محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اٹھاونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثامن والخمسون فی العمل مع الاخلاص‘‘ ہے۔
منعقدہ یکم شوال 545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
علم اور اخلاص
کتنا علم سیکھے گا اور عمل نہ کرےگا علم کا دفتر لپیٹ دے، اور اخلاص کے ساتھ عمل کا دفتر پھیلا دے، ورنہ تیرے لئے نجات نہیں، تو صرف علم سیکھنے میں لگا ہے، اور اپنے کاموں کے ساتھ اللہ پر دلیر ہو گیا ہے ، تو نے اپنی آنکھوں سے حیا کا پردہ اتار دیا ہے ۔ دوسرے دیکھنے والوں کی نسبت اللہ کے دیکھنے کو ہلکا سمجھتا ہے، تو اپنی خواہش سے لیتا اور دیتا ہے، ۔ اپنی خواہش سے روکتا اور اپنی خواہش سے حرکت کرتا ہے، یہ بات یقینی ہے کہ تیری خواہش تجھے ہلاک کرے گی ، سب احوال میں اللہ سے حیا کر اور اس کے حکم پر عمل کر ، جب ظاہر حکم پرعمل کرے گا تو یہ عمل تجھے اللہ کی معرفت کے قریب کر دے
اللهم نبهنا من رقدة الغافلين امين
الہی! ہمیں غافلوں کی نیند سے بیدار کر ۔ آمین!‘‘
جب تو گناہ کرے گا تو تجھ پر آفتیں آ گریں گی ، ۔۔ جب تو بہ واستغفار کرے اور اللہ سے مدد چاہے تو وہ آفتیں تجھ پر نہیں بلکہ تیرے سے ہٹ کر گر یں گی، بلا کا آنا ضروری ہے ۔ لہذا اللہ سے دعا کر وہ مصیبت میں تجھے صبر و موافقت عطا فرمادے تا کہ اللہ اور تیرے درمیان میں جو معاملہ ہے محفوظ رہے، اب خدشہ
بدن پر ہوگا قلب پر ہیں،ظاہر میں ہوگا ، باطن کو نہیں، مال میں ہوگا ودین میں نہیں ، اس وقت وہ آفت نعمت لگے گی عذاب نہیں ۔ اے منافق ! تو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺکی فرماں برداری میں صرف نام پر اکتفا کئے ہوئے ہے معنی کے ساتھ نہیں، یہ تیرے ظاہر و باطن کا جھوٹ ہے، اسی لئے تو دنیا و آخرت میں ذلیل ہے، گناہ گار اور جھوٹا اپنے اپنے نفس میں ذلیل ہیں ۔
اے منافق تو اللہ اوراس کے رسول ﷺکی فرماں برداری میں صرف نام پر اکتفا کئے ہوئے ہے معنی کے ساتھ نہیں، یہ تیرے ظاہرو باطن کا جھوٹ ہے، اسی لئے تو دنیا وآخرت میں ذلیل ہے، بگناہ گار اور جھوٹا اپنے اپنے نفس میں ذلیل ہیں۔
اے عالم دنیا والوں کے سامنے اپنے علم کومیلا کچیلا نہ کرے۔عزیز شے کوذلیل شے کے بدلے نہ بیچ ، علم عزیز ہے، اور جود نیا والوں کے ہاتھ میں ہے وہ ذلیل ہے، مخلوق کے بس میں نہیں کہ تیرے نصیب کا لکھا تجھے دے سکے، البتہ تیرے نصیب کا لکھا ان کے ذریعے سے تجھے پہنچتا ہے ۔ جب تک صبر کا دامن تھامے رہے گا ، تیرے نصیب کا لکھا ان کےذریعے تجھے پہنچتارہے گا تو باعزت طریقے سے رہے گا ۔ تجھ پرافسوس !جسے اور سے رزق دیا جا تا ہے وہ کسی کو رزق کیسے دے سکتا ہے۔ تو اللہ کی اطاعت میں لگارہ اور اس سے مانگنا چھوڑ دے، وہ اس کا محتاج نہیں کہ اسے اپنی مصلحت بتائی اور سمجھائی جاۓ ، ارشاد باری تعالی ہے: من شغله ذكرى عن مسئلتى أعطيته أفضل ما أعطى السائلين۔
” جسے میرے ذکر نے سوال کرنے سے روکا میں اسے سوال کرنے والوں سے بڑھ کر عطا کروں گا۔“ دل کے بغیر صرف زبانی ذکر کی نہ کوئی عزت ہے نہ کوئی وقعت! – اعلی پائے کا ذکر دل اور باطن کا ذکر ہے ، پھر زبان کا ، کسی بندے کا جب ذکر الہی درست ہو جا تا ہے تو اللہ اس کا ذکر کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
”تم مجھے یادکرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میراشکر کرو، ناشکری نہ کرو ۔‘‘
اللہ کو یاد کرو کہ وہ تجھے یاد کرے، اسے اتنا یاد کر کہ یاد کرنے کی وجہ سے تیرے سارے گناہ جھڑ جائیں،تو گناہوں سے خالی ہو جاۓ ، اور گناہ کئے بغیر طاعت ہو جائے ، ۔۔۔۔ جن لوگوں کو وہ یاد کرتا ہے، اس وقت انکے ساتھ ساتھ مجھے بھی یاد کرے گا۔ اس کی یاد تجھے مخلوق کی یاد بھلا دے گی اور تجھے سوال کرنے سے روک دے گی ، تیراکل مقصودوہی ہو جاۓ گا، اور دیگر مقاصد تجھے بھلا دے گا، ۔ جب تیرا مقصود وہی ہو گا تو اپنے سب خزانوں کی کنجیاں تیرے دل کے ہاتھ میں دے دے گا، جو کوئی اللہ کا دوست ہے وہ اس کے غیر کا دوست نہیں ۔ اللہ کی محبت کے سوا سب کی محبت تیرے دل سے زائل ہو جاۓ گی ، کسی بندے کے دل میں جب اللہ کی محبت گھر کر لیتی ہے تو اس کے دل میں غیر کی محبت نہیں ٹھہرتی ، اس وجہ سے اس کے سب اعضاء میں خوشی پیدا ہو جاتی ہے، اس کا ظاہر و باطن وصورت اور معنی اس میں مشغول ہو جاتے ہیں، اللہ اسے دیوانہ بنا دیتا ہے، اسے اس کی عادت اور آبادی سے نکال دیتا ہے ۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے، کیا تجھے عقل نہیں کہ اسے دیکھے اور اس کے ذریعے سمجھے، کیا تو کبھی کسی ایسے بندے کے پاس نہیں بیٹھا جو موت سے دو چار ہو، قریب ہے کہ تیری باری بھی جلد ہی آ جاۓ ، موت کا فرشتہ آ کر تیری زندگی کا دروازہ کھٹکھٹائے گا ، اور اسے اس کی جگہ سے اکھاڑ کر پھینک دے گا، اور تیرے گھر والوں اور دوستوں میں جدائی ڈال دے گا۔ اس بات کی کوشش کر تیری موت ایسے حال میں نہ واقع ہو کہ تجھے اللہ سے ملاقات کرنا اچھا نہ لگے ۔ جو کچھ ہے۔ آخرت کی طرف پہلے بھیج دے، پھر موت کا انتظار کر، کیونکہ تواللہ کے ہاں ایسی نعمتیں پائے گا جو بھی دنیا میں دیکھی بھی نہیں ۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِالہی ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما ا اور ہمیں آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 432،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 222 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان