چونویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الرابع والخمسون فی التفکر فی الحشر‘‘ ہے۔

   منعقدہ 10رمضان المبارک 454ھ بروز صبح جمعہ بمقام مدرسہ قادریہ

دنیا و آخرت دو قدم ہیں:

 اے بیٹا! تو نے انہیں دوقدم میں اٹھایا اور پہنچا، ایک قدم دنیا سے اور ایک قدم آ خرت سے ، ایک قدم اپنے نفس سے، اور ایک قدم مخلوق سے، اس ظاہر کو ترک کر تو باطن تک پہنچ جائے گا ۔ ہر کام کے لئے ابتداء بھی ہے انتہا بھی تو ابتداء کر انتہاء تک اللہ پہنچا دے گا ۔ تیرا کام آغاز کرنا ہے، اللہ کا کام انتہا تک پہنچانا ہے تو تیشہ وٹو کری لے کر عمل کے دروازے پر بیٹھ جا تا کہ تیری تلاش ہوتو کام لینے والے کے قریب ہو، جبکہ تو اپنے بچھونے پر لحاف اوڑ ھے قفل لگا کے بیٹھا ہے،  پھر عمل اور عمل کی طرف بلائے جانے کو طلب کر رہا ہے، تو اپنے دل کو نصیحت کے قریب کر اور اسے قیامت کا دن یاد دلا – اور پرانی ،خستہ حال قبروں میں جھانک کر سوچ بچار کر، یہ منظر تصور میں لا کہ اللہ قیامت کے دن ساری خلقت کو کیسے جمع کرے گا ، اور انہیں اپنے سامنے کیسے کھڑا کرے گا، جب اس سوچ پر ہمیشگی کرے گا تو تیرے دل کی سختی جاتی رہے گی ، کدورت سے صفا ہو جائے  گا، جو عمارت بنیاد پر اٹھائی جائے پائیدار ومضبوط رہتی ہے، اگر بنیاد پر نہ ہوتو وہ جلد گر جاتی ہے،  تیرے حال کی عمارت اگر حکم ظاہر پرتعمیر ہوگی تو خلقت میں سے کوئی اسے توڑنے پر قدرت نہ پائے گا اور اگر اس کی تعمیر ایسے نہ ہوگی تو تیرا حال پائیدارنہ رہے گا اور تو کسی مقام پر نہ پہنچ سکے گا، صدیقوں کے دل تیرے سے ہمیشہ ناراض رہیں گے ، اور یہ چاہیں گے کہ وہ  تجھے نہ دیکھیں۔

اے جابل! تجھ پر افسوس ہے، کیا دین کوئی کھیل کود ہے یا کوئی دھوکا! کیا وہ کھیل ہے، ہرگز نہیں!  اس میں جھکنے سے تیری گردن کی کوئی عزت نہیں، اے مکار! تو نے بغیر اہلیت کے اپنے نفس کومخلوق  سے وعظ کرنے کا اہل سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ تو وعظ کرنے کا اہل نہیں ۔ صالحین میں بھی یہ لیاقت گنے چنے بندوں میں ہوتی ہے، بولنے کے بجائے ان کا طریقہ خاموش رہنا اور اشارے سے بات کرنا ہے ۔ ان میں سے وہ خاص ہے جسے بولنے کا حکم ہوتا ہے، چنانچہ وہ بہ امر  مجبوری مخلوق کو وعظ سناتے ہیں ،  پھر خبر مشاہدہ بن جاتی ہے، اور تیرے دل اور باطن کی صفائی کی نسبت امر بدل جاتا ہے ۔ اس لئے امیر المومنین حضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشادفرمایا: اگر پردہ اٹھادیا جائے تو میرے یقین میں کچھ اضافہ نہ ہوگا، جب تک رب کو دیکھ  نہ لوں ،اس کی عبادت نہیں کرتا، میرے دل نے مجھے میرارب دکھا دیا ہے۔

عالم وعارف ومومن اپنے اپنے حال میں:

 اے جاہلو ! علماء سے ملو، ان کی خدمت کرو، ان سے علم سیکھو،  علم مردان خدا کی زبانوں سے ہی سیکھا جا تا ہے ۔ علماء کے پاس حسن ادب سے بیٹھو، ان پر اعتراض کرنا ترک کر دو اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو، تا کہ ان کے علوم سے تم فائد ہ پاسکواوران کی برکتیں نازل ہوں اوران کے فائدے پہنچیں۔

اور عارفوں کی صحبت میں چپ چاپ بیٹھو، اور زاہدوں کی صحبت میں رغبت کے ساتھ بیٹھو۔ عارف ہر گھڑی میں پہلی گھڑی کی نسبت اللہ کے زیادہ قریب ہو جا تا ہے ۔ اس کا خشوع وخضوع ہر گھڑی میں اللہ کے ساتھ نیا اور تازہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے لئے عاجز ہوتا ہے،  غائب سے نہیں ،حاضر سےعجز کرتا ہے، اس کے قرب میں جتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کے خشوع میں اضافہ ہوتا جا تا ہے، اس کے مشاہدے میں جتنی ترقی ہوتی جاتی ہے، اتناہی اس کا گونگا پن بڑھتا جاتا ہے ۔ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اس کا نفس ، اس کی عادت ، اس کی حرص اور وجود کی زبان گونگی ہو جاتی ہے ، لیکن اس کے اور باطن اور حال اور مقام اور عطا کی زبان بولنے لگتی ہے، اس پر جو اللہ نے انعام کئے ہیں ، اس کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اس لئے ان کی حضوری میں خاموش بیٹھا جائے تا کہ ان سے نفع حاصل ہو، ان کے سینوں میں جوش مارتی ہوئی شراب وحدت کو پیا جا سکے جو بندہ اللہ کے عارفوں کے ساتھ زیادہ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے، اور اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے، اس لئے ارشاد باری ہوا:

مَنْ ‌عَرَفَ ‌نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا ،اس نے اپنے رب کو پہچانا ‘‘

نفس ہی بندے اور اس کے رب کے درمیان بڑا حجاب ہے۔ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اللہ اور مخلوق کے لئے تواضع اختیار کی ، اسے پہچان لیا تو اس سے بچنے لگے گا، نفس سے واقفیت ہونے پر اللہ کے شکر میں لگ جاتا ہے، اور یہ جان لیتا ہے کہ اس کی پہچان کر ا دینے میں اس کے لئے دنیا وآخرت میں بھلائی چاہی ہے، چنانچہ – اس کا ظاہراللہ کے شکر میں اور باطن اللہ کی تعریف میں مصروف ہے، اس کا ظاہر پراگندہ اور باطن جمع شدہ ہےو حال چھپانے کے لئے اس کے باطن میں خوشی اور ظاہر میں غم ہے، عارف کا حال مومن کے حال کے برعکس ہے۔ کیونکہ اس کے دل میں غم اور چہرے پر شادمانی ہوتی ہے۔ وہ ایک ادنی غلام کی طرح دروازے پر کھڑا ہے، اسے نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ارادہ کیا گیا ہے، قبول کر لیا جائے گا یا ٹھکرا دیا جائےگا، اس پر دروازہ کھولا جائے گا یا سدا بند ہی رہے گا جس بندے نے اپنے نفس کو پہچان لیا، وہ ہر حال میں مومن کے حال کے برعکس ہے،  مؤمن صاحب حال ہوتا ہے، اور حال بدلتا رہتا ہے۔ عارف صاحب مقام ہوتا ہے – اور مقام ثابت رہتا ہے۔ مومن اپنے حال کے بدلنے اور ایمان چلے جانے کے ڈر سے خوفزدہ رہتا ہے، اس کا دل ہمیشہ غمگین رہتا ہے اورغم چھپائے چہرے پر خوشی سجائے پھرتا ہے ۔ بات کرتے وقت اس کے لبوں پر ہنسی کھیل رہی ہوتی ہے جبکہ غم کے مارے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔

عارف کے چہرے پرغم رقصاں ہوتا ہے، کیونکہ وہ عذاب خدا سے ڈرانے والا چہرہ لئے مخلوق سے ملتا ہے ، انہیں ڈرائے رکھتا ہے، اور رسول اکرم ﷺکی نیابت میں انہیں شرعی احکام و شرعی ممنوعات سے آگاہ کرتا ہے۔ اولیاء اللہ نے سن کر عمل کیا ، ان کے عمل نے انہیں اللہ کے قریب کر دیا، جو خاص انہوں نے اللہ ہی کے لئے کیا تھا۔ پھر انہیں وہ مقام حاصل ہوا کہ وہ دل کے کانوں سے اللہ کی باتیں بغیر کسی ذریعے کے سننے لگے۔ ایسے میں مخلوق غائب اور سونے والی تھی ، جبکہ یہ  خالق کے حضور بیدار تھے، تیرا دل جب صحیح ہو جائے گا تو تو خلقت سے ہمیشہ غائب اور بے خبر رہ کر خالق سے باخبر ہوگا اور پھر بیدار رہے گا ،  محفل میں بھی تو گوشہ نشین ہوگا ، تیرے باطن پر ہر وقت اللہ کا کرم اور فیض نازل ہوگا ، اور تیرا باطن اسے قلب پر ظاہر کرتارہےگا، اور قلب نفس مطمئنہ پر، اور نفس مطمئنہ زبان پر اور زبان اسے مخلوق پر ظاہر کر دے گی ، اس حالت میں سرشار ہو کر کوئی بات کرے وعظ کرے، ورنہ خاموش رہے ۔ اولیاءاللہ کا جنون مشہور ہے، وہ یہ کہ طبعی عادتوں اور نفسانی خواہشوں کے افعال کوترک کر دینا اور لذتوں اور شہوتوں سےاندھا ہو جانا ، یہ نہیں کہ ان کا جنون ایسا ہے کہ جن سے عقلیں جاتی رہتی ہیں ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اگرتم اولیاء اللہ کو دیکھ تو انہیں مجنوں کہہ دو، اور اگر وہ تمہیں دیکھیں تو کہیں کہ یہ لوگ ایک پل کے لئے بھی اللہ پر ایمان نہیں لائے ۔“

 تیری خلوت صحیح  نہیں ہوئی کیونکہ خلوت تو اسے کہتے ہیں کہ انسان دلی اور باطنی طور پر سب چیزوں سے خالی ہو جائے ، اور تودنیا و آخرت اور ماسوی اللہ ہر ایک چیز سے بالکل فارغ ہو جائے ، اس میں اللہ کے سوا کچھ بھی نہ ر ہے، نبیوں اور رسولوں اور اولیاءاللہ اور صالحین کا یہی راستہ رہا ہے، میرے نزدیک نیک کام کا حکم دینا اور برائی کے کاموں سے روکنا ان ہزار عابدوں سے افضل ہے جو تنہائی میں عبادت کرتے ہیں۔ نفس کی نظر کو جھکالے  اور روک لے، تاکہ وہ نظرنفس کی ہلاکت کا باعث نہ بن جائے مگر نفس، قلب اور باطن کا تابع ہو کر خادم بن جائے ، اور نفس ان دونوں کی رائے کے خلاف نہ کرے بلکہ ان دونوں کے ساتھ اتحاد کر لے اوریہ نفس اور ان میں کوئی فرق نہ ر ہے،

جس کا یہ دونوں حکم دیں نفس بھی وہی حکم دے،جس سے منع کر یں نفس بھی اس سے منع کرے، جسے یہ دونوں پسند کریں نفس بھی اسے پسند کرے اس حال میں نفس مطمئنہ بن جائے گا، اور تینوں کی طلب اور مقصود ایک ہی ہو جائے گا ۔ اس مقام پر پہنچ کرنفس اس امر کا حق دار ہے کہ اس کے مجاہدوں میں کمی کر دی جائے ۔ اللہ تعالی تیرے اور مخلوق کے ساتھ جو کچھ بھی معاملہ کرے، اس میں بحث نہ کیا کر ، کیا تو نےیہ ارشاد باری نہیں سنا۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ. ’’جودہ کرے نہیں پوچھا جائے گا ،اور ان سب سے پوچھا جائے گا۔‘‘

اگر تیرا برتاؤ حسن ادب سے نہ ہوگا تو اللہ کے لئے تیری تابعداری کب صحیح  ہوگی ، حسن ادب کے بغیر برتاؤ تجھے ذلیل  کر کے گھر سے نکلوادے گا، اگر حسن ادب سے کام لیتے ہوئے تقدیر کے ساتھ موافقت کرے گا تو تجھے باعزت طور پر بٹھایاجائے گا ۔ اللہ سے محبت کرنے والا اللہ کا مہمان ہے، اور مہمان اپنے کھانے پینے اور لباس پہننے اور اپنے سب احوال میں مہمان داروں پر حکم نہیں چلاتا ، خود مختاری واپنا اختیار نہیں دکھا تا، بلکہ ان سے راضی ہوتے ہوئے موافق وصابر رہتا ہے ۔ چنانچہ ایسے میں اسے کہا جائے گا کہ تو جو کچھ دیکھتا ہے اور پاتا ہے اس سے خوش رہ ، ۔ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اس کے دل سے دنیا وآخرت اور ماسولی اللہ سب غائب ہو جاتے ہیں ، تیرے لئے لازم ہے کہ: تیرا بولنا صرف اللہ ہی کے لئے ہو، ورنہ خاموشی اختیار کر ۔ تیرا جینا اللہ کی اطاعت میں ہو، ورنہ مر جانا اچھا ہے۔ اللهم أحينا في طاعتك واحشرنا مع أهل طاعتك امين  الہی ہمیں اپنی طاعت میں زندہ رکھ، اپنی طاعت کرنے والوں کے ساتھ ہمارا حشر فرمانا ۔ آمین!‘‘

مؤمن شیخ کامل کی صحبت میں ادب سیکھتا ہے:

 ایمان والا اپنے نفس کی اصلاح کے لئے شیخ کامل  کی صحبت اختیار کرتا ہے شیخ کامل اسے ادب اور تعلیم سکھاتا ہے۔ بچپن سے لے کر مرنے تک و ہ  علم سیکھتا رہتا ہے۔ ابتداء میں قرآن پاک پڑھانے والا، پڑھا تا اور حفظ کراتا ہے، اس کے بعد تعلیم دینے والا رسول اکرم ﷺکی مبارک حدیث اور سنت کی تعلیم دیتا ہے، اس کے ساتھ ہی تو فیق خیر اس کے شامل حال رہتی ہے، اور وہ علم پرعمل کرتا رہتا ہے، اس کاعمل کرنا اللہ کو پسندآ تا ہے اور اسے اس کے قریب کر دیتا ہے، اپنے علم پر جب کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالی اسے علم کا وارث بنادے گا جو اسے معلوم نہیں ، اور وہ خاص علم اس کے قلب کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دے گا ، اور اخلاص اس کے قدموں کو اللہ تعالی کے قریب کر دے گا، اگر تو عمل کرے اور دیکھے کہ تیرادل حق سے قریب نہیں ہے، اور تجھے عبادت و انس کی حلاوت حاصل نہیں ہوتی تو جان لے کہ تو عامل نہیں ہے، بلکہ تیرے عمل میں کوئی خلل ہے جو حجاب بن گیا ہے ، یہ خلل کیا ہے؟  ریاء، نفاق اور خود پسندی، اے عمل کرنے والے اخلاص کو لازم پکڑ لے، ورنہ مشقت نہ اٹھا، خلوت اور جلوت میں اللہ کے لئے مراقبہ ضرور کر ، منافق کا مراقبہ صرف جلوت میں ہے، اور اس کا مراقبہ خلوت اور جلوت دونوں میں ہے۔

نظر کا اچھایابر اہونانیت پر موقوف ہے۔

تجھ پر افسوس ہے جب تو کسی حسین یا حسینہ کو دیکھے تو اسے نفس پر حرص اور خواہش کی آنکھیں بند کر لے اور خیال کر کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور یہ آیہ کریمہ پڑھ وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ تو کسی شان میں بھی ہو تیرارب تجھے دیکھتا ہے۔

 تو اللہ کے خوف سے ڈر کسی حرام چیز پر نظر ڈالنے سے نظریں جھکالے، اور اس کی نظر کو یادرکھ کہ جس کی نظر اور علم سے تو دور نہیں رہ سکتا ، اگر تو حق تعالی سے مباحثہ اور جھگڑا نہ کرے تو تیری بندگی پوری ہوگئی ، اور تو اس کا سچا بندہ بن گیا، اور ان لوگوں میں شامل ہو گیا جن کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ”میرے بندوں میں تیرا کوئی زور نہیں ۔‘‘

جب اللہ کے لئے تیراشکر کرنا ثابت ہو جائے تب اللہ تعالی مخلوق کے دلوں میں ڈال دے گا کہ اپنی زبانوں سے تیری شکر گزاری اور دوستی کا اظہار کریں ، اب شیطان اور اس کے ساتھیوں کو تیری طرف راستہ نہیں رہے گا ، دعا کا ترک کر دینا ۔ عزیمت (بڑا درجہ ) ہے ، اور اس میں مشغول ہونے کی اجازت ہے، دعا کرنا ڈوبتے کے لئے سہارا ہے ،اور قیدی کے لئے روشنی کی گزرگاہ، یہاں تک کہ رہا ہو کر بادشاہ کے حضور پیش ہو جائے ، عقل کرو تم  نہ تو دعا کرنا اچھی طرح سے ترک کرتے ہو اور نہ ہی اچھی طرح سے دعا مانگتے ہو، کوئی بھی چیزایسی نہیں جونیت ، عقل اور علم کی محتاج ہو، جسے پہچاننا ضروری ہے، اس کی پیروی کی بھی محتاج ہے، تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ کے نیک بندوں کے پاس کیا کچھ ہے، اس نہ جاننے کی وجہ سے ان کے متعلق تمہارے خیالات اچھے نہیں، تم ان سے الجھ کر اپنے دین اور احوال کے سروں کو خطرے میں نہ ڈالو، ان کے تصرفات میں ان پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرو، جب شرع کو ان پر کوئی اعتراض نہیں، تم بھی نہ ان پر اعتراض کرو ۔ وہ ظاہری اور باطنی طور پر اللہ کے سامنے رہتے ہیں، جب تک کہ اللہ کی طرف سے انہیں از خودسکون اور سلامتی کی ضمانت نہ مل جائے ، ان کے دل بے قرار رہتے ہیں ۔

اے روئے زمین پر رہنے والے اللہ کے سب بندو اور زاہدو! آؤ اور وہ کچھ سیکھو جس کی تمہیں ذرا خبرنہیں، میری درس گاہ میں داخل ہو جاؤ تا کہ میں تمہیں وہ سکھاؤں جس سے تمہارے دلوں کے دامن خالی ہیں ۔ دلوں کی درس گاہ جدا ہے، باطن کی درس گاہ جداء نفسوں کی درس گاہ جدا ہے ،اعضاء کی درس گاہ جدا، ان کے لئے درجے ، مقام اور قدم جد اجد ا ہیں، ابھی تو تیرا  پہلا قدم ہی درست نہیں ہوا ہے، تو دوسرے قدم تک کیسے پہنچے گا،  تیرا اسلام ہی درست نہیں ہوا ہے، تو ایمان تک کیسے پہنچے گا۔ تیرا ایمان ہی درست نہیں ہوا ہے، تو ایقان تک کیسے پہنچے گا ،تیرا ایقان ہی درست نہیں ہوا ہے، تو معرفت و ولایت تک کیسے پہنچے گا ، تو عقل کر تو کچھ بھی نہیں ہے، تم میں سے ہر کوئی ساز و سامان واسباب کے بغیر خلقت پر حکومت کا طالب ہے، مخلوق پر حکومت دریاست جب ملتی ہے جبکہ ان میں دنیا ونفس ، اور خواہش وحرص اور ارادے میں کوئی رغبت نہ ہو، تو پہلے زاہد بن پھر حکومت ملے گی ۔

 ریاست و حکومت آسمان سے اترا کرتی ہے زمین سے نہیں، ولایت حق تعالی کی طرف سے ملا کرتی ہے ،خلقت سے نہیں۔ ہمیشہ تابع رہ  متبوع نہ بن – خادم بن کے رہ مخدوم نہ بن ،ذلت اور گمنامی پر راضی رہنا چاہئے ۔ اگر اللہ کے علم میں اس کے خلاف ہے تو اپنے مقررہ وقت پر تجھے مل کر رہے گا، اپنی طاقت اور قوت کو چھوڑ کر تو خود کو اللہ کے حوالے کر دے ۔ اللہ پر کوئی اعتراض نہ کر ، اورمخلوق اور نفس کو اللہ کا شریک  نہ ٹھہراءاللہ کے لئے اپنی بندگی کو درست کر، بندگی کیا ہے؟ اس کے حکموں پر عمل کرنا، اس کی ممنوعات سے باز ر اثارت اعمال صالحہ ہیں۔ کرنا، ۔۔۔ اس کی بنیاد توحید اور اس پر استقامت ہے  – ابھی تیری بنیادہی مضبوط نہیں تو عمارت کس چیز پر بنائے گا ، تیری نیت ہی ٹھیک نہیں ہوئی تو بات کیسے کرے گا، تیرا سکوت ہی تمام نہیں ہوا تو گفتگو کیسے کرے گا ، مخلوق سے وعظ و بات کرنا نبیوں کی نیابت انجام دینا ہے، کیونکہ یہی حضرات ہیں جو مخلوق پر واعظ وخطیب تھے۔ وہ جب دنیا سے چلے گئے تب حق تعالی نے باعمل علماء کوان کا قائم مقام بنا دیا ، اور ان علماءکو ان کا وارث بنا دیا جوان کا قائم مقام بننے کا آرزومند ہو، اپنے دور میں اسے ساری مخلوق سے زیادہ پا کباز ہونا چاہئے ، اور اللہ کے علم واحکام کا ان میں سے زیادہ جاننے والا ہونا چاہئے

اے اللہ اور اس کے رسولوں اور اس کے ولیوں اور نیک بندوں سے نا واقفو! تمہارے خیال میں وعظ کرنا ،معرفت  وولایت کا ہونا آسان کام ہے ، اپنے نفسوں اور اور عادتوں اور اپنی دنیا وآخرت سے بے خبرو! تم پر افسوس ہے، گونگے  ہو جاؤ اور تب تک خاموش رہو جبکہ تمہیں بلایا جائے تمہیں اٹھایا جائے ، اور کھڑا کیا جائے ، اور زندہ کیا جائے ، جس کاعلم اس کی خواہش پر غالب آ جائے وہی علم فائدہ دینے والا ہے ۔ اوریہ علم نافع کیوں نہ ہو گا ، کیونکہ اس نے مخلوق کے دروازے بند کر دیئے اور صرف اللہ تعالی کا دروازہ کھولا جو کہ سب سے بڑا دروازہ ہے، جب یہ  بند کرنا اورکھلنا کسی کے لئے درست ہو جا تا ہے ، اس سے مکمل طور سے زحمت جاتی رہتی ہے، اور اسے خلوت الہی میسر آ جاتی ہے، اس کے دل کی طرف خلعت آنے لگتے ہیں ، جواہر نچھاور ہونے لگتے ہیں ،اسے کنجیاں دے دی جاتی ہیں ، اس سےچھلکے الگ کر دیئے جاتے ہیں ، اور مغزہی مغز باقی رو جا تا ہے، خواہشوں کا راستہ بند اور کمزور اور مغلوب ہو جا تا ہے،اوراللہ کی طرف راستہ کھل جاتا ہے، اور یہ بڑا راستہ جو کہ اس کا مقصود ومطلوب راستہ ہے، جوگز شتہ نبیوں اور رسولوں اور ولیوں کا راستہ ہے، ظاہر ہو جاتا ہے، یہ بڑا  راستہ کیا ہے؟ بغیر کدورت کے صفائی کا راستہ ،بغیر شرک کے توحید کا راستہ بغیر جھگڑے کے مان لینے کا راستہ بغیر جھوٹ کے سچائی کا راستہ ،بغیر سبب کے سبب پیدا کرنے والے کا راستہ یہی وہ بڑا راستہ ہے جس پر دین کا دارو مدار ہے، جس پر ہمیشہ معرفت کے بادشاہ اور شہنشاہ چلے ہیں ، جو کہ مردان خدا ہیں ، اس کے برگزیدہ اور چنے ہوئے بندے ہیں اللہ کے دین کے مددگار اور دین کی خاطر محبت وعداوت رکھتے ہیں۔ تجھ پر افسوس ہے تجھے ان سب کے راستہ پر چلنے کا دعوی ہے، جبکہ تو اپنے نفس اورمخلوق میں سے بعضوں کو اللہ کا شریک ٹھہرائے ہوئے ہے۔

تیرا ایمان ہی نہیں ہے ، حالانکہ تو غیر سے خوفزدہ اور امید وار ہے، تیرا زہدہی نہیں ، جب کہ تو دنیا کسی اور کی چاہتا ہے، تجھے تو حید کا ذائقہ ہی نہیں، حالانکہ اس کے راستے میں غیر کو دیکھتا ہے، عارف تو دنیا و آخرت میں مسافر ہے اور ماسوئی اللہ سے بے رغبتی کرنے والا ہے، اسے غیر اور ماسوئی اللہ میں کسی طرح کی رغبت نہیں ہے۔

 اے لوگو! میری باتیں سنو! – اپنے دل سے مجھ پر تہمت لگانا چھوڑ دو ۔ تم مجھ پر کیسے تہمت دھرتے ہو اور میری غیبت کرتے ہو، حالانکہ میں تمہارے لئے شفیق ناصح ہوں تمہارے بوجھ اٹھا تا ہوں ، تمہارےپھٹے ہوئے عمل سیتا ہوں اللہ سے تمہاری خوبیاں قبول کرنے اور تمہاری برائیاں دور کرنے کی سفارش کرتا ہوں ، جس نے مجھے پہچان لیا۔ مجھ سے کبھی جدا نہ ہو حتی کہ موت سے ہمکنار ہو جائے ، اپنی شہوتیں اور لذتیں اور اپنا کھانا پینا اور لباس مجھے ہی بنائے، اور میری وجہ سے غیروں سے بے پرواہ رہے۔

اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کو دنیا کے ساتھ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں چھوڑتا :

اے بیٹا! تو مجھ سے محبت کیوں نہیں کرتا ، میں تجھے تیرے ہی لئے چاہتا ہوں ، اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ، میں تیرا فائدہ چاہتا ہوں، دنیا جو کہ دھوکہ باز ہے اور تجھے قتل کر نے کے در پے ہے ، اس کے ہاتھ سے چھڑانا چاہتا ہوں ، اس کے پیچھے کب تک دوڑو گے دنیا جلد ہی اپنی طرف متوجہ کر کے مجھے مار ڈالے گی ، اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کو دنیا کے ساتھ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں چھوڑتا ، وہ دنیا پران کے لئے بھروسہ نہیں کرتا ، اس لئے اپنے دوستوں کو دنیا کے ساتھ اور نہ غیر اللہ کے ساتھ رہنے دیتا ہے، بلکہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور وہ اللہ کے ساتھ ہیں ، اولیاء اللہ کے دل ہمیشہ اللہ کا ذکر کر نے والے اور اس کی طرف متوجہ ر ہنے والے ہیں، لہذا اللہ ان کے ساتھ ، ان کی حفاظت کرنے والا اور ان کا غم خوار ہے ۔ اللهم اجعلنا منهم واحفظنا كما حفظتهم واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقناعذاب النار ”اے اللہ! تو ہمیں انہیں میں سے کر دے، اور جیسی ان کی حفاظت کی ہے، ویسے ہی ہماری حفاظت فرما۔ اور دنیا کی بھلائی عطا فرما  اور آخرت کی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائےرکھ۔ آمین!‘‘

اے منافق! اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ظاہر کرتا ہے، وہی انہیں خلقت میں شہرت دیتا  ہے، وہی اپنی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے مخلوق کے دلوں کو جمع کر دیتا ہے، وہی فرماں بردار کرانے والا ہے، تو اپنے نفاق کے بل بوتے پرمخلوق کے دل جیتنا چاہتا ہے ،جبکہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا ۔

تیرا نصیب وقت مقررہ پر نہایت خوشگوار، کفایت و پاکیزہ ملے گا:

اے بیٹا! اپنی شہوتوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈال ، اور اپنا دل پوری طرح سے ان سے موڑ لے ، ان میں کوئی چیز اللہ کے سابقہ علم میں ہے تو اپنے مقررہ وقت پر خود حاصل ہو جائے گی ،  کیونکہ تقدیری امر میں زہد صحیح نہیں ہوتا ، اور نہ اللہ کاعلم بدلتا ہے اور نہ متغیر ہوتا ہے،  تیرانصیب اپنے مقررہ وقت پر نہایت خوشگوار ، کافی اور پاکیزگی سے ملے گا۔ تو اسے باعزت طور پر لے گا، ذلیل ہو کر نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی تجھے اللہ کے پاس زہد کا ثواب بھی ملے گا ، وہ تجھے عزت کی نگاہ سے دیکھے گا کیونکہ اس کی طلب میں تو نے حرص اور عاجزی نہیں کی ہے ۔ تو جتنا بھی اپنے نصیب سے بھاگے گا وہ تجھےچمٹیں گے اور تیرے پیچھے پیچھے دوڑیں گے ، چنانچہ اس میں زہد کرنا درست نہیں، لیکن ان کے آنے سے پہلے ان سے اعراض کر ناضروری ہے تو مجھ سے زاہد بننا اور لینا دینا سیکھ، پھر گوشہ نشینی اختیارکر،  احکام الہی کو سیکھ اور ان پر عمل کر ،پھر سب سے جدا ہوجا مگر علمائے ربانی سے ملاقات رکھ، ان کی صحبت میں بیٹھنا   اور ان کی باتیں سننا گوشہ نشینی سے افضل ہے، جب تو ان میں سے کسی کو دیکھے تو اس کا ہور ہے اور اس سے اللہ کے علم اور معرفت میں سمجھ پیدا کر ان کی زبانی احکام سن کرفقیہہ بن علم مردان الہی کی زبانوں سے حاصل ہوتا ہے، یہ مردان خدا کون ہیں ، اللہ کے حکم وعلم کے جاننے والے ہیں، جب تیرا یہ حال صحیح  ہو جائے توا کیلے بغیرنفس اور شیطان اور خواہش اور حرص و عادت کے اور مخلوق  کی طرف نظر کئے بغیر خلوت اختیار کر ۔ تیری یہ گوشہ نشینی جب صحیح  ہو جائے تو فرشتے اور صالحین کی روحیں اور ان کی ہمتیں تیرے گرد جمع ہو جائیں گی ، اگر مخلوق سے تیری تنہائی وعلیحدگی و گوشہ نشینی اس طرح سے ہوتو بہت اچھا ہے ورنہ یہ سب نفاق اور فضولیات میں وقت برباد کرنا ہے، اور تو دنیا وآخرت میں آگ میں رہے گا، دنیا میں آفات کی آگ میں ، اور آخرت میں اس آگ میں جو کہ منافقوں اور کافروں کے لئے جلائی گئی۔

اللهم عفوا وغفرانا وسترا و تجاوزا و توبة لا تهتك أستارنا لا تؤاخذ بذنوبنا يا الله يا کریم أنت قلت وهو الذي يقبل التوبة عن عباده و يعفوا عن السيئات “تـب عـلينا واعف عناوامين ” الہی! میں معافی اور مغفرت اور پردہ پوشی اور تجاوز اور توبہ کا طلب گارہوں، تو ہماری پرده دری نہ فرما نہ ہمارے گناہوں پر مواخذ ہ فرما، اے اللہ! اے کریم! تو نے ارشادفرمایا: اللہ وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے ۔ ہماری توبہ قبول فرما اور ہمیں معاف فرمادے۔ آمین!‘‘

اللہ کی مقد رفرمائی ہوئی چیزوں میں اس کی موافقت کر :

تجھ پر افسوس علم کا دعوی کرتا ہے اور جاہلوں کی طرح خوشی کرتا ہے اور انہی کی مانند غصہ وغضب کرتا ہے، تیری دنیا کے ساتھ خوشی ہے اور مخلوق کی طرف متوجہ ہونا تجھے حکمت و دانائی بھلا دے گا اور تیرے دل کو سخت کر دے گا ، مومن صرف اللہ کے ساتھ خوش اور شادمان ہوتا ہے، اگر تجھے خوشی ہی کرنا ہے تو جب تیرے پاس دنیا آئے اسے اللہ کی اطاعت میں صرف کر کے خوشی کر  اس سے اللہ کے خادموں کو فائدہ ہو اور ان کی طاعتوں میں ان کی مدد کرے، رات دن اللہ کے خوف کولازم پکڑ آخر    کار تیرے قلب و باطن سے کہہ دیا جائے جیسا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام سے کہا گیا:  ‌لَا ‌تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى’’ڈرونہ، میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا اور دیکھتا ہوں ۔

تو ان لوگوں میں سے نہیں ہے، کیونکہ تیرے پاس تو محض علم ہے جوعمل کے بغیر ہے، اس لئے تو ان کا وارث نہیں ہے ۔ . وراثت تب درست ہوسکتی ہے جب علم کے ساتھ عمل اور اخلاص بھی ہوں، اپنا مقام پہچان ، اور جو کچھ تیرے نصیب میں نہیں اس کی طرف ہاتھ مت بڑھا۔ اللہ کی مقد رفرمائی ہوئی چیزوں میں اس کی موافقت کر، وہ تیری موافقت کرے گا ، اور تیرے ساتھ مہربانی فرماتے ہوئے تجھ سے بوجھ اٹھالے گا ، اوردنیا وآخرت میں تیرے ساتھ نرمی کرے گا ، مومن کا جب ایمان قوی ہو جائے تو اسے صاحب ایقان کہا جا تا ہے جب اس کا ایقان قوی ہو جائے تو اسے عارف کہا جا تا ہے ، جب اس کی معرفت قوی ہو جائے تو اسے عالم کہا جا تا ہے، جب اس کا علم قوی ہو جائے تو اسے محبت کہا جا تا ہے،  جب اس کی محبت قوی ہو جائے تو اسے محبوب کہا جا تا ہے، جب وہ صحیح طرح سے محبوب ہو جائے تو اسے غنی ومتقرب ومستانس کہا جا تا ہے۔

وہ اللہ کے قرب سے انس حاصل کرتا ہے، اللہ تعالی اسے اپنی حکمتوں اور علم اور اپنے اگلے پچھلے لکھے ہوئے اور قضاوقدر کے رازوں سے آگاہ فرما دیتا ہے، یہ آ  گا ہی اس کے حوصلے اور اس کے دل کی قوت اور وسعت پر ہوتی ہے جو اللہ اسے عطافرماتا ہے، وہ بندہ اپنے رب کی محبت میں قائم ہو کرقلبی طور پرمخلوق  سے خارج ہو جاتا ہے، جب اللہ کا سابق علم آتا ہے تو اس کے ساتھ کھانے پینے ، لباس اور نکاح کا حصہ ہوتا ہے، یہ اس علم سابق کو اس کے بے سبب غائب ہونے کے نہیں پاتا ۔ اللہ اسے لینے کے لئے اپنے مقرب کو نیا وجود عطا کرتا ہے تا کہ علم از لی باطل اور بے کار ثابت نہ ہو جائے ، چنانچہ اسے نئی زندگی کے ساتھ پیدا فرمادیتا ہے۔ تاکہ علم از لی میں جو عمارت تعمیر فرمائی تھی ، کہیں وہ گر نہ جائے ، ۔ چنانچہ اس محبوب کو اس کے نصیب سے ایسے لقمے کھلائے جاتے ہیں جیسے کہ چھوٹے بچے کو چھوٹے چھوٹے لقمے دیئے جاتے ہیں، یا جیسے کہ ماں اپنے دودھ پیتے بچے کومنہ میں شہد چٹایا کرتی ہے، گویا کہ اس کے منہ میں خود ہی نصیب رکھ دیا جا تا ہے اور وہ اسے ایسے کھاتا رہتا ہے جیسے کہ مریض کو زبردستی شربت پلایا جا تا ہے ، اورا نکے ذریعے بغیر کسی اختیار کے اپنی قوت کی حفاظت کرتا ہے، بلکہ سابقہ علم الہی ایسے مؤمن، صاحب ایقان اور عارف باللہ فانی کی پرورش فرماتا ہے جو اپنے لئے نفع اٹھانے اور نقصان دہ چیزوں کے دور کرنے سے فنا ہو چکا ہو، رحمت کا ہاتھ اس کے دائیں اور بائیں پہلو بدلتا رہتا ہے، اور مہربانی کاہاتھ اسے اٹھاتا اوربٹھا تا ہے، جس شخص نے ان کو نہ پہچانا اوراس کی رحمت کا دامن نہ تھا ما اس کی بد نصیبی ہے۔ جس بندے نے اللہ سے معاملہ نہ کیا ، اور اپنے دل سے اس کی طرف متوجہ نہ ہوا ، اور باطن سے اس کے ساتھ رابطہ نہ کیا اور اس کے لطف و احسان سے وابستہ نہ ہوا، اس کی بد نصیبی ہے، اے لوگو! اللہ تعالی صدیقوں کے دلوں کی تربیت کا ان کی نوعمری سے بڑھاپے تک والی کفیل رہتا ہے،  جب انہیں کسی مصیبت میں ڈال کر آزماتا ہے، پرکھتا ہے، اور انہیں اس پر صابر پا تا ہے تو ان پر اپنا قرب اور نزد یکی بڑھا دیتا ہے، بلائیں ان پر غلبہ نہیں کرتیں ، نہ ان تک پہنچ پاتی ہیں، مصیبتیں انہیں کیسے لاحق ہوسکتی ہیں جبکہ مصیبتیں تو پا پیادہ ہیں اور اللہ کے ان ولیوں کے دل پرندوں کے بازوؤں پر ہیں، بد نصیبی ہے ان کے لئے جوا نکے دلوں کو دکھ دیتا ہے، اس پر اللہ کی ناراضی ہے ۔ اس پر اللہ کا عذاب ہے ۔ اور بد نصیبی ہے اس کے لئے جو اللہ سے محروم ہو۔

اولیاء اللہ کی خدمت میں عظمت:

اے بیٹا! تو اولیاء اللہ کا خادم وغلام بن اور انہیں ہرممکن  طور پر راضی رکھ، ان کی خدمت مستقل کرتارہے گا تو سردار ہو جائے گا ۔ جو بندہ اللہ اور اس کے نیک بندوں کے سامنے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کا مقام بلند کرتا ہے، جب تو اللہ والوں کی خدمت کرنے میں تکلیف اٹھائے گا، اللہ تجھے انہی کی طرف بلند فرمائے گا ، اور تجھے ان کا سردار بنا دے گا، کیا مرتبہ ہوگا اس کا جو اس کی مخلوق میں سے خاص الخاص کی خدمت کرے گا ،۔ اللهم أجر الخيرات على ايدينا والسنتنا واجعلنا من أهل لطفك و عنايتك الہی! ہمارے ہاتھوں اور زبانوں پر بھلائیاں جاری فرما، اور ہمیں اپنے لطف و عنایت کا اہل بنا۔ آمین!‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 392،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 204دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں