پچاسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انچاسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخمسون فی اعطاء السائل والکرم‘‘ ہے۔
منعقده 18 شعبان 545 جمعہ کی صبح ، بمقام مدرسہ قادریہ
اگر تو دنیا کو پہچان لیتا تو اس کی ہرگز طلب نہ کرتا:
اپنی اور دوسروں کی درستی واصلاح میں کوشش کر ، اپنے سے قال اور قیل اور دنیا کی ہوس کو چھوڑ دے، جہاں تک ہو سکے دنیا کی فکروں سے آزاد ہو، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: تَفَرَّغُوا مِنْ هُمُومِ الدُّنْيَا مَا اسْتَطَعْتُمْ” جہاں تک ہو سکے دنیا کے غموں سے فارغ ہو جاؤ۔“ اے دنیا سے نا آشنا! اگرتو دنیا کو پہچان لیتا تو ہرگز تو اس کا طالب نہ بنتا، اگر وہ تیرے پاس آئے گی تو تجھے مصیبت میں ڈالے گی ، اگر وہ تجھ سے پیٹھ پھیرلے گی تو تجھے حسرت میں ڈالے گی۔ اگر تو اللہ کو پہچان لیتا تو اس کے ساتھ غیر کوبھی پہچان لیتا لیکن تو تو اللہ اور اس کے رسولوں اور نبیوں اور اس کے ولیوں سےہی جاہل ہے۔ تجھ پر افسوس! اس دنیا میں جو پہلے لوگوں پر گزری ہے، تو ان سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتا ،دنیا سے خلاصی طلب کر، اس کا لباس اتار کر دور بھاگ جا،نفس کا لباس اتار اور اللہ کے دروازے کی طرف دوڑ جا، اگر تو اپنے نفس سے الگ ہو گیا تو سب ماسوی اللہ سے الگ ہو گیا ۔ ماسوی اللہ اگر نفس کے تابع ہے تو اپنے نفس سے دور ہو، اور اپنے رب کا دیدار کر، سب کچھ اس کے سپرد کر کے سلامتی والا ہو جا، اس کی راہ میں مجاہدہ کر کے ہدایت پا، اس کا شکر ادا کر اور زیادہ نعمت حاصل کر خود کواورخلوق کو اس کے حوالے کر دے، اور اپنے اور غیر کے بارے میں اللہ پر اعتراض نہ کر اللہ کے ولی نہ اللہ کے ارادے کے ساتھ اپنا ارادہ رکھتے ہیں ، ور اس کے اختیار کے ساتھ ا پنا اختیار رکھتے ہیں۔ نہ اپنے نصیب کی طلب میں حرص کرتے ہیں، نہ لوگوں کے رزق کی طرف نظر کرتے ہیں، دنیا و آخرت میں اگر اولیاء اللہ کی صحبت چاہتا ہے تو ان کے اقوال وافعال اور ارادوں میں موافقت کر۔ میں دیکھ رہا ہوں تو سب کام الٹ کر رہا ہے، رات دن اللہ کے مخالف چلنے اور اس سے جھگڑا کرنے کو معمول بنالیا ہے۔ تو اللہ سے کہتا ہے کہ ایسا کر اور ایسا نہ کر گویا کہ وہ بندہ ہے اور تو معبود ۔ اس کی ذات پاک ہے ، وہ بڑا حلیم ہے ۔ اگر اس کا حلم نہ ہوتا تو جس حالت میں اب تو ہے۔ اپنا حال اس کے برعکس دیکھتااگر تو اپنی بھلائی چاہتا ہے تو اس کی سامنے اپنے ظاہر و باطن میں سکون کر ۔ ظاہری سکون حرکتوں سے اور باطنی سکون خطروں سے پتہ چلتا ہے ۔ سوال کرنا میرے نزدیک گستاخی ہے اور میں اسے رخصت شمار کرتا ہوں، تو حکم پرعمل کر اور منع کئے ہوئے سے باز رہ اور تقدیر کے موافق چل ۔ اس کے سامنے بات کرنے سے اپنے ظاہر و باطن کو پرسکون رکھ۔ یوں دنیا و آخرت کی بھلائی پائے گا ، مخلوق سے کسی قسم کا سوال مت کر کیوں کہ وہ خود عاجز ومحتاج ہیں۔ اپنے اور دوسروں کے لئے کسی نفع یا نقصان کے مالک نہیں ۔ تو اللہ کے ساتھ صبر کر اسے جلدی میں نہ ڈال، نہ اسے بخیل بتا، نہ اس پر کوئی تہمت دھر ،وہ تم پرتم سے زیادہ مہربان ہے، اور تجھ پر تجھ سے زیادہ شفیق ہے، اس لئے بعض اولیا اللہ نے فرمایا:
مجھ پر میری طرف سے کیا چیز ہے، جو کچھ ہے اللہ ہی طرف سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی موافقت کرو وہ تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہے یہ ضروری نہیں کہ جس کام میں تمہاری مصلحت ہو اسی کی تمہیں خبر ہو۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ممکن ہے تمہیں کوئی چیز نا پسند ہو جبکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہو، اورممکن ہے کوئی شے تمہیں پسند ہو اور وہ تمہارے لئے بدتر ہو، اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ – اللہ وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جوتم نہیں جانتے ۔
وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا اور تمہیں تو بہت تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔
جوشخص اللہ کے راستہ پر چلنا چاہے تو راستہ پر چلنے سے پہلے اپنے نفس کو مہذ ب کرے، یہی بے ادب ہے جو بدی کا حکم دینے والا ہے۔ وہ اللہ کے پاس کیا عمل کرے گا ،اپنی اس سیر میں اسے کیسے ساتھ لے سکتا ہے، نفس سے جہاد کر کے اسے مطمئن کر ، پھر اسے اللہ کے دروازے کی طرف لے جاتم نفس کی موافقت تب کر نا جب وہ ریاضت کرلے تعلیم اور حسن ادب سے آراستہ ہو جائے ۔ اور اللہ کے وعدہ وعید سے مطمئن ہو جائے ، اس کے بغیر اس کی موافقت نہ کر نفس تو اندھا، گونگااور بہرہ ہے جس کے حواس قائم نہیں ، اپنے رب کا مخالف اور جاہل اور اس کا دشمن ہے ۔ اس کی آنکھیں دائمی مجاہدوں اور مسلسل ریاضتوں سے کھلیں گی ، اس کی زبان بولے گی اور اس کے کان سنیں گے، اور اس کا جنون جا تا رہے گا۔ اپنے رب سے اس کی عداوت و جہالت جاتی رہیں گی۔ پس ساعت بساعت، روز بروز اور سال بہ سال رسیوں اور اولیاء اللہ کی صحبت میں دائم قائم رہنے کا محتاج ہے ۔ یہ بات ایک ساعت ایک دن اور ایک ماہ کے مجاہدے سے حاصل نہ ہوگی نفس کو بھوک کے چا بک سے پیٹ ، اس کا حصہ روک دے اور اس کا حق پورا کر ۔ اس پر حملہ کر
اس کی تلوارلکڑی کی ہے لوہے کی نہیں ، اس کی باتیں ہی ہیں، کام کچھ بھی نہیں ، صرف جھوٹ ہے، سچ بالکل نہیں ، اس کا وعدہ ہے، وفا نہیں ، اسے دوستی کا کچھ پتہ نہیں، – چکر ہے، دولت نہیں ۔
اہلیں جو نفس کا سردار ہے، ایمان والوں سچوں کے ہاں جو اس کے مخالف اور دشمن ہیں ، اسے کوئی طاقت وقوت حاصل نہیں تو پھرنفس کی ہستی کیا ہے۔ یہ نہ سوچ کہ ابلیس اپنی قوت سے جنت میں داخل ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے زور سے جنت سے نکلوادیا۔ اصل میں اللہ نے اسے اس پر قوت دی، اور اسے سبب بنادیا ، وہ اصل نہ تھا۔
اے تھوڑی عقل والے کسی مصیبت میں ڈال کر اگر اللہ تجھے آزمائے تو اس کے دروازے سے نہ بھاگ ، وہ تیری مصلحت کوتجھ سے زیادہ جانتا ہے، وہ کسی فائدے اور حکمت کے لئے آزماتا ہے، جب کسی مصیبت سے تجھے آزمائے تو ثابت قدم رہ اپنے گناہوں کو یاد کر اور کثرت سے تو بہ واستغفار کر اور اس سے صبر اور ثابت قدمی کا سوال کر ، اس کے سامنے کھڑارہ اس کے دامن رحمت سے لپٹارہ، اور اسی سے اس بلا سے نجات کا سوال کر ، اس کی مصلحت کے اظہار کے لئے اس سےعرض کر اگر تو نجات چاہتا ہے تو ایسےشیخ کی صحبت اختیار کر جوعلم الہی کا حکم جاننے والا ہوتا کہ تجھے علم بھی سکھائے اور ادب بھی، اور ان کا راستہ بتائے، مرید کے لئے رہبر اور ہادی کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایسے جنگل میں ہے جس میں بکثرت بچھو اور بڑے بڑے سانپ اور مصیبتیں اور پیاس ہے اور ہلاک کرنے والے درندے ہیں ۔ وہ ر ہبراسے ان آفتوں سے بچائے ،
اور اسے پانی اور پھل دار درختوں کی جگہ بتائے ۔ اگر وہ مر ید وحشیوں ، سانپوں، بچھوؤں اور مصیبتوں سے بھرے جنگل سےرہبر کے بغیر گزرے گا تو نقصان اٹھائے گا۔ اے رہ دنیا کے مسافر! قا فلے اور رہبر اور رفیقوں سے دور نہ ہو، ورنہ تیری جان اور مال کا نقصان ہوگا اے رہ آ خرت ‘ کے مسافر ہمیشہ مرشدر ہبر کے ساتھ رہ یہاں تک کہ تجھے منزل تک پہنچادے راہ میں اس کی خدمت کر اور حسن ادب سے پیش آ ۔ اس کی رائے کے خلاف نہ ہو ، وہ تجھے علم سکھا کر اللہ کے قریب کر دے گا، تیری شرافت اور سچائی اور دانائی دیکھ کرتجھے راستے میں اپنا قائم مقام کر دے گا ، راستے میں امیر اور راہ چلنے والوں کا حاکم بنادے گا ، اپنے لشکر کا خلیفہ و جانشین کر دے گا ، تو ہمیشہ اس حال پر رہے گا: وہ مرشد تجھے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں لا کر آپ کے سپرد کر دے گا ، آپ ﷺ کی مبارک آنکھیں تجھ سے ٹھنڈی ہوں گی ، پھر آپ ﷺ تجھے دلوں اور باطنوں اور احوال پر اپنا نائب بنادیں گے، چنانچہ اللہ اوراس کی مخلوق کے درمیان سفیر ہو جاؤ گے اورر سول اللہ ﷺ کے حضور میں آپ کا غلام بن کر رہو گے، کبھی خلقت کی طرف اور کبھی خالق کی طرف آتے جاتے رہو گے ،یہ انفرادیت خلوت نشینی اور صرف تمنا سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ وہ چیز جو سینے میں اپنا مقام بنا چکی ہو، اور عمل اس کی تصدیق کرے، سے حاصل ہوتی ہے،
اولیاءاللہ سب قبیلوں میں سے چنے ہوئے ہوتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں میں سے ایک ہی فرد ہوتا ہے جو اللہ کا کلام دلوں اور باطنوں سے سنتے ہیں ، اور اس سننے کی اپنے سب اعضاء کے اعمال سے تصدیق کرتے ہیں۔
اے جاہلو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، صدیقین اور سلف صالحین کے راستہ پر چلو ، اور ان کے سب اقوال وافعال میں ان کی پیروی کرو، منافقوں کے راستے پر نہ چلو جو دنیا کے طالب ہیں اور آخرت سے منہ موڑ نے والے ہیں، اللہ کی راہ کو چھوڑ نے والے ہیں، کہ جس پر پہلے لوگ تھے، یہ منافق دائیں بائیں اور پیچھے ہو گئے اور کاہلوں کی راہ تلاش کی ، اور اللہ کا راستہ جوصحیح راستہ تھا، جس پر پہلے لوگ تھے، اس راستے سے نہ گزرے۔
دنیا میں دنیا کے لئے جینے والے قیامت میں دکھائی نہ دیں گے :
اے بیٹا! یہ لوگ جن سے آج تو دنیا میں دنیا کے لئے ملتا ہے، قیامت کے دن تجھے دکھائی نہ دیں گے، تمہارے درمیان شناسائی نہ رہے گی ، تجھ میں اور تیرے برے دوستوں میں ، جن سے ماسوی اللہ کے لئے شناسائی رہی ، وہ شناسائی کیونکر رہے گی۔ اگر تو نے ضرور خلقت کے ساتھ ہی گزارنی ہے تو پرہیز گاروں، زاہدوں، عارفوں اور عاملوں کے ساتھ زندگی گزار ۔ جو کہ اللہ کے چاہنے والے اور اس کے طالب ومطلوب ہیں، ایسے فرد سے میل ملاقات رکھ جو :
تجھ سے خلقت کو لے اور خالق کو دے،تجھ سے گمراہی کو لے اور سیدھے راستے پر قائم کرے، تیری آنکھوں پر دنیا سے پٹی باندھے اور آخرت میں کھولے، تیرے آگے سے دنیا کا طباق اٹھالے اور اس کے بدلے آخرت کا طباق رکھے۔ تیرے پاؤں کا ننگا پن دور کر دے اور اس کے بدلے جوتا پہنائے ، سانپوں اور بچھوؤں اور درندوں کے درمیان سے اٹھا کرتجھے امن اور راحت اور خوشی کی جگہ پر بٹھادے، ایسے شخص سے میل جول کر جس میں یہ صفات ہوں ، اس کی کڑوی باتوں پر صبر کرے، اس کے امر ونہی کو قبول کر ایسے میں تجھے دنیا میں ہی بھائی مل جائے گی ، آخرت کا انتظار نہ کرنا پڑے گا۔ ایک گھٹری کے صبر کا نام ہی بہادری ہے، ثابت قدم رہ ، تجھ سے تو کچھ ہو نہیں سکتا اورتجھے حاجت بھی ہے، کشکول اور زنبیل خرید کر عمل کے دروازے پر بیٹھ جا، اگر تیرے مقدر میں کوئی کام ہے تو جلد ہی کام پر لگ جائے گا، سب کو اس کا حق ادا کر اور پختہ یقین سے عمل کے دروازے پر بیٹھ جا، فرض محال وہاں سے دوسرے مزدوروں کو لے جائیں اور تجھے نہ لے جائیں تو اپنی جگہ نہ چھوڑ ہمت سے بیٹھارہ حتی کہ تیری ہر ایک سے امید ٹوٹ جائے کہ اب کوئی تجھے کام پر نہ بلائے گا، تب تو اپنے نفس کوتوکل کے سمندر میں ڈال دے، سبب اور سبب والے کو جمع کر ، سکھانے والے کے سامنے حسن ادب سے پیش ہو، تیرے بولنے سے بڑھ کر تیری خاموشی ہو، اس سے تیری تعلیم کا اور معلم کے دل میں تیری قربت کا سبب بن جائے گا ، حسن ادب قریب کر دے گا اور بے ادبی دور کر دے گی حسن ادب سے تیراکیا واسطہ! جبکہ اہل ادب سے تو ملا ہی نہیں ہے تو کیسے کچھ سیکھ سکتا ہے جبکہ تو معلم سے راضی ہی نہیں اور نہ تیرا گمان اس میں نیک ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 350،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 186دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان