آدمی  نسخہ جامع ہے مکتوب نمبر 95دفتر اول

 اس بیان میں کہ آدمی  نسخہ جامع ہے اور اس کا دل بھی جامعیت کی صفت پر پیدا کیا گیا ہے اور بعض مشائخ کے اقوال جو مرتبہ سکر(مستی)  میں دل کی وسعت وغیرہ میں ظاہر ہوئے ہیں وہ مختلف توجیہوں پرمحمول ہیں اور اس بیان میں کے صحو افضل ہے سکر  سے اور اس کے مناسب بیان میں سید احمد بجواڑی کی طرف لکھا ہے۔

انسان نسخہ جامع ہے جو کچھ تمام موجودات میں ہے انسان میں تنہا ثابت ہے لیکن عالم امکان سے بطریق حقیقت کے اور مرتبہ وجوب سے بطور صورت کے ۔ فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور قلب انسان بھی اسی جامعیت پر پیدا کیا گیا ہے کہ جو کچھ پورے انسان میں ہے وہ سب کچھ تنہا قلب میں ہے اسی واسطے اس کو حقیقت جامعہ کہتے ہیں اور اسی جامعیت کے باعث بعض مشائخ نے قلب کی وسعت سے ایسی خبر دی ہے کہ اگر عرش اورمافیہا (عرش اور اس میں جو کچھ ہے)عارف کے دل کے گوشہ میں ڈال دیں تو کچھ محسوس نہ ہو ۔

کیونکہ قلب عناصر اور افلاک اور عرش و کرسی و عقل ونفس کا جامع ہے اور مکانی اور لا مکانی کو شامل ہے پس لا مکانیت سے شامل ہونے کے باعث قلب میں عرش و مافیہا کا کچھ مقدار نہ ہوگا کیونکہ عرش اور مافیہا با وجود وسعت کے دائرہ مکان میں داخل ہے اور مکانی اگرچہ  وسیع ہے لیکن لا مکانی کے مقابلہ میں بہت تنگ ہے اور کچھ مقدار نہیں رکھتا لیکن مشائخ میں سے اصحاب صحوقدس سرہم جانتے ہیں کہ یہ حکم سکر پر مبنی ہے اور شے کی حقیقت اور اس کے نمونہ کے درمیان تمیز نہ کرنے پر محمول ہے۔ عرش مجید جو ظہور تام کامل ہے اس سے بہت بلند ہے۔ کہ تنگ قلب میں سما سکے۔ جو کچھ دل میں عرش کی نسبت ظاہر ہوتا ہے وہ عرش کا نمونہ ہے نہ کہ عرش کی حقیقت اور کچھ شک نہیں کہ وہ نمونہ دل کے مقابلہ میں جو بے شمارنمونوں کا جامع ہے کچھ مقدار نہیں رکھتا۔ وہ آئینہ جس میں اس قدر بڑا آسمان مع دوسری اشیاء کے دکھائی دیتا ہے نہیں کہہ سکتے کہ آسمان سے وسیع ہے ہاں آسمان کا نمونہ جو آئینہ میں ہے آئینہ کے مقابلہ میں چھوٹا ہے۔ نہ آسمان کی حقیقت ۔یہ بحث اس مثال سے روشن ہو جاتی ہے۔ مثلا انسان میں کره خاک کا نمونہ پوشیدہ ہے تو انسان کی جامعیت پر نظر کر کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کا وجود کره خاک سے زیادہ وسیع ہے بلکہ انسان کا وجود کره خاک کے مقابلہ میں ایک حقیرشے کے سوا کچھ مقدار نہیں رکھتا۔ بلکہ حقیر شے کے نمونے کو شے جان کر یہ حکم وقوع میں آتا ہے اور اسی قسم سے ہے بعض مشائخ کا کلام جو انہوں نے غلبہ سکر میں کہا ہے کہ جامعیت محمدی ﷺجامعیت الہی سے زیادہ جامع ہے جب حضرت  محمدﷺکو امکان و وجوب کی حقیقت جامع جانتے ہیں تو اس لئے حکم کرتے ہیں کہ محمد کی جامعیت اللہ جل شانہ کی جامعیت سے زیادہ ہے یہاں بھی صورت کو حقیقت تصور کر کےحکم کیا ہے۔ حضرت محمد ﷺمرتبہ وجوب کی صورت کے جامع ہیں نہ کہ (مرتبہ)حقیقت وجوب کے اور الله تعالی حقیقی واجب الوجود ہے اگر (وہ حضرات)وجوب کی حقیقت اور اس کی صورت کے درمیان تمیز کرتے تو ایسا حکم نہ کرتے۔ اس قسم کے سکریہ احکام سے اللہ کی پناہ۔ محمد ایک بندہ محدود اور متناہی ہے اور حق تعالی غیر محدود اور نامتناہی۔

جاننا چاہیئے کہ جو کچھ ا حکام سکر یہ سے ہے مقام ولایت سے ہے اور جو کچھ صحو سے ہے وہ مقام نبوت سے تعلق رکھتا ہے کہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں کو بھی تابعداری کے طور پرصحو کے باعث اس مقام سے حصہ حاصل ہے۔

بسطامیہ سکرکو صحوپرفضیلت دیتے ہیں اسی واسطے شیخ بایزید بسطامی قدس سرہ کہتے ہیں کہ لوائی  أرفع من لواء محمد میرا جھنڈا حضرت محمد ﷺکے جھنڈے سے زیادہ بلند ہے۔ اپنے جھنڈے کو ولایت کا جھنڈا جانتے ہیں اور حضرت محمد ﷺکے جھنڈے کو نبوت کا جھنڈا اور ولایت کے جھنڈے کو جو سکر کی طرف توجہ رکھتا ہے نبوت کے جھنڈے پر جو صحو سے متعلق ہے ترجیح دیتے ہیں۔

اور اسی قسم سے ہے بعض کا کلام جو انہوں نے کہا ہے کہ الولاية أفضل من النبوة ولایت نبوت سے افضل ہے۔ جانتے ہیں کہ ولایت میں حق کی طرف توجہ رکھتے ہیں اور نبوت میں غفلت کی طرف توجہ ہوتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ خلق کی طرف منہ کرنے سے حق کی طرف منہ کرنا افضل ہے۔

بعضوں نے اس بات کی توجیہ میں کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے  لیکن فقیر کے نزدیک اس قسم کی با تیں بے ہود ہ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ نبوت میں صرف خلق کی طرف بھی توجہ نہیں ہوتی بلکہ اس توجہ کے ساتھ خالق کی طرف بھی توجہ رکھتا ہے یعنی اس کا باطن حق کے ساتھ اور ظاہرخلق کے ساتھ ہوتا ہے اور جس کی سب توجہ خلق ہی کی طرف ہے وہ بد بخت ہے۔

انبیا علیہم الصلوة والسلام تمام موجودات میں سے بہتر ہیں اور سب سے بہتر دولت انہی کے نصیب ہوئی ہے اور ولایت نبوت کا جزو ہے اور نبوت کل ہے۔ پس نبوت ولایت سےا فضل ہے خواہ ولایت نبی کی ہو یا ولی کی۔

پس صحو (ہوشیاری) أفضل ہے سکر سے کیونکہ صحو میں سکر  مندرج ہے جیسے نبوت میں ولایت درج ہے صحوتنہا جو عوام الناس کو حاصل ہے وہ بحث سے خارج ہے۔ اس صحو پرسکر کوترجیح دینا کچھ معنی نہیں رکھتا اور وہ جس میں سکر  شامل ہے بے شک سکرسے افضل ہے۔

علوم شرعیہ جن کا مصدر مرتبہ نبوت ہے سراسر صحوہے اور ان علوم کے مخالف جو کچھ ہو وہ سکرہے اور سکر والا شخص معذور ہے تقلید کے لائق صحوکے علوم ہیں نہ سکر  کے۔ثبتنا الله سبحانہ على تقليد العلوم الشريعة على مصدرها الصلوة والسلام والتحيۃ رحم الله عبد قال امين – حق تعالی ہم کو علوم شرعیہ کی تقلید پر ثابت قدم رکھے اور ان علوم کے مصدریعنی آنحضرت ﷺپر درود اور سلام ہو اور خدائے تعالی اس بندے پر رحم کرے جس نے آمین کہا۔

اور یہ حدیث قدسی میں وارد ہے لَا ‌يَسَعُنِي ‌أَرْضِي، وَلَا سَمَائِي، وَلَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ میں نہ اپنی زمین  میں سما سکتا ہوں نہ آسمانوں میں لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں۔ مراد اس گنجائش سے مرتبہ وجوب کی صورت ہے نہ حقیقت۔ کیونکہ حلول و ہاں محال ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے۔

پس ظاہر ہوا کہ قلب کا لا مکانیت کو شامل ہونا لا مکانیت کی صورت کے اعتبار سے ہے نہ اس کی حقیقت کے اعتبار سے تا کہ عرش و مافیہا کا کچھ مقدار نہ ہو۔ یہ حکم لا مکانیت کی حقیقت سے مخصوص ہے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ259ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں