باون ویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے باون ویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثانی والخمسون النظر الی الناس بعین الغناء‘‘ ہے۔

  منعقدہ 3 رمضان 545 بروز صبح جمعه بمقام مدرسہ قادریہ

اللہ کی طرف دوڑ و، سب کام اسی کی طرف لوٹتے ہیں:

اے لوگو! اللہ کی طرف دوڑ و، خلقت اور دنیا اور ما سوی اللہ سے ناطہ توڑ کے اللہ کی طرف بھا گو!  دلوں سے اللہ کی طرف چلو ، کیا تم نے یہ ارشاد باری نہیں سنا:

أَلَا إِلَى اللَّهِ ‌تَصِيرُ الْأُمُورُ سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ اے بیٹا مخلوق کو بقا کی آنکھ سے نہ دیکھ بلکہ انکی طرف فنا کی آنکھ سے دیکھ کہ سب فانی ہیں ، انہیں نفع ونقصان کی آنکھ سے نہ دیکھ بلکہ انہیں ذلت اور عاجزی کی آنکھ سے دیکھ، اس لئے کہ یہ سب اللہ کے سامنے عاجز وذلیل ہیں ۔ اللہ کو ایک جان اور اسی پر بھروسہ کر اور جس بات سے وہ فارغ ہو چکا ہے اس میں بکواس نہ کر، نیا اور جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ سب سے فارغ ہو چکا ہے، خلقت میں جو انقلابات اور تغیرات ہونا ہیں، ان سے فارغ ہو چکا ہے، مسلمان کا دل ان سب سے فارغ ہے، خاص کر جب وہ تمام اسباب سے بالکل خالی ہو جائے تو وہ اپنے حال میں زیادہ مضبوط ہو جا تا ہے، اگر اس کے پاس اہل وعیال آ جائیں تو اس پر اس کی مدد کی جاتی ہے، اسے ان کے حمل و برداشت کے لئے قوت عطا کی جاتی ہے ۔ اس کا دل ہر حال میں ماسوی اللہ سے فارغ رہتا ہے مخلوق سے ہمیشہ غائب و دور رہتا ہے، وہ اس سے کسی تغیر وتبد یلی کا تمنائی نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ  جوشے مقدر ہو چکی ہے وہ بدل نہیں سکتی ،  جو شے نصیب میں لکھے جانے سے فارغ ہو چکی ہے، اس میں کمی یا زیادتی نہیں ہوسکتی ،چنانچہ وہ نہ تو زیادتی کو طلب کرتا ہے اور نہ کمی کو، نہ اس میں تاخیر چاہتا ہے نہ اس میں جلدی کا طالب ، کیونکہ ہرشے اور ہر کام کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہو چکا ہے ۔ لوگ ہی عقل والے اور ہشیار ہیں، اور زیادتی کی ،جلدی اور تا خیر چاہنے والے پاگل اور دیوانے ہیں ۔ جو اللہ سے راضی ہوگا، وہ اپنے اور غیر کے سب احوال میں اللہ کی موافقت کرے گا ، اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے، اسے اپنی معرفت عطا کرتا ہے۔ باقی عمراپنے مقصود کی راہ پر اللہ کے ساتھ گزارتا ہے،   پہلے اسے توفیق دیتا ہے، پھر اپنا مقرب بنالیتا ہے، اسے غیرت اور پریشانی میں گم دیکھ کر فرماتاہے: انا ربک میں تیرارب ہوں ۔ ۔ جس طرح کہ موسی علیہ السلام سے فرمایا تھا: إِنِّي أَنَا رَبُّكَ ‌فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ بے شک میں تیرارب ہوں، تو اپنی جوتیاں اتار دے۔“ موسی علیہ السلام سے یہ دار شارظاہری طور پر فرمایا تھا، جبکہ اللہ اپنے عارف کے قلب سے باطنی طور پر ارشادفرماتا ہے، جسے وہ اس کی رحمت اور لطف اور نبی مکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی وجاہت سے سنتا ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزے ظاہری طور پر سامنے آتے ہیں ، جبکہ اولیاء کرام کی کرامتیں باطنی طور پر ہوتی ہیں، اولیاءاللہ انبیاء کرام کے وارث ہیں، یہ اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہیں، اللہ کے دین کی جن اور انسان کے شیطانوں سے حفاظت کرتے ہیں ، تو اللہ اور اس کے رسولوں سے جاہل ہے اور اولیاء اللہ سے ناواقف ہے ۔ اے منافق! تجھے کیسے خبر ہو کہ اولیاء اللہ کس حال میں ہیں اور کیا مقام رکھتے ہیں، تو قرآن مجید پڑھتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہتا ہے، توعمل کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ عمل کیسے کیا جائے ، یہ دنیا ہے جس کی آخرت نہیں، (ایسی نالائقی کے باوجود ) اولیاء اللہ پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ عقل سے کام لے، ادب سیکھ اور توبہ کر کے لب سی لے ۔ تجھے نہ اللہ کا پتہ ہے نہ رسولوں کا ، اور نہ ہی اولیاء اللہ کا پتہ ہے، نہ اس کے علم کا پتہ ہے کہ وہ تیرے اورمخلوق  کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ، تو بہ کر اور خاموش رہ ، اور اپنی عزت کے مطابق قبر میں جانے کی فکر کر، جیسا کہے ویسا کر تا کہ تو علم سیکھ لے، اللہ کے ساتھ چل تا کہ وہ تجھے ایسا نور عطا کرے جس کے ذریعہ تو دنیا وآخرت دونوں کو دیکھ سکے، جو میں کہہ رہا ہوں اسے مان لواور اس میں کوشش کرو، اور جو کچھ تقدیر میں پہلے ہو چکا اس کا پچھتاوا اورغم کرنا چھوڑ دو، کیونکہ یہ صرف تمہاری حرص اور کمزوری کے باعث اور کاہلوں کی حجت ہے، ہم پر لازم ہے کہ ہم تقدیر کے بارے میں بحث و تکرارنہ  کریں بلکہ ہم ہمت سے کام لیں اور کوشش کر کے عمل کی عادت ڈالیں ، اس چکر میں نہ پڑیں کہ ایسا کیوں کہا، ایسا کیوں کیا اور کس لئے کیا، نکتہ چینی چھوڑ دیں اور اللہ کے کاموں میں دخل نہ دیں، ہمارا کام کوشش کر کے عمل کرنا ہے، اللہ جو چاہے، کرے ۔ ارشاد باری تعالی ہے: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ -جو چاہے وہ کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ، اور انہیں پوچھا جائے گا۔‘‘

جو تیرا یہ معاملہ انتہا کو پہنچے، اور اللہ تیرے دل کو اپنے قریب کر لے اور دنیا میں تیرازہد درست ہو جائے ،تو آخرت میں رغبت کرنے لگے گا،  تیرانام قرب الہی کے دروازے پر لکھا ہوا ہوگا: فلان ابن فلان من عتقاء الله عز وجل –

فلاں کا فلاں بیٹا اللہ کے آزاد بندوں میں سے ہے۔“

چنانچہ یہ ایسی شے ہے کہ اس میں نہ کسی طرح کا تغیر ہوگا نہ تبدل، اور نہ اس میں کمی بیشی کی جائے گی ۔اب تو اللہ کا شکر زیادہ کرے گا ، بھلائی کے کام اور اطاعتیں اس کے سامنے بڑھ جائیں گی ، اس کے باوجود اپنے دل سے اس کا خوف نہ چھوڑ ، نہ اس کی قدرت کو عا جز سمجھے ۔ ارشاد باری ہے: يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ  اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور ثابت کرتا ہے ، اوراس کے پاس اصل کتاب ہے۔

: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ جو چاہے وہ کرے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ، اور انہیں پوچھا جائے گا ۔‘‘

اس لکھے ہوئے پرتو اکتفا نہ کر ، کیونکہ اس نے لکھا ہے، وہی مٹانے پر قادر ہے، جس نے بنایا ہے وہی تو ڑ نے پر قادر ہے، تو ہمیشہ اطاعت اور خوف اور دہشت اور بچاؤ کے قدم پر کھڑارہ حتی کہ تجھے موت آ جائے ، اور تو دنیا سے بخیر و عافیت آخرت کی طرف چلا جائے ، اب تجھے تغیر و تبدل سے کوئی خوف نہ ہوگا ، امن وامان سے ہوگا ، اے اپنی جہالت اور نفاق اور دنیا کی طلب اور دنیا کی کشمکش کی وجہ سے اللہ سے مزاحمت کرنے والے! تو تو حرام کھا رہا ہے ، پھر تجھے دل کی نورانیت ، باطن کی صفائی اور دانائی کے ساتھ بات کرنے کی کیسے تمنا اور آرزو ہے، اولیاء اللہ کا کلام تو ضرورت کے تحت ہوتا ہے، ان کی نیند ڈوبے ہوئے کی نیند کی طرح ہے، ان کا کھانا پیاروں کے کھانوں کی مانند ہوتا ہے۔ وہ موت کا وقت آنے تک اسی حال پر رہے ہیں، وہ ان فرشتوں کی مثل ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری ہے:

لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ وہاللہ سے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ، وہی کرتے ہیں جس کے لئے حکم ہوتا ہے۔

یہ فرشتوں کی مثل ہو کر فرشتوں سے بڑھ گئے ہیں۔ کیونکہ فر شتے ان کے خادم ہیں دنیا وآخرت میں ان کی خدمت  گزاری میں رہیں گے۔

 اللہ تمہیں اپنی رحمت کی وجہ سے دوست رکھتا ہے:

اے لوگو! میری بات چیت اگر تمہارے حال کے موافق نہ ہو، اور تمہاری سمجھ میں نہ آ رہا ہو، تو اسے ایمان اور تصدیق سے سنو میری بات چیت دلوں کے لئے عزت اور وقار کا باعث ہے۔ تم اسے دلوں اور باطنوں سے سنو، تمہارے ظاہر و باطن کو راحت ملے گی۔ تمہارے نفسوں اور خواہشوں کی آن مٹ جائے گی ، تمہاری شہوتوں کی آگ بجھ جائے گی ، تمہارے حق میں سب سے بدتر تمہاری شہوتیں ہیں جو تمہارے لئے دنیا کو دوست بناتی ہیں، اور فقر کوتمہارا دشمن ٹھہرا کر تمہیں ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں، ایک ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دل میں جو کچھ ہے اسے جمع کر کے ایک کھلے طباق میں رکھو، اور اسے اٹھا کر سارے بازار میں پھراؤ ، اس میں ایک شے بھی ایسی نہ ہو جس سے تمہیں شرمندگی ہو۔‘‘

اے جاہل ! تو اس پر کفایت نہیں کرتا کہ تو تقومی شعارنہیں ہے، بلکہ جب تجھے کہا جا تا ہے کہ اللہ سے ڈر تو غصے میں آجا تا ہے ۔ اور جب تجھ سے حق سچ بات کہی جائے تو اسے سن کرسستی کرتا ہے، اور جب کوئی تجھ پر اعتراض کرتا ہے تو تو  اس پر بگڑ نے لگتا ہے اور اس پر غصہ نکالتا ہے ۔

 امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جو بندہ اللہ سے ڈرتا ہے  وہ اپنے غصے کا بدلہ نہیں لیتا ۔

ارشاد باری تعالی ہے: إنِّي ‌كُنْتُ ‌أُحِبُّكُمْ فَلَمَّا عَصَيْتُمُونِي أَبْغَضْتُكُمْو جومیری فرماں برداری کرتا ہے، اسے دوست رکھتا ہوں ، اور جو نافرمانی کرتا ہے، اس سے نفرت کرتا ہوں ۔‘‘

 اللہ تمہیں اپنی رحمت کی وجہ سے دوست رکھتا ہے کسی حاجت یا کسی غرض کی وجہ سے نہیں ،  تمہیں تمہارے لئے پیار کرتا ہے، اپنی ذات کے لئے نہیں۔ تمہاری اطاعت کو پسند کرتا ہے، اس لئے کہ اس کا فائدہ تمہارے ہی لئے ہے۔تجھے چاہئے کہ تو اس کی طرف مشغول ومتوجہ ہو جو تجھے تیرے لئے چاہتا ہے، اور اس سے اعراض کر جو تجھے صرف اپنے لئے چاہتا ہے، ایمان دار ہرشے کو بھلا کر صرف اللہ ہی کو یاد کرتا ہے، چنانچہ زندگی کے ساتھ ساتھ اسے قرب الہی بھی حاصل ہو گیا ، اللہ پر اس کا تو کل صحیح ہوگیا، دونوں جہانوں کی مشکلات میں اللہ اس کا ضامن کفیل ہو گیا،  مومن کا توکل اور توحید جب صحیح ہو جائیں تو اللہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ ان کا تو نام نہیں مگر ان کا حال اور باطن عطا فرماتا ہے، اپنے طعام وشراب سے ویسا ہی کھلاتا پلاتا ہے، جیسا انہیں کھلا یا پلایا تھا ،اپنے آستانے کی دہلیز پر ویسے ہی ٹھہراتا ہے جیسے کہ انہیں ٹھہرایا تھا، یہ نہیں کہ انہیں ہو بہو مقام ابراہیمی عطا فرمادیتا ہے۔ ایسے میں مومن کے لئے ابراہیمی نسبت صورت وحقیقت کے لحاظ سے نہیں بلکہ باطن کے لحاظ سے بھی ہو جاتی ہے، تجھے شرم نہیں آتی کہ تیری حرص نے تجھے ظالموں کا خدمت گار بنارکھا ہے، اور تو ہے کہ حرام کھائے چلا جارہا ہے، آ خر کب تک حرام کھاتا رہے گا ۔ یہ حکمران جن کی خدمت گاری میں تو لگا ہے عنقریب ان کی حکومت ختم ہو جائے گی ، اور وہ اللہ کی ذات جس کی حکومت کوکبھی زوال نہیں ، اس سے کب تک منہ موڑے رہے گا ،ذراعقل کر اور دنیا میں تھوڑے پر گزارا کر تا کہ آخرت میں وافر ملے ، اپنے نصیب کا لکھا زہد کے ہاتھوں سے کھا، تیرا کھانا پینا قدرت الہی کے فعل کے ہاتھوں سے آستانہ الہی کے دروازے پر ہو ۔ یہ کھانا پینا دنیا کے ساتھ نہیں،اس کے ساتھ ہو ،یہ کھانا پینا نہ د نیا کے ہاتھ سے ہو نہ حکمرانوں کی چوکھٹ پر عادت وخواہش وعوام و شیطان کے ہاتھ سےہو، دنیا میں رہ کر جب تو کھائے پئیے گا کہ تیرا دل اللہ کے دروازے پر ہوتو فرشتے اور نبیوں کی روحیں تیرے اردگرد ہونگی،سوچنے کی بات یہ ہے کہ دونوں مقامات اور احوال میں کتنا واضح فرق ہے۔ اولیاء اللہ بڑے عقل والے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ہم دنیا میں اپنے حصے کا رزق نہ ر ستے میں کھائیں گے، نہ اپنے گھروں میں کھائیں گے، ہم تو اس کے دربار میں اس کے سامنے کھائیں گے،زاہد جنت میں کھائیں گے اور عارفان الہی اس کی حضوری میں کھاتے ہیں، اللہ کے محبوب نہ دنیا میں کھاتے ہیں نہ آخرت میں کھائیں گے ۔ ان کا تو کھانا پینا اللہ تعالی سے ان کا قرب اور انس ہے، اور اس کی طرف دیکھتے رہنا ہے ۔ انہوں نے دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ ڈالا ہے، اور آخرت کو دنیا وآخرت کے مالک اللہ تعالی کے قرب کے بدلے بیچ دیا۔ جو لوگ اس کی محبت سچے ہیں انہوں نے دنیا وآخرت کو اللہ کے لئے بیچ دیا ہے، وہ اس کو چاہتے ہیں ، اس کے غیر سے کچھ واسطہ  نہیں۔ جب یہ  خرید وفروخت ختم ہوگئی تو اس کے کرم نے غلبہ کیا اورد نیاوآخرت بطور انعام لوٹا دیں، اور انہیں ان کے لینے کاحکم دیا ۔ انہوں نے سیر شکمی اور بدہضمی کے باوجود تعمیل ارشاد کے لئے حاجت نہ ہوتے ہوئے قبول کر لیا،تقدیر کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے حسن ادب کےساتھ قبول کیا ، اور کہتے ہیں:

 تو ہمارے ارادوں کو خوب جانتا ہے، ہم غیر سے نہیں تیرے سے راضی ہیں ۔ بھوک و پیاس اور برہنگی اور تیری طرف سے جو ذلت ورسوائی پہنچے، اس پر ہم راضی ہیں اور اس پر راضی ہیں  تیرے ہی در پر پڑے رہیں۔

وہ جب اس حال پر راضی ہو گئے اوران کے نفسوں کو اطمینان ہو گیا تو اللہ نے ان کی طرف رحمت کی نظر کی،  ذلت کے بعد انہیں عزت عطا فرمائی ۔ فقیری کے بعد تو نگری سے نوازاد نیاو آ خرت میں اپنے قرب کا اعزاز بخشا, دنیا میں مؤمن زہد اختیار کرتا ہے، اس کا زہدان کے باطن کامیل کچیل اور خرابی کوختم کر دیتا ہے، پھر آخرت کے آ جانے سے اس کا دل سکون محسوس کرتا ہے، پھر غیرت الہی کا ہاتھ حرکت میں آ تا ہے اور اس کے دل سے آخرت کو دور کر دیتا ہے، اور اسے مطلع کرتا ہے کہ آخرت میں اللہ کے قرب میں حجاب ہے، اس وقت مومن خلقت کو چھوڑ کر شرعی احکام کو بجالاتا ہے، اور اس میں اور عوام میں جو حد ودمشترک ہیں ، ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، جن سے وہ اپنے نفس اور خلافت کے عیب دیکھنے لگتا ہے، اپنے رب کے سواکسی کے ہاں نہیں ٹھہرتا غیر کی بات پر کان نہیں دھرتا،غیر اللہ کو کچھ نہیں سمجھتا،- ان کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتا ،غیر اللہ کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا، غیر اللہ کے ساتھ مشغول نہیں ہوتا ،اور اللہ کے ساتھ مشغول ہو جا تا ہے ۔ مسلمان جب یہ  کمالات حاصل کر لیتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا ، اور کسی بندے کے دل پر ان کا خیال ہی گزرا ہے۔

نفس کی اصلاح سے ہی نفس کا فائدہ ہوسکتا ہے:

 اے بیٹا! پہلے اپنے نفس کی طرف متوجہ ہو، اس کی اصلاح کر کے اس کا فائدہ کر ، پھر دوسروں کی سوچ، شمع کی طرح نہ ہو کہ وہ خود کو جلاتی ہے اور غیر کوروشنی دیتی ہے، تو کسی شے میں اپنی خودی اور خواہش اور نفس کے ساتھ داخل نہ ہو ، اللہ کا جب کسی امر کے لئے ارادہ ہوگا تو اس کے لئے تجھے تیار کر دے گا، اگر تیرے ہاتھوں خلقت کو فائدہ پہنچانا مقصود ہوا تو تجھےان کی طرف لوٹا دے گا۔ تجھے ثابت قدمی اور مدارات کی دولت سے نوازے گا،خلقت کی تکلیفیں برداشت کرنے کی قوت عطا کرے گا ، تیرے دل میں خلقت کے لئے وسعت دے دے گا ۔تیرا سینہ کشادہ کر کے اس میں حکمت و دانائی بھر دے گا ، تیرے باطن کی نگہبانی کرے گا اور اس کی راز داری کرے گا ، اس لمحے تو نہیں وہی وہ ہوگا، کیا تو نے یہ ارشاد باری نہیں سنا:

يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ ‌خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ’’اے داؤوا ہم نے تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے ۔‘‘

تو اللہ کے اس فرمان إِنَّا جَعَلْنَاكَ ‌خَلِيفَةً پرغور کر، یوں نہیں فرمایا:انت جعلت نفسک کہ تو نے اپنے نفس کو بنایا اولیاء اللہ کا کوئی اپنا ارادہ ہوتا ہے نہ کوئی اختیار، وہ ہر کام امر فعل وتد بیراور اللہ کے ارادے کے تحت کرتے ہیں ، اے سیدھی راہ سے ہٹ جانے والے  تو کسی شے سے حجت نہ پکڑ ، تیرے پاس سیدھے راستے کی کوئی دلیل نہیں ، حلال  اور حرام دونوں سامنے ہیں تو اللہ پر کتنا بے حیا بن گیا ہے ، اللہ کے لئے تیرا خوف کس قدر کم ہو گیا ہے، کون سی چیز نےتجھے نڈر بنادیا ہے ، اس کے دیدار کوتو کس قدر ہلکا سمجھ رہا ہے، رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا:

حف من الله عز وجل كانك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك اللہ سے ڈرگو یا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر تو اسے نہیں دیکھتا، وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔ بیدارلوگ اللہ کو اپنے دلوں سے دیکھتے ہیں ، جب ان کی پراگندگی یکجا ہوگئی تو پگھل کر ایک ہی چیز بن گئی، اللہ اور اس کے بیچ میں سے حجاب اٹھ گئے ، بدن فنا ہو گئے ، باطن باقی رہ گئے ، جوڑو پیوندٹوٹ گئے ، اور دوست بچھڑ گئے ، اب ان کے لئے اللہ کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ اس کے بغیر نہ ان کے لئے کوئی بات نہ کوئی حرکت ، اور نہ کسی شے سے خوشی ، حتی کہ ان کا یہ معاملہ صحیح  ہو گیا تو وہ کامل بن گئے ،ان کے حق میں امر پورا ہو گیا۔ پہلے وہ دنیا کی غلامی اور اس کی بندگی سے نکلے ، پھر سب ما سوی اللہ سے الگ ہو گئے، یہ لوگ ہمیشہ اللہ کے معاملے اور اس کی ذات میں آزمائش میں رہے، تا کہ وہ ان کے اعمال کو دیکھے کہ یہ کیسے عمل کرتے ہیں ،  گو یا باطن بادشاہ ہے اور دل اس کا وزیر ، جبکہ نفس وزبان اور دیگر اعضاء ان دونوں کے خدمت گزار:

 باطن دریائے الہی سے سیراب ہوتا ہے، دل باطن سے سیراب ہوتا ہے،نفس مطمئنہ ، دل سے سیراب ہوتا ہے، زبان نفس مطمئنہ سے سیراب ہوتی ہے، اعضاء زبان سے سیراب ہوتے ہیں۔ زبان جب سدھر جاتی ہے تو دل سدھر جا تا ہے، اور جب زبان بگڑ جاتی ہے تو دل بھی بگڑ جا تا ہے، تیری زبان کو تقوی کی لگام اور فضول باتوں اور نفاق سے توبہ کی ضرورت ہے ۔ اس پر جب ہمیشگی ہو تو زبان کی فصاحت ، دل کی فصاحت کی طرف لوٹ آئے گی ، دل کو جب یہ کمال حاصل ہو جائے گا وہ منور ہو جائے گا، اور دل سے زبان اور اعضاء روشن ہو جائیں گے۔ اس مقام پر مقرب کی زبان سے بات کیا کرے گا، قرب میں نہ اس کی زبان ہو گی ، نہ اس کی دعا نہ ذکر، دعا وذکر اور کلام تو دوری کے عالم میں ہوتے ہیں، قرب کے عالم میں سکون اور گمنامی اور نظارہ جمال الہی اور اس سے فائدہ اٹھانے میں قناعت ہوا کرتی ہے۔

 اللهم اجعلنا ممن يراك في الدنيا بعيني قلبه ولا في الأخرة بعيني رأسه واتنا في الدنيا حسنة و في الأخرة حسنة وقنا عذاب النارالہی! تو ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جو دنیا میں تجھے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آخرت میں سرکی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کرے، اور آخرت کی بھلائی عطا کرے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔ آمین!

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 374،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 196دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں