حلالہ کی اصطلاح
حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، جب کوئی مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتا ہے تو وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئےحرام(حرمتِ غلیظہ کے ساتھ) ہو جاتی ہے۔ طلاق ثلاثہ کے بعد نہ رجوع ہوسکتا ہے اورنہ دوبارہ نکاح اب اس کا نکاح عدت گذارنے کے بعد کسی دوسرے مرد ہی سے ہوسکتا ہے۔ البتہ اگرکسی دوسرے مرد سے نکاح ہوا، اس نے صحبت کی، لیکن کسی وجہ سے طلاق ہوگئی یا اس دوسرے شوہر کا انتقال ہوگیا، تو اب یہ عورت عدت گزارنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے ، اب وہ کسی بھی مرد سے خوشدلی کے ساتھ برضا ورغبت نکاح کرسکتی ہے اور چاہے تو پہلے شوہر (جس نے تین طلاق دی تھی اور اس سے نکاح حرام تھا) سے نکاح کر سکتی ہے۔ چونکہ دوسرے شوہر سے نکاح اور صحبت کے بغیر پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کرنا حلال نہ تھا اس لیے اس فعل کوحلالہ یا تحلیل کہاجاتا ہے۔
طلاق اور حلالہ ناپسندیدہ عمل
طلاق اللہ کو ناپسند بھی ہے اور حلال بھی۔حدیث مبارکہ ہے’’اللہ تعالی کے ہاں حلال وجائز کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے‘‘۔(ابو داؤد)
احادیث میں حلالہ کرنے والوں کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ جو شخص حلالہ کرتا ہے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے، ان دونوں پر خدا کی لعنت۔ (ابو داؤد)
جس طرح طلاق ناپسندیدہ ہونے کے باوجود جائز ہے اسی طرح جھوٹ ظلم اور فساد کی طرح جنہیں اللہ نے قابل لعنت کہا ہے نکاح حلالہ بھی بعض قباحتوں کے باوجود گنجائش رکھتا ہے۔
تین طلاق کے بعد
واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام، تابعین، وتبع تابعین، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل،ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق(اگرچہ بدعت، سخت مکروہ اور گناہ ہے) دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
” الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ “ (البقرہ:229)
طلاق (زیادہ سے زیادہ) دو بار ہونی چاہیے، اس کے بعد ( شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو قاعدے کے مطابق ( بیوی کو) روک رکھے (یعنی طلاق سے رجوع کرلے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے (یعنی رجوع کے بغیر عدت گزر جانے دے)
اور اگلی آیت میں ہے:
” فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَا( سورۃالبقرہ، آیت 230)
ترجمۂ پھر اگر تیسری طلاق اسے دی ، تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی ، جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے، پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دے دے ، تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں۔
یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں بغیر حلالہ کے پہلے شوہر کیلئے بیوی حرام ہے۔
نکا ح فاسدجس میں صحت نکاح کی کوئی ایک شرط موجودنہ ہو مثلاً عاقل، بالغ، مسلمان، ایجاب و قبول،دو گواہ ہونا شرائط ہیں نکاح صحیح کےلئے ضروری ہے کہ وہ عدت میں نہ ہو
حلالہ محض نکاح کانام نہیں، حلالہ کیلئے دوسرے شوہر کا جماع کرناشرط ہے ، اس کے بغیر عورت شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوگی ۔
حلالہ کے لئے نکاح صحیح کا ہونا شرط ہے اور اس سے مراد حقیقی نکاح ہے ،جب کہ نکاحِ فاسد پر حقیقی نکاح کا اطلاق نہیں ہوتا(بدائع الصنائع،ابو بکر بن مسعود بن احمد الکاسانی)
نکاح حلالہ کی پہلی قسم عمومی
نکاح حلالہ کی ایک قسم عمومی ہے کہ شوہر ثانی حلالہ کی شرط و نیت کے بغیر نکاح کرے اور اگریہ شوہر وفات پا جائے یا طلاق دے دے اور شوہر اول اس کے بعد نکاح کرے۔حلالہ کی یہ قسم تمام ائمہ کے نزدیک جائز ہے۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں حلالہ کی اسی قسم کا ذکر ہے ، اور اس قسم میں کوئی حرمت و کراہت نہیں ۔گویا یہ نکاح حلالہ کیا نہیں جاتا ہو جاتاہے۔
نکاح حلالہ کی دوسری قسم ارادی
نکاح حلالہ کی دوسری قسم ارادی ہے کہ شوہر ثانی حلالہ کی شرط کے بغیر نکاح توکرے،مگر اس کی نیت و ارادہ یہ ہو کہ عورت کو شوہر اول کے لئے حلال کرے ،تاکہ میاں بیوی اور ان دونوں کے خاندان طلاق کے بعد جس اذیت کا شکار ہیں، یہ ان کےلیے اس سے نجات کا ذریعہ بنے۔ اس میں آئمہ اہلسنت میں اختلاف ہےالبتہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہے کیونکہ معاملات میں محض نیت کا اعتبار نہیں ۔اس لئے اگرنکاح حلالہ کے قصد سے بھی بعد از جماع ( مباشرت) دوسرا خاوند طلاق دے ،تو عدت کے بعد عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی۔
“پس جو نکاح میں حلالہ کی شرط نہ رکھے گا ،تو وہ نکاح صحیح ہوگا احناف میں سے بعض ائمہ کے نزدیک اگر نکاح میں پہلے خاوند اور عورت کے مابین اصلاح کی نیت کی گئی ہو اور کوئی شرط رکھے بغیر دل میں ہی حلالہ کا ارادہ کرے ،تو وہ ثواب کا مستحق ہوگا۔( وَيَكُونُ الرَّجُلُ مَأْجُورًا بِذَلِكَ لِقَصْدِهِ الْإِصْلَاحَ)( تبین الحقائق،عثمان بن علی الزیلعی)اصلاح کی خاطر طلاق دیدے تاکہ عدت گذارکر شوہر اول سے عورت کا نکاح ہوجائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔
نکاح حلالہ کی تیسری قسم مشروط
نکاح حلالہ کی تیسری قسم مشروط ہے کہ حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کیا جائے یعنی یہ شرط رکھی جائےکہ دوسرا شوہر جماع کے بعد اس عورت کو طلاق دے گا،اس نکاح کو نکاح بشرط التحلیل کہتے ہیں ۔
اس نکاح کے صحیح ہونے اور اس کے نتیجے میں پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے میں ائمہ اہلسنت میں اختلاف ہے لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک یہ نکاح اگرچہ مکروہ تحریمی ہے (اگر دل میں ہو تو مکروہ تحریمی بھی نہیں )مگر فاسد نہیں کیونکہ لفظ نکاح اس کے صحیح ہونے کا تقاضا کر رہا ہےاور اس نکاح سے یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی ۔
مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کے مقاصد میں اولاد کا ہونا ، نسل کی بقا اور پاکدامنی شامل ہے اور یہ تمام مقاصد بقاء دوام پر موقوف ہیں،جب کہ نکاح جس میں حلالہ کی شرط ہو میں دوام نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ نکاح میں حلالہ کی شرط کراہت ذاتی نہیں بلکہ اس کی کراہت بالغیر ہے،جس سے نکاح کے انعقاد پر کوئی اثر نہیں پڑتا(بدائع الصنائع،۳ : ۱۸۸)
نکاح بشرط حلالہ میں طلاق کی شرط رکھنا شروطِ فاسدہ میں سے ہے اور احناف کے نزدیک نکاح شروط سے فاسد نہیں ہوتا،لہٰذا شروط باطل ہوگی اور نکاح صحیح ہوگا۔اور شوہر اول کے لئے حلال ہو نے کا سبب بنے گا[المبسوط،5 : 95]۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگرچہ عمل حرام ہے لیکن پہلے خاوند سے نکاح کے لیے عورت جائز ہو جاتی ہے(تحقیق حلالہ محمد صدیق ہزاروی،صفحہ 7)
بعض ائمہ نے اسے حلال قرار دیا ہے اور بعض نے حرام، مگر جن لوگوں نے اسے حلال قرار دیا ہے وہ بھی اسے اچھا نہیں کہتے ۔
نکاح ثانی
مذہب اسلام میں عورت کے لیے خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ ہو نکاح ثانی کرنا نہ توہین ہے نہ ہی معیوب ہے، نہ ظلم وگناہ ہے، بلکہ عورت کی عفت وپاکدامنی کی حفاظت ہے جو اس کے حق میں سراسر عزت وشرافت ہے، مذہب اسلام اس کے حق میں ذرہ برابر بھی توہین قرار نہیں دیتا، البتہ جن قوموں میں بیوہ یا مطلقہ کا نکاح ثانی عیب ہے ان کے یہاں نکاح ثانی کرنے میں بلاشبہ عورت کی توہین ہوسکتی ہے۔
شوہر نے ایک ساتھ تین طلاق دے کر جو گناہ کیا اس کی سزا اس شوہرکو نقد بھگتنا پڑی کی بیوی سے ہاتھ دھونا پڑگیا یہ سب شوہر کے حق میں سزا ہے، تین طلاق کے بعد نکاح حلالہ کی شرط اس لئے رکھی کہ شوہر بلا وجہ اسے طلاق نہ دے البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ خود عورت ہی تین طلاق دینے والے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہو تو شریعت نے اس کے جذبات کو کچلا نہیں بلکہ راستہ بتادیا کہ براہِ راست تو نکاح نہیں ہوسکتا البتہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کے تمام مراحل سے گذر کر یہ عورت شوہر اول کے حق میں حلال ہوسکتی ہے ۔
نکاح حلالہ کا اصل سبب
عہد جاہلیت میں عورت کو تنگ کرنے کے لئے لا تعداد بار طلاق دے کر رجوع کرلیا جاتا پھر نہ اسے بیوی کی حیثیت دیتے اور نہ دوسروں کے لئے چھوڑتے اور اس سارے معاملے میں عورت کی آزادی ختم ہو کر وہ لونڈی بن کر رہ جاتی۔ اسلام نے اس کا ازالہ حلالہ کی صورت میں کیا
مرد نے اپنے اختیارات(تین طلاق ) کا غلط استعمال کیا تو اس کے بعد شوہر کا عورت پر کوئی حق باقی نہیں رہتا اور وہ اپنے متعلق ہر طرح کے فیصلے میں آزاد ہوتی ہے۔شوہر اسے ہرگز حلالہ پر مجبور نہیں کر سکتا ۔طلاق کے بعد نکاح عورت کی اجازت پر موقوف ہوتا ہےکیونکہ دوسری شادی کیلئے عورت نکاح کے متعلق حدیث مبارک میں آیا ہے: لَا تُنْکَحُ الثَّيِّبُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ بیوہ کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے(صحیح مسلم )
الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَ (صحیح المسلم) بیوہ اپنے نکاح میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے خاوند والی عورت کو اپنے نفس پر مکمل اختیار حاصل ہے اور نکاح کے معاملے میں کوئی اسے مجبور نہیں کر سکتا ،چاہے اس کا کوئی رشتہ دار کیوں نہ ہو اور جس شخص نے اسے تین طلاق دئیے ہیں ،وہ تو اس عورت کے لئے اجنبی بن چکا ہے شرعاً اسے کوئی اختیار نہیں کہ عورت کو حلالہ کے لئے مجبور کرے۔
ناجائز حیلے
ساٹھ بندوں کو کھانا کھلانا:تین طلاقوں کے بعد سوائے حلالہ کے کوئی صورت رجوع کی نہیں ہے۔ساٹھ تو کیا ہزار مساکین کو بھی کھانا کھلادیا جائے ، تب بھی عورت حرام رہے گی۔ یہ سب ناجائز حیلے بہانے ہیں
نوے دن کے اندر صلح :ایک یا دو صریح طلاق دی ہوں ، تو عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے ،لیکن تین طلاقوں کے بعد قرآن کا واضح حکم ہے کہ بغیر حلالہ رجوع نہیں۔نوے دن کے اندر صلح کو کہنا عورت کو کھیل بنانا ہے کہ شوہر جب چاہے طلاقیں دے اور پھر نوے دن کے اندر رجوع کرلے ۔زمانہ جاہلیت میں یہی ظلم تو عورتوں پر ہوتا تھا کہ کئی طلاقیں دینے کے بعد عدت کے اندررجوع کرلیتے تھے۔اللہ عزوجل نے اس ظلم کو ختم کرتے ہوئے فقط دو طلاقوں تک رجوع کی اجازت دی ۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے : ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے طلاق کا کوئی وقت نہ تھا ۔شوہر بیوی کو طلاق دیتا ، پھر عدت پوری ہونے سے قبل رجوع کر لیتا۔ انصار میں سےایک میاں بیوی کی باہم ناچاقی ہوئی ، تو شوہر نے بیوی سے کہا : اللہ کی قسم میں تجھےنہ بیوی اور نہ طلاق یافتہ رہنے دوں گا۔وہ اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور عدت پوری ہونے سے قبل رجوع کر لیتا ۔ اس نے ایسا باربار کیا ، تو اللہ عزوجل نے یہ حکم نازل فرمایا:یہ طلاق دو بار تک ہے ، پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا اچھے سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، توتین طلاقوں تک حد قائم کردی گئی کہ تین طلاقوں کے بعد رجوع نہیں ۔ یہاں تک کہ بیوی دوسرے سے نکاح و صحبت نہ کرے۔(یعنی حلالہ نہ کرلے)(تفسیر ابن کثیر)
تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، وہ حضرات جو تین طلاق کو ایک ہی شمار کرتے ہیں، اُن کا نظریہ سراسر غلط، گمراہ کن اور قرآن وحدیث، اجماعِ صحابہ، فقہاء، مشایخ اور ائمہ مسلمین، کےفیصلے کے خلاف ہے۔
مزید دیکھیں
“حلالہ کی اصطلاح اور شرعی احکام” ایک تبصرہ