مشاہدین کی اقسام
تجلیات حق کو حجاب کے بغیر دیکھنا مشاہدہ کہلاتا ہے یعنی اسم وصفات کی جہت سے حق کا مشاہدہ کرنا۔ تصوف میں مشاہدہ کا مطلب دل کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔ سالک پر پیہم ریاضت کی بدولت ایک ایسا حال طاری ہوتا ہے جس میں وہ چشم باطن سے نو ر الہی کا مشاہدہ کرتا ہے صوفیا کے عقیدے میں جب سالک کا آئینہ قلب گناہوں اور افکارفاسدہ سے پاک ہو جاتا ہے تو نو ر الہی اس پر چمکنے لگتا ہے اور بتدریج اس کی چمک بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مشاہدہ کا حال سالک پر طاری ہو جاتا ہے۔
صوفیا جب مشاہدۂ حق کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود یقین قلب کے نور سے مشاہدہ ہوتا ہے۔
صوفیائے کرام نے مشاہدین کی تین قسمیں بیان کی ہیں
(1) ذوالعین
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر شے کو قائم بحق دیکھتے ہیں بلکہ حق کو محسوس اور خلق کو معقول پاتے ہیں۔ وہ ہر شے سے قبل حق کی یافت کرتے ہیں۔ ان کا مقولہ ہوتا ہےما رَأَيْتُ شَيْئاً اِلاّ وَ رَأَيْتُ اللهَ قَبْلَهُ ۔(میں نے اس کے سوا کچھ نہیں دیکھا کہ میں نے سب سے پہلے خدا کو دیکھا) یہ لوگ صاحبان مشہود ہوتے ہیں اور حق کو ظاہر
اور خلق کو باطن دیکھتے ہیں۔
(2) ذو العقل
یہ حضرات ذوالعین کا عکس ہوتے ہیں، یہ خلق کو ظاہر اور حق کو باطن دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حق آئینہ ہوتا ہے خلق کا ۔ آئینہ میں جب کوئی چیز نظر آتی ہے توآئینہ کا اتنا حصہ نظر نہیں آتا جتنے حصہ پر شے کا عکس پڑتا ہے۔ چونکہ حقیقت پردہ کائنات میں مستتر ہے اس لیے نظر پہلے نقاب ہی پر پڑتی ہے اس کے بعد شاہد رعنا کے رخ انور کی زیارت ہوتی ہے
جوزپر نقاب ہے۔ ان حضرات کا مقولہ ہوتا ہے ، ما رَأَيْتُ شَيْئاً اِلاّ وَ رَأَيْتُ اللهَ بَعْدَهُ .(میں نے اس کے سوا کچھ نہیں دیکھا کہ میں نے سب کے بعد خدا کو دیکھا)
(3)ذو العقل والعین
یہ مشاہدین کی تیسری قسم ہے جو حق کو خلق اور خلق کو حق دیکھتے ہیں یعنی انہیں ایک کا مشاہدہ دوسرے کے مشاہدے سے محتجب نہیں کرتا بلکہ وجود واحد کو وہ من وجہ حق اور من وجہ خلق دیکھتے ہیں۔ ان حضرات کا مقولہ ہوتا ہےما رَأَيْتُ شَيْئاً اِلاّ وَ رَأَيْتُ اللهَ مَعَهُ (میں نے اس کے سوا کچھ نہیں دیکھا کہ میں نے سب کے ساتھ خدا کو دیکھا)یہاں بحکم اتحاد مُظہر(ظاہر کیا گیا) و مَظہر (ظاہر ہونے کی جگہ )خارج میں بھی عاشق و معشوق ایک دوسرے سے امتیاز نہیں رکھتے۔ اگرچہ عقل ان میں امتیاز کا حکم دیتی ہے ۔
ذو العینی اگر نور حقت مشهود است
ذو العقلی اگر شهود حق مفقود است
ذو العینی و ذو العقلی زشهود حق و خلق
با یک دگر از ہر دو ترا موجود است
(جائی) (اگر تجھے نورحق کا مشاہدہ حاصل ہے تو تو ذوالعین ہے ۔ اور اگر مشاہدہ حق سے محروم ہے تو تو ذو العقل ہے۔ اور اگر تو حق وخلق دونوں کو با یک دگر دیکھتا ہے تو تو ذو العین بھی ہے اور ذو العقل بھی)
بعض سلاسل میں ان تین قسم کے مشاہدوں کو دو اقسام میں منحصر کر دیا گیا ہے یعنی مشاہدہ ذوالعین کو مشاہد حقیقت قبل مشاہدہ تعین“ قرار دے کر مشاہد ہ صدیقی کا نام دیا گیا ہے اور مشاہدہ ذوالعقل اور مشاہدہ ذو العقل والعین کو ملاکر مشاہدہ حقیقت مع مشاہدہ تعین یا بعد مشاہدہ تعین” قرار دے کر مشاہدہ عثمانی کا نام دیا گیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں معتبر اور اصل مشاہدہ حق کو سمجھا گیا ہے۔
ما رایت شیئا الا ورایت الله قبلہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا اور ما رایت شیئا الا ورایت الله بعدہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول کہا گیا ہے۔ ۔ تصوف کی کتب متد اولہ میں کسی کا نام لیے بغیر ان اقوال کے اقوال صوفیہ کی حیثیت سے نقل کیا جاتا ہے۔