محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع والثلاثون فی حب الاولیاء والصالحین‘‘ ہے۔
منعقدہ 12 رجب 545 بروز جمعہ بوقت صبح ، بمقام خانقاہ شریف
دنیا وآخرت کی بادشاہی کے لئے خود کو اللہ کے سپرد کر دے:
اگر تو دنیاو آخرت کا مالک بننا چاہتا ہے تو اپنا سب کچھ اللہ کے سپردکر دے ۔ اس طرح تو امیر بھی ہو جائے گا اوراپنےنفس اور غیر پر حاکم بھی ہو جائے گا، میں تجھے نصیحت کر رہا ہوں، میری نصیحت کو مان لے۔ میں سچ کہہ رہا ہوں، میری بات کی تصدیق کر۔ جب تو جھوٹ بولے اور دوسروں کو جھٹلائے تو تجھے جھٹلایا جائے گا، – جب تو سچ بولے اور دوسروں کو سچا جانے توتو سچا ٹھہرے گا ، اور تجھ سے سچ کہا جائے گا۔ تو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا۔
اپنے دین کے مرض کی دوا مجھ سے لو اور استعمال کر و صحت و تندرستی ہو جائے گی ۔ اگلے لوگ اولیاء اللہ اور صالحین کی جستجو میں مشرق تا مغرب سفر میں رہتے ، یہی لوگ دلوں اور دین کے طبیب ہیں ، ان میں سے جب کوئی مل جاتا تو اس سے اپنے دینوں کی دواطلب کرتے تھے۔ آج تمہارا حال یہ ہے کہ فقہاء، علماء اور اولیاء اللہ سے جو ادب اور علم سکھانے والے ہیں۔ ان سے دور بھاگتے ہو، ۔ ایسی حالت میں تمہارے ہاتھ دوانہ لگے گئی ، میر اعلم اور میری طب تمہیں کیا فائدہ دیں گے، میں تو ہر روز تیرے لئے ایک بنیاد بنا تا ہوں ، اور تو اسے گرا دیتا ہے ، مسلسل تیرے مرض کی دوا تجویز کرتا ہوں مگر تو اسے استعمال میں نہیں لاتا، تجھے منع کرتا ہوں کہ یہ لقمہ نہ کھا، اس میں زہر ہے، وہ نوالہ لے اس میں شفا ہے، لیکن تو میری مخالفت کر کے وہی لقمہ کھاتا ہے جسے کھانے سے منع کرتا ہوں جلد ہی تیرے دین وایمان کی عمارت میں اس کا زہر یلا اثر کرتا ظاہر ہوگا ۔ میں تجھےسمجھاتار ہوں گا، تیری تلوار کی مجھے کچھ پرواہ ہیں ، نہ ہی تیرے سونے کے ہدیہ کی حاجت ہے۔ جسے اللہ کا ساتھ میسر ہو ، وہ کسی سے کسی بھی حالت میں بالکل نہیں گھبراتا ، نہ جنوں سے نہ انسانوں سے ، نہ زمین کے کیڑوں مکوڑوں سے، نہ ہی درندوں اور زہریلے جانوروں سے، مخلوقات میں سے کسی چیز سے مشائخ کرام جو عالمان با عمل ہیں، کو حقیر مت جانو تم اللہ تعالی اور اس کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں سےواقفیت نہیں رکھتے جو ۔
اللہ کی معیت میں رہنے والے ہیں ، اس کے افعال سے راضی رہنے والے ہیں ،ہر طرح کی سلامتی اس کی رضا میں راضی رہنے، اپنی آرزوکوکوتاہ کرنے اور دنیا سے بے رغبت رہنے میں ہے، جب تم اپنے نفس میں ایمان کی کمزوری پاؤ تواپنی امیدیں کوتاہ کر دو اور موت کی یاد میں رہو ۔
اللہ کے قریب کیسے ہوا جائے ، اس کا محبوب کیسے بنا جائے :
رسول اکرم ﷺ نے حدیث قدسی بیان فرماتے ہوئے ارشادفرمایا: ارشاد باری تعالی ہے: مـا تـقـرب الـمتـقـربـون إلى بأفضل من أداء ما فترضت عليهم ولا يزال عبدي يتقرب إلى بـالـنـوافـل حتى أحبه فإذا أحبته كنت له سمعا وبصرا ويدا وموء يدا فبي يسمع وبي يبصروبي يبطش يبصر جميع افعاله “میرا قرب حاصل کرنے والوں نے فرضوں کو اچھی طرح سے ادا کر کے میری قربت حاصل کی ، میرا ( خالص ) ، بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں ، جب اسے محبوب بنالیتا ہوں تو اس کے کان ، آنکھ اور ہاتھ اور مددگار ہو جاتا ہوں ۔ چنانچہ وہ میرے ساتھ سنتا ہے، میرے ساتھ دیکھتا ہے اور میرے ساتھ پکڑتا ہے، وہ اپنے سب کاموں کو اللہ ہی سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ اللہ ہی کی مدد سے اپنی سب طاقت اور قوت اور نفس اور غیر کے دیکھنے سے نکل جاتا ہے ۔ اس کی تمام حرکتیں اور طاقت اور قوت نہ اپنے نفس سے ہوتی ہیں اور نہ ہی خلقت سے، بلکہ اللہ کے ساتھ ہوتی ہیں، وہ اپنے نفس اور دنیا اور آخرت سے مکمل طور پر الگ ہو جاتا ہے ۔ وہ جسم طاعت بن جا تا ہے ۔اور طاعت سے اس سے قریب ہو جا تا ہے ۔ اس کی طاعت اس کے لئے محبت الہی کا سبب بن جاتی ہے ۔ طاعت کے سبب سے اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے، اور قرب عطا کرتا ہے، جبکہ معصیت کی وجہ سے اس پر غضب کرتا ہے اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔ طاعت کے سبب سے اس بندے کوانس حاصل ہوتا ہے، جبکہ معصیت کی وجہ سے وحشت ہوتی ہے ۔ کیونکہ جو نا فرمان اور بدکار ہوتا ہے وہ وحشت میں پڑ جاتا ہے، بھلائی شریعت کی پاسداری سے حاصل ہوتی ہے، جبکہ شریعت کی مخالفت سے برائی حاصل ہوتی ہے، جس کے سب احوال میں شرع کی رفاقت نہ ہوتو وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک ہے ۔ عمل کر اور کوشش کر محض عمل پر تکیہ نہ کر، کیونکہ عمل کو چھوڑ دینے والا لالچی ہے۔ عمل پر تکیہ کرنے والا خود پسند اور گھمنڈی ہے۔ ایک قوم دنیا اور آخرت کے درمیان کھڑی ہے۔ ایک قوم جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑی ہے۔ ایک قوم خلقت اور خالق کے درمیان کھڑی ہے۔ اگر تو زاہد ہے تو دنیا وآخرت کے درمیان کھٹرا ہے ۔ اگر تو خائف ( خوف خدا رکھنے والا ہے تو جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا ہے۔ اگر تو عارف ہے تو خلقت اور خالق کے درمیان کھڑا ہے۔ کبھی خلقت کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی خالق کی طرف، آخرت میں جو کچھ ہے، اس کا احوال اور حساب لوگوں کو بتلاتا ہے، سنی سنائی بات نہیں کرتا بلکہ آنکھوں دیکھنے کی خبر دیتا ہے، مشاہدے کے سامنے خبر کوئی چیز نہیں۔ محبوبان الہی ، اس سے ملنے کے منتظر رہتے ہیں ، ہر حال میں اس کی تمنا کرتے ہیں موت سے نہیں ڈرتے ، کیونکہ وہ تو و محبوب سے ملانے والی ہے۔ دنیا سےجدا ہو جا ، اس سے پہلے کہ جدا کیا جائے ، رخصت ہو جا، اس سے پہلے کہ رخصت کیا جائے ۔ چھوڑ دے، اس سے پہلے کہ تجھے چھوڑ دیا جائے ۔ تیرے گھر والے اور ساری خلقت تجھے کچھ نفع نہ دیں گے، مباح شے لینے کے لئے بھی اگر نفس خواہش کرے، اس سے بھی تو بہ کر ۔
تقوی دین کا لباس ہے
اے لوگو! تم ہر حال میں تقوی اختیار کرو، تقوی دین کا لباس ہے تم مجھ سے اپنے دین کا لباس مانگو، میری فرماں برداری کرو کیونکہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے راستے پر ہوں ، کھانے پینے ، نکاح اور دیگر سب احوال میں آپ ﷺ کا فرماں بردار ہوں ، میں ہمیشہ ایسا ہی رہوں گا ، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے جس مقصد کے لئے مجھے پیدا کیا ہے، وہ پورا نہ ہو جائے ، سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ مجھے تیری تعریف اور برائی ، تیرے کچھ دینے اور نہ دینے ، تیری بھلائی اور برائی ، تیری آنے اور نہ آنے کی کوئی پرواہ نہیں ، تو تو جاہل ہے اور جاہل کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی ، جب تو جہالت میں اللہ کی عبادت کرے گا تو تیری عبادت قبول نہ کی جائے گی ، کیونکہ اس میں جہالت ملی ہوئی ہے ، اور جہالت سے ہر حال میں خرابی ہوتی ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: من عبد الله عز وجل على جهل كان ما يفسد أكثر مما يصلح جو شخص اللہ کی عبادت جہالت سے کرے گا تو جہالت کی وجہ سے اصلاح کی نسبت فسادزیادہ کرے گا۔ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پرعمل کئے بغیر نجات نہیں ہے ۔
جس کا کوئی پیر نہیں ، اس کا پیر شیطان ہے:
اللہ کے کسی ولی نے ارشاد فر مایا: من لم يكن له شيخ فابليس شيخه “جس کا کوئی پیرنہیں ، اس کا پیرشیطان ہے ۔“
جو مشائخ کرام کتاب و سنت ﷺ کے عالم اور اس پر عمل پیرا ہیں ، ان کی پیروی کرو، ان سے حسن ظن رکھو اور ان سے علم سیکھو، ان کے سامنے حسن ادب اور حسن معاشرت سے پیش آؤ گے تو فلاح پالو گے، اگر کتاب وسنت ﷺ اور مشائخ عارفین کی پیروی نہ کرو گے تو فلاح نہ پاسکو گے ۔ کیا تو نے نہیں سنا۔ من استغنی برایه صلہ جس نے اپنی رائے پر بھروسہ کیا ، وہ بہک گیا ۔‘‘ جو تجھ سے زیادہ جانے والا ہے اس کی صحبت میں اپنے نفس کو تہذیب سکھا۔ اس کی اصلاح کر کے دوسروں کی اصلاح کر ، رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: – اِبْدَأ بِنَفْسِك ، ثُمَّ بِمَنْ تَعُولپہلے اپنے نفس کی اصلاح کر ، پھر اپنے اہل خانہ کی لَا صَدَقَةَ وَذُو رَحِمٍ مُحْتَاجٌ” قرابت دارمحتاج ہوں تو غیر کو صدقہ دینے کا کچھ اجرنہیں ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 268،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 149دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان