دین سے موافقت

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

اے میرے مریدا تو اپنی حفاظت کر اور دین کے ساتھ موافقت کر ورنہ میری نسبت اور طریقہ  قطع کردے، پھرتو جانے اور تیرا کام، جاہل نہ بن، تو اپنے گھر میں بیٹھ کر فضول باتیں بنا تا رہتا ہے، ہم نے بہت دوائیں لی ہیں اور انہوں نے ہمارے ساتھ موافقت کی ہے، ایک مجرب دوا جو ہمارے پاس ہے، ہم تجھے بتاتے ہیں تو اسے استعمال کر تم اس دن سے ڈرو جس میں مال اور اولا دکچھ نفع نہ پہنچائیں گے، کون سامال ! وہی جوتو نے حلال طریقے سے اور محنت سے جمع کیا اور اسے اس کے طریقے سے حاصل کیا ۔ گزشتہ اہل عرب کی طرح تو نے دعوی کیا کہ تیرا یہ مال اور اولا دقیامت کے دن تجھے فائدہ دیں گے۔ ارشاد باری ہے:

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا ‌بَنُون إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ اس دن کو یا در کھ جس دن مال اور اولا دکام نہ آئیں گے مگر وہ شخص جو اللہ کے سامنے سلامتی والا دل لے کر حاضر ہوگا نفع پائے گا‘‘۔

یعنی جس نے اپنے دل سے مال اور اولاد کی طرف نظر نہ کی اور نہ ان دونوں کو اس کے دل نے جگہ دی، بلکہ وہ یہی خیال کرتارہا کہ ان دونوں میں اللہ ہی وکیل ہے، محض حکم الہٰی کی موافقت کے لئے ان دونوں کی مصاحبت میں رہا، چنانچہ اس کا دل مال اور اولاد کی آفتوں سے محفوظ رہا، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جسےیہ خبر دی جائے کہ بادشاہ اپنی خادمہ سے اس کا نکاح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،اور اس کے ہاتھ سے اسے مرواڈالنا چاہتا ہے، یہ خبر سن کر اس نے اپنے دل میں سوچا

اگر میں کہیں بھا گ بھی جاؤں تو یہ بادشاہ تجھے اپنے آدمیوں سے پکڑ والے گا۔ اور اگر میں اس کی مخالفت کروں تو اپنی حکومت کی وجہ سے تجھے مروادے گا۔ اور اگر میں اس کی موافقت کروں تو اپنی خادمہ سے تجھے مروادے گا ، بادل ناخواستہ شاہی فرمان کو مان لے گا، ۔ بادشاہ نے اپنی خادماؤں میں سے اسے ایک خادمہ کے ساتھ نکاح کر دینے کا حکم دے دیا، اور اس خادمہ کو حکم دیا کہ تو اسے زہر دے دینا ، اور جب سو جائے تو ذبح کر ڈالنا! اے افسوس اور حسرت اور نقصان ایسے شخص پر لیکن اولیت حسن ادب کی تھی اور شاہی حکم کی موافقت کا اظہار قلب کے خوف کے ساتھ تھا،  اس شخص نے کہا: میں نے حکم سنا اورتعمیل کے لئے تیار ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر مجلس میں داخل ہو گیا، نکاح اور ہدیہ کوقبول کر لیا، شب باشی کا وقت آیا ، ۔ اس نے بدن پر خوف واختیار کی زرہ پہن لی ، دل کی آنکھوں میں بیداری کا سرمہ لگالیاء

تا کہ وہ اپنی عورت کی حرکات وسکنات کو دیکھتار ہے، اس کی پریشانی خوشی میں بدل گئی، شاہی نوکر چا کر یہ گمان کرتے رہے۔ کہ اس شخص کو جو امر پہنچا ہے ، وہ اس میں قابل رشک ہے، حتی کہ دن نکل آیا اور خادمہ اسے زہر سے بلاک نہ کرسکی ،مطلب یہ ہے: إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ، یعنی قلب سلیم والے کے لئے نفع ہے ۔

دنیا وہ زوجہ ہے کہ یہ بندہ خدانہ اس کے ساتھ سویا، نہ اس کے ساتھ عمر بھر خلوت کی ، اور آخرت کی طرف آ گیا ، د نیانہ اس کا تقوی چھین سکی ،نہ اس کا دین بدل سکی ، پس یہ سلامتی مطلوب ہے ( قلب سلیم میں جسے بیان کیا گیا )۔

عارف باللہ کا بھی یہی حال ہے جو کہ دنیا میں زاہد اور آخرت میں راغب ہے،  صفائے باطن کے وقت ولی اللہ کے پاس جب قاصد علم آ کر یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ تعالی کا یہ ارادہ ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تیری طرف منسوب کر دے تا کہ وہ صدیقین کے دل کے لئے باعث حیات بن جائے ۔ وہ ایک قسم کا مشغلہ ہے، اور مشقت اور کدورت اور توجہ ہے، اگر ایسا ہوتو تو بتا کیا عمل کرے گا، تو اپنے قلب و باطن کو کیسے سلامت رکھے گا ، چنانچہ باطن یہ خبر پا کر کھڑا ہو جا تا ہے، باطن اور قلب دونوں ساتھ ہوکر شاہی دروازے پر جا کر کہتے ہیں: ہم سے کیا کام لینے کا ارادہ ہے ۔ کیا ہم خود کہ محجوب کرنے کا ارادہ ہے ۔ کیا تو ہمیں اپنے دروازے سے جدا کرنا چاہتا ہے، اور ہمارے عیش کو تلف کرنا چاہتا ہے، ہم اس آستانے سے عہد و پیمان کے بغیر نہ ہٹیں گے۔

اور یہ دونوں اس وقت تک وہیں مجھے رہتے ہیں، ارشاد باری ہوتا ہے: لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى” تم دونوں خوف نہ کرو میں تم دونوں کے ساتھ ہوں  سنتا ا وردیکھتا ہوں۔

یہ بشارت سن کر یہ دونوں نگہبانوں اورمحافظوں  کے ساتھ دنیا کی کوڑ آتے ہیں یہی مطلب ہے: إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ ‌سَلِيمٍ “ کا یعنی جو آفتوں اور ریا اور نفاق اور مخلوق کی طرف متوجہ ہونے سے سلامت رہنے والے ہیں ، ان کے لئے نجات ہے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 693،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں