باطن کی تصدیق

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

 اہل بغداد سے خطاب:

اے بغداد کے رہنے والو!  اے زمین و آسمان والو سمجھ سے کام لو اللہ وہ وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے ۔ یہ مقام صرف آرائش اور بناوٹ اور سنگھار سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ ظاہر ہے جس کی تصدیق باطن کرتا ہےاور باطن ہے جس کی تصدیق ظاہر کرتا ہے، جب تک

تیرے سارے رب ایک رب نہ ہو جائیں۔ تو سب کو چھوڑ کر ایک کو نہ پکڑ لے

– تیری سب جہتیں ایک جہت نہ ہو جائیں،   تیرا   محبوب صرف ایک نہ ہو جائے ، تیرا قلب متحد نہ ہو جائے ،

تیرا کلام معتبر نہیں ، تیرے دل میں قرب الہٰی کب خیمہ زن ہوگا، تیرا دل مجذوب کب بنے گا ۔ تیرا باطن کب مقرب بنے گا، تو اللہ تعالی سے جب ہی مل سکتا ہے جبکہ مخلوق سے علیحدہ ہو جائے ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

مَنِ ‌انْقَطَعَ ‌إِلَى ‌اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ كُلَّ مُؤْنَةٍ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ، وَمَنِ انْقَطَعَ إِلَى الدُّنْيَا وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَيْهَا  جوسب سے توڑ کر اللہ کی طرف رجوع کر لے گا تو اللہ تعالی اس کی تمام ضرورتوں میں کفایت کرے گا، اور جو دنیا کا ہو جائے گا تو اللہ سے دنیا کے حوالے کر دے گا‘‘۔

 وہ جانے اور اس کو دنیا ، اللہ والوں میں خرق عادات ہونے لگتے ہیں ، اللہ کے نزدیک انسان کے جو مقام دمر تے ہیں تب ہی پا تا ہے کہ وہ سب سے انقطاع کر کے دل سے کلیتا اس کی طرف مائل ہو جائے ، اللہ تعالی نے خود ارشاد فرمایا:

من عمل عملا برید به غيري فانا أغنى الشریکین ’’جو میرے غیر کے ارادے سے عمل کرتا ہے، میں تو شریکوں کاغنی ہوں (یعنی میں کسی کا محتاج نہیں ہوں) تو وہ عمل میرے لئے نہیں ہوتا بلکہ میرے شریک کے لئے ہوتا ہے۔

اخلاص مسلمان کے لئے زمین ہے اور عمل اس کی دیواریں، چنانچہ دیوار یں تو بدل سکتی ہیں لیکن زمین نہیں بدلتی اس لئے کہ عمارت کی بنیادتقوی پر ہے

سوال: اگر کوئی یہ کہے کہ میں سب سے قطع تعلق کر کے اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا مگر اس نے ضرورتوں کی کفالت نہ کی

 جواب:اس کا جواب یہ ہے کہ خلل و خرابی تجھ میں ہے نہ کہ معاذاللہ  رسول اللہ ﷺ میں آپ ﷺ تو اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے تھے ، ۔

کیا تمہیں اللہ کے بارے میں کچھ علم ہے، اللہ کی قسم! کچھ بھی نہیں، بلکہ تم دنیا اور اس کی زینت کے عاشق بنے۔ ہوئے ہو، اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہوتا تو جس کا کہ تو مدعی بنا ہوا ہے تو ایک ذرے کی طلب میں بھی حیلہ نہ کرتا، تو  اپنے نفس کو تقدیر کے جنگل میں ڈال دے، اس کا معاملہ جب کامیابی پر پہنچ جائے گا تو تیری سیٹرھی کا سرا قرب کے دروازے سے جا کر مل جائے گا،  تیرے سامنے ایسا حسین چہرہ آ جائے گا جو کہ دنیا و آخرت کی زینت سے نہایت خوبصورت ہو گا، تم دونوں میں دوستی کامل ہو جائے گی اور تمام حجاب اور واسطے اٹھ جائیں گے۔ تو اپنی تقدیر کے میدان سے دنیا کی فریاد سننے لگے گا، چنانچہ تو اپنی امانتیں حوالے کر دے اور مجھ سے اپنی پوری پوری خدمت لے، میں تیرے نفع و نقصان کے لئے یہاں قید ہوں، دنیا کے جواب دینے کے لئے تیرا قرب الہٰی سفارش کرے گا ، اس وقت علم کا ہاتھ اس کی طرف بڑھے گا، اور شریعت کا ہاتھ اس کی مددکرے گا،۔ امر کی ابتداء میں اپنی عادت  اور خواہش اور ارادے کی مخالفت سے پہلے تیراد نیا میں غوطہ لگانا اور یہ خیال کرنا کہ تو مقربین اور محبوبین میں سے ہے، پسیہ تو ایک حسرت ہے جس نے تجھے لازم پکڑ لیا ہے۔ ایک محرومی ہے جوتجھے فریب دے رہی ہے۔ اگر تجھے علم ہوتا کہ یقینا دنیا تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے، تو تو یہ سوال نہ کرتا، جب تیرا باطن اللہ کے لئے مہذب بن جائے گا تو دنیا تیرے لئے مہذب بن جائے گی ،۔ ظاہری طور پر دنیا تیرے لئے شیر یں معلوم ہوتی ہے مگر اس کا شربت زہر ہے، دنیا پہلےمیٹھا پن ظاہر کرتی ہے، بعد میں تلخی اور کڑ وا پن دکھاتی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا جب تیرے دل میں اثر کر لیتی ہے اور وہ تجھے اپنے پہلو میں دبالیتی ہے تو اس وقت زہر یلا اثر دکھاتی ہے اور تجھے قتل کر ڈالتی ہے۔ اگلے بزرگ گوشہ نشینی اختیار کرنے سے پہلے خطرات کے درمیان فرق کر کے علیحد گی کر لیا کرتے تھے۔ اے وسوسہ  نفس اور وسوسہ شیطان اور وسوسہ قلب کے درمیان میں تمیز نہ کر نے والے تو وسوسہ شیطانی جو کہ معاصی اورلغزشوں سے ملا ہوا ہے، اور اصل میں کفر سے اور فرع میں نافرمانیوں سے لاحق ہے، اور الہام ملکی ( فرشتہ ) میں جو طاعتوں اور اعمال صالحہ سے تعلق رکھتا ہے، کیسے فرق کر سکے گا۔

منصور حلاج کی وصیت

 ان صاحب سے جنہیں سولی پر چڑھایا گیا یعنی منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا کہ مجھے وصیت فرمائے ۔ آپ نے فرمایا:

وصیت نفس کے لیے ہے، اگر تو اس پر سوار ہو گیا تو بہتر ہے ورنہ وہ تجھ پر سوار ہو کر تجھے ذلیل و خوار کر دے گا۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 682،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں