محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پینتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس والثلاثون فی مخافۃ اللہ عزو جل ‘‘ ہے۔
منعقده 5 رجب المرجب 545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
پاک کلام اس کی طرف چڑھتا ہے ، نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے:
اے غرور کرنے والو! تم پر افسوس ہے تمہاری عبادتیں زمین میں داخل نہیں ہوتیں بلکہ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ.. پاک کلام اس کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے ۔‘‘ ہمارا پاک پروردگار ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے عرش پر استوی کئے ہوئے اور ملک پر حاوی ہے اس کاعلم سب چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اللہ تعالی نے اس مضمون کی سات آیتیں قرآن مجید میں بیان کی ہیں ۔ تیری جہالت اور تکبر کے باعث میں انہیں محو کرنے کی طاقت اور قدرت نہیں رکھتا، میں انہیں نہیں مٹا سکتا۔ تو مجھے اپنی تلوار سے ڈراتا ہے، میں ڈرنے والا نہیں ہوں، تو مجھے اپنے مال کی رغبت دلاتا ہے، میں رغبت کرنے والانہیں ہوں ، میں تو صرف اللہ سے ڈرتا ہوں ، اس کے غیر سے خوف نہیں کھا تا ۔اس سے امید رکھتا ہوں ،اس کے غیر سے نہیں ۔ اس کی عبادت کرتا ہوں ، اس کے غیر کی نہیں ۔ اس کے لئے عمل کرتا ہوں اس کے غیر کے لئے ہیں۔ میرا رزق اس کے پاس اس کے دست قدرت میں ہے، سب کچھ اس کا ہے، بندہ اور جو کچھ بندے کی دسترس میں ہے ، سب اس مالک کا مال ہے۔
آپ کے ہاتھ پر توبہ کرنے والے، ایمان لانے والے:
سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا (زیرنظر خطبہ منعقده 5/ رجب 545 و تک ) : میرے ہاتھ پر پانچ سو آدمی ایمان لائے ،اور بیس ہزار سے زیادہ نے میرے ہاتھ پرتو بہ کی ، پھر فر مایا: یہ سب کچھ ہمارےنبی مکرم حضرت محمد مصطفی احمدمجتبی ﷺ کی برکات کے سبب سے ہے۔ اللہ غیب کا جاننے والا ہے، وہ جس رسول کو منتخب فرماتا ہے، اس کے سوا اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ وہی غیب کا جاننے والا ہے سوائے اپنے پسندیدہ رسول کے کسی کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا‘‘ اس کے پاس غیب ہے، اس سے قریب ہوتا کہ اس کو اور جو کچھ اس کے پاس ہے، دیکھے اور اپنے اہل اور مال اور شہر ۔ اور عورت اور اولا دکو چھوڑ دے، ان میں سے اپنے قلب سے نکل جا، اور سب سے الگ ہو جا، اور رب تعالی کے دروازے پر پہنچ جا، اس کے دروازے پر پہنچے تو اس کے غلاموں اور سلطنت اور ملک میں مشغول نہ ہو، اگر وہ تیرے سامنے طباق رکھیں تو نہ کھا، اگر وہ تجھے کسی حجرہ میں ٹھہرائیں تو نہ ٹھہر ، اگر وہ تیرا نکاح کرائیں تو نکاح نہ کر سفر کے دوران پہنے ہوئے کپڑوں سمیت ، اور مشقت اور غبار سفر اور الجھے بالوں کے ساتھ جب تک تو اللہ تعالی سے ملاقات نہ کرے تب تک تو ان میں سے کسی شے کوقبول نہ کر پھراللہ تعالی ہی تیری حالت بدلے گا وہی کھلانے والا ، پلانے والا ، وحشت میں غم خوار اور کشادگی کرنے والا ، مصیبت سے آرام دینے والا ، خوف میں امن دینے والا ، ہو جائے گا، اس کی قربت میں تجھے غنا، اور اس کے دیدار میں تجھے کھانا پینا اور لباس ملے گا۔خلقت سے محبت کا مفہوم کیا ہے: ان سے خوف کھانا ، ان سے امید رکھنا ، ان پر بھروسہ کرنا ، ان کی طرف جھکناء خلقت سے محبت کا یہی مفہوم ہے ، جس سے منع کیا گیا ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 241،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 136دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان