اللہ کی عبادت کب حاصل ہوتی ہےمکتوب نمبر 77دفتر اول

 اس بیان میں کہ خدائے بے مثل و بے مانند کی عبادت کب حاصل ہوتی ہے اور اس کے مناسب بیان میں جباری خاں کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) بعد از خدائے آنچہ  پرستند ہیچ  نیست بیدولت است آنچہ  بہیچ اختیار کرد

ترجمہ: خدا کو چھوڑ کر جو پوجتے ہیں وہ باطل ہے جو پوجے ہیچ و باطل کووہی بد بخت و جاہل ہے خدائے بے مثل و بے ماند کی عبادت اس وقت میسر ہوتی ہے جب کہ تمام ماسوی اللہ کی  غلامی سے آزاد ہو کر توجہ کا قبلہ ذات احدیت کے سوا اور کچھ نہ رہے اور اس توجہ کا مصداق حق تعالی کے انعام اور ایلام کا برابر ہونا ہے بلکہ اس مقام کے حاصل ہونے کی ابتدا میں انعام کی نسبت رنج و الم زیادہ مرغوب معلوم ہوا ہے ۔ اگر چہ آخر کار تفویض تک نوبت  پہنچ جاتی ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے ہوتا ہے اس کو بہتر اور مناسب جانتا ہے جو عبادت رغبت اور خوف سے تعلق رکھتی ہے وہ درحقیقت اپنی عبادت ہے اور اس سے مقصوداپنی نجات اور سرور ہے۔

تاتو در بند خویشتن باشی عشق گوئی دروغ زن باشی ترجمہ: جب تلک تجھ کو اپنا ہی ہے خيال دعوی عشق تیرا سب ہے محال

اس دولت کا حاصل ہونا فنائے مطلق پر وابستہ ہے اور وہ محبت ذاتی کانتیجہ اور ولایت خاصہ محمدی ﷺکے ظہور کا مقدمہ ہے اور اس بڑی نعمت کا حاصل ہونا آنحضرت ﷺکی کمال تابعداری پر موقوف ہے کیونکہ ہرنبی کی شریعت  جواز راہ نبوت اس کو عطا فرمائی ہے۔ اس کی ولایت کے مناسب ہے کیونکہ ولایت میں کئی طور پر حق تعالی کی طرف توجہ ہے اور جب نبوت کے درجے میں لاتے ہیں تو وہی نور ساتھ آجاتا ہے اور اسی کمال کو خلق کی توجہ کے ساتھ جمع کرتا ہے اور مقام نبوت کے کمالات کے حاصل ہونے کا سبب بھی وہی نور ہے۔ اسی واسطے بزرگوں نے کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے کیونکہ ہر پیغمبر کی شریعت  اس کی ولایت کے مناسب ہوتی ہے اور اس شریعت  کی تابعداری بھی اس ولایت تک پہنچنے کومستلزم ہے اور اگر سوال کریں کہ آنسرور علیہ الصلوة والسلام کی شریعت  کے بعض تابعداروں کو آنحضرت ﷺکی ولایت سے کچھ حصہ نہیں بلکہ دوسرے انبیاء کے قدم پر ہیں اور ان کی ولایت سے حصہ رکھتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی شریعت تمام شریعتوں کی جامع ہے اور جو کتاب حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی اس میں تمام آسمانی کتابیں شامل ہیں ۔ پس اس شریعت  کی تابعداری گویا تمام شریعتوں کی تابعداری ہے۔ پس تابعدار اپنی استعداد کے موافق ان میں سے کسی ایک کے ساتھ نسبت رکھتا ہے کہ جس کی ولایت کو حاصل کر لیتا ہے اور اس میں کچھ ڈر نہیں ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ولایت تمام انبیا علیہم الصلوة والسلام کی ولایتوں پر حاوی ہے پس ان ولایتوں تک پہنچنا اس ولایت خاصہ کے اجزاء میں سے کسی ایک جزوتک پہنچنا ہے اور اس ولایت تک نہ پہنچنے کا باعث حضور علیہ الصلوة والسلام کی کمال متابعت میں کمی  کرنا ہے اور کمی کیلئے کئی درجے ہیں ۔ اس لئے درجات ولایت میں تفاوت حاصل ہو جاتا ہے اور اگر کمال اتباع میسر ہو جائے تو اس ولایت تک پہنچناممکن ہے۔ اعتراض اس وقت وارد ہوتا ہے جب کہ دوسرے نبیوں کی شریعتوں کے تابعداروں کو ولایت خاصہ محمدی ﷺ حاصل ہوتی اور جب ایسا نہیں تو اعتراض بھی کوئی نہیں ۔ الحمد لله الذين أنعم علينا و هدانا إلى الصراط المستقيم و الدين القويم الله کی حمد ہے جس نے ہم پر بڑا احسان کیا اور سیدھے راستہ اور مضبوط دین کی طرف ہدایت کی۔

صراط مستقیم اسی مضبوط راستے اور شریعت  روشن سے مراد ہے۔ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ  عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ  اسی معنی پر دلیل ہے۔

رزقنا الله و اياكم كمال اتباع شريعة عليه الصلوة والسلام بحرمة کمل اتباعه و معظم اولیآئه رضوان الله تعالى عليهم اجمعين ۔ آمین حق تعالی آپ کو اور ہم کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں اور بزرگ اولیاؤں کے طفیل حضور علیہ الصلوة والسلام کی کمال تابعداری عطا فرمائے ۔ آمین

حامل رقیمہ ہذا ان حدود کی طرف آنے والا تھا اس لئے چند باتوں سے محبت کے سلسلے کو ہلانے والا ہوا۔ والسلام عليکم و رحمة الله سبحانه لديكم الله تعالی کی رحمت و سلام تم پرہو۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ232ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں