آذان کی نقل دین و دنیا سنوار گئی

ابو محذورہؓ کا نام سمرہؓ بن صفیہ ہے انکے قبول اسلام کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے ہجرت کا آٹھواں سال اور شوال کا مہینہ تھا کہ جب حضور اقداس ﷺ غزوہ سے فارغ ہو کر واپس آرہے تھے اس وقت ابومحذورہ جو اس وقت ایک شوخ نوجوان تھے اور مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے اور اپنے ہی جیسے نو دیگر یار دوستوں کے ساتھ حنین کی طرف چل رہے تھے خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حنین سے واپس ہو رہے تھے راستے ہی میں حضور ﷺ سے ہماری ملاقات ہوگئی نما ز کا وقت آنے پر حضور ﷺ کو مؤذن نے اذان دی ہم سب آذان کی نقل کرنے لگے اور میں نے بالکل مؤذن کی طرح خوب بلند آواز نقل شروع کردی(آواز بڑی خوبصورت اور صاف تھی۔ خوش قسمتی ان کی راہ دیکھ رہی تھی) رسول اللہ کو آوازپہنچ گئی تو آپ نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما کو بھیج کر ہم سب کو بلوایا ہم سب لاکر آپ کے سامنے پیش کردئیے گئے آپ نے فرمایا بتاؤ تم میں سے وہ کون ہے جس کی آواز بلند تھی (ابو محذورہؓ کہتے ہیں کہ میرے سب ساتھیوں نے میرے طرف اشارہ کیا اور بات سچی بھی تھی آپ نے سب کو چھوڑنے کا حکم دیدیا اور مجھے روک لیا او ر فرمایا کھڑے ہو جائو اور پھرآذان کہو ابومحذورہ ؓ کا بیان ہے کہ اس وقت میرا یہ خیال تھا کہ رسول ﷺ سے اور آپ نے جس آذان دینے کا حکم دیا تھا ا س سے زیادہ مکر وہ اور مبغوض میرے لئے کوئی چیز بھی نہ تھی یعنی میرا دل معاذاللہ آپ کی نفرت اور بغض سے بھرا ہواتھا رسول اللہ ﷺ نے مجھے خود آذان بتانی شروع کی جب میں اذان ختم کر چکا توآ پ نے مجھے ایک تھیلی عنایت فرمائی جس میں کچھ چاندی تھی اور میرے سر کے اگلے حصے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھااور پھر آپ نے دست مبارک میرے چہرے پر اور پھر میرے سامنے کے حصے پر یعنی سینے پر اور پر قلب و جگر پر اور پھر نیچے ناف کی جگہ تک پھیرا اوریو ں دعا دی۔ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَاہْدِہِ إِلَی الْإِسْلَامِ
آپ نے مجھے یہ دعا تین دفعہ دی حضور ﷺ کی اس دعا اور دست مبارک کی برکت سے میرے دل سے کفر اور نفرت کی وہ لعنت دور ہوگئی اور ایمان اور محبت کی دولت مجھے نصیب ہوگئی ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ نے ہر شخص سے وہی کام لیا جس کا وہ اہل تھا، جسے وہ بآسانی انجام دے سکتا تھا۔ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی آواز بڑی خوبصورت تھی۔ مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ حرم مکی میں خوبصورت اذان دینے والے شخص کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ابومحذورہ اس ذمہ داری کو بڑی خوبی سے پورا کرسکتے ہیں تو ان کاانتخاب کر لیا اور ابومحذورہ سے ارشاد فرمایا:(اِذْھبْ مُؤَذِّنًا فِي أَہْلِ مَکَّۃَ، أَنْتَ مُؤَذِّنُ أَہْلِ مَکَّۃَ)۔ ’’جاؤ تم اہل مکہ مکرمہ کے مؤذن ہو۔ تمہیں مکہ والوں کے لیے مؤذن مقرر کیا جاتا ہے۔‘‘ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ شریف میں مؤذن کی ذمہ داری سنبھال لی۔ مکہ مکرمہ کے گورنر سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ تھے۔ انہیں ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے بطور مؤذن تقرر کے احکامات مل چکے تھے۔ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اب مؤذنِ حرمِ مکی تھے۔ ان کے لیے یہ فخر اور اعزاز کی بات تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بالوں پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تھا۔انہوں نے مسرت وشادمانی کے احساس سے سرشار ہو کر یہ ذمہ داری سنبھال لی اور زندگی کے آخری سانس تک مؤذنِ حرمِ مکی رہے۔ کہاں ایک معمولی چرواہا اور کہاں اللہ کے عزت وحرمت والے گھر میں پانچوں نمازوں کے لیے اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے کا منصب جلیل! یہ شرف وفضیلت ان کی وفات کے بعد نسل درنسل چلتی رہی اور ان کی اولادتین سو سال تک حرمِ مکی میں مؤذن رہی۔

، الاستیعاب، ص:844-842، والإصابۃ:203/7، و صحیح مسلم، حدیث:379، و سیرأ علام النبلاء:119-117/3۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں