ستاونو یں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ستاونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السابع والخمسون فی الصدق‘‘ ہے۔

منعقد24  رمضان  545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسه قادر یہ

رضا اور موافقت طلب کر ، اپنے مقسوم پر قناعت کر :

اے بیٹا! صدق کا ایک ذرہ مجھ پر صدقہ کر دو، اس کے علاوہ تمہارا سارا مال اور جو کچھ تمہارے گھروں میں ہے، وہ سب ا تمہارے لئے حلال ہے۔ میں تو صرف صدق واخلاص چاہتا ہوں جس کا فائدہ تمہارے ہی لئے ہے، میں تمہیں اپنے لئے نہیں، تمہارے لئے چاہتا ہوں، اپنی زبانوں کے ظاہری و باطنی لفظوں کو روکو، کیونکہ تم پر فرشتے نگہبان مقرر ہیں ، جو تمہارے ظاہر کی نگہبانی کرتے ہیں ،اور اللہ تمہارے باطنوں کو نظر میں رکھتا ہے۔

اے دنیا میں محل اور گھر بنانے والے اور دنیا کی عمارت میں اپنی عمر کھونے والے! نیک نیت کے بغیر کوئی عمارت نہ بنا، دنیا میں عمارت کی بنیاد نیک نیتی ہے، تیری عمارت نفس و خواہش کی موافقت میں نہ ہو،  جاہل، دنیامیں نفس و خواہش اور ہوس وعادت کی موافقت کرتے ہوئے، اور اللہ کی قضا اور قدر کی موافقت کے بغیر عمارت بنایا کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے لئے نیک نیت اچھی نہیں ہوتی اور نہ وہ عمارت اس کے لئے قابل مبارک باد ہوتی ہے، اس لئے کہ اس عمارت میں اور لوگ ٹھہریں گے، قیامت کے دن اسے کہا جائے گا:

“تو نے اسے کیوں بنایا ۔ کہاں سے خرچ کیا ، اور کیوں خرچ کیا‘‘، ہر ایک چیز کا حساب لیا جائے گا۔ اللہ کے بندے! اللہ کی رضا اور موافقت طلب کر اپنے مقسوم پر قناعت کر ، جو تیرے نصیب میں نہیں لکھا، اس کی طلب نہ کر ۔

رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: ااشد عقوبات الله عزوجل لعبده في الدنيا طلبه ما لم يقسم له دنیا میں بندے کے لئے اللہ کاسخت ترین عذاب یہ ہے کہ وہ شے طلب کرے جو اس کے نصیب میں نہیں ۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تو میرے پاس اس حال میں آ تا ہے کہ تو میرے ساتھ اچھا گمان نہیں رکھتالہذا میری باتوں سے تجھے کیا فلاح مل سکے گی! تجھ پر افسوس ایمان والا ہونے کا دعوی  رکھتا ہے جبکہ تجھے  اللہ اور اس کے نیک بندوں پر اعتراض ہے ۔ اس لئے تیرا دعوی جھوٹا ہے، اسلام تو استسلام سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں: سپرد کرنا۔ – اللہ کی قضا اور قدر کو تسلیم کرنا۔ – اللہ کے افعال پر راضی رہنا، کتاب الہی قرآن اور سنت رسول اللہﷺکی حفاظت کرنا،یہ سب کرنے سے تیرا اسلام صحیح ہوگا، لمبی امید شامت اعمال ہے، یہی تجھےاللہ کی مخالفت پر اکساتی اور گناہوں میں ڈالتی ہے — آرزوکوگھٹاۓ گا تو بھلائی کو پاۓ گا، چنانچہ اگر تو نجات چاہے تو یہ بات پہلے سے باندھ لے، جو چیز تقدیر سے آۓ ، اس کے ہاتھ سے لے لے، شرع کی موافقت کرتے ہوئے اس پر راضی ہو جا، اس رضا مندی میں نہ نفس اور نہ خواہش، نہ عادت اور نہ شیطان کا کچھ دخل ہو، ان سب پر اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے، یہ نہیں کہ یہ سب ہر طرح سے فناہی ہو گئے ، انبیا علیہم السلام کے جانے کے بعد ہم میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ہے، ۔ مسلمان کا نفس مطمئن، اس کی خواہش مغلوب اور اس کی طبیعت کا جوش سر داور اس پر مسلط کردہ شیطان قید ہو جا تا ہے، اسی بندہ ایمان کی کوئی چیز اس کے ہاتھ نہیں لگتی ،شیطان اپنی چالاکیاں دکھا تا ہے لیکن وہ کچھ بھی نہیں پاتا ۔

 تو کل یہ ہے کہ تو سبب پر نہ ٹھہرے تو حید یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے نفع اور نقصان نہ دیکھے۔ تو تو سرا پانفس، حرص کا پیکر اورمجسم عادت بن گیا ہے، مجھے تو کل کی خبر ہے نہ توحید کی ،  پہلے تلخی ہے پھر شیر ینی ، پھر ٹوٹنا، اور پھر جڑنا، پھر مرنا ، اور پھر ہمیشہ کی زندگی، پہلے ذلت ہے، پھر عزت ، – پہلے محتاجی ہے، پھر ثروت پہلے ہستی کا مٹ جانا ، پھر اللہ کی ذات سے وجود پانانہ کہ اپنے اختیار سے، اگر تو اس پر صبر کر لے تو جو کچھ اللہ سے چاہتا ہے، وہ تیرے لئے صحیح ہوگا، ورنہ کچھ بھی صحیح نہیں ، جو چیز تجھے اللہ سے غافل کرے، وہی تیری شامت ہے،اگر چہ فرضوں اورسنتوں کی ادائیگی کے بعدنفلی نماز یانفلی روزہ ہی کیوں نہ ہو، فرض روزہ ادا کرنے کے بعد اگر نفلی روزہ میں بھوک اور پیاس نے اللہ کے سامنے تیرے دل کی حضوری، اس کے مراقبہ اور اس کے ساتھ پر آسائش زندگی سے روکا، جس پر اللہ کی صحبت اور قرب کا دارو مدار ہے،تو جان لے کہ حجاب کا بندہ اللہ کا بندہ نہیں بلکہ وہ  خلقت اورنفس اوراپنی خواہش کا بندہ ہے ۔ عارف الہی تو اللہ کے ساتھ اس کی قوت کے جھنڈے تلے اپنے علم و باطن سمیت کھڑا رہتا ہے اوراس کی قضاء وقدر کے ساتھ ساتھ چکر لگاتا ہے۔ جب وہ خودگھومنے سے عاجز ہو جاتا ہے تو اسے گھمایا جاتاہے ۔ بغیر اس کے حرکت کرنے سے اسے حرکت دی جاتی ہے، بغیر اس کے سکون کر نے سے، اسے سکون دیا جا تا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہو جا تا ہے جن کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:

وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ ‌الشِّمَالِ اور ہم انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے ہیں۔

جب حرکت سے ان کا عاجز ہونا ظاہر ہوا تو اللہ کی طرف سے انہیں حرکت دی گئی ۔

حرکت قدرت کے ساتھ ہوتی ہے اور سکون وتسلیم عاجزی کے وقت ،

حرکت تیرے وجود کے وقت ہوتی ہے اور سکون تیرے گم ہونے پر

حرکت شروع کی ماتحتی ہے اور سکون علم میں کہ قضاوقد ر میں دم نہ مارے

جب تو اپنے نفس اور حرص اور عادت اور ساری مخلوق سے الگ ہو جائے گا تو تیرادل درست شمار ہوگا ۔ تو خلقت کی قیدسے نکل جا تیرے نفع و نقصان اور رزق کا مالک اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ، ۔ ہمیشہ اس کی اطاعت میں لگارہ اور اس کے  امرونہی کی تعمیل کرتارہ ۔ اللہ کے سوا تیرے ہاتھ میں اور کچھ نہ ر ہے، اب تو ساری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت والا اورغنی ہو جاۓ گا، اس وقت تو حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہو جائے گا، جیسا کہ سب اشیاء کو ان کے سامنے جھکنے اورسجدے کا حکم ہوا تھا۔ یہ بات عام لوگوں اور بہت سے خاص بندوں کی عقل سے کہیں اونچی ہے، کیونکہ اللہ کی معرفت رکھنے والا یہ بندہ اب حضرت آدم علیہ السلام کا ایک ذرہ اور ان کے مغز سے ہے۔ اے تھوڑے علم والے! – پہلے دین کا علم سیکھ، پھر تنہائی اختیار کر،اولیاء اللہ نے پہلے دین کاعلم سکھا، پھر اپنے دلوں کو مخلوق سے الگ کر لیا، انکے ظاہر مخلوق کی اصلاح کے لئے ان کے ساتھ ہیں ، اور ان کے باطن اللہ کے ساتھ اس کی خدمت اورصحبت میں ہیں، چنانچہ اولیاء اللہ موجود بھی ہیں ، جدا بھی اورا لگ بھی ۔ وہ حکم میں مخلوق کے ساتھ موجود ہیں ، جبکہ ان کے دل مخلوق سے جدا اورا لگ ہیں، ان کے دل سب چیزوں سے جدا اورا لگ ہیں ، ظاہری طور پر ان کا کام شرع کومضبوط بنانا ہے ۔ – کپڑے میلے ہو جائیں تو خود دھو لیتے ہیں ، پاک کر کے خوشبو لگا لیتے ہیں۔ – کپڑے پھٹ جائیں تو خودسی لیتے ہیں، پیوند لگا لیتے ہیں، یہی لوگ مخلوق کے سردار ہیں، ان میں سے ایک ذرہ بلند پہاڑوں کی طرح ہے، ان کے دل: اللہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے سامنے آرام پانے والے، اس کے خیال میں ڈوبے ہوۓ، اس کے علم میں فکر کرنے والے ہیں۔ اللهم اجعل غداء تا ذكرك ويغنانا قربك الہی!ہماری غذا اپنا ذکر کر اور ہماری غنا اپنا قرب کر ۔آمین

! تیرادل مردہ ہے، تیری صحبت بھی مردہ دلوں کے ساتھ ہے، زندہ دل شریفوں اور ابدالوں کی صحبت اختیارکر،  تو قبر ہے، اپنے جیسی قبر کے پاس آ تا جا تا ہے؟ تو مردہ ہے، اپنے جیسے مردہ کے پاس آ تا جا تا ہے، توا پاہچ ہے، تجھ جیساا پاہچ تجھے کھینچ لے جاتا ہے،تواندھا ہے،تجھ جیسا اندھا تجھے گھسیٹ لے جاتا ہے۔ تو ایمان والوں ، یقین والوں نیک لوگوں کی صحبت اختیار کر ، ان کے کلام پر صبر کر اسے قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہو، اب نجات ہوگی ، مشائخ کرام کی باتیں سن اوران پرعمل کر ، اور ان کا احترام کر،میرے ایک مرشد کریم تھے، مجھے جب کوئی مشکل در پیش ہوئی اور میرے دل پر کوئی خطرہ گزرتا ، وہ اپنے آپ ہی مجھ سے ۔ بیان کر دیا کرتے تھے، مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی، یہ سب اس لئے تھا کہ میں ان کا احترام کرتا تھا اور ان کے ساتھ حسن ادب کا خیال رکھتا تھا،  مشائخ کی صحبت میں میں کبھی احترام اور حسن ادب کے بغیر نہیں رہا، صوفی بخیل نہیں ہوتا، کیونکہ ہر چیز چھوڑ دینے کا دعوی کرنے کے بعد صوفی کے پاس کوئی چیز باقی نہیں رہتی جس سے بخل کرے، اگر اسے کوئی چیز دی جاۓ تو اپنے لئے نہیں لیتا،غیر کے لئے لیتا ہے ۔ اس کا دل تمام موجودات اور مصورات سے صاف ہو چکا ہے، بخل وہی کرتا ہے جس کے پاس مال ہو ،صوفی کی سب چیزیں دوسروں کے لئے ہیں ، چنانچہ وہ دوسروں کے مال میں کیوں بخل کرے۔ اس کا نہ کوئی سجن نہ کوئی دشمن، اسے کسی کے تعریف کرنے یا برائی سننے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، دینا اورنہ دینا اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے خیال نہیں کرتا ، نہ اسے زندگی سے خوشی ہے اور نہ موت کا غم ہے، اللہ کاغصہ و ناراضی اس کی موت ہے، اللہ کی رضا اس کی زندگی ہے، جلوت میں اس کے لئے وحشت ہے ،خلوت میں اس کے لئے ۔ موانست ہے، اللہ کا ذکر اس کی غذا ہے، اللہ کا انس اس کے لئے پانی ، اس حال میں دنیا کا مال اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس پر بخل نہیں کرتا، کیونکہ صوفی کوکسی شے کی کوئی پروا نہیں۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے، اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے،  اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 427،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 218دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں