محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انچاسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع والاربعون فی فی اعطاء السائل والکرم‘‘ ہے۔
منعقده 21 شعبان 545 بروز جمعہ بمقام مدرسہ قادر یہ
خلقت کے مقابل اللہ کی موافقت کرو
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک سائل آیا۔ اس نے کھانے کی چیز کا سوال کیا۔ آپ کے ہاں دس انڈوں کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی ۔ آپ نے خادمہ سے فرمایا کہ سب انڈے سائل کو دے دے، اس نے اسے نوانڈے دے دیئے اور ایک چھپالیا۔ غروب آفتاب کا وقت ہوا تو کسی نے آپ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا ‘یہ ٹوکری لے جاؤ ،۔ آپ خوددروازے پر گئے اس سے ٹوکری لے کر دیکھا اس میں انڈے تھے، گنے تو وہ انڈے نوے نکلے، آپ نے خادمہ سے پوچھا: ’’ تو نے سائل کو کتنے انڈے دیئے تھے؟‘‘
اس نے بتایا کہ میں نے سائل کو نو انڈے دیئے تھے ، ایک آپ کے روزہ افطار کرنے کے لئے رکھ لیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
“تو نے ہمیں دس انڈوں کا نقصان دیا۔“ اولیاءاللہ کا اپنے رب کے ساتھ ایساہی معاملہ ہوتا ہے ۔ جو کچھ بھی قرآن وحدیث میں آیا ہے اس پر ایمان رکھتے تھے اور اس کی تصدیق کرتے تھے ۔ وہ قرآن کے بندے تھے، اپنی حرکات و سکنات اور اپنے لین دین میں شریعت کی ذرہ برابر بھی مخالفت نہیں کرتے تھے، ان کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ تھا ، اور اپنے معاملہ میں نفع حاصل کیا، اور اس پر ٹھہر گئے ، اپنے رب کا دروازہ کھلا دیکھ کر اس میں داخل ہو گئے جبکہ غیر کا دروازہ بند دیکھ کر اسے چھوڑ دیا ۔ غیر اللہ کے مقابلہ میں اللہ کی موافقت کی ، اللہ کے مقابلہ میں غیر اللہ کی موافقت نہ کی ، جس سے اللہ نے نفرت کی ، انہوں نے اس سے نفرت کی ، اور جس سے اللہ نے محبت کی ، انہوں نے اس سے محبت کی اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا کہ خلقت میں اللہ کی موافقت کرو اللہ کوخلقت کے موافق نہ بناؤ جسے تو ڑا ہے۔ ٹو ٹا رہنے دے، جسے جوڑا ہے جڑا رہنے دے۔ اولیاء اللہ ہمیشہ اللہ تعالی کے طرفدار ر ہے ہیں۔اپنے اور غیر کے مقابلے میں اس کی مد دکرتے رہیں، اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ہیں ، شریعت اور اللہ کی حدیں قائم کرنے میں کسی سے خوف نہیں کھاتے ہیں۔
اگر مصیبتیں اور آفتیں نہ ہوتیں تو سبھی عابد وزاہدہ بن جاتے :
اے بیٹا! جو ہوس تیرے اندر ہے اور جو ہوں تیرے اوپر مسلط ہے اسے چھوڑ دے اور اولیاء اللہ کی ان کے افعال واقوال میں ان کی تابع داری کر ، جن مقامات پر وہ پہنچے ہوئے ہیں، جھوٹے دعوے کر کے وہاں پہنچنے کی تمنا نہ کر, جیسے انہوں نے بلا پر صبر کیا ہے تو بھی صبر کر ۔ اگر مصیبتیں اور آفتیں نہ ہوتیں تو سبھی لوگ عابد وزاہد بن جاتے لیکن ان پر جب مصیبت آتی ہے تو اس پر صبر نہیں کرتے ، بلائیں دروازہ الہی اور ان کے درمیان حجاب ہو جاتی ہیں اور وہ محروم رہتے ہیں، جو بندہ اللہ کے لئے صبر نہ کرے اس کے لئے عطا نہیں ہے، جب رضا وصبر نہ ہوں گے تو یہ اس کی عبودیت سے تیرے نکل جانے کا سبب بن جائے گا۔ اللہ تعالی نے اپنی کسی کتاب میں ارشادفرمایا:
مَنْ لَمْ يَرْضَ بِقَضَائِي ولم يصبر على بلائي فليلتمس ربا سوائي۔ جو میری قضا پر راضی نہیں اور میری بلا پرصبر نہ کرے، اسے چاہئے کہ میرے سوا کوئی اور معبود بنالے ۔‘‘ غیر کو چھوڑ کر اس کے ساتھ قناعت وصبر کر تمہارے نصیب میں جو کچھ ہے نفع یا نقصان ہو ، وہ ہوکر رہے گا۔ اسلام میں پختہ عقیدہ اختیار کرو تا کہ تم ایمان تک پہنچ جاؤ، پھر ایمان کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ وتا کہ یقین تک پہنچو، اب تم وہ چیز یں دیکھ سکو گے جو اس سے پہلے نہ دیکھی تھیں ان سب چیزوں کی جیسی صورتیں ہیں یقیں تمہیں ویسی ہی دکھائے گا۔خبر مشاہدہ ہو جائے گی ،اور قلب کو اللہ کے حضور میں لے جا کر کھڑا کر دے گا ۔ دل جب اللہ کے دروازے پرٹھہرے گا تو اس کی طرف کرامت والا ہاتھ بڑھ کر کرم فرمائے گا۔ جواسے کریم وصاحب ایثار بنا دیا جائے گا۔ مخلوق پر سخاوت کرے گا ، ان پر کسی چیز کے بخل کو روانہ رکھے گا، وہ صحیح قلب جواللہ کے قابل ہو جاتا ہے، کرم والا ہو جا تا ہے، اسی طرح جو باطن کدورت سے صفا ہو جائے ، کرم والا ہو جاتا ہے ۔ دونوں قلب و باطن ایسے صاحب کرم وکریم کیوں نہ ہوں، اس لئے کہ ان پر سب کریموں سے کریم نے کرم کیا ہے۔
جو نعمت گناہ میں صرف ہو وہ زوال کا باعث ہے:
اے لوگو! تم کرم وایثار سخاوت و عطا میں اللہ کی اطاعت کرو، معصیت میں نہیں ۔ جو نعمت گناہ میں صرف ہو وہ زوال کا باعث ہے۔ تم اللہ کی فرماں برداری کرتے رہو، اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے تو حلال کمائی میں لگے رہو، تمہارے سب غم فکر اس کے سبب جمع ہو جائیں ، نہ کہ اس کے غیر کی معیت میں ، اب تمہارا رزق اللہ کے فضل وکرم کے طباق سے ہوگا ، ایسی جگہ سے کہ تمہیں اس کا علم ہوگا اور نہ کبھی خیال گزرا ہوگا ، خلقت کے لئے اللہ سے صرف نفس کا حجاب ہے، جب نفس درمیان سے ہٹ گیا تو حجاب بھی نہ رہا۔
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں میں اپنے رب کو دیکھا۔ میں نے عرض کیا کہ الہی! تیرے حضور میں پہنچنے کا راستہ کیسے لئے فرمایا:دع نفسك وتعال نفس کو چھوڑ کر چلے آ ؤ تو میں نفس سے اس طرح نکلا جیسے سانپ اپنی کینچلی سے نکلتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی نظر نفس پر ہے غیر پرنہیں، اس لئے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کونفس کے ترک کرنے کا امرفر مایا ،دنیا اور ما سواللہ سب کچھ نفس کے تابع ہے۔ دنیا نفس کے لئے ہے اوراس کی محبوبہ ہے، اور آخرت بھی اسی کی ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: ‘
وفيها ما تشتهيه الأنفس وتلذ الأعين . جنت میں ہر وہ شے موجود ہوگی جس کی نفس خواہش کرتے ہیں ، اور آنکھیں لذت پاتی ہیں ۔‘‘
حجاب در حجاب کا معاملہ ہے تیرے ساتھ:
کچھ توقف کرنے کے بعد آپ نے کلام فرمایا : اولیاء اللہ دن بھر مخلوق اور عیال کی مصلحتوں میں ہیں ، اور رات کو اپنے رب کی خدمت اور اس کے ساتھ خلوت میں ۔ اس طرح سے بادشاہ دن بھر غلاموں اور خداموں کے ساتھ لوگوں کی حاجت روائی میں رہتے ہیں ، جب رات آتی ہے تو اپنے وزیروں اور خاص لوگوں کی محفل لگاتے ہیں ۔ اللہ ہم پر رحم کرے، جو کچھ میں کہتا ہوں اسے دل کے کانوں سے سنو، اسے یاد کر کے اس پر عمل کرو، میں جو کچھ بھی کہتا ہوں حق ہی کہتا ہوں اور حق کی طرف سے کہتا ہوں، مجھے اللہ کے راستے کی کیفیت معلوم ہے تا کہ تم اس پر چل سکو ، میں صرف اس بات پر اکتفا کر نے والا نہیں کہ میری بات سن کر احسنت ( تم نے اچھا بیان کیا )کہہ دو، بلکہ اپنے دلوں کی زبان اپنے عملوں میں اخلاص پیدا کرو، یہاں تک کہ جب میں تمہاری یہ حالت دیکھوں تو کہوں: احسنتم (تم نے اچھا کیا) –
تو کب تک نفس اور دنیا اور آخرت اور مخلوق اور ماسوی اللہ سب کے ساتھ رہے گا۔ مخلوق تیرے نفس کا حجاب ہے، نفس تیرے دل کا حجاب ہے، دل تیرے باطن کا حجاب ہے، جب تک مخلوق کے ساتھ ہے اپنے نفس کو نہ دیکھ سکے گا، اگرمخلوق کو چھوڑ دے تو اپنے نفس کو دیکھنے لگے گا۔ وہ تجھے تیرے رب کا اور تیرا دشمن لگے گا اور تو ہمیشہ نفس سے لڑتار ہے گا، یہاں تک کہ نفس پروردگار کے ساتھ قرار پکڑ لے گا اور اس کے وعدے پر مطمئن ہو جائے گا ، اس کے عذاب سے ڈرے، اس کے امر کی تعمیل کرے، اس کی نہی سے منع رہے، اورتقدیرالہی سے موافقت کرنے لگے ۔ اس وقت تیرے قلب اور باطن کے حجاب دور ہوں گے، وہ دیکھیں گے جو پہلے نہ دیکھا تھا ، دونوں قلب و باطن اللہ کو پہچان لیں گے ، اس کومحبوب رکھیں گے، اس کے غیر کے ساتھ نہ ٹھہریں گے عارف باللہ کسی کے ساتھ نہیں ٹھہرتا، وہ تو ہرشے کے خالق کے ساتھ ہی ٹھہر تا ہے۔ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ۔ نہ کوئی چیز اسے اللہ سے روک سکتی ہے، اور محبوب کے لئے تو کوئی وجود ہی نہیں ، وہ تقدیرو علم الہی کی وادی میں گھومتا رہتا ہے۔ بحرعلم کی موجیں اسے اوپر نیچے کرتی رہتی ہیں۔ کبھی عالم بالا کی طرف بلند کرتی ہیں کبھی سطح زمین پراتارتی ہیں ۔ حالانکہ وہ غائب اور حیران ہے، بے سمجھ گونگا بہرا رہتا ہے۔ نہ غیراللہ کی سنتا ہے نہ غیر اللہ پر نظر ڈالتا ہے، وہ اللہ کے حضور بے جان ہے، اللہ جب چاہتا ہے اسے حیات بخشتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے وجود عطا کرتا ہے، اولیاء اللہ ہمیشہ قرب کے خیموں میں رہتے ہیں، جب حکم کی نوبت آئے تو حکم کےصحن میں ہو جاتے ہیں، اگر نکلنے کی نوبت آئے تو دروازے پر آ جاتے ہیں ۔ خلقت کے حالات معلوم کرتے ہیں ،خلقت اور خالق کے درمیان وسیلہ بن جاتے ہیں۔ میدان کے ظاہری حالات میں بعض احوال پوشیدہ رکھنا ہوتےہیں۔
دنیا وآخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو اللہ کے ساتھ صبر کرو
اے لوگو! یہ کیا بات ہے تم سراپا ہوس بنے ہوئے ہو، اپنا وقت بے فائدہ ضائع کر رہے ہو، دنیا وآخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو اللہ کے ساتھ صبر کرو۔ اگر اسلام کی حقیقت چاہتے ہوتو سرتسلیم جھکا دے، اس کی رضا پر راضی ہو جا، اگرقرب الہی چاہتا ہے تو اپنے آپ کو اس کے فعل اور تقدیر میں بلا چون و چرا پیش کر دے، اس طرح سے تجھے اللہ کا قرب حاصل ہو جائے گا۔ کسی چیز کو نہ چاہو کیونکہ تمہارا چاہنا صحیح نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ۔ تم نہیں چاہتے مگر اللہ چاہتا ہے۔ جب تیرا چاہنا پورا نہ ہو تو نہ چاہو، اللہ کے کاموں میں جھگڑا نہ کرو جب تیرا سامان اور مال و عافیت اور اولا دکولے لے، تیری ہتک عزت کرے، اس کے قضاء وقدر اور ارادے اور تبدیلی کے سامنے مسکراتا رہ، اگر قرب الہی اور صفائی کی طلب ہے تو اس حال پر قائم ہو جا۔ اگر دنیا میں اپنا دل اس تک پہنچانا چاہتے ہوتو اپناغم چھپاؤ بظاہرخوش رہوو لوگوں سے ہنستے مسکراتے اچھے اخلاص سے ملوجلو، کیونکہ مخلوق کے خالق کا خلق بہت اچھا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا:
المؤمنُ بِشْرُه في وَجْهه وحُزْنه في قلبه– مومن کا چہرہ مسکراتا ہوا ہوتا ہے جبکہ دل غم سے معمور “ کسی سے شکایت نہ کر، کیونکہ اگر اللہ کی شکایت کرے گا تو اس کی نظر سے گر جائے گا، اس کے باوجود تیری شکایت بدستور رہے گی، دور نہ ہوگی ، اپنے عملوں میں سے کسی عمل پر غرور نہ کر، کیونکہ خود پسندی عمل کو فاسد اور خود پسند کو برباد کر دیتی ہے ۔ جس کی توفیق الہی پر نظر ہوتی ہے، اس کا اپنے کسی عمل پر اترانا جا تا رہتا ہے۔ تو اپنا تمام مقصود اس کو بنا، اس حالت میں یقینا وہ اپنی رحمت تیری طرف متوجہ کر دے گا ، اور اپنے تک پہنچنے کے لئے تیرے لئے اسباب مہیا کر دے گا، اور جب تو اپنے اقوال وافعال میں جھوٹا ہوگا تو اللہ کو اپنا مقصود کل بنانے کی قدرت کہاں رکھے گا، خلقت سے تعریف کا طالب ، ان کی برائی سے خوفزدہ ، طالب الہی نہیں بن سکتا۔ اللہ کا راستہ اول تا آخرسچائی ہی سچائی ہے ۔ اولیاء اللہ کے لئے تو بلا کذب وبلا ظہور کے سراپا سچائی ہے ۔ ان کا اکثر اعمال ان کے اقوال سے بڑھ کرہوتے ہیں۔ مخلوق میں وہ اللہ کے نائب اور خلیفہ ہوتے ہیں ، اور اللہ کی زمین میں سردار اور کوتوال اور حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ وہ اس کے منفر دومنتخب بندے ہوتے ہیں۔
اے منافق! تیرا ان سے کیا جوڑ نسبت، ان کی تجھ میں کیا نشانی ہے تو ان میں نفاق سے داخل نہ ہو، ان کی صف سے دور ہی رہ، مقام ولایت محض ظاہری سج دھج اور صرف آرز و قیل وقال سے حاصل نہیں ہوسکتی، خود کو اس کا اہل ثابت کر۔ اللهم اجعلنا من الصادقين واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار ”اے اللہ! ہمیں اپنے سچے بندوں میں سے کر دے اور ہم کو دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔‘‘
قول عمل کے بغیر اورمل ،اخلاص کے بغیر مقبول نہیں:
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اولیاءاللہ کا نام لینے پر انکے حالات جان لینے سے ، ان کا سالباس پہن لینے سے، اور ان کی طرح باتیں کر لینا کافی نہیں ، ان کی مخالفت میں ایسا کرنا تجھے کچھ فائدہ نہ دے گا ، تو تو- بنا صفائی کے سراپا کدورت ،خلقت بنا خالق کے ،دنیا بغیر آخرت کے ،باطل بغیر حقیقت کے ظاہر، بغیر باطن کے-قول بغیر عمل کے،عمل بغیر اخلاص کے- اخلاص بغیر موافقت سنت کے ہے ۔ جس قول پرعمل نہ ہو ، اور جس عمل میں اخلاص نہ ہو،اللہ قبول نہیں فرماتا، اور جو کوئی بھی چیز جو اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق نہ ہو مقبول نہیں ہے۔ تیری یہ بناوٹ بغیر ثبوت کے دعوی ہے ، لہذا تیرا کچھ بھی قابل قبول نہیں ہے، اگر جھوٹ کے ساتھ تجھے خلقت میں قبولیت حاصل ہو جائے تو اللہ کے ہاں ہرگز قبول نہیں ،و ہ تو دلوں کے اندر کی باتیں جاننے والا ہے، تو اپنے کھوٹے سکے نہ پیش کر کیونکہ پڑتال کرنے والا صاحب عقل وصاحب علم ہے، وہ تیری صورت کی طرف نہیں بلکہ تیرے قلب کی طرف نظر کرتا ہے، وہ تیرے کپڑوں اور کھانوں اور ہڈیوں کی اندرونی حالت پر نظر رکھتا ہے، وہ تیری جلوت کو نہیں ، خلوت کو دیکھتا ہے، کیا اس بات سے تجھے شرم نہیں آتی کہ جو خلقت کے دیکھنے کی چیز ہے وہ زینت سے معمور ہے، اور جو خالق کے دیکھنے کی چیز ہے وہ نجس سے بھر پور ہے۔ اگر تو فلاح چاہتا ہے تو اپنے سب گناہوں سے توبہ کر ، اور توبہ بھی اخلاص سے کر ، خلقت کو اللہ کا شریک بنانے سے تو بہ کر کوئی بھی عمل اللہ کے سوا کسی اور کے لئے نہ کر ، میں تجھے سراپا خطا دیکھتا ہوں کیونکہ تو نفس اور خواہش اور دنیا اور شہوتوں اور لذتوں کے ساتھ ہے ۔ ایک مچھر تجھے غصے میں ڈال دیتا ہے اور ایک نوالہ تجھے غضب ناک کر دیتا ہے تونفس کی خوشی سے خوش اور نفس کی ناراضی سے ناراض ہوتا ہے،تو نفس کا بندہ ہے، تیری باگ اس کے ہاتھ میں ہے، تجھے ان خاصان خدا سے کیا نسبت، جن کی بندگی خدا کے لئے ہے، اور اس کی رضا میں راضی رہتے ہیں، ان پر آفتیں نازل ہوتی ہیں ، وہ مضبوط پہاڑوں کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں، مصیبتیں ان کی طرف اور ان پر اترتی رہتی ہیں، اور وہ صبر وموافقت کی نگاہ سے انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔انہوں نے جسموں کو بلاؤں کے لئے چھوڑ دیا اور خود دلوں کے ساتھ اللہ کی طرف پرواز کر گئے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے رہنے والوں کے بغیر خیمے اور پرندوں کے بغیر پنجرے خالی ہیں ، ان کی روحیں اللہ کے پاس ہیں اور جسم اللہ کے سامنے ہیں ۔
اے اپنے رب سے منہ موڑ نے والو! — اے خدا سے وحشت کرنے والو! – میرے پاس آؤ، میں اس کے اور تمہارے بیچ میں اصلاح کر دوں ، اس سے تمہارے لئے سوال کروں تمہیں اس سے امن دلاؤں ۔ اس کے سامنے انکساری کروں تا کہ تم پر اس کے جوحق ہیں، وہ بخش دے۔
اللهم ردنا إليك وأوقضنا على بابك اجعلنالك وفيك ومعك إرضبنا بخدمتك إجعل أخذنا وعطاء نالك طهـر بـواطـنـتـا عن غيرك لا ترنا حيث نهيتنا لا تفقدنا حيث أمرتنا لا تجعل ظـواهـرنـا في معاصيك و بواطننا في الشرك بك خذنا من نفوسنا إليك إجعل كلنا لك اغبياء يك عـن غيـرك تـهـنـا مـن العقلة عنك أردنا بطاعتك و مناجاتك لذذ قلوبنا واشرارتا بقربك أجل بيننا و بين معاصيك كما أخلت بين السماء والأرض وقربنا إلى طاعتك كما قربت بين سواد العين و بيـاضـهـا أحـل بيـنـنـا وبيـن مـا تكرهه كما أخلت بين يوسف و زليخا في تعصيتك
”اے اللہ! ہمیں اپنی طرف واپس بلا ، اور ہمیں اپنے دروازے پر کھڑا کر، تو ہمیں اپنا بنا لے اور اپنی خدمت میں لے لے، اور اپنی معیت میں رکھ اور اپنی خدمت گزاری میں رکھ اور ہم سے راضی رہ – ہمارا لین دین اپنے لئے کر ، ہمارے باطن غیر سے پاک کر، جہاں کے لئے منع کیا ہے وہاں ہمیں نہ د یکھ، اور جہاں رہنے کا تو نے حکم کیا ہے وہاں سے ہمیں غائب نہ دیکھ ہمارے ظاہرکو گناہوں سے اور باطن کو شرک سے آلودہ نہ کر، ہمارے نفسوں سے ہمیں الگ کر کے اپنی طرف بلا، ہمیں غیر سے علیحدہ کر کے اپنے ساتھ غنی کر ،غفلت سے بیدار کر، تیری طاعت و مناجات کا ارادہ کریں اپنے قرب سے ہمارے دلوں اور باطنوں کولذت عنایت کر ہم میں اور ہمارے گناہوں میں دوری کر جیسے تو نے آسمان وزمین کے درمیان دوری کی ہے ، ہمیں اپنی طاعت کے قریب کر جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی کو قریب کیا ہے، اپنے ناپسندیدہ کاموں اور ہمارے بیچ میں حائل ہو جا جیسے کہ تو نے حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کو گناہ سے بچانے کے لئے ایک کو دوسرے سے دورکر دیا۔“
اس دعا کے بعد حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا: اے لوگو! اپنے نفسوں اور خواہشوں اور عادتوں کو دائمی روزے، دائمی نماز اور دائمی صبر سے گلا ڈالو، بندہ جب اپنے نفس ،خواہش اور عادت کو صحیح طرح سے گلا ڈالے تو وہ اور اس کا مولی مزاحمت کے بغیر باقی رہ جاتے ہیں ۔ دل اور باطن اور مولی باقی رہ گئے اورتنگی کے بغیر وسعت اور بے چارگی کے بغیر عافیت ہی باقی رہ جاتی ہے، عقل سے کام لواور علم سیکھو، اور اخلاص کے ساتھ عمل کرو۔ علم سیکھو اور اس پر عمل بھی کرواے بیٹا پہلے خلقت سے سیکھ پھر خالق سے ، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
من عمل بما يعلم أورثه الله علم ما لم يعلم لا بد من التعلم جواپنے علم پرعمل کرے اللہ اسے ایسا علم بتا تا ہے جسے وہ نہیں جانتا۔‘‘ حکم شرعی یہ ہے کہ پہلے خلقت سے علم سیکھے یہ لازم ہے، اس کے بعد خالق سے علم سیکھے جوعلم لدنی ہے، وہ علم دلوں سے خاص ہے، وہ راز کہ باطنوں سے خاص ہے ، استاد کے بغیر تو کسی علم کے سیکھ لینے پر کیسے قادر ہوسکتا ہے۔ تو حکمت کے گھر میں ہے، علم طلب کر علم کا طلب کرنا فرض ہے نے ارشادفرمایا:
أطلبوا العلم ولو كان بالصين – علم کو طلب کر واگر چہ وہ ملک چین میں ہو ۔‘‘
کامل مشائخ کی صحبت سے دنیا نہیں آخرت مقصود ہوتی ہے:
اے بیٹا! اس شخص کی صحبت اختیار کر جو تیرے نفس کے جہاد پر مددکرے،ایسے شخص سے نہ مل جو تیرے مقابلے میں نفس کی مدد کرے، ۔ اگر تم جاہل اور منافق نفس و عادت والے پیر کی صحبت میں رہو گے تو تیرے مقابل تیرے نفس کا مدد کرنے والا ہوگا ، کامل مشائخ کی صحبت سے دنیا نہیں آخرت مقصود ہوتی ہے ، اگر کوئی شیخ خواہش و عادت کا پیرو ہوگا تو اس کی مصاحبت دنیا کے لئے ہوگی ، ۔ اگر کوئی شیخ صاحب قلب ہو گا تو اس کی مصاحبت آخرت کے لئے ہوگی ، اگر کوئی شیخ صاحب باطن ہوگا تو اس کی مصاحبت مولی کے لئے ہوگی۔ اے مشیخت وصدارت کا جھوٹا دعوی کرنے والے! ۔ مرشدان کامل سے جواپنے احوال میں مخلص ہیں، سے مزاحمت کرنے والے جب تک تو دنیا اور نفس اور حرص کی کی طلب میں رہے گا توایک بچے کی طرح ہے یہ صرف عادت ہے ایسا نفس بہت ہی کمیاب ہے جو دنیا سے منہ موڑ لے، اور کسی بے چینی کے بغیر اختیار رکھتے ہوئے چھوڑ دے، کیا کوئی نفس مطمئن ہو کر قلب کی طرح ہوسکتا ہے، ایسا ہونا تو بہت ہی شاذ و نادر ہے۔ نفس کے حق میں یہ مقام تب صحیح ہے کہ جب دنیا و آخرت اور ماسوی اللہ سے اندھا ہو جائے ۔ بندہ اللہ کے جس قدر قریب ہوگا، اسی قد راندیشہ اور خطرہ اور خوف محسوس کرے گا، اس لئے لوگ بادشاہ کی نسبت وزیر سے زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں، کیونکہ بادشاہ کی نسبت وزیران سے زیادہ نزدیک ہے، اخلاص کے بغیر مؤمن خدا تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ بڑے خطرے میں گھر جا تا ہے۔اولیاء کرام بڑے خطرے میں پڑے رہتے ہیں ، انہیں خوف سے اس وقت تک سکون نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالی سے ملاقات نہ کر لیں ۔ جس نے اللہ کو پہچان لیا اس کا خوف اور زیادہ ہوگیا ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
أَنَا أُعْرَفُكُمْ بِاَللَّهِ وَأَشَدُّكُمْ لَهُ خَشْيَةً” میں تم سے زیادہ اللہ کو پہچاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہوں ۔‘‘
اللہ اپنے دوستوں کو پرکھتارہتا ہے تا کہ انہیں صفائی عنایت کرے، وہ ہمیشہ تغیر وتبدل سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ڈرتے ہیں اگر چہ امن کی حالت میں ہوں ، کانپتے ہیں اگر چہ انہیں سکون عطا فر مایا گیا ہو۔ اپنے نفسوں پر ایک ذرے اور رائی کے ایک دانے ، اور ذراسی غفلت اور غیر کی طرف تھوڑی سی توجہ پر بھی جھگڑتے رہتے ہیں ، جب جس قدر انہیں سکون ملتا ہے، اس قدر پرواز کرتے ہیں۔ جس قدر انہیں تونگری عطا ہوتی ہے ،اتنے ہی محتاج ہوتے ہیں ۔جس قدر انہیں امن بخشتا ہے، اتنے ہی خوف سے دوچار ہوتے ہیں جس قدران پر اللہ کی عطا ہوتی ہے، اس قدر رکتے ہیں، ۔جس قدروہ انہیں ہنساتا ہے،اس قد روہ روتے ہیں ، جس قدر انہیں خوش کرتا ہے ،اس قدرغمگین ہوتے ہیں ، دوسروں کی حالت پلٹ جانے سے اور انجام کارخراب ہونے سے ڈرتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ اللہ کے کسی کام بارے میں سوال نہ کیا جائے ، ارشاد باری تعالی ہے: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ. “جو کچھ وہ کرتا ہے نہ پوچھا جائے گا، ان سے پوچھا جائے گا جو وہ کرتے ہیں۔
تواے غافل! گناہ و مخالفت کر کے حق سے مقابلہ کرتا ہے اور پھر بے خوف ہے، عنقریب تیرا اس خوف سے – تیری وسعت تنگی سے،- تیری عافیت بیماری سے، تیری عزت ذلت سے تیری بلندی پستی سے تیری تو نگری محتاجی سے بدل جائے گی ، یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لے کہ بروز قیامت اللہ کے عذاب سے تیرا امن، دنیا میں تیرے خوف کے اندازے پر ہوگا، اور آخرت میں خوف ، دنیا میں امن کے اندازے پر ہوگا، لیکن تم تو دنیا کے دریا میں ڈبکیاں لگا رہے ہو، غفلت کے کنوئیں میں بے حس وحرکت پڑے ہو، ۔ یہی وجہ ہے کہ تمہارا جینا بالکل چوپایوں کے جینے کی طرح ہے، کھانے پینے ، نکاح اور سونے کے علاوہ تمہیں کچھ نہیں معلوم ، اولیاء اللہ پر تمہارے سب احوال کھلے ہیں ، دنیا اور اس کے جمع کرنے اور رزق طلب کرنے کی ہوس نے تجھے اللہ کے راستے اور اس کے دروازے سے روک رکھا ہے۔ اے حرص کے ہاتھوں رسوا ہونے والے! سب دنیا والے اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ جو چیز تیرے نصیب میں نہیں ہے ۔ تیرے لئے حاصل کرسکیں گے۔
چنانچہ جو نصیب میں ہے، اور جو نصیب میں نہیں ہے اسے طلب کرنا چھوڑ دے، ایک سمجھ دار کے لئے یہ بات کیسے بہتر ہو سکتی ہے کہ وہ اپناوقت ایسی چیز کے لئے ضائع کرے کہ جس سے اللہ فارغ ہو چکا ہے تو اپنے دل سے خلقت کو بالکل نکال دے نفع و نقصان ، لین دین، تعریف و برائی ،عزت و ذلت ،اقبال واد بار میں خلقت کی طرف نہ دیکھ، اعتقاد رکھ کہ نفع و نقصان اللہ کی طرف سے ہے، اور نیکی وبدی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، جو خلقت کے ذریعے عمل میں لاتا ہے، جب تجھے اس کا یقین محکم ہو جائے تو تو مخلوق اور خالق کے بیچ میں سفیر ہو جائے گا ، اورمخلوق کے ہاتھ پکڑ کر اللہ کے دروازے پر لائے گا۔ انہیں خیال کر کہ تیری طرف سے وہ معدوم اور لاپتہ ہیں۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے جنہیں جہالت کی آنکھ سے دیکھے گا۔ ان کا علاج وغیرہ کرے گا اور ان کے تکلیف پہنچانے پرصبر سے کام لے گا۔ اپنے پروردگار کی فرماں برداری کرنے والے اہل علم ہی عقل والے ہیں، اور اللہ کے نافرمان ، جاہل ودیوانے ہیں ، ۔ گناہ گار نے اپنے پروردگار کی پہچان نہ کی ، اس لئے اس کا نافرمان ہوا ، اگر وہ اللہ سے جاہل نہ ہوتا تو ہرگز اس کی نافرمانی نہ کرتا ، اگر وہ اپنے نفس کو پہچانتا اور جانتا کہ وہ برائی کی طرف لے جانے والا ہے، تو کبھی اس کی موافقت نہ کرتا۔ میں نے تجھے شیطان اور اس کے چیلوں سے کس قدر ڈ رایا ہے، کہ تو اس کی صحبت اختیار نہ کر ، اس کی بات نہ مان – شیطان کے چیلوں میں نفس اور دنیا اورخواہشیں اور عادتیں اور برے ہم نشیں شامل ہیں ۔ تو ان سب سے بچ کے رہو کیونکہ یہ سب تیرے دشمن ہیں ، اللہ کے سوا تیرا چاہنے والا کوئی نہیں ۔ کیونکہ وہ تجھے صرف تیرے لئے چاہتا ہے۔ جبکہ غیر تجھے اپنے لئے چاہتا ہے ۔ جب تو اپنے نفس کو خلوت میں گم کر دے اور طالبوں کے ساتھ طلب کرے تو تیری خلوت و تنہائی اللہ سے مانوس ہوگی ، جب تو
اپنے نفس کو دنیا کے ساتھ ، – دل کو آخرت کے ساتھ ، اور باطن کو مولی تعالی کے ساتھ چھوڑ دے گا، اس وقت تیری خلوت اللہ کے ساتھ مانوس ہوگی ، لیکن جب تک نفس اور غیر کا وجود تیرے نزدیک رہے گا تو خلوت نہ پا سکے گا، تیراخلوت اختیار کرنا بے کار ہوگا ۔ اللہ کی معیت میں خلوت جب ہوسکتی ہے جب اس کے غیر سے مکمل طور پر قطع تعلق ہو، تو اسے جب ہی پاسکتا ہے جب اس کے غیر سے بغض رکھنے لگے ، کب صفا ہوگا کہ صفا اور اہل صفا کو دیکھے ، کب صدق کرے گا کہ صدق اور اہل صدق کو دیکھے ، کب مخلص ہوگا کہ اللہ کا دروازہ دیکھے اور اہل اللہ کے ہمراہ رہے جب اپنے حال کو ثابت کرے گا تو مردان خدا دکھائی دیں گے، جب تو بادشاہ کے دروازے پر پہنچے گا تو اس کے خدمت گزار اور وہاں کے رہنے والے دیکھے گا ، تو نے شاہی دروازہ ابھی دیکھا نہیں ، پھر تجھے اس کے نوکر چاکر کیسے دکھائی دیتے۔ تیری بات کا کوئی اعتبار نہیں جب تک کہ تو اس کے دروازے کو نہ دیکھ لے گا تجھے اس کے غلام کیسے دکھائی دیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کا دیدار نہ کرے ۔ اب سچ تجھے اٹھائے گا اور آگے بڑھائے گا اور بیدار کرے گا ۔ جبکہ جھوٹ تجھے واپس بھی کر دے گا اور غافل بھی، سچوں کے ساتھ ہو جا تا کہ جو معاملہ ان کے ساتھ ہوا ہے تیرے ساتھ بھی ہو، تو اپنے اقوال اور افعال میں سچ کو اپنا، اور سب احوال میں صبر سے کام لے، صدق کیا ہے۔ اللہ کو ایک جاننا، اخلاص اختیار کرنا ،اللہ پر توکل کرنا۔ توکل کی حقیقت یہ ہے کہ اسباب، احباب اور ارباب سے ناطہ توڑ لینا، اور قلب و باطن کی حیثیت سے اپنی طاقت اور قوت سے الگ اور دور ہو جانا ، اگر اس سے ملنا چاہتے ہو تو غیر سے ملنا چھوڑ دے، اپنے آپ اور غیر سے منہ موڑ لے، ہر حادث شے سے اعراض کرتا کہ اس کے خالق تک پہنچ سکے۔ جب تک تو اپنے اور ان کے ساتھ ہے، تیرے لئے فلاح نہیں، قرب الہی کے لئے بھیڑ بھاڑ قابل برداشت نہیں، وہ یکجائی چاہتا ہے،تم میں سے لاکھوں کروڑوں میں سے قیامت تک کوئی ایک آدھ ہی میری بات کو سمجھنے والا ہوگا اور اس پرعمل کر یگا۔ تم لوگ تو محض برکت کے لئے حاضر ہوتے ہو۔
میں تو دنیاو آخرت میں تمہارے لئے بھلائی کا امیدوار ہوں، دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے، جب اپنے قید خانے کو بھولتاہے تو اسے وسعت محسوس ہوتی ہے۔ مومن قید خانے میں ہیں اور عارف مستی و مد ہوشی میں قید خانے سے غائب ہیں ، اللہ تعالی نے انہیں
– اپنے شوق کی شراب،اپنی طلب کی شراب، اپنے انس کی شراب مخلوق سے غفلت کی شراب ، اور اپنے ساتھ بیداری کی شراب پلائی ہے ۔ اللہ نے یہ شرابیں جب انہیں پلا دیں، وہ خلقت سے الگ ہو گئے ، اور اللہ کی معیت میں مدہوش ہو گئے ، قید خانے اور قیدیوں سے غائب ہیں ۔ان کی جنت اور جہنم ان کے لئے دنیا میں ہی بنادی گئی، اللہ سے جھگڑا اور اس کی مخالفت ان کے لئے دوزخ ہے ، اس کی رضا میں راضی رہنا ان کی جنت ہے ۔
– اللہ سے غفلت ان کے لئے دوزخ ہے، بیداری ان کی جنت ہے ۔ عوام کے حق میں قیامت حساب و کتاب کا نام ہے، خواص کے حق میں قیامت مشاہدہ وعتاب کا نام ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو۔ حالانکہ انہوں نے دنیا میں ہی اپنے نفسوں پر قیامت کو قائم کرلیا ہے۔ پٹنے سے پہلے ہی رو چکے ہیں، پہلے سے رولینا پٹائی والے دن فائدہ دے گا۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے خواب میں پوچھا:
’’اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔‘‘
آپ نے فرمایا: اپنے رو برو کھڑا کر کے مجھے فرمایا: اے سفیان! کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میں بخشنے والا مہربان ہوں۔ تو پھر بھی میرے خوف سے بکثرت روتارہا۔ کیا تجھے مجھ سے شرم نہ آئی۔‘‘
تو اپنی عادت اور حرص اور شیطان کو چھوڑ دے اور ان کی طرف مائل نہ ہو، جب یہ ثابت ہو جائے تو اپنے اور برے دوستوں کے درمیان عدادت قائم کر اور جب تک وہ تجھ سے موافقت نہ کر یں تو ان سے دوستی نہ کر ۔
تو بہ دولت کا کایا پلٹ ہے، جس بندے نے توبہ کی اور توبہ سے پہلی حالت کو نہ بدلا تو وہ شخص اپنی توبہ میں جھوٹا ہے ۔ جب تو بدلے گا تو تجھ پر تبدیلی کی جائے گی ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ”بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔“
دنیا میں کسی پرظلم نہ کر کیونکہ آخرت میں پوچھ گچھ کی جائے گی ، دنیا میں عدل کرتا کہ تجھے جنت کے راستہ سے دور نہ کردے، ظالموں نے جب عدل کو چھوڑ دیا تو اہل عدل کے طریق سے عدل کیا گیا اور انہیں جنت کے راستہ سے دور کر دیا گیا جو کہ عدل والوں کا گھر ہے، تو ہر چیز کو اس کی جگہ پر چھوڑ دے تا کہ تجھے اللہ کے قریب جگہ ملے۔ یہ آخر زمانہ ہے۔ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے خود کو بدل لیا ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کی طرف سے نہ کچھ ایسا بدل دیا جائے ، لازم ہے کہ چیزوں میں تبدیلی آئے لیکن بعض کے حال چھپا کے رکھے جاتے ہیں، اے اللہ کی مخلوق ، میں تمہاری بہتری اور نفع کا طالب ہوں ۔ میری تمنا ہے کہ۔ دوزخ کے دروازے بند ہو جائیں یا بالکل مٹ جائے ، اور یہ کہ اللہ کی خلقت میں سے کوئی نہ اس میں جائے ، جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں ، اور یہ کہ خلقت میں سے کسی کو بھی نہ روکا جائے ، میری یہ آ رزواس لئے ہے کہ اللہ کی اپنی خلقت پر جورحمت وشفقت ہے، مجھے اس کے بارے میں پتہ چل گیا ہے ۔ میرا وعظ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے دلوں کی اصلاح اور تہذیب ہو جائے ۔ وعظ و تقریر میں الٹ پھیر کرنا میرے پیش نظر نہیں۔ میری سخت کلامی سے نہ بھاگو، میری پرورش اور تربیت کرنے والے ایسے لوگ تھے جو اللہ کے دین کے معاملے میں بہت سخت تھے، میرا کلام بھی سخت ہے اور میرا طعام بھی بے مزہ ہے ، جوکوئی میرے سے اور میرے جیسوں سے بھاگے گا فلاح نہ پائے گا۔ اگر دین کے حوالے سے گستاخی کرے گا میں تجھے نہ چھوڑ دوں گا اورنہ ہی کہوں گا کہ یوں کر مجھے اس کی پروا نہیں کہ تو میرے پاس آئے یا نہ آئے ۔ میں اللہ سے قوت کا طالب ہوں تم سے نہیں تمہارے حساب اور شمار سے مجھے کچھ غرض نہیں ، میں جس حال میں ہوں اسے منہ کی زبان سے نہیں بیان کیا جاسکتا، صرف دل کی زبان سے بیان ہوسکتا ہے۔ میرا دھیان دائیں بائیں اور پیچھے کو نہیں ہوتا صرف سامنے ہوتا ہے ۔ میں بغیر کمر کے سینہ ہوں۔ میں نبیوں رسولوں اور سلف صالحین کا پیروکار ہوں ، میری ساری دوڑ قرب الہی کے دروازے کی طرف انہی کے دم سے ہے، اپنے گناہوں اور بے ادبی سے توبہ کرو، میں اس توبہ سے تمہارے دلوں کی زمین میں بیج بو رہا ہوں، یہ ایک عمارت کی بنیاد بنانے والی بات ہے، میں شیطان کی عمارت گرا کر رحمان کی عمارت بنارہا ہوں ، اور تمہیں تمہارے مولی اور رب کے ساتھ ملا رہا ہوں ۔ میں چھلکے کی بجائے مغز کے ساتھ قائم ہوں بظاہر یہ ایک چھلکا ہے مگر میں اس کی پرورش میں مشقت نہیں اٹھانا چاہتا، میں تو تمہارے مغز کی پرورش کرتا ہوں ، اور تمہارے چھلکے دور کرتا ہوں ۔ میں تمہاری پرورش کرتا رہوں گا تا کہ تمہاری وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
جو کچھ رسول عطافرمائیں لے لو، جس سے منع منع رہو:
اے لوگو! دنیا کے لئے میری صحبت میں نہ بیٹھو بلکہ صرف آخرت کے لئے ۔ جب میرے ساتھ تمہاری محبت آخرت کے لئے صحیح ہو جائے گی توضمنی اور عارضی طور پر دنیا بھی مل جائے گی ، تم زہد اختیار کرتے ہوئے اسے حسب ضرورت بے رغبتی کے ساتھ لو گے، اس کے لئے میں تمہارا ضامن ہوں کہ تم سے دنیا کا حساب نہیں لیا جائے گا ، تم آخرت کود نیا پر باطن کو ظاہر پر حق کو باطل پر ، باقی کوفانی پرمقدم رکھو، پہلے ترک کرو پھر حاصل کرو ، عادت اور خواہش اور نفس کے ہاتھوں سے لینا چھوڑ دو بلکہ دل اور باطن کے ہاتھ سے لو، خلقت کے ہاتھ سے لینا چھوڑ دو، اور خالق کے ہاتھ سے لینے کی عادت ڈالو، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت وفرماں برداری کرو، اور جو کچھ امرونہی فرمائیں اسے قبول کرو، ارشاد باری تعالی ہے: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا جو کچھ رسول دیں ، اسے لےلو ،اور جس چیز سے منع کر یں ، اس سے باز رہو۔“
اللہ ورسول ﷺ کے امر کے وقت درندے بن جاؤ اور ان کی نہی کے وقت بیمار ولاچار ہو جاؤ قضاوقدر کے آنے پر مردہ بن جاؤ ، سر جھکا دو، اور اس کے ساتھ ہی لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آؤ، اللہ سے اپنے لئے وہ چیز نہ مانگو جو اس کے علم کے خلاف ہو، اور اپنے اور دوسروں کے لئے اس کے احکام قضاوقدر کی موافقت کرو۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمَ قَالَ لَهُ: اكْتُبْ، فَجَرَى بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ
جب اللہ تعالی نے قلم کو پیدا فرمایا تو ارشادفرمایا اے قلم لکھ۔ قلم نے عرض کیا: ’مولی کیا لکھوں؟ ۔ فرمایا: ‘خلقت کے بارے میں قیامت تک میرے جوحکم ہیں ،سب لکھ دے۔‘‘
اے دلوں کے مردو ! نفسوں کے ساتھ زندہ رہنے والو! تمہارے دل مر گئے ، ان کی مصیبت میں رہنے کی بجائے تم لوگوں کی مصیبت کی طرف متوجہ ہو، دلوں کی موت کیا ہے: اللہ اور اس کے ذکر سے غافل ہو جانا! جو بندہ اپنے دل کو زندہ کرنا چاہتا ہے، وہ دل کو ذکر الہی میں لگا دے، اور اس کے انس کے لئے شوکت و حکومت اور خلقت میں تصرفات کرنے میں توجہ کے لئے متوجہ کر دے۔ اے بیٹا! اللہ کا ذکر پہلے دل سے کر پھر جسم سے کر، پھر دل سے ہزار بار اور زباں سے ایک بارکر، اس کا ذکر : -آفتوں کے آنے کے وقت صبر کے ساتھ، دنیا کے آنے کے وقت ترک کے ساتھ ، آخرت کے آنے کے وقت قبول کے ساتھ ،حق کے آنے کے وقت توحید کے ساتھ ، غیر کے آنے کے وقت اعراض کے ساتھ کر، اگر تو اپنے نفس کی لگام کو ڈھیلی کرے گا تو وہ تجھے لالچ دلائے گا اور مجھے گرا دے گا۔ چنانچہ اسے تقوی کی لگام سے قابو کر، اور فضول کی قیل و قال کو چھوڑ دے ۔
موت کا ذکر تیرے دل کو صفا کرے گا ، اور دنیا کو تیرامبغوض بنا دے گا – تیرے دل سے حجاب اٹھا دے گا ، چنانچہ تو خلقت کوفانی ،مردہ ، ہلاک شدہ اور عاجز پائے گا کہ ان میں نہ تو کوئی فائدہ ہے نہ کوئی خسارہ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 330،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 178دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان