اکیاون ویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکیاون ویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الحادی والخمسون فی عدم الرکون الی الدنیا‘‘ ہے۔

 منعقده 20 شعبان 545ھ بمقام مدرسہ قادریہ

 دنیا ساری حکمت اورعمل ہے، آخرت ساری قدرت ہے:

دنیا ساری حکمت اور عمل ہے، آخرت ساری قدرت ہے، دنیا کی بنا حکمت پر ہے اور آخرت کی بناقدرت پر،  حکمت کے گھر میں عمل کو نہ چھوڑ ، قدرت کے گھر میں اس کی قدرت کو عاجز نہ سمجھ حکمت کے گھر میں اس کی حکمت کے ساتھ عمل کر ، اس کی قدرت پر بھروسہ نہ کر، اپنے نفس کے لئے قدرت کو عذر نہ بنا، کیونکہ نفس اسے حجت بنا کر عمل کرنا چھوڑ دے گا۔ تقدیر کاعذ رتر اشنا کاہلوں کی دلیل ہے، تقدیر کا عذرا مرونہی کے غیر میں ہوسکتا ہے ، عبادت وفرائض میں نہیں۔ آپ نے دوران گفتگو کچھ توقف فرمایا ، پھر ارشادفرمایا: ایمان والے کو نہ تو اس دنیا کی طرف سے سکون ہوتا ہے اور نہ دنیا میں موجود چیزوں سے ۔ دنیا سے اپنا نصیب لے لیتا ہے ۔ اور دل سے اللہ کی طرف یکسو ہو جاتا ہے، یہاں پہنچ کرٹھہر جاتا ہے حتی کہ اس کے دل سے دنیا کی سوزش دور ہو جاتی ہے، اور اس کے دل کو دنیا پر داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے، اس کے باطن کی سفارت اس کے باطن کو دل کی طرف، اور دل کونفس مطمئنہ اور تابع دار اعضاء کی طرف لے جاتی ہے۔اسے تمام اعضاء پر قابومل جا تا ہے ۔ وہ اس حال میں ہوتا ہے کہ اچا نک اسے اس کے متعلقین سے بے نیاز کر دیا جا تا ہے، اس میں اور اس کے عیال کے درمیان حجاب ڈال دیا جا تا ہے۔اللہ تعالی خلقت کی شرارتوں سے اس کی حفاظت فرماتا ہے ۔ اور سب کو اس کی اطاعت پر لگا دیا جا تا ہے ۔ اور اس کے اور ان کے دلوں میں خود مائل ہو جا تا ہے ۔ یہ بندہ تنہا اپنے رب کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے، گویا کہ اس کے لحاظ سے مخلوق پیداہی نہیں ہوئی ، ، اور گویا کہ اس کے سوا اللہ کی کوئی اور مخلوق ہی نہیں، اس کا رب اس میں فعل کرنے والا اور وہ معمول ہو جا تا ہے ، حق مطلوب اور وہ طالب بن جاتا ہے۔ وہ اصل اوریہ شاخ ہوتا ہے، غیر کو پہچانتا نہیں اور غیر کود یکھتا نہیں ہے،اسے مخلوق سے اوجھل کر دیتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے مخلوق میں اٹھا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ان کی مصلحتوں اور ہدایت کے لئے وجود عطا کرتا ہے، اور یہ بندہ اللہ کی رضا کے لئے خلقت کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، اولیاء اللہ دلوں اور باطنوں کے محافظ ونگہبان ہیں ، غیر کو چھوڑ کے اللہ کی معیت میں قائم ہیں۔ ان کا ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا ہے غیر کے لئے نہیں، اے منافق ! ان اللہ والوں کی تجھے کیا خبر نہ ایمان کی خبر اور نہ اللہ کے انس کی کچھ خبر، تو سراسر بے خبر ہے، جلد ہی مرے گا اور مرنے کے بعد رسوا ہوگا ، تو نے زبان کی فصاحت پر انحصار کر لیا جبکہ دل کو گونگا بنا لیا۔ یہ تیرے فائدے کی بات نہیں ۔ دل کی فصاحت چاہئیے زبان کی نہیں۔ اپنے نفس پر ہزار بار رو اور غیر پر ایک بار! اے مردہ دل! اے اولیاء اللہ سے باغی ہونے والے! اے اسراف کرنے والے! اے اپنے آپ میں اور ما  سوی اللہ میں گم ہو کر اللہ سے دور ہو جانے والے اس طرح سے رویا کر 

!: إلهي إني كنت اخرس فانطقتنى فانفع الخلق بنطقي وكمل لهم السّلاح على يدى والا ردني إلى الخرس ’’یا اللہ! میں گونگا تھا تو نے مجھے گویائی عطا کی ،لہذا میری گویائی سے خلقت کو فائد ہ عطا فرما، اور میرے ہاتھ پر ان کی کامل اصلاح کر دے، ورنہ مجھے پھر گونگا بنادے اللہ سے اس کی قدرت کے مطابق سوال کرو:

اے لوگو! میں تمہیں سرخ موت کی طرف بلاتا ہوں ، وہ سرخ موت ہے نفس اور خواہش اور عادت اور شیطان اور دنیا کی مخالفت کرنا، اور مخلوق سے کنارہ کش ہو جانا اور کل ما سوی اللہ کو چھوڑ دینا ۔ ان سب احوال میں جہاد کرو اور مایویں نہ ہونا۔کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ  وہ ہر دن ایک نئی شان میں ہے ۔ اس کی قدرت کے اندازے پر اس سے مانگو، – قدرت کے اعتبار سے مانگو حکمت کے اعتبار سے نہیں ،  اس کے علم کی حیثیت پر سوال کرو،اپنے علم کی حیثیت سے نہیں ،اپنے دلوں اور باطنوں کے ساتھ سوال کرو، چرب زبانی سے نہیں، تمہاراسوال تمہارے علم اور قدرت کے اندازے سے بڑھ کر ہو، اس کے سامنے تمام چیزوں سے مفلس ہوکر کھڑے ہو، اس پر نہ عامل و حاکم بنو ،نہ اس پر اپنی اوقات دکھاؤ اور عقل مندی کے جوہر دکھاؤ ، اور نہ ہی اپنی ناقص تدبیروں سے اس کی تدبیر کے خلاف کرو، جاہلوں کی طرف مائل نہ ہو، جو اپنے علم پرعمل نہ کرے، وہ بندہ جاہل ہے خواہ کیسا ہی علم کا حافظ ہو اور اس کا مفہوم جاننے والا ہو، علم سیکھ کر اس پرعمل نہ کرنا تجھے خلقت کی طرف لوٹا تا ہے ۔ اورعلم سیکھ کر اس پرعمل کرنا تجھے خالق کی طرف لے جاتا ہے، دنیا سے بے رغبت کرتا ہے اور باطن سے خبر دار کرتا ہے، ظاہری آرائش سے باز رکھتا ہے اور باطن کی زیبائش کا الہام کرتا ہے، اب تیراولی و کارساز اللہ تعالی ہو جائے گا کیونکہ اب تو اس لائق ہو گیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے: وَهُوَ ‌يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ نیکوں کا والی اللہ ہے ۔ ان کے ظاہر اور باطن کا والی ہے، حکمت کے ہاتھوں سے ان کے ظاہر کی اور علم کے ہاتھوں سے باطن کی تربیت کرتا ہے، وہ نہ تو اللہ کے غیر سے خوف کرتے ہیں اور نہ اس سے کچھ امید رکھتے ہیں ۔ان کا سب لین دین اللہ سے اور اس کے راستہ میں ہوتا ہے،  وہ غیر سے وحشت کرتے ہیں جبکہ رب سے مانوس رہتے ہیں اور اس سے سکون پاتے ہیں، یہ آ خری دور ہے، اس میں بہت کچھ بدل گیا ہے، نبوت کا دور دور چلا گیا ،یہ زمانہ نفاق اور فتور کا زمانہ ہے۔

 اے منافق اتو مخلوق اور دنیا کا بندہ ہے ، ان کے دکھاوے کے لئے عمل کرتا ہے ، اور اپنی طرف اللہ کی توجہ نظر کو بھلا دیا ہے۔ بظاہر تیرے عمل آخرت کے لئے ہیں جبکہ تیرا ہرعمل اور ارادہ صرف دنیا کے لئے ہے۔ رسول اکرم  ﷺ نے  ارشاد فرمایا

مَنْ تَزَيَّنَ بِعَمَلِ الْآخِرَةِ، وَهُوَ لَا يُرِيدُهَا، وَلَا يَطْلُبُهَا ‌لُعِنَ ‌فِي ‌السَّمَاوَاتِ وَالْأَرَضِينَجب بندہ اپنے عمل کو آخرت کے لئے آرائش کرتا ہے اور اس کا مقصود اور ارادہ آخرت نہیں ہوتا تو اس کے نام ونسب کے ساتھ آسمانوں پرلعنت کی جاتی ہے۔

اے منافقو! میں تمہیں شریعت وطریقت کے طریقوں سے پہچانتا ہوں لیکن اللہ کی عیب پوشی کے باعث تمہاری پردہ داری کرتا ہوں، تجھ پر افسوس، تجھے کچھ حیا نہیں ، تیرے اعضاء گنا ہوں اور ظاہری نجاستوں سے پاک نہیں ہیں جبکہ تجھے باطن کی طہارت کا دعوی ہے، ابھی تو دل ٹھیک طرح سے پاک نہیں ہوا، باطن کیسے پاک ہو گیا ، خلقت کے ساتھ تیرا ادب کا طریقہ نہیں جبکہ تجھے خالق کے ساتھ ادب کا دعوی کرتا ہے، معلم تجھ سے راضی نہیں ہوا اور نہ تو نے اس کا ادب کیا ، نہ اس کے حکموں کو بجالائے ، اور تو منبر پر بیٹھ کر صدر بن گیا ، وعظ شروع کر دیا  تجھے وعظ کہنا جائز نہیں جب تک کہ تو توحید کے پاؤں پر کھڑا ہواور اللہ کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرے، اپنی ہستی کی خودی سے کنارہ کش ہو کر لطف کی گود میں بیٹھ جائے ،اور انس کے بازو تلے چھپ جائے ، اور اخلاص کا دانہ چگنے لگے اور مشاہدہ الہی کا پانی پیئے ، اس حال پر قائم رہے یہاں تک کہ تو شاہی مرغ بن جائے ، اس مقام پر تو مرغوں کا نگران بن جائے گا ، اور ان پر دانے کا ایثار کر کے، اذان دے کر لوگوں کو رات دن ہوشیار کرنے والا ہو جائے گا ، اور انہیں اطاعت الہی کے لئے بیدار کرتا رہے گا۔ اے جاہل! تو دفتر کو اپنے ہاتھ سے پھینک دے اور سر کے بل آ کر میرے پاس ادب سے بیٹھ جا۔علم مردان خدا کی زبانوں سے حاصل ہوتا ہے، دفتروں سے نہیں ، علم حال سے حاصل ہوتا ہے قال سے نہیں ،- ان سے ملتا ہے جو اپنے وجود اور سب خلقت سے فانی اور اللہ سے باقی ہوں۔ ولایت کا دارو مدار تیری فنا پر ہے، تو اپنے آپ سے اورمخلوق  سے فنا ہو کر اللہ کے ساتھ وجود حاصل کر ، غیر سے فنا ہوکر اللہ کے ساتھ اس کے لئے زندگی کر ، اللہ کے ان خادموں کی صحبت میں رہ جو اس کا در کبھی نہیں چھوڑتے ،فرمان الہی پر عمل کرنا، نہی سے باز رہنا، اور تقدیر میں اللہ کی موافقت کرنا ان کا مشغلہ ہے، اپنے آپ میں اللہ کے فعل اور ارادے کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں ۔ اپنے اور پرائے کے بارے میں اللہ سے کسی قسم کا جھگڑا نہیں ، نہ انہیں کم یا زیادہ اورگھٹیا، بڑھیا پرکوئی  اعتراض ہے ۔ اللہ کی خدمت سے منہ موڑ کے نفس کی خواہشیں ، حرصیں اور غرضیں نہ پوری کر ، اولیاء اللہ خلقت سے کسی ضرورت کے بغیر رکھ رکھاؤ سے طلب کرتے ہیں ۔ انہیں ذاتی طور پر کوئی حاجت نہیں ، بلکہ اللہ انہیں مخلوق پر شفقت کرنے کے لئے الہام فرما دیتا ہے۔ نفس کی پیروی سے نہیں مجبور اطلب کرتے ہیں، کیونکہ ان کا نفس مطمئن ہو گیا ہے۔ دنیا سے متعلق ان کا کوئی ارادہ یا شہوت نہیں۔ تیرا گمان ہے کہ کہ ان کا نفس تیرے نفس جیسا جاہل ہے۔ جس نے تجھے صرف اپنی خدمت اور اپنے ارادے اور اپنی حرص کے لئے وقف کر رکھا ہے، اگرتجھے کچھ عقل ہوتی تو نفس کی خدمت سے منہ پھیر لیتا اور اپنے رب کی خدمت میں لگ جاتا۔ نفس تیرا دشمن ہے، اسے جواب دینے سے خاموش رہنا بہتر ہے، اس کی بات کو دیوار پر مار دے۔ اس کی بات ایسے سن جیسے کسی دیوانے بے عقل کی بات سنی جاتی ہے، نہ اس کی بات کی طرف اور نہ اس کی شہوتوں اور لذتوں اور خواہشوں کی طلب کے لئے توجہ کر نفس کی بات ماننے میں اس کی اور تیری ہلاکت ہے۔ تیری اورتیرے نفس کی بہتری اس کے خلاف کرنے میں ہے۔ اللہ کی فرماں برداری میں نفس کو ہر جگہ سے رزق آتا ہے، اور جب اللہ کی نافرمانی کے لئے متکبر ہو جا تا ہے تو رزق کے اسباب نہیں رہتے ، وہ طرح طرح کی تکلیفوں میں گرفتار ہو جا تا ہے ، جس سے تیری اور اس کی ہلاکت کا سامان ہو جا تا ہے۔اور نفس دنیاوآخرت میں خسارہ اٹھانے والا ہو جا تا ہے ۔ جس کا نفس فرماں بردار اور قناعت کرنے والا ہو جاتا ہے، وہ رضائے الہی سے اپنے نصیب کا رزق پالیتا ہے ۔ یوں کوئی تکلیف اٹھائے بغیر ماسوی اللہ سے فارغ ہو جا تا ہے،دنیا اوراس کی فضولیات اور مشقتوں سے سکون پالیتا ہے،اپنے فرائض کو خوش دلی سے ادا کرتارہتا ہے، اے دولت والو! میری دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرو، ورنہ وہ نعمتیں چھین لی جائیں گی، شکر سے نعمت کے پرتراش دے ورنہ تیرے پاس سے اڑ جائے گی ، جو اپنے رب کے ہاں مرا ہوا ہے ، وہ مردہ ہے ، خواہ دنیاوالوں کے لئے وہ زندہ ہو، اسے زندگی سے کیا لینا دینا جب وہ اسے شہوتوں لذتوں اور نفسانی حرصوں کے حاصل کرنے میں صرف کرے گا، ایسا بندہ ظاہری طور پر زندہ اور باطنی طور پر مردہ ہے، اللهم أحينابك وامتنا عن غيرك الہی ہمیں اپنے ساتھ زندہ رکھ  اور غیر کے ساتھ مردہ  رکھ۔ اے عمر کے بوڑھے، عادت کے بچے! تو کب تک بچپنے کی عادت سے دنیا کی فضولیات کے لئے بھا گتار ہے گا ۔ تو نے دنیا کی طلب کو زندگی کا مقصد بنالیا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ تیری طلب وہ ہے جو تجھے پریشان کر کے رکھ دے، چنانچہ تو اس کا بندہ ہے جس کے ہاتھ میں ڈور ہے: –

 اگر تیری ڈوردنیا  کے ہاتھ میں ہے تو تو دنیا کا بندہ ہے، اگر تیری ڈور آخرت کے ہاتھ میں ہے تو تو آ خرت کا بندہ ہے، اگر تیری ڈوراللہ کے ہاتھ میں ہے تو تو اللہ کا بندہ ہے ، اگر تیری ڈورنفس کے ہاتھ میں ہے تو تونفس کا بندہ ہے، اگر تیری ڈور خواہش کے ہاتھ میں ہے تو تو خواہش کا بندہ ہے، اگر تیری ڈور مخلوق  کے ہاتھ میں ہے تو تو مخلوق کا بندہ ہے اب خود ہی دیکھ لے کہ تیری ڈورکس کے ہاتھ میں ہے، تم میں سے زیادہ تر دنیا کے طالب ہیں ، اور چند ایک آخرت کی تمنا رکھتے ہیں ، اور دنیا و آخرت کے مالک کے چاہنے والے شاذ و نادر ہیں ، تو بڑے ادب سے انہی کی صحبت اختیار کر نہ ان سے جھگڑا کر ، نہ ان سے منہ موڑ ، ان کے ساتھ گستاخی نہ کر ورنہ برباد ہو جائے گا۔

عقل کرو تم اپنے عملوں سے اللہ کو ناراض کر رہے ہو، اس کے ہاں تمہارے عملوں کی مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت نہیں ، اپنی خلوتوں اور جلوتوں میں اور سب احوال میں اخلاص سے کام لو گے تو کوئی مقام مل جائے گا، صدق اور اخلاص اور خوف خدا ایسے خزانے میں جو بھی فنا نہ ہوں گے۔ اللہ ہی سے امید رکھو، اور سب احوال میں اس کی طرف رجوع کرد، ایمان کو قائم رکھ وہ تجھے اولیاء اللہ سے ملوادے گا ، جب تو ان میں سے کسی سے ملے تو اپنا بازوان کے سامنے جھکا دے، اور اپناحال اس کے حوالے کر دے- اس سے کوئی جھگڑانہ کر ، خاموش رہ ، اور اپنی بے ادبی سے اسے دکھ نہ دے ۔ جس بات کا علم نہ ہو اس میں خاموشی بہتر ہے، اور جسے تو نہیں جانتا اس کو تسلیم کرنا ہی اسلام ہے ۔

اولیاءاللہ نبیوں کے قائم مقام ہیں:

 اے کمزور ایمان والے !انہ تیرے پاس دنیا ہے نہ آخرت ہے، اس کی وجہ تیری اللہ کے حضور میں گستاخی اور اولیاء اللہ اور ابدال پر تہمت لگانا ہے، جو کہ نبیوں کے قائم مقام ہیں، انہیں وہ کچھ عطافرمایا جونبیوں اور صدیقوں کو عطا فرمایا، انبیاء کے اعمال اور علوم ان کے حوالے کئے ،انہیں ان کے نفسوں اور خواہشوں سے فنا کیا، اور اپنے ساتھ وجودعنایت فرمایا، انہیں اپنے ہاں جگہ عطا فرمائی ، ان کے دلوں کو ماسوی اللہ سے پاک کیا،د نیا وآخرت اور ساری خلقت ان کی دسترس میں ہے، انہیں اپنی قدرت دکھائی ، اپنا حکم اورعلم سکھایا، انہیں اپنی طاقت وقوت مرحمت فرمائی ، انہیں خدائی قوت حاصل ہے۔ ان کے لئے:لَا ‌حَوْلَ ‌وَلَا ‌قُوَّةَ ‌إِلَّا ‌بِاللَّهِ ‌الْعَلِيِّ ‌الْعَظِيمِ – نہ  گناہ سے بچنے اور نیکی کی طاقت مگر اللہ بزرگ و برتر ساتھ ہے ۔‘‘ کہنا درست ہے ۔۔ وہ اس قول پر پورے اترے، چنانچہ انہوں نے اپنی طاقت اور خلافت کی تمام قوتیں فنا کر دیں، اور اللہ کی قوت سے مدد حاصل کی ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یہ  دعا فرمایا کرتے: إِلَهِي ‌مَا ‌أُرِيدُ فَإِنْ لَمْ تُعْطِنِي ‌مَا ‌أُرِيدُ ‌فَصَبِّرْنِي عَلَى مَا تُرِيدُ الہی جو میں چاہتا ہوں اگر تو وہ نہ کرے تو مجھے اس پر صبر کرنے والا بنا دے جوتو کرنا چاہتا ہے۔

علم عمل کو بلا تا ہے :

اے بیٹا! جود نیا اللہ سے جھگڑا کر کے ملے ، اس سے کہیں اچھا ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہا جائے ، اس کی رضا کی شیر ینی صدیقوں کے دلوں میں تمام شہوتوں اور لذتوں سے زیادہ میٹھی ہے ۔ ان کے خیال میں یہ تمام دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، سے زیادہ مٹھاس رکھتی ہے ۔ اس لئے کہ وہ احوال مختلف ہونے کے باوجود زندگی کو خوش باش رکھتی ہے، لوگوں سے علم عمل اور اخلاص کی زبان سے بات کیا کر ، جوعمل علم کے بغیر ہو، اس عمل کی زبان کے ساتھ بات نہ کر ، کیوں کہ یہ تجھے اور تیرے پاس بیٹھنے والوں کو کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفر مایا:

يَهْتِفُ ‌الْعِلْمُ بِالْعَمَلِ علم عمل کو بلاتا ہے ۔

چنانچہ ۔ اگر وہ اس کے بلانے پر آ جائے تو ٹھیک، ورنہ علم چلا جا تا ہے۔ علم کی برکت چلی جاتی ہے، تیرے خلاف حجت باقی رہ جاتی ہے، اپنے علم کے گھمنڈ میں پڑا ہواعالم رہ جاتا ہے،تیرے پاس علم کا درخت رہ جاتا ہے، اس کا پھل چلا جاتا ہے۔

اللہ سے یہ دعا کر کہ وہ تجھے اپنے دربار کی حاضری اور ادب سے نواز دے، اور یہ بھی دعا کر کہ اس عطا کو چھپا کے رکھے، اور اس عنایت میں سے کوئی شے ظاہر کرنے کی آرزو نہ کرے، اللہ اور اپنے درمیان کے اس راز کے اظہار کی خواہش تیری بر بادی کا سبب بن سکتی ہے، اپنے احوال واعمال پر غرور سے خود کو بچا، کیونکہ یہ تجھے سرکشی میں ڈال سکتا ہے اور اللہ کی نظر سے گرا سکتا ہے۔ خلقت کو وعظ سنا کر اپنے مشہور ہونے کی خواہش سے بچ جا، یہ تیرے فائدے کی بات نہیں ۔ نقصان دینے والی ہے، معاملہ صحیح  ہونے تک ایک جملہ بھی نہ کہہ تا کہ اللہ کی طرف سے یقینی امر ہو جائے ، تو لوگوں کو اپنے گھر کی دعوت کس لئے دیتا ہے جبکہ تو نے ابھی تک کھانا بھی تیار نہیں کیا ۔ اس کے لئے پہلے بنیاد درکار ہے پھر عمارت بن سکے گی ۔ اپنے دل کی زمین کو اس وقت تک کھودتا رہ حتی کہ اس میں سے حکمت کا چشمہ پھوٹ نکلے، پھر اخلاص اور مجاہدوں اور نیک اعمال سے تعمیر کا آغاز کر یہاں تک کہ تیراکل بلند ہو جائے ، اس کے بعد لوگوں کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے۔

اللهم احي اجساد أعمالنا بروح إخلاصك  الہی! ہمارے اعمال کے جسموں کو اپنے اخلاص کی روح سے زندہ رکھ۔‘‘

خلقت سے خلوت تجھے کیا نفع دے گی جبکہ خلقت تیرے دل میں ہے، بالکل نہیں! ۔ تیری اور تیری خلوت نشینی کی کوئی عزت و وقعت نہ ہوگی، خلقت کو دل میں لئے ہوئے خلوت کرے گا تو تجھے انس الہی کے بغیرا کیلے ہی بیٹھنا ہوگا ، تیری خلوت نشینی بیکار ہوگی کیونکہ نفس وشیطان اور خواہش نفسانی تیرے ساتھی ہوں گے ، ایسے میں تمہارا دل اللہ کے ساتھ انس پانے والا ہوگا ۔ چنانچہ تو اگر چہ اہل وعیال دوستوں رشتہ داروں کے درمیان میں ہی کیوں نہ ہو، خلقت سے خالی ہوگا ۔ انس الہی جب تیرے دل میں جگہ بنالے گا تو تیرے وجود کی دیواریں گرا دے گا،تیری بصیرت کی آنکھیں بینا ہو جائیں گی اور تو اللہ کافعل و فضل دیکھنے لگے گا، غیر کو چھوڑ کر اس سے راضی رہے گا، جو بندہ شرع کا پابند ہو کر کسی ایک حال میں ہو، اور تو اس سے اوپر اور نیچے اور فنا اور بقا کی خواہش نہ کرے، اسے اللہ کی رضا ، اس کی موافقت اور عبودیت کی شرط حاصل ہو گئی

جوموت سے نصیحت نہ لے، اس کے لئے اور کوئی راہ نہیں

تجھ پر افسوس ! جھوٹ مت بول، اس کی رضا پر راضی رہنے کا دعوی کرتا ہے جبکہ ایک مچھر اور ایک لقمے اور ایک جملے اور ذرا سی بے عزتی سے پریشان ہو جا تا ہے، جھوٹ نہ بول ، نہ میں تیرا جھوٹ سنوں گا ، نہ اس پرعمل کروں گا اور نہ ہی اس کی تصدیق کروں گا ۔

خلقت میں سے بہت کم لوگ ہیں کہ جن کے دلوں پر الہام کیا جا تا ہے، ان میں وہ کلمات ڈال دیئے جاتے ہیں جو انہی کے لئے خاص ہیں ، انہیں بھلائی کی اطلاع دی جاتی ہے، اور وہ اس پر قائم ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیسے نہ ہو وہ رسول اکرم  ﷺ کے ان اقوال وافعال میں اتباع کرتے ہیں جو آپ  ﷺ پر ظاہری وحی کی شکل میں نازل ہوئے ، جبکہ ان کے دلوں پر باطنی وحی ہوتی ہے، کیونکہ اولیاء اللہ آپ  ﷺ کے وارث اور سب احکام میں آپ کی فرماں برداری کرتے ہیں ۔ اگر تم چاہو کہ یہ فرماں برداری تمہارے لئے صحیح اور درست ہو جائے تو موت کا ذکر کثرت کے ساتھ کرو، کیونکہ موت کا ذکر نفس اور شیطان اور حرص اور دنیا کے چھوڑ دینے میں معاون ہوتا ہے، جوموت سے نصیحت نہ لے، اس کے لئے اور کوئی راہ نہیں۔ رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا:  كَفَى ‌بِالْمَوْتِ وَاعِظًا نصیحت کے  لئے  موت کافی ہے نصیب کا لکھامل کر رہے گا  خواہ تو رغبت کرے یا نہ کرے  اگر تو بے رغبتی کرے تو نصیب کا لکھابا عزت طور پر پہنچے گا ،  اگر تو رغبت کرے تو نصیب کا لکھا باعزت طریقے سے نہ پہنچے گا ، منافق کے پاس جب خلقت موجود ہوتی ہے ، تب اللہ سے شرم محسوس کرتا ہے ، اور جب تنہا ہو تو بے حیا ہو جا تا ہے او ر اللہ   تعالی سے مطلق شرم نہیں کرتا ۔ تجھ پرافسوس ! اگر تیرا ایمان اور عقیدہ صحیح  ہوتا کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے،تجھ سے قریب ہے اور تیری حفاظت کر رہا ہے تو ضرور اس سے شرم وحیا کرتا ، میں تم سے حق کہہ رہا ہوں ، نہ مجھے تم سے کوئی ڈر ہے اور نہ ہی کوئی امید، تم اور کرہ زمین پر سبھی رہنے والے میرے لئے مچھر اور چیونٹی سے بھی زیادہ کمزور ہو۔ جو بھی کوئی نفع و نقصان ہے اسے میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں تمہاری طرف سے نہیں ، رعایا اور بادشاہ میرے لئے دونوں برابر ہیں ۔تم اگر اپنے نفسوں اور دوسروں پر کوئی اعتراض اٹھاؤ تو وہ شریعت کے دائرے میں ہونا چاہئے ،خواہش نفس اور حرص کے دل سے نہیں ،  جس بات میں شریعت خاموش ہو، اس میں تم بھی خاموشی سے شریعت کی موافقت کر جس معاملے میں شریعت کا واضح حکم ہو، اس میں تم بھی موافقت کرو۔

  اللہ ہی مددکرنے والا ہے:

اے بیٹا! اپنے نفس اور خواہش کے دباؤ سے کسی پر اعتراض نہ کر، بلکہ جیسا ایمان کہے ویسا کر ، اعتراض کر نیوالا حقیقت میں ایمان ہی ہے اور یقین ہی ان شبہات کو دور کرنے والا ہے ۔ اللہ ہی مدد کرنے والا ہے ، وہی مدد کرے گا اور وہی فخرکرنے والا ہے۔ ارشاد باری ہے: – إِنْ ‌يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ  اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہ ہوگا ۔ – إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ ‌يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ا گرتم اللہ کی مدد کرو گے تواللہ تمہاری مددکرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

 جب تو کسی ناپسندیدہ امر پر اللہ سے غیرت کر کے اعتراض کرے گا: اللہ اسے دور کرنے میں مدد کرے گا۔ اس کے کرنے والے پر تجھے نصرت عطا کرے گا ، ان سب کو تیرے لئے ذلیل کر دے گا ۔ اور تو اگرنفس وخواہش اور شیطان اور اپنی عادت کے ورغلانے سے اعتراض کرے گا تو-اللہ تجھے رسوا کرے گا، اس کے اہل پر تیری مد د نہ کرے گا،اسے دور کرنے پر تجھے قدرت نہ ہوگی۔

حقیقت میں ایمان ہی اعتراض کرنے والا ہوسکتا ہے، ہردہ معترض جس کے اعتراض کی بنیاد ایمان پر نہ ہو وہ معترض ہی نہیں   ، لفظ لا(نہیں) سے اعتراض کر کے اگر تو چاہتا ہے کہ یہ فقط :  اللہ کے لئے ہو مخلوق کے لئے نہیں،دین کے لئے ہو نفس کے لئے نہیں، اللہ کے لئے ہو تیرے فائدے کے لئے نہیں۔

چنانچہ تو حرص کو ترک کر دے، اخلاص سے عمل کر موت تیری تاک میں ہے ، اس کے پل سے لازمی گزرنا ہوگا ۔ جس حرص نےتجھے رسوا کیا ہے، اسے چھوڑ دے، جو تیرے نصیب کا لکھا ہے، تجھے ضرور ملے گا ، اور جو غیر کے نصیب کا ہے وہ ہر گز نہ ملے گا، اللہ کے ساتھ مشغول ہو جا اور دوسروں کے نصیب کی طلب چھوڑ دے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول مکرم  ﷺ سے ارشادفرمایا:

وَلَا ‌تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ  ’’آپ ادھر اپنی نگاہ نہ ڈالئے کہ ہم نے انہیں ان کی عورتوں سے نفع دیا، دنیا کی زندگی کی زینت محض ان کی آزمائش کے لئے ہے۔“

 اللہ کے عارفوں پر سب سے کٹھن مخلوق کے ساتھ بولنا چالنا اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ اس لئے ہزار عارفوں میں سے کوئی ایک ہی کلام کرنے والا ہوتا ہے، کیونکہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی قوت کا محتاج ہے، ان کی قوت کا محتاج کیوں نہ ہو کیونکہ وہ رنگ رنگ کی خلقت میں بیٹھنا چاہتا ہے سمجھ داروں اور ناسمجھوں سے ملتا ہے، منافق اور مومن سے ملتا ہے، وہ بڑی سخت آزمائش میں ہے، جسے نا پسند کرتا ہے اس پر صبر کرتا ہے اس کے باوجود وہ ہر طرح کے مصائب سے اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے ، اس کی مدد کی جاتی ہے، کیونکہ وہ حکم الہی کی تعمیل کے لئے مخلوق کے ساتھ کلام کرتا ہے، وہ یہ  کچھ اپنے نفس اور حرص اور اختیار اور ارادے سے نہیں کرتا ،اسے اللہ کی طرف سے کلام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس لئے وہ اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے، اگر تیرا معرفت  الہی حاصلکرنے کا ارادہ ہے تو اپنے دل سے  مخلوق کی قدر نکال دے، ان سے ہونے  والے فائدے اور نقصان کو  نہ دیکھ  کیونکہ اس کے بغیر  اللہ کی معرفت محال ہے  تیرے پر افسوس دنیا کو ہاتھ میں رکھنا جائز ہے، جیب میں رکھنا جائز ہے، کسی سبب سے نیک نیت کے ساتھ اسے جمع رکھنا جائز ہے،د نیا کو دل میں رکھنا جائز نہیں ، اس کا دروازے پر کھڑا ہونا جائز ہے، دروازے کے اندرآ نا جائز نہیں ، اس میں تیری کچھ عزت نہیں ،  جب یہ بندہ اپنے وجود اور مخلوق سے فنا ہو جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے کہ محو اورگم ہے، آفتوں کے نازل ہونے پر اس کا باطن متغیر نہیں ، امرالہی کی بجا آوری کے لئے موجود ہو جا تا ہے، اور نہی آنے پر اس سے منع رہتا ہے، نہ کسی چیز کی وہ تمنا کرتا ہے اور نہ کسی شے پر حرص کرتا ہے ، اس کے دل پر تکوین وارد ہوتی ہے؟ ہرشے میں تصرف کا اختیار اس کے سپردکر دیا جا تا ہے ،تم میں اور ان میں کیا تعلق ! – اے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوا ۔ اللہ کے خاص بندوں سے تعلق توڑنے والو! تو ظاہری ظلم اور ظاہری نفاق میں مبتلا ہے، یہ نفاق کب تک چلے گا، اے عالمو! – اے زاہدو! تم کب تک بادشاہوں اور امیروں کے لئے نفاق سے کام لیتے رہو گے ، تا کہ ان سے دنیا کا مال اور اس کی شہوتیں اور لذتیں حاصل کرتے رہو، تم اور اس دور کے اکثر حکمران ظالم ہیں اور اللہ اور اس کے بندوں کے مال میں خیانت کرنے والے ہیں

اللهم اكسر شوكة المنافقين واخذلهم أو تب عليهم واقمع الظلمة وطهر الأرض منهم أو اصلحهم امين! ه الہی! منافقوں کی شوکت ودبد بہ کوتوڑ دے اور انہیں ذلیل ورسوا کر دے، یا انہیں تو بہ کی توفیق دے، ظالموں کو ملیا میٹ کر دے اور زمین کو ان سے پاک کر دے یا ان کی اصلاح کر دے، آمین!‘‘

اے حکمرانو! اے رعایا! اے ظالمو! اے منافقو! – اے مخلصو- یا درکھو، دنیا تھوڑی دیر کے لئے ہے اور آخرت سدا کے لئے ہے،  اپنے مجاہدے اور زہد سے اللہ کے سوا سب کو چھوڑ دے، غیر اللہ سے دل کو پاک وصاف کرلے اس بات سے ڈرتارہ کہ تجھے :’ کوئی شکار نہ کرلے،کوئی اسیر نہ کر لے، تجھے تیرے خالق و مالک سے نہ روک لے، جب تیرے نصیب کے لکھنے کا حصہ تیرے پاس آئے تو حکم الہی اور اس کی موافقت میں زہد کے قدموں پر کھڑے ہو کر لے لے، دنیا کی محبت اور اپنے اختیار کے ہاتھوں سے نہ لے، زہد میں استقامت بدن میں اثر لاتی ہے، دل میں غم آ تا ہے اور بدن میں کمزوری آتی ہے، یہ غم اورکمزوری جب ثابت ہو جائے تو اللہ کی طرف سے اسے فرحت اور معرفت الہی عطاہوتی ہے۔ جس سے اس کاغم اور فکر جا تارہتا ہے۔ ایمان والے کا دل ،خلقت واہل وعیال اور مال سے تنگ رہتا ہے، ظاہری طور پر ان سے مشغول ہوتا ہے، مگر اندرونی طور سے اس کا دل بادشاہ کے پیام بر کا منتظر رہتا ہے ، اہل وعیال سے رخصت ہو کر شہر کےدروازے پرپہنچ گیا جبکہ ان کے بیچ میں بیٹھا ہوا ہے۔ ایمان والا خلقت کے بیچ میں رہتے ہوئے ان سے رخصت ہو چکا ہے، اس کا رہنا سہنا خلقت ہی کے ساتھ ہے جبکہ اس کی اصل رگ خالق کے ساتھ ہے۔

توحید جب دل میں گھر کر لیتی ہے تو ظاہری عمل بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں، کیونکہ یہ تیرے ظاہر و باطن ، تیری تو نگری وفقیری، خلقت کے توجہ کرنے اور منہ موڑ نے اور ان کی برائی بھلائی سب کو ایک سا کر دیتی ہے، تو انہیں اپنے دل سے کیونکر نہ نکالے گا حالانکہ تیرادل وسعت کے باوجودان کے لئے تنگ پڑ گیا ہے وہ اللہ اور اس کے ذکر اور اس کے شوق سے بھر پور ہو گیا

ہے۔ اس وقت تو اس آیت مبارکہ کے مفہوم کا پیکر بن گیا ہے۔ ‌هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ” یہاں صرف اللہ سچے کی مملکت ہے۔ اور تو سچامحب، عالم معلم حکیم محکم ،قریب وقریب ومقرب ، ادیب مؤدب، خلقت سے بے نیاز یعنی اللہ کی طرف سے کفایت والاہو جاتا ہے۔

اے جاہل ! جہالت چھوڑ کرعلم سیکھ لے، خود پڑھنے سیکھنے کو چھوڑ بیٹھا اور اب دوسروں کو سکھانے میں لگ گیا ہے۔ تو تکلیف نہ ا ٹھا، یہ تیرے بس کی بات نہیں ، اس سے نہ کچھ تجھے فائدہ ہوگا، کسی اور کا کوئی بھلا ہوگا ، کیونکہ جو بندہ اپنے نفس کو صحیح  طرح سے کچھ نہیں سکھا سکتا وہ کسی اور کو کیا سکھائے گا۔

اللہ کی قدرت کو عاجز نہ جانو :

اے لوگو! اللہ کی قدرت کو عا جز نہ جانو ، ورنہ کافروں میں سے ہو جاؤ گے ، جوحکم ہے اس پرعمل کرو، تا کہ یہ  عمل تمہیں علم سے ملا دے ۔ جب عمل ثابت ہو جائے گا تو قدرت میں نظر آ جائے گی ، تب تمہارے دلوں اور باطنوں کے ہاتھ میں  سارا جہان دے دیا جائے گا ۔ تم جو چاہو گے وہ ہونے لگے گا،دلی طور سے جب اللہ اور تمہارے درمیان کوئی حجاب نہ رہے گا تمہیں موجودات پر قدرت عطا کر دے گا، اپنے راز کے خزانوں سے مطلع کر دے گا ، اپنے فضل کے دستر خوان سے کھانا کھلائے گا۔ اپنے انس کا شربت پلائے گا،اپنے قرب کے دستر خوان پر بٹھائے گا ،  یہ  سب کتاب وسنت کے علم اور اس پرعمل کا ثمرہ ہے ، تو ان دونوں  پر عمل کر ان سے الگ مت ہو،حتی کہ تیرے پاس علم کا مالک اللہ آ جائے ، اور تجھے اپنے پاس لے لے، شریعت سکھانے والا جب اپنی طرف سے تیری مہارت کی تصدیق کر دے گا تو تجھے علم طریقت کی کتاب کی طرف منتقل کر دے اور جب تو اسے بھی اچھی طرح سے سیکھ لے گا ،تب تیرا دل اور باطن قائم کر دیئے جائیں گے، اور رسول اکرم  ﷺ ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے ساتھ ہوں گے ۔ انہیں بادشاہ حقیقی ،علم کے مالک کے روبرو کھڑا کر دیں گے، اور ان سے فرمائیں گے: ها انتما وربكما  اب تم دونوں ہو اور تمہارارب ، وہ جانے اور تم ‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 357،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 189دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں