ترپنویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ترپنویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثالث والخمسون فی الاختبار والابتلاء‘‘ ہے۔

 منعقدہ 7 رمضان 545  بروز منگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادر یہ  

آزمائش و بلا ولایت کا خاصہ ہے۔

پرکھ پرچول  اور آزمائش  کے بغیر  گذارہ نہیں  بالخصوص جو لوگ کوئی دعویٰ  کرتے ہیں  اگرآ زمائش  اور  پرکھ پرچول  نہ ہوئی  ہوتی تو مخلوق میں بہت سے لوگ ولایت کا دعوی کر تے ، اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا: وكل البلاء بالولاية كي لا تدعى -ہر طرح کی بلا محبت میں ہے ، تا کہ ہر کوئی دعوی نہ کر سکے ۔‘‘

ولی کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ مخلوق کے تکلیف پہنچانے پر صبر کرے اور ان سے درگزرکرے، اولیاء اللہ، جو کچھ مخلوق سے دیکھتے ہیں ان سے اندھے بن جاتے ہیں ، جو کچھ ان سے سنتے ہیں، اس سے بہرے بن جاتے ہیں۔ – اپنی آبروؤں کو مخلوق کے لئے ہبہ کر رکھا ہے۔ مثل مشہور ہے: حُبُّكَ ‌الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ کسی شے کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے ۔“

اولیاء کرام نے اللہ کو  محبوب بنالیا ہے چنانچہ و ہ غیر اللہ سےاندھے اور بہرے ہوگئے ہیں۔ وہ مخلوق سے خوش کلامی اورنرمی اور مدارات سے ملتے ہیں ، اور کبھی اللہ کے لئے غیرت کے باعث غضب الہی کی موافقت میں مخلوق سے غصہ بھی کرتےہیں۔ اولیاء اللہ روحانی طبیب ہیں ، وہ ہر مرض کی دوا جانتے ہیں طبیب ہر مرض کا علاج ایک ہی دوا سے کیا کرتا ہے۔

اولیاء کرام دل اور باطن کے لحاظ سے اللہ کے حضور میں اصحاب کہف کی طرح ہیں ، انہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام کروٹ دلاتے تھے ، اور قدرت ورحمت ولطف کا ہاتھ ان کے پہلو بدلتا ہے۔ان کی دنیا دنیا کے چاہنے والوں کے لئے ہے،ان کی آخرت ، آ خرت چاہنے والوں کے لئے ہے،ان کا پرورگار ان کے لئے ہے، ان کا پروردگار ان سے کسی چیز کا بخل نہیں کرتا ، جو چاہیں وہ عطا کرتا ہے، اگر دنیا  طلب کرو اور ان کے پاس ہوتو وہ اسے خرچ کر ڈالتے ہیں ، اور جب ان سے آخرت کا ثواب طلب کرو، وہ اسے بھی صرف کر دیتے ہیں ۔ دنیا چاہنے والوں کودنیا عطا کرتے ہیں، اور جود نیا کو کم چاہنے والے ہیں انہیں آخرت کا ثواب عنایت فرماتے ہیں مخلوق کومخلوق کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور خالق کو اپنے لئے ،  چھلکا سب میں بانٹ دیتے ہیں، کیونکہ ماسوی اللہ چھلکا ہے ، اور طلب الہی اور قرب الہی ان کے لئے مغز ہے۔

بعض اولیاء اللہ ارشاد فرماتے ہیں:

لا يضحك في ‌وجه ‌الفاسق إلا العارف’’ فاسق کے منہ پر عارف ہی ہنسا کرتا ہے ۔‘‘

عارف ہی اسے نیکی کا امرکرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اس کی تکلیف کو برداشت کرتا ہے، اس امر پر عارفوں کو ہی قدرت حاصل ہے زاہد وعابد ومرید کونہیں ۔ یہ اللہ والے گناہ گاروں پر کیوں نہ رحم کریں ، وہ بیچارے تو رحم کے قابل توبہ ومعذرت کی جگہ پر ہیں ، عارفوں کا اخلاق ، اللہ کے اخلاق سے ہے ، لہذا وہ گناہ گارکو شیطان اور نفس اور خواہش کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، کوئی شخص اگر اپنے بچے کوکسی کافر کے ہاتھ میں قید دیکھے تو کیا اسے چھٹرانے کی کوشش نہ کرے گا۔ عارف باللہ کے لئے تمام مخلوق اولاد کی مانند ہوتی ہے، پہلے مخلوق کو شریعت کی زبان سے مخاطب کرتا ہے، احکام سے آگاہ کرتا ہے، پھر علم از لی جاننے کے باعث ان پر رحم کرتا ہے۔ان میں جاری اللہ کے افعال دیکھتا ہے، علم الہی کے دروازے سے نکلنے والے وہ امور دیکھتا ہے جو قضاء قدر کے صادر ہونے پرمبنی ہیں، انہیں ظاہرنہیں کرتا چھپا کے رکھتا ہے شرعی احکام ومناہی کے ساتھ مخلوق  سے خطاب کرتا ہے، جو علم باطن ہے مخلوق کو اس سے خطاب نہیں کرتا ۔ اللہ نے رسول بھیجے کتابیں نازل کیں اور ڈرایا دھمکایا تا کہ خلقت پر حجت قائم ہو جائے ۔ ان کے بارے میں جوعلم الہی ہے، اس میں نہ تو دخل دیا جاسکتا ہے، نہ ہی اللہ پر اس سے متعلق کوئی اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے، حکم کے اندر رعب و دبدبہ ہے جبکہ علم کے اندر ثابت قدمی استقامت ہے، تجھے حکم کی بھی ضرورت ہے جو دوسروں اور تیرے درمیان مشترک ہے، اور اپنے لئے تو ایسے علم کا محتاج ہے جو خاص تیرے لئے ہے، تم میں سے جب کوئی علم ظاہری پرعمل کرتا ہے تو رسول اکرم ﷺ علم باطن سے اس کی پرورش فرماتے ہیں، جیسے کوئی پرندہ اپنے بچے کے منہ میں دانہ ڈالتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ اس بندے نے اپنے عمل سے قول ظاہری یعنی شریعت کی تصدیق کی ،

ابن آدم : – اگر صحیح ہو جائے تو اس کی طرح کا صحیح کوئی نہیں ۔اگر صفا ہو جائے تو اس کی مانند صفا کوئی نہیں ،اگرقریب  ومقرب ہو جائے تو اس کی مثل مقرب کوئی نہیں ۔  جاہل اپنے سر کی آنکھ سے دیکھتا ہے، عاقل اپنی عقل کی آنکھ سے دیکھتا ہے، اور عارف ظاہری طور پر علم کے ساتھ اپنے دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے، ساری خلقت اس کا لقمہ بن جاتی ہے، سب کے سب اس میں غائب ہو جاتےہیں، اس کے پاس اللہ کی ذات کے سوا کوئی اور شے باقی نہیں رہتی۔ اس کی زبان پر یہ جاری ہو جا تا ہے: هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ ‌وَالْبَاطِنُوہی اول وہی آخر ، وہی ظاہر وہی باطن ہے ۔

 اللہ ہی کا ظاہر و باطن اور اول و آخر ہو جا تا ہے ۔ اس کے پاس کوئی شے غیر اللہ نہیں ہوتی ۔د نیا و آخرت میں اب اس کی محبت اللہ کے ساتھ ہو جاتی ہے، وہ سب احوال میں اس کی موافقت میں رہتا ہے۔اللہ کی رضامندی اور اس کے غیر کے غصہ کو پسند کرتا ہے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔ جیسے کہ بعض اہل اللہ نے فرمایا: مخلوق میں اللہ کی موافقت کر، اللہ کے بارے میں مخلوق کی موافقت نہ کر ۔ جسے ٹوٹنا ہوٹوٹ جائے ، جسے جڑارہنا ہو جڑار ہے تو کسی کی پرواہ نہ کر “ تیرا شیطان اور تیری خواہش، تیری عادت اور تیرے برے ساتھی سب تیرے دشمن ہیں ، ان سے بچ کے رہ تا کہ تجھے ہلاکت میں نہ ڈال دیں تو علم سیکھ تا کہ جان سکے کہ ان سے دشمنی کیسے کرنی ہے اور بچاؤ کیسے کرنا ہے،  پھر یہ معلوم کر سکے کہ اللہ کی عبادت کیسے کی جائے ، کیونکہ جاہل کی عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: مَنْ ‌عَبَدَ ‌اللَّه ‌بِجَهْلٍ كَانَ مَا يُفْسِدُ أَكْثَرَ مِمَّا يُصْلِحُ -” جو بندہ جہالت سے عبادت کرتا ہے، وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔ جاہل کی عبادت کی کوئی قدروقیمت نہیں بلکہ وہ سراپا فساد اور پوری طرح سے ظلمت میں ہوتا ہے ۔ بغیرعمل کے علم کا کوئی فائدہ نہیں عمل میں اخلاص نہ ہوتو بے فائدہ ہے، نہ اس کے کرنے والے سے عمل قبول کیا جا تا ہے، تو علم سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے تو علم تیرے خلاف حجت ہے، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا۔ الجاهل يعذب مرة والعالم سبع مرات (وَيْلٌ لِلْجَاهِلِ مَرَّةً وَوَيْلٌ لِلْعَالِمِ ‌سَبْعَ ‌مَرَّاتٍ)’’جاہل کو ایک بار اور عالم کو سات بارعذاب دیا جائے گا۔‘‘ ‘ جاہل سے پوچھا جائے گا کہ کیوں نہ سیکھا، اور عالم سے پوچھا جائے گا کہ علم پرعمل کیوں نہ کیا تو علم پڑھ اورعمل کر اور ‘ اوروں کو بتا، ایسا کرنا تیرے لئے بھلائیاں جمع کر دے گا ، جب تو علم کا ایک کلمہ سنے گا اور اس پر عمل کرے توتجھے دو ہرا ثواب ہوگا۔ ایک سیکھنے کا،اورایک سکھانے کا ، دنیا تاریکی ہے اور علم دنیا میں نور ہے، جسےعلم نہیں وہ اس تاریکی میں مارا مارا پھرتا ہے، اور اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔

اسے علم کا دعوی کر نیوالے تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، کو اپنے نفس اور حرص اور شیطان اور اپنے وجود کے ہاتھ سے نہ لیاکر، نہ اپنے ریاء ونفاق سے لے۔ تیراز ہد صرف ظاہری ہے اور تیری رغبت باطنی ، یہ ز ہد بیکار ہے، تجھے اس پر عذاب ہوگا ، تو اللہ سے مکر وفریب کرتا ہے، حالانکہ اسے تیری خلوت و جلوت اور جو کچھ تیرے دل میں ہے، اسے سب معلوم ہے۔ اللہ کے پاس نہ خلوت ہے نہ جلوت ،کوئی پردہ و نہ حجاب ، اب یوں واو یلا کر ہائے شرم! – ہائے افسوس! – ہائے رسوائی! – اللہ میرے رات دن کے سب افعال کو کیسے دیکھتا رہتا ہے ،اسے سب خبر ہے، اور میں اس کے دیکھنے سے ذرا شرم نہیں کرتا ۔‘‘ تو اللہ کے سامنے اپنی بے حیائی سے توبہ کر فرائض ادا کر اور ممنوعات سے باز رہ کر اس کا قرب حاصل کر اور مقرب بن جا، ڈھکے چھپے، ظاہری و باطنی گناہ چھوڑ دے اور کھلی ہوئی بھلائیاں کرتا رہ ، ایسا کرنے سے تو اس کے دروازے تک پہنچ جائے گا، اور اس سے قریب ہو جائے گا۔ وہ تجھے اپنا محبوب بنا لے گا ، اورمخلوق کا محبوب بنائے گا ، اور پھر ماسوی مخلوق کے سب کا محبوب بنا لے گا ۔ پھر اس کا امرمخلوق  کی طرف نقل کر دے گا۔ اللہ اور اس کے فرشتے جب تجھے اپنا محبوب بنالیں گے تو کافروں منافقوں کے سوا ساری مخلوق تجھے محبوب رکھے گی ، کافرومنافق اللہ سے محبت میں تیری موافقت نہیں کر سکتے۔ جس شخص کے دل میں ایمان ہے، وہ ایمان والے کو دوست رکھتا ہے، جس کے دل میں نفاق ہے، وہ ایمان والے سے عداوت رکھتا ہے، چنانچہ کافروں، منافقوں اور شیطانوں اور ابلیسوں کی دشمنی کو برا نہ جان، منافق اور کافر انسانوں میں سے شیطان ہیں۔ ایمان دار یقین رکھنے والا عارف اپنے دل اور باطن اور معنی کے لحاظ سے الگ ہے ۔ وہ اپنے نفس سے نقصان کو دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی اپنے نفس کے لئے فائدہ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں مسلسل پڑا رہتا ہے۔اس میں کسی طرح کی طاقت وقوت باقی نہیں رہتی ، اس کے لئے جب یہ حال صحیح ہو جائے تو اس کے پاس ہر طرف سے خیر ہی خیر آنے لگتی ہے۔

اسے مخاطب! اللہ والوں سے صرف دعوے اور خلوت نشینی اور آرزو کی وجہ سے مزاحمت نہ کر، ان کی صفت کا حصہ نہ بن صرف دعوے اور آرزو سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا ، تیرے لئے بات کرنا مناسب نہیں جب تک کہ اسباب سے اندھانہ ہو جائے ، کسی مصرف کا نہیں یہاں تک کہ نحیف نہ ہو جائے، تیرے پاؤں لوگوں کے دروازوں کی طرف دوڑ نے سے رک نہ جائیں ، کچھ حاصل نہیں جب تک کہ تیرا دل اورعقل اور چہرہ مخلوق سے خالق کی طرف نہ لوٹ جائے ، – تیری پشت مخلوق  کی طرف ہو جائے ، تیری چہرہ خالق کی طرف ہو جائے ،  تیرا ظاہر اور صورت مخلوق کی طرف ہو جائے، تیرا باطن اور مغز اور حقیقت خالق کی طرف ہو جائے ۔ اس حالت کو پہنچ کر تیرادل فرشتوں اور نبیوں کے دل سا بن جائے گا۔ تیرے دل کو ان کے طعام سے کھلایا جائے گا، ان کی شراب سے پلایا جائے گا ۔ اس امر کا تعلق دلوں اور باطنوں اور معنی کے ساتھ ہے صورتوں کے ساتھ نہیں۔ اللهم طيب قلوبنا واخلع على أسرارنا وصف عقولنا فيما بيننا و بينك من وراء عقول الخلق وعقولنا۔الہی ہمارے دلوں کو پاک کر دے اور ہمارے باطنوں کو معرفت کی خلعت عطا کر اور ہماری عقلوں کو اپنے اور ہمارے درمیان جو احوال میں مخلوق کی عقلوں سے بڑھ کر صفائی عطا کر آمین!‘‘ کیسی عجب بات ہے کہ قیامت کے دن میں منافقوں کے حق میں بحث ومناظرہ کروں گا ۔ پھر ایمانداروں کے حق میں کیوں نہ جھگڑا کروں گا۔

اللـهـم اغـننـي عـن الكل أغنني بك عمن سواك عن المعلم و عن الصبيان وعما في بيوتهم واجعل داره دارالسّماط مع التعليم . اللهم إنك تعلم أن هذا الكلام قد غلب على فاعذرني فيه جا مکي قد تمت و حصلت لي منك بقية جا مكية الأطفال والاتباء الطوارق، فاسئلك تسهيل ذلك مع طيبة قلبي و صفاء سری

اے اللہ مجھے ساری مخلوق سے غنی کر دے، مجھے اپنے ساتھ رکھ کر تمام ماسواسے بے نیاز کردے، استاد سے بچوں سے اور جو کچھ ان کے گھروں میں ہے ، سب سے بے پرواہ کر دے ۔ میرا گھر تعلیم کے ساتھ مہمان خانہ بنا دے الہی! تو جانتا ہے کہ یہ بات غلبہ حال میں میرے منہ سے نکل گئی ہے ،اس میں مجھے معذ در جان، میرا پیالہ لبریز ہو گیا ہے، حالانکہ مجھے تیری طرف سے بچوں اور خادموں اور مہمانوں کے پیالوں کا بقیہ ہی حاصل ہو گیا ہے کہ انہیں بھروں ۔ چنانچہ میں تجھ سے دل و باطن کی پاکیزگی وصفائی کے ساتھ اس میں آسانی کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘

 اللہ ہی تمہارے ہاتھوں پر جاری کرنے والا ہے:

اے لوگو! تمہارا گمان ہے کہ میں تم سے کچھ لیتا ہوں اورتمہیں دیکھتا ہوں، نہیں ایسی بات نہیں ، یہ کوئی کرامت کی بات نہیں ۔ میں تو اللہ ہی سے لیتا ہوں تم سے نہیں، بلکہ اللہ ہی تمہارے ہاتھوں پر جاری کرنے والا ہے،  جب تک میں تمہارے ساتھ تھا، تمہاری کوئی پہچان نہ تھی تم سے جدا ہو کر تمہیں پہچاننے لگا،  میں منافقوں کا کھوج لگانے والا اور عارفوں کی پرکھ کرنے والا ہوں ،  منافقوں کو ڈنڈے سے نہیں مارتا بلکہ بات ان کے منہ پر مارتا ہوں ۔

میرا دستر خوان تمہارے لئے وسیع ہے، میرا کھانا تمہارے فارغ ہونے کے بعد ہوگا۔ میرے لئے نوالہ تمہارے غیر کی طرف سے تمہارے جانے کے بعد میرے لئے میرے اس دوست کی طرف سے طباق آ تا ہے، جس کے سامنے رہتا ہوں اور اس کا خدمت گزار ہوں، اے دل کی آنکھوں والو! ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میری آستین چڑھی رہتی ہے اور میری کمر بندھی رہتی ہے۔

کسی سائل نے سوال کیا: انبیاء کرام  علیہم السلام  کی طرف  اللہ کا پیغام  لا نے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ولی کی طرف اس کا پیغام لانے والے کون صاحب ہیں؟‘‘

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:اولیاءاللہ کی طرف اللہ تعالی بلا واسطہ خودہی پیغام رساں ہے ۔ وہ اپنی رحمت ولطف واحسان والہام اور اپنی خاص توجہات سے جو کہ وہ اولیاء کرام کے دلوں اور باطنوں کی طرف رکھتا ہے، ان پر مہربانیاں فرماتا ہے اسے اپنے دل کی آنکھوں اور باطن کی صفائی اور ہر وقت کی بیداری سے ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ اے لوگو!دنیا کی محبت اور اس کی حرص ، اور دنیا کو بڑھانے کی الفت اللہ اور اس کے اولیاء کرام کی معرفت سے روکتی ہے۔

اللهم إن حسن الكرم وحسن الجود من صفاتك ونحن عبيدك فاعطنا ذرة منهما امين الہی !حسن کرم اور سخاوت تیری صفات سے ہیں اور ہم تیرے بندے ہیں ، ہمیں بھی ان میں سے ایک ذرہ عنایت فرما۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 384،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 201دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں