ہیں،سچے آدمی کا دل اللہ کے دروازے پر اور اس کا باطن اس کے سامنے ہوتا ہے، وہ ہمیشہ اس کے دروازے پر چیخ و پکار کرتا رہتا ہے حتی کہ وہ اس کیفیت میں گھر کے اندر داخل ہو جاتا  ہے۔

اللہ کی قسم ! تو اپنے سب احوال میں جھوٹا ہے تو اللہ کے دروازے کو جانے والا راستہ بھی نہیں پہچانتا، تو اوروں کی رہبری کیسے کرے گا ،  تو خود آنکھوں سے محروم ہے دوسروں کو راہ کیسے دکھلائے گا، تجھے تیری حرص اور عادت اور نفس کی پیروی نے ، اور دنیا کی حکومت اور شہوتوں کی محبت نے اندھا کر دیا ہے، ابھی تو گناہ تیرے ظاہر پر ہی ہیں ، تو میرے سامنے آ ، اس سے پہلے کہ وہ گناہ تیرے دل تک پہنچ پائیں ، آگے بڑھ ،ورنہ تو اس پر اصرار کرے گا، اور یہی اصرار کفر ہو جائے گا۔ جس شخص کے لئے اللہ کی اطاعت اور بندگی ثابت ہو جائے وہ اللہ کا کلام سننے پر قادر ہو جائے گا۔

 اس کے بعد سید ناغوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ان ستر موسویوں کا ذکر فرمایا جو اپنے نبی حضرت موسی علیہ السلام کے ہمراہ کلام الہی سننے کے لئے منتخب کئے گئے تھے، فرمایا اللہ نے موسویوں سے خطاب فرمایا اور موسی علیہ السلام کے سوا وہ سب کے سب بے ہوش ہو گئے پھر اللہ نے جب انہیں ہوش دلا یا تو عرض کیا: ’ہم میں اللہ کا کلام سننے کی ہمت نہیں ، چنانچہ آپ اللہ اور ہمارے بیچ میں واسطہ بن جائیں۔ حضرت موسی علیہ السلام سے کلام کرتے تھے، اور ان لوگوں کو کلام الہی سناتے تھے۔ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوت ایمان اور طاعت اور عبود بیت الہی کے ذریعہ سے اللہ کا کلام سننے پر قادر ہوئے ، جبکہ وہ لوگ ضعف ایمان کے باعث اس پر قادر نہ ہو سکے، اگر وہ تو رات کے احکام قبول کر لیتے ،امرونہی میں حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت کر لیتے اور ادب والے بن جاتے ،اور اپنی من گھڑت باتوں پر جرات نہ کرتے تو یقیناوہ بھی اللہ کا کلام سننے کی قدرت پالیتے ،

 پھر سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا: میں ہر جھوٹے منافق دجال پر مسلط ہوں،  میں اللہ کے ہر نا فرمان پر مسلط ہوں، نافرمانوں میں سب سے بڑا ابلیس ہے ،اور ان میں سب سے چھوٹا فاسق ہے،  میں ہر ایک گمراہ،- گمراہ کرنے والے، باطل کی طرف بلانے والے ، سے لڑائی کرنے والا ہوں ، اور اس پر لاحول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم (رکنانہیں ہے گناہ سے ، اور نہ ہی طاقت نیکی کی مگر اللہ بلند بزرگ کے ساتھ ) – کے ساتھ مدد چاہنے والا ہوں،

تیرے دل میں نفاق جم گیا ہے، تجھے اسلام اور توبہ اور ریا کاری  چھوڑنے کی ضرورت ہے، اسے چھوڑ کر مسلمان بن جا میں جس کام میں لگا ہوں، اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو عنقریب بزرگ ہوگا ، کثیر ہو گا اور عظمت والا ہوگا ، اور اپنے  دونوں پیروں پر کھڑا ہوگا ، اور اپنے بازوؤں سے مخلوق کی چھتوں پر اڑے گا اور ان کے گھروں میں داخل ہو گا ، اور وہ اسے اپنی آنکھوں اور اپنے دلوں سے دیکھ لیں گے ۔ اور اگر یہ کام میرے نفس اور حرص اور عادت اور شیطان اور باطل کی طرف سے ہے تو اس کے لئے خرابی اور دوری ہو گی ، عنقریب چھوٹا پڑ جائے گا ، اور پگھل جائے گا ، اورلوٹ جائے گا ، اور  ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جائے گا، کیونکہ اللہ تعالی  جھوٹے کی تائید نہیں کرتا۔ منافق کی مدد نہیں فرماتا منکر پر عطا نہیں کرتا۔ ناشکرے کی نعمت نہیں بڑھاتا۔

جو بندہ اپنے نفس کے ساتھ نفاق کرتا ہے، اس سے کچھ کام نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا نفاق اس کے دین کے جلا دینے کا  سبب بن جاۓ گا ۔

اے میرے مرید و،میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا، اورتم ہو کہ بھاگ رہے ہو،  سنتے ہومگر اس پر عمل نہیں کرتے ، میرا نام سب شہروں میں گونگا مشہور تھا، کیونکہ میں نے خود کو دیوانہ اور گونگا اور خاموش بنا رکھا تھا لیکن یہ بات قائم نہ رہ سکی ، قضاوقدر نے تمہاری طرف نکال دیا۔ میں تہہ خانوں میں تھا، مجھے نکال کر کرسی پر بٹھا دیا گیا، جھوٹ نہ بول تیرے پاس دو دل نہیں ہیں بلکہ ایک ہی دل ہے، وہ جس شئے سے بھر جائے ، دوسری کی گنجائش نہیں رہتی ، ارشاد باری تعالی ہے: مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ اللہ نے کسی بندے میں دو دل نہیں بنائے

 ایک ہی دل میں خالق اور مخلوق کی محبت ہو، ہونہیں سکتا ۔

 ایک ہی دل میں دنیا اور آخرت جمع ہوں ، ہونہیں سکتا ۔

اگر دل خالق کی طرف ہو اور چہرہ مخلوق کی طرف ہو، ایسا ہوسکتا ہے، مخلوق کی مصلحتوں کے لئے ان پر رحمت کی غرض سے مخلوق کی طرف متوجہ ہونا جائز ہے،مگر دل کا لگاؤ خالق ہی سے رہے۔

 جو اللہ سے جاہل ہے ،ریا کاری کرتا ہے اور نفاق برتتا ہے، – جو اللہ کا جاننے والا ہے وہ ایسا نہیں کرتا ،-احمق اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔عاقل اللہ کی فرماں برداری کرتا ہے۔ حریص دنیا کے جمع کرنے پر ریا کاری کرتا اور نفاق برتتا ہے ۔ تھوڑی امید والاحریص کی طرح

  نہیں کرتا۔ایمان والافرض ادا کر کے اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے،اور نوافل پڑھ کر اس کا محبوب بن جا تا ہے۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جونو افل کو جانتے بھی نہیں بلکہ وہ فرائض ادا کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ پھر نفل ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہم پر فرض اس لئے ہے کہ ہمیں ان کے پڑھنے پر قدرت عطافرمائی گئی، ہمارا ہمیشہ عبادت میں لگے رہنا ہم پر فرض ہے ۔‘‘ وہ اپنے لئے کسی کام کونفل نہیں سمجھتا، ہر عبادت کو فرض ہی سمجھتا ہے ، اولیاء اللہ کے لئے ایک آگاہ کرنے والا ہے جو انہیں آگاہ کرتا رہتا ہے۔ – ایک معلم ہے جو انہیں علم سکھا تارہتا ہے۔ اللہ تعالی ان کی تعلیم کے اسباب مہیا فرما تارہتا ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: لو أن المؤمن على قلة جبل نقيض الله له عالما يعلمه  ’’ایمان والا اگر پہاڑ کی چوٹی پر ہوتو اللہ اس کی تعلیم کے لئے وہاں بھی عالم کو بھیج دے گا۔‘‘ نیک لوگوں کی باتیں لے کر ان سے دوسروں کونصیحت کرتا ہے، اور اپنے نفس کو چھوڑ دیتا ہے۔ خود کوئی فائدہ نہیں لیتا، مانگے کی چیز چھپتی نہیں، عاریتایاما نگے کا لباس نہ پہن بلکہ اپنے مال کالباس پہن ، اپنے ہاتھ سے کپاس کاشت کر ، اسے پانی دے اور اپنی محنت وکوشش سے اسے پروان چڑھا، پھر اسے بن کرسی اورپہن ،  غیر کے مال اور اس کے کپڑوں پر خوش نہ ہو۔ دوسروں کا کلام لے کر کلام کرے اور اسے اپنا کلام بتائے ،تو صالحین کے دل تجھ سے خفا ہوں گے ، اگر تو خودعمل نہ کر سکے تو کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں، ارشاد باری ہے: ‌ادْخُلُوا ‌الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَاپنے عملوں کے ذریعے جنت میں داخل ہو جاؤ۔“  اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کوشش کرو اللہ کی معرفت اس کے ساتھ غائب ہو جانے اور اس کے قضا وقد راورعلم وقدرت کے ساتھ قائم ہو جانے کا نام ہے، معرفت، اللہ کے افعال ومقدرات میں فنا ہو جانے کا نام ہے،  تیری گفتگو تیرے دل کی بات کو ظاہر کرتی ہے، زبان دل کی ترجمانی کرتی ہے، اگر دل گھل مل گیا ہے تو حق و باطل کوئی فرق نہ کر پائے گا، چنانچہ کبھی بات صحیح ہوگی ، اورکبھی باطل، کبھی تو شے کی حقیقت کو کما حقہ، بیان کرے گا ، کبھی اس پر بھی قدرت نہ ہو گی

 جب دل کا یہ گھلناملنا نہ رہے گا ،زبان صحیح ہو جاۓ گی ،  جب دل سے شرک جاتا رہے گا ، زبان صحیح ہو جائے گی ، جب وہ شرک میں مبتلا ہوگا تو مخلوق کے ساتھ پابند ہوگا، اس میں تغیر وتبدل ہوتا رہے گا ،الغزش کرے گا، جھوٹ بولے گا۔

بعض وعظ کرنے والے وہ ہیں جو اپنے دل سے کلام کرتے ہیں، بعض وعظ کرنے والے وہ ہیں جو اپنے باطن سے کلام کرتے ہیں ، بعض وعظ کر نیوالے وہ ہیں جو اپنے نفس و خواہش وشیطان اور عادت کی پیروی سے کلام کرتے ہیں ، اللهم اجعلنا مؤمنين ولا تجعلنا منافقين  ”اے اللہ تو ہمیں ایمان والا بنا نفاق والا نہ بنا۔‘‘ اگر دل میں ایک شخص کی محبت اور دوسرے کی عداوت ہو تو ایک سے دوستی اور دوسرے سے دشمنی اپنے نفس اور عادت کی پیروی سے نہ کر، بلکہ دونوں کے معاملے میں کتاب وسنت کو حکم بنادے، اگر وہ دونوں تیرے محبوب کی موافقت کر یں تو ہمیشہ اس کی محبت میں قائم رہ،  اگر وہ دونوں اس کی مخالفت کریں تو اس کی محبت سے الگ ہو جاء  اگر وہ دونوں تیرے دشمن کی ( جسے تو نے دشمن سمجھا ہے ) مخالفت کریں تو تو اس کی عداوت سے الگ ہو جا، اگر وہ دونوں تیرے اس دشمن کی موافقت کریں تو اس کی عداوت میں قائم رہ اگر تجھے اس سے قناعت حاصل نہ ہو، اور معاملہ جوں کا توں رہے تو ان کے بارے میں صدیقین کے دلوں سے رجوع کر اور انہی سے سوال کر ، کیونکہ یہی دل درست ہیں ۔  

جب دل درست ہو جاۓ تو وہ سب چیزوں سے زیادہ اللہ سے قریب ہو جا تا ہے ۔ دل جب قرآن وسنت پر عمل کرے تو اللہ سے قریب ہوجا تا ہے ، اور جب وہ اللہ سے قریب ہو جا تا ہے تو اسے دانائی اور بصارت میسر آ جاتی ہے  اور اس کے نفع ونقصان کی جو چیز یں ہیں، اور جو شے اللہ اور غیر اللہ کے لئے ہے، اور جوحق و باطل ہے، وہ ان سب کو پہچان لیتا ہے۔ جب ایک ایمان والے کی نظر کا یہ عالم ہے تو صدیقین ومقربین کی نظر کا عالم کیا ہوگا ! –

مومن کی فراست یہ ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے: ایمان والے کے لئے اللہ کی طرف سے ایک نور ہوتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کے دیکھنے سے ڈرایا ہے،  ارشادفرمایا:‌اتَّقُوا ‌فِرَاسَةَ ‌الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ تَعَالَى

”مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“ اور عارف مقرب کو بھی ایک نور عطا ہوتا ہے، جس سے وہ اللہ کے قرب کو دیکھتا ہے، اور اللہ کے قرب کا اپنے دل سے مشاہدہ کرتا ہے، فرشتوں اور نبیوں کی روحوں، اور صدیقین کے دلوں اور روحوں اور ان کے احوال و مقامات کو دیکھتا ہے۔

یہ ساری کرامت دل کے سیاہ نقطے اور باطن کی صفائی کے اندر ہے، وہ اپنے رب کے ساتھ خوشی سے بسر کرتارہتا ہے، وہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک واسطہ ہو جا تا ہے، خالق سے لیتا ہے اور مخلوق میں بانٹار ہتا ہے۔ بعض ان میں سے دل و زبان دونوں کے عالم ہو جاتے ہیں ، بعض ان میں سے دل کے عالم ہوتے ہیں لیکن زبان میں لکنت والے ہیں۔ لیکن منافق کی زبان عالم اور دل لکنت والا ہے، اس کا ساراعلم زبان میں ہے، اس لئے رسول اکرم ﷺ نےارشادفرمایا:

إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ ‌عَلِيمِ ‌اللِّسَانِ

” مجھے اپنی امت پر خوف نہیں مگر مجھے خوف ہے منافق کی چرب زبانی کا ۔‘‘

تو کسی چیز پر غرور نہ کر کیونکہ اللہ جو چاہے کرنے والا ہے ۔ ایک بزرگ سے حکایت منقول ہے کہ وہ اپنے ایک دینی بھائی سے ملنے کے لئے گئے ،اسے کہا:

آؤ بھائی ہمارے متعلق جواللہ کے علم میں ہے، اس پر روئیں۔‘‘ اللہ کے اس نیک بندے نے کیسی اچھی بات کہی، یقینا  وہ عارف   باللہ تھااور اس نے رسول اللہ ﷺ کا یہ مبارک ارشاد سن رکھا تھا۔

” تم میں سے کوئی عمل کرنے والا جنتیوں جیسے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز یا کچھ زائد کا فاصلہ رہ جاتا ہے ،اسے بد بختی آلیتی ہے اور وہ اہل دوزخ میں سے ہو جا تا ہے اور تم میں سے کوئی دوزخیوں جیسے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک گز یا کچھ زائد کا فاصلہ رہ جاتا ہے، اسے خوش بختی آ لیتی ہے اور وہ اہل جنت میں سے ہو جا تا ہے ۔“

 اللہ کے کسی بندے سے کسی نے پوچھا: ” کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟‘‘

فرمایا: “ اگر میں اسے دیکھتا تواپنی جگہ پر ٹکڑے ٹکڑے ہو جا تا۔‘‘ اگر کوئی سوال کرے کہ ’’تو خدا کو کیسے دیکھ سکتا ہے؟ میں اسے یہ جواب دوں گا:

بندے کے دل سے جب مخلوق نکل جائے ، اور اس میں اللہ کے سوا کچھ نہ رہے تو اللہ جیسے چاہے اسے اپنا آپ دکھادے گا،  اپنے قریب کر لے گا ۔ جس طرح اور چیزیں اسے ظاہری طور پر دکھا دیتا ہے اسے اپنا آپ باطنی طور پر دکھا دیتا ہے۔ جیسے کہ اس نے ہمارے نبی ﷺ کو شب معراج میں دیدار کرایا ، جیسے یہ بندہ (سیدناغوث الاعظم ) اس کی ذات کو دیکھتا ہے، اور اس کی قربت میں ہے ،اور اس سے خواب میں باتیں کرتا ہے، اور کبھی اس کا دل اس سے بیداری میں باتیں کرتا ہے اور اس کے قریب ہو جاتا ہے، اپنے وجود کی آنکھیں بند کرتا ہے، اور وہ جس حال پر ہو اپنی دونوں ظاہری آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے، اللہ تعالی اسے ایک معنوی صفت عنایت فرماتا ہے جس سے یہ بندہ اسے دیکھتا ہے، اس کے قریب ہو جا تا ہے اس کی صفات اس کی کرامات ،اس کافضل واحسان ، اس کے لطف وکرم اور اس کی رحمت اور بخشش کو دیکھتا ہے۔

جس شخص کی معرفت اور عبودیت ثابت ہو جاۓ وہ ارنی دکھا اور لاترانی نہ دکھا اور اعطنی عطا کر اور لا تعطنی نہ عطاکر“

نہیں کہتا، وہ تو فنافی الذات ومستغرق ہو جا تا ہے ۔ اس لئے اس مقام پر واصل کہتا ہے۔ الیش علی منی مجھ پر مجھ سے ہے ہی کیا؟‘‘

کسی نے کیا ہی اچھا کہا:

انا عبده وليس للعبد مع سيده إختيار ولا إرادة ”میں اس کا بندہ ہوں ، بندے کو اپنے آقا کے سامنے نہ کچھ اختیار ہے ، نہ کوئی ارادہ ہے ۔‘‘ کسی نے ایک غلام خریدا – یہ غلام صاحب دیں اور نیک فطرت تھا، آ تانے غلام سے پوچھا:

تو کیا کھانا چاہتا ہے؟‘‘

عرض کیا: ”جو آپ کھلا ئیں!‘‘ پھر پوچھا: تو کیا پہننا چاہتا ہے؟‘‘

عرض کیا: “جوآپ پہنائیں!‘‘ پھر پوچھا: ”میرے گھر میں کہاں ٹھہرنا چاہتا ہے؟

عرض کیا: ”جہاں آپ ٹھہرائیں!‘‘

پھر پوچھا: ” کیا کام کرنا پسند کرتا ہے؟‘‘

عرض کیا: ”جو آپ فرمائیں!“ اس سوال و جواب پر مالک رو پڑا اور کہنے لگا:

”میرے لئے خوشی کا باعث ہوتا اگر میں اپنے رب کے ساتھ ایساہی ہوتا جیسا کہ تو میرے ساتھ ہے۔

یہ سن کر غلام نے کہا: ”اے میرے آقا! کیا غلام کو اپنے آقا کے ساتھ کچھ ارادہ واختیار ہوتا ہے ۔‘‘مالک نے کہا:

” میں نے تجھے اللہ کے واسطے آزادکیا، اور میں چاہتا ہوں کہ تم میرے پاس رہو تا کہ میں اپنی جان اور مال سے تیری خدمت کروں ‘‘

جو شخص اللہ کا عارف ہے، اس کے لئے کوئی ارادہ و اختیار باقی نہیں رہتا، اور کہتا ہے:

الیش علی منی مجھ پر مجھ سے ہے ہی کیا ‘‘۔ وہ اپنے اور دوسروں کے معاملے میں قضاء وقدر کے ساتھ مزاحمت نہیں کرتا۔ اللہ کے بندوں میں سے گنے چنے بندے ہیں جو مخلوق میں بے رغبتی کرتے ہیں، خلوتوں میں انس پکڑتے ہیں۔ – تلاوت قرآن اور حدیث سے مانوس ہوتے ہیں،

اس لئے انکے دل سب سے مانوس ہو کر اس کے قریب ہو جاتے ہیں، جن سے وہ اپنے اور غیر کے نفسوں کو دیکھنے  لگتے ہیں، ان کے دل صحیح ہو جاتے ہیں، جس حال میں تم ہو ان سے کچھ مخفی نہیں، تمہارے دلوں کی باتیں بتاتے ہیں ،اور جو کچھ تمہارے گھروں میں ہے، اس کی خبر دیتے ہیں ۔

تجھ پر افسوس! عقل کر ، اپنی جہالت کے باعث اولیاء اللہ سے مزاحمت نہ کر، مکتب سے نکلتے ہی منبر پر چڑھ بیٹھا اور لوگوں پر بڑھ چڑھ کر بولنے لگا، – ذرا سوچ ، اس امر میں ظاہری و باطنی استحکام کی ضرورت ہے، پھر ہر ایک سے فنا ہو  جانے کی ضرورت ہے، اس کے بعد دو باتوں کی ضرورت ہے: ۔

 پہلی یہ کہ شہر میں تیرے سوا کوئی اور لوگوں کو وعظ نہ سناۓ ،لوگوں سے ضرورتا وعظ بیان کر ۔

 دوسری یہ کہ اللہ کی طرف سے تیرے قلب میں وعظ  کرنے کا حکم ہوا ہو، ۔ اب تو منبر پر بیٹھ اور مخلوق کو خالق کی طرف لوٹانے کے لئے وعظ  کہہ۔

صوفی وہ ہوتا ہے جو ۔

تجھ پرافسوس ! تو صوفی ہونے کا دعوی کرتا ہے، جبکہ سراپا کدورت ہے۔صوفی وہ ہوتا ہے۔ جس کا ظاہر باطن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے بالکل صفا ہوں جتنی اس کی صفائی بڑھتی جائے ، وہ اپنے وجود کے دریا سے باہر آ تا جاۓ ، اپنی صفائی قلب سے اپنے اختیار وارادہ اوراپنی ڈھال کو چھوڑ تا جاۓ ، بھلائی کی بنیا د رسول اکرمﷺ کی ان کے تمام اقوال وافعال میں پیروی کرنا ہے، بندے کا دل جب صاف ہوگا تو رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھے گا کہ آپ اسے بعض چیزوں کا حکم دے رہے ہیں اور بعض چیزوں اسے منع فرمارہے ہیں ، وہ بند ہ سرا پا قلب بن جاۓ گا ، اس کا بدن ایک کنارا ہو جاۓ گا، اب باطن بغیر ظاہر کے اور صفا بغیر کدورت کے ہوگا ، ظاہر کا چھلکا الگ ہو جائے گا، اور وہ سرتا پا مغز باقی رہ جاۓ گا ،باطنی ومعنوی لحاظ سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوگا ، اس کا قلب آپ ﷺ سامنے تربیت پاۓ گا۔ اس کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہوگا ۔ رسول اللہ ﷺ ہی اس سے مخاطب ہوں گے اور اس کے نگہبان ہوں گے۔ غیر اللہ کو دل سے نکالنا گڑے پہاڑوں کا اکھاڑنا ہے جس کے لئے مجاہدوں کی کدالوں کی ضرورت ہے۔ مشقتوں اور آفتوں کے نزول پر بڑے صبر کرنے کی ضرورت ہے، جو چیز ہاتھ نہ لگے اس کی طلب نہ کرو، سپیدی پر جو سیاہی ہے اگر (اس لکھے ہوۓ ) پرعمل کرو اور مسلمان بن جاؤ تو تمہارے لئے بشارت ہے۔ تمہارے لئے خوش خبری ہے کہ تم قیامت کے دن مسلمانوں میں سے ہو، کافروں میں سے نہ ہو ۔ ہم سب کے لئے مبارک ہے کہ ہم جنت کی زمین پر یا اس کے دروازے پر ہوں ، اور تم دوزخیوں میں سے نہ ہو، تواضع اور انکساری کرو، تکبر نہ کرو، تواضع بلند کرتی ہے جبکہ تکبر پست و ذلیل کرتا ہے،  رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا من تواضع لله رفعه الله  جواللہ کے لئے تواضع کرے اللہ اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔“ قلب جب اللہ کے ذکر پرہمیشگی کرتا ہے تو اسے اللہ کی معرفت اور اس کا علم توحید اور توکل حاصل ہوتے ہیں ۔ اور ماسوئی اللہ سے اعراض کرتا ہے، ذکرالہی پرہمیشکی دنیا و آخرت میں ہمیشہ کی بھلائی ملنے کا باعث ہے، جب دل صحیح  ہو جا تا ہے تو ہمیشہ کے لئے ذاکر ہو جاتا ہے، اس کی ہر جانب اور سارے بدن پر وہی لکھ دیا جا تا ہے ، پھرآ نکھیں سوتی ہیں اور دل اللہ کے ذکر میں لگارہتا ہے  یہ مقام اسے رسول اللہ ﷺ سے وارثت میں ملتا ہے۔ صالحین میں سے کوئی بزرگ رات میں بہ تکلف سویا کرتے اور بغیر کسی حاجت کے اس کے لئے تیاری کرتے تھے ۔ ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ فرمانے لگے:  

“میرا قلب اس حال میں اللہ کودیکھتا ہے ۔ آپ نےصحیح فرمایا، کیونکہ سچا خواب اللہ کی طرف سے وہی ہوتا ہے، لہذا ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کی نیند میں مضمر تھی۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 435،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 222 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں