انبیاء کی وراثت کا علم مکتوب نمبر268دفتر اول

 اس بیان میں کہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی وراثت کا علم کون سا ہے اور ان علماء سے جو حدیث عُلَمَاءُ ‌أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح ہیں) میں واقع ہوئے ہیں کون سے ہیں ۔ اور اس بیان میں کہ علم اسرار جو انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی وراثت سے باقی رہا ہے وہ علم توحید و وجود کے ان اسرار سے ماسوا ہے جن کے ساتھ اولیائے امت نے تکلم کیا ہے اور احاطہ و سريان وقرب و معیت کے مناسب بیان میں خان خانان کی طرف صادر ہوا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)ان حدود کے فقرا کے احوال و اوضاع شکر کے لائق ہیں ۔ والمسئول من الله سبحانہ سلامتکم و عافیتكم وثباتكم واستقامتکم اور آپ کی تندرستی اور عافیت اور ثابت قدمی اور استقامت الله تعالیٰ سے چاہتے ہیں۔ 

چونکہ علم وراثت کی بحث درمیان آگئی ہے اس لئے چند کلمے اس کی نسبت بمقتضائے وقت لکھے جاتے ہیں۔ 

اخبار میں آیا ہے کہ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ علماء انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے وارث ہیں۔ وہ علم جوانبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے باقی رہا ہے دوقسم کا ہے۔ ایک علم احکام دوسرا(علم) اسرار اور عالم وارث (انبیاء)وہ  شخص ہے جس کو ان دونوں علموں سے حصہ حاصل ہو۔ نہ کہ وہ شخص جس کو ایک ہی قسم کاعلم نصیب ہو اور دوسرا علم اس کے نصیب نہ ہو کر بعض کو چھوڑ کر بعض سے اور وہ شخص جس کو بعض معین سے حصہ ملتا ہے۔ وہ غرماء یعنی قرض خواہوں میں داخل ہے کہ جس کا حصہ اس کے حق کی جنس سے متعلق ہے اور ایساہی آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام فرمایا ہے۔ عُلَمَاءُ ‌أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح ہیں) ۔ 

ان علماء سے مراد علمائے وارث ہیں نہ کہ غرماء کہ جنہوں نے بعض ترکہ سے حصہ لیا ہے کیونکہ وارث کو قرب و جنسیت کے لحاظ سے مورث(جس سے ورثہ ملے) کی ابتدا کر سکتے ہیں۔ برخلاف غریم کے کہ اس علاقہ سے خالی ہے۔ پس جو وارث نہ ہو وہ عالم بھی نہ ہوگا۔ مگر یہ کہ اس کے علم کو ایک نوع کے ساتھ مقید کر یں اور مثال کے طور پر یوں کہیں کہ علم احکام کا عالم ہے اور عالم مطلق وہ 

ہے جو وارث ہو اور اس کو دونوں قسم کے علم سے پورا حصہ حاصل ہو۔ اگر لوگوں کا یہ گمان ہے کہ علم اسرار علم توحید وجودی سے مراد ہے اور کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا مشاہدہ کرنا اور حق تعالیٰ کے احاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا) وجود اور قرب و معیت سے کنایہ ہے جس طرح پر کہ ارباب احوال کے نزدیک مکشوف ومشہود(مشاہدہ) ہے۔ حَاشَا ‌وَكَلَّاثم حَاشَا ‌وَكَلَّا کہ اس  قسم نے علوم و معارف علم اسرار سے ہوں اور مرتبه نبوت کے لائق ہوں کیونکہ ان معارف کی بناء پر سکر(مستی) وقت اور غلبہ حال پر ہے جو صحو(ہوش)کے منافی ہے اور انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کا علم کیاعلم احکام اور کیا علم اسرار سب صحو درصحو(اعلی درجہ کا ہوش) ہے کہ سکر کا ایک شمہ(ذرہ) بھی اس کے ساتھ نہیں ملا ہے۔ بلکہ یہ معارف اس مقام ولایت کے مناسب ہیں جو سکرمیں قدم راسخ (مضبوط)رکھتا ہے ۔ پس یہ علوم اسرار ولایت کے ہیں نہ کہ انبیاء کی نبوت کے اسرار سے۔ اگرچہ نبی سے ولایت بھی ثابت ہے لیکن اس کے احکام مغلوب ہیں اور احکام نبوت کے مقابلہ میں مضمحل اور نا چیز ہیں ۔ 

بلے ہر جا شود مہر آشکارا سُہارا جز نہاں بودن چه مارا

 ترجمہ: بھلا جس جاپر ہو سورج چمکتا سہا ہرگز نہیں واں پھر دمکتا 

فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے اور تحقیق کی ہے کہ کمالات نبوت دریائے محیط کا علم رکھتے ہیں اور کمالات ولایت ان کے مقابلہ میں ایک قطرہ ناچیز کا حکم لیکن کیا کریں جن لوگوں کو کمالات نبوت تک رسائی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ اَلْوَلَايَتُ اَفْضَلُ مِنَ النُّبُوَّتِ ولایت نبوت سے افضل ہے۔ 

اور ایک جماعت نے اس کی توجیہہ میں کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے۔ ان دونوں گروہوں نے نبوت کی حقیقت کو نہ سمجھ کر غائب پرحکم کیا ہے ۔صحو پر سکر کوتر جیح دینے کا حکم بھی اس حکم کے نزدیک ہے۔ اگرصحو کی حقیقت کو جانتے ہرگز سکروصحو کے ساتھ نسبت نہ دیتے۔ 

 (چہ نسبت خاک را با عالم پاک ،خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)

جن لوگوں نے خواص کےصحو کو عوام کےصحو کی مانند سمجھ کر سکر کو اس پر ترجیح دی ہے ۔ کاش کہ خواص کے سکر کو بھی عوام کے سکر کی طرح سمجھتے اور اس حکم پر جرأت  نہ کرتے کیونکہ علماء کے نزدیک یہ بات ثابت و مقرر ہے کہ صحو وسکر مجازی ہے تویہ حکم ثابت ہے اور اگر حقیقی ہے تو پھر ولایت کو نبوت سے افضل کہنا اور سکر(مستی) کوصحوپرترجیح دینے کا حکم ایسا ہے جیسا کہ کوئی کفر کو اسلام پر ترجیح دے اور جہل کو علم سے بہتر جانے کیونکہ کفر وجہل مقام ولایت کے مناسب ہے اور اسلام  ومعرفت مرتبہ نبوت کے مناسب منصور کہتا ہے۔

‌كفرت ‌بدين الله والكفر واجب                    لدي وعند المسلمين قبيح

 ترجمہ: ہوا کافر میں دین حق سے مجھ کو کفر بہتر ہے ۔ اگر چہ سب مسلمانوں کے ہاں وہ کفر بدتر ہے

  حضرت محمد رسول ﷺ کفر سے استعاذہ اور پناہ مانگتے تھے ۔ ۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى ‌شَاكِلَتِهِ  کہ ہر ایک اپنی وضع وطرز پرعمل کرتا ہے جس طرح عالم مجاز میں اسلام کفر سے بہتر ہے۔ اسی طرح حقیقت میں بھی اسلام و کفر سے بہتر جانا چاہیئے۔فَاِنَّ المَجازُ ‌قَنْطَرةُ الْحَقِيقَة مجاز حقیقت کاپل ہے۔ 

اگر کہیں کہ مقام ولایت میں جس طرح کہ مرتبہ جمع میں کفر وسکر و جہل ثابت ہے۔ اسی طرح مرتب فرق بعدالجمع میں اسلام وصحو و معرفت بھی متحقق و ثابت ہے تو کفر وسکر و جہل کو مقام ولایت کے مناسب کہناکسی معنی کے باعث ہے۔ 

میں کہتا ہوں کہ صحو وغیرہ کو مرتبہ فرق ثابت کرنا جمع کی نسبت سے ہے جو سراسر سکر و استتار(پوشیدہ) ہے۔ ورنہ اس مرتبہ کاصحو بھی سکرکے ساتھ اور اس اسلام کفر کے ساتھ اور اس کی معرفت جہل کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اگر فقیر کتاب میں گنجائش جانتا تو مرتب فرق کے احوال و معارف کو مفصل طور پر ذکر کرتا اور اس مرتبہ میں سکر وغیرہ کے ملنے کو بیان کرتا۔ دانا لوگ شاید اس معنے کو دانائی سے بھی معلوم کرلیں گے۔ الْعَجَبُ ‌كُلَّ ‌الْعَجَبِ(تعجب ہی تعجب ہے)

اس قدر تو سمجھنا چاہیئے کہ انبیاء علیہم الصلوت و التسلیمات نے جو اس قدر بڑائی اور بزرگی حاصل کی ہے تو وہ نبوت کی راہ سے حاصل کی ہے۔ نہ ولایت کی راہ سے۔ ولایت نبوت کے لئے خادم کی طرح ہے۔ اگر ولایت کو نبوت پر کچھ زیادتی ہوتی تو ملائکہ ملائے اعلی جن کی ولایت تمام ولایات سے اکمل ہے ۔ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے افضل ہوتے اور اس طائفہ میں سے ایک گروہ نے جب ولایت کو نبوت سے افضل جان کر ملائے اعلی کی ولایت کو انبیاءعلیہم الصلوات والتسلیمات کی ولایت سے اکمل دیکھا تو ناچارملائکہ علیین کو انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے افضل کر دیا اور تمام اہلسنت سے جدا جا پڑے۔ کل ذلك لعدم الاطلاع على حقيقة النبوة ‘یہ سب کچھ حقیقت نبوت پر اطلاع نہ پانے کے باعث ہے اور چونکہ بعد زمانہ کے باعث لوگوں کی نظر میں کمالات نبوت کے مقابلہ میں کمالات نبوت حقیر دکھائی دیتے ہیں ۔ اس لئے اس بارہ میں سخن کو مفصل بیان کیا اور معاملہ کی تھوڑی سی حقیقت ظاہر کر دی ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِين یا اللہ ہمارے گناہوں کو اور جو کچھ ہم سے کاموں میں اسراف ہوا ہے بخش اور ہمارے قدموں کوثابت رکھا اور کافروں پر ہماری مدد کر

اخوی رشدی شیخ داؤد چونکہ ان حدود کی طرف جانے والے تھے اس لئے وہی اس تکلیف کے باعث ہوئے ہیں ۔ والسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ296 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں