سینتیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سینتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السابع والثلاثون فی عیادۃ المرضی ‘‘ ہے۔

  منعقده  5ر جب 545 ھ بوقت صبح جمعہ، بمقام مدرسہ قادریہ

 بیماروں کی عیادت اور جنازے میں شرکت کرنا آخرت کی یاد دلاتے ہیں:

رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفر مایا:

عُودُوا ‌الْمَرْضَى، وَاتَّبِعُوا الْجَنَائِزَ يُذَكِّرْكُمُ الْآخِرَةَو بہاروں کی عیادت کیا کر داور جنازوں میں شرکت کیا کرو کیونکہ تمہیں آخرت کی یا دولا ئیں گے ۔‘‘ اس فرمان مبارک سے رسول اللہ  ﷺ کا یہ مقصود ہے کہ آخرت کو یاد کیا کرو، کیونکہ تم آخرت کی یاد سے بھاگتے ہو اور دنیا سے محبت کرتے ہو۔ جلد ہی تم سے پوچھے بنادنیا  اور تمہارے بیچ میں حجاب آ جائے گا، ۔ جو چیزیں تمہاری خوشی کا باعث ہیں وہ تمہارے ہاتھوں سے لے لی جائیں گی ۔ اور جو چیز یں تمہیں ناپسند ہیں اور تمہارے لئے کراہت کا باعث ہیں، وہ تمہارے پاس آ جائیں گی ۔خوشی کے بدلے تمہیں رنج اور دکھ ملے گا۔ اے غفلت کے مارے! اے نادان ! ہوش کر ، تو دنیا کے لئے نہیں بنا بلکہ آخرت کے لئے بنایا گیا ہے ۔ اے غافل ضروریات کی تو بات الگ،تو نے شہوتوں اور لذتوں، اور دینار پر دینار جمع کرنے کو اپنا مقصد بنا لیا ہے ۔ اور اپنے اعضاء کو کھیل کود میں مشغول کر لیا ہے،  اگر کوئی یاد دلانے والا تجھے آخرت اور موت کی یاد دلائے تو اپنے سر کو ادھر ادھر ہلاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے میری عیش مجھ پر تنگ کر دی ہے۔ سفید بالوں کی شکل میں تیرے پاس موت سے ڈرانے والا آ گیا، جبکہ تو سفید بال کٹوادیتا ہے یا انہیں سیاہ کر کے ان کی مت بدل دیتا ہے، (سوچ) جب موت آ جائے گی تو تو کیا کر سکے گا ۔ جب موت کا فرشتہ اپنے ساتھیوں سمیت آدھمکے گا تو اسے کیا دے کر لوٹا سکے گا، جب تیرارزق ختم ہو جائے گا، اور جینے کی مدت پوری ہو جائے گی تو کیا حیلہ بہانہ کرے گا ۔

تو اس حرص سے الگ ہو جا، دنیا کی بنیاعمل پر ہے۔ اس میں جب عمل کرے گا تو (اجر میں تجھے آخرت ملے گی اگر کچھ عمل نہ کیا تو اجر کچھ نہ ملے گا۔ دنیا عمل کا گھر ہے،آفتوں پر صبر کر نامشقت کا گھر ہے، آخرت، راحت و آرام کا گھر ہے۔ سچا ایمان والا دنیا میں اپنے نفس کو مشقت میں ڈال کر ضرور آرام پاتا ہے، لیکن ہوس کا مارا آرام کے لئے جلد بازی کرتا ہے جبکہ توبہ کے لئے ٹال مٹول کرتا ہے،  اسی طرح دنوں، مہینوں اور برسوں میں تاخیر کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ تیری زندگی کی مدت ختم ہوئی چاہتی ہے ۔ عنقریب تجھے ندامت ہوگی اورپچھتائے گا کہ میں نے نصیحت کیوں نہ مانی اور ہوش کیوں نہ کی، اسے جانا اور توجہ کیوں نہ کی ، تجھے سچی راہ بتائی گئی لیکن تو نے اسےسچ نہ جانا۔ تجھ پر افسوس! تیری زندگی کا شہتیر ٹوٹ چکا، اوراے غرور والے! تیری زندگی کی دیواریں ایک دوسری پرگری پڑتی ہیں، جس گھر میں تو ہے، ویران ہو چلا ہے، اس گھر سے دوسرے گھر میں چل، آخرت کا گھر طلب کر ، اپنا مال اسباب اس کی طرف لے چل، یہ مال اسباب تیرے نیک اعمال ہیں، دنیا میں نیک اعمال کر ،  آخرت کی طرف جانے سے پہلے اپنے نیک اعمال بھیج دے تا کہ وہاں پہنچنے پر تجھے مل جائیں ۔

اے دنیا پراکڑ نے والے بے مقصد کاموں میں مشغول ہونے والے!   اے بیوی (جیسی نعمت )چھوڑنے والے اور خادمہ سے لطف اٹھانے والے۔تجھ پر افسوس ہے آخرت کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اس کو نہیں پسند نہیں کرتی ، اس خادمہ ( دنیا کو اپنے دل سے نکال دے، جبکہ تو نے دیکھ لیا کہ آخرت کیسے ملتی ہے، تیری طرف کیسے آتی ہے اور کیسے تیرے دل پر غلبہ کرتی ہے،  جب تیری یہ حالت ہو جائے تو قرب الہی تجھے بلائے گا ۔ اس وقت آخرت کو چھوڑ دینا اور مولی کوطلب کر نا ۔ اس موقع پر دل کو صحت اور باطن کی صفائی کامل ہو جائے گی۔

 دل کی تندرستی ہو تو اللہ اور اس کے فرشتے گواہی دیتے ہیں:

اے بیٹا! جب تیرا دل تندرست ہو جائے گا تو اللہ اور اس کے فرشتے اور علم والے گواہی دیں گے،  تیرے لئے ایک دعوی کرنے والا کھڑا کر دیا جائے گا، جو تیرے لئے مفید شہادت دے گا۔ اپنے نفس کی صحت پر شہادت دینے کی تجھے کوئی ضرورت نہ ہوگی ، جب تجھے اس میں کمال حاصل ہوگا تو پہاڑ کی طرح اٹل ہو جاؤ گے، جسے حوادث کی ہوائیں نہ ہلاسکیں گی ، نہ ہی نیزے (بھالے ) اسے توڑ سکیں گے، نہ ہی خلقت کا دیکھنا اور ان سے میل جول کچھ اثر کرے گا۔ نہ تیرے دل میں کوئی وسوسہ آ سکے گا نہ کوئی تیرے باطن کے اجلے پن کومیلا کر سکے گا۔

خلقت کی رضا مندی چاہنے والا اللہ کا نافرمان ہے :

 اے لوگو! جو اپنے کسی عمل سے خلقت کی رضا مندی چاہے ، اور اس کی قبولیت کا خواہاں ہو ، اس سے الگ رہو  وہ  نا فرمان غلام ہے جو مالک سے بھا گا ہوا ہے، وہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا اور اس کا ناشکر گزار ہے، اس کی نعمت کی آڑ میں اس کی درگاہ سے دھتکارا ہوا اورلعین ہے، ۔۔ خلقت تجھ سے ، تیرا دل ، تیرادین اور بھلائی چھین لے گی اور تجھ سے رب کو بھلا کر تجھے مشرک بنا دے گی ۔

خلقت تجھے اپنے لئے چاہتی ہے، تیرے لئے نہیں،  اللہ تعالی تجھے تیرے لئے چاہتا ہے اپنے لئے نہیں، جو تجھے تیرے لئے چاہتا ہے اس کو طلب کر ، اور اسی میں مشغول رہ ۔ کیوں کہ اس کے ساتھ مشغول ہونا اس سے بہتر ہے جو تجھے اپنے لئے چاہتا ہے ۔ قرب الہی کے علاوہ تجھے اگر کچھ درکار ہے، تو اسے اللہ سے ہی طلب کر ، خلقت سے نہ مانگ ۔ کیونکہ خلقت میں اللہ کے نزدیک وہی نا پسندیدہ ہے جو دنیا کو خلقت سے مانگے ۔ اس کی ساتھ فریاداسی کی طرف کر، کیونکہ وہ غنی ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ۔حکم الہی کے بغیر مخلوق اپنے لئے اور نہ دوسرے کے لئے کسی نفع یا نقصان کی مالک نہیں ، تو اللہ کی طلب کر اور اسی سے لولگا ، وہ تجھے چاہنے لگے گا، آغاز میں تو چاہنے والا ہو گا اور وہ چاہا جانے والا ( یعنی مطلوب )  انتہا میں وہ چاہنے والا ہوگا اور تو چاہا جانے والا ۔

بچپن میں بچہ اپنی ماں کا طالب ہوتا ہے، اور جب بڑا ہو جائے تو اس کی ماں اس کی طالب ہوتی ہے ۔ اللہ پر تیرے ارادے کی سچائی جب ظاہر ہو جائے گی تو وہ تجھے چاہنے لگے گا، اور جب اپنے ساتھ تیری محبت کو سچا جان لے گا تو وہ تجھے اپنا محبوب بنالے گا، تیرے دل کی رہنمائی کرے گا اورتجھے اپنے قریب کر لے گا۔ تجھے فلاح کیسے حاصل ہو جبکہ تو نے اپنے دل کی آنکھوں پر اپنے نفس اور حرص اور خواہش اور شیطان کے ہاتھ رکھ چھوڑے ہیں، دل کی آنکھوں سے ان ہاتھوں کو ہٹا دے، پھر ان چیزوں کی اصلیت تم پر روشن ہو جائے گی ، اپنے نفس سے مجاہدہ کر اور اس کی مخالفت کر کے اسے الگ کر،تا کہ شیطان اور حرص اور خواہش کے ہاتھ کو اپنے دل سے ہٹا سکے ۔ تجھے اللہ تک رسائی ہو جائے گی ، ان ہاتھوں کو ہٹادے اللہ تعالی اور تیرے درمیان کے حجاب اٹھ جائیں گے، چنانچہ تو اس سے ماسوی اللہ کودیکھنے لگے گا ، اپنے نفس کو بھی دیکھ لے گا، اپنے عیب دیکھ کر ان سے بچے گا، ۔غیر کے عیب دیکھ کر ان سے بھاگے گا۔ جب تجھے یہ کمال حاصل ہو جائے گا، اللہ تجھے اپنا مقرب بنا لے گا ، وہ کچھ عنایت کرے گا جو نہ کبھی تیری آنکھو ں نےدیکھا اور نہ ہی کانوں نے سنا، نہ کسی انسان کے دل پر اس کا خیال گزرا ہو، ۔ تیرے دل اور باطن کی شنوائی اور بینائی تیز ہوگی ، قلب اور باطن صحیح  ہو جائیں گے، اللہ تعالی انہیں اپنی کرامت خلعت عنایت فرمائے گا ، اپنی ولایت سے مالک و حاکم بنادے گا ،ساری خلقت پر تیرا حال ظاہر کر دے گا۔ تجھے اپنے قرب کا نگہبان اور محافظ بنادے گا ،فرشتے تیرے خادم ہوں گے۔ نبیوں اور رسولوں کی روحوں کی زیارت کا شرف حاصل کرے گا – خلقت میں سے کوئی بھی چیز تم پر چھپی نہ رہے گی۔

دنیاطلبی چھوڑ دے، یہ تیرا پیٹ نہ بھرے گی :

بیٹا! اس مقام کی طلب اور تمنا کر اس کو اپنا محورفکر بنا اور دنیا کی طلب چھوڑ دے یہ تیرا پیٹ نہ بھرے گی ، اللہ سے مشغول رہ ، وہی تیرا پیٹ بھرے گا۔ جب تجھے یہ مقام مل جائے تو دنیا و آخرت میں غنا اور بے نیازی حاصل ہوگی ۔ تیرا پیٹ بھرے اے غافل!جو پیار کرتا ہے اس سے پیار کر ،جو طالب ہے ، اس کو طلب کر ، جومشتاق ہے، اس کا اشتیاق کر جو تیرا ارادہ رکھتا ہے، تو اس کا ارادہ رکھ کیا تو نے  یہ ارشاد باری نہیں سنا: ‌يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ

’’اللہ کوان سے محبت ہے، انہیں اللہ سے محبت ہے۔ اور تو کیا حدیث قدسی میں اس کا یہ فرمان نہیں سنا۔ ‌إلى ‌لقائكُم بالأشواقِ اور میں تم سے ملنے کا بہت شوق رکھتا ہوں ۔“

اللہ نے تمہیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تو کھیل کود میں مت لگ ۔اس نے مجھے اپنے لئے بنایا ہے اس کے غیر سے پیار نہ کر ۔ اگر غیر سے پیار کروتو صرف شفقت اور رحمت اور مہربانی جائز ہے، نفسوں کی محبت جائز ہے لیکن غیر کو نہ دلوں سے پیار جائز ہے نہ باطن سے جائز ہے ۔ -حضرت آدم علیہ السلام کا دل جب جنت کی محبت میں مشغول ہوا، اور اس میں رہنا پسند کیا تواللہ تعالی نےآدم علیہ السلام کو جنت سے جدا کر دیا ، اور انہیں پھل کھانے کی سزا میں نکال باہر کیا ۔

ان کا دل حضرت حوا علیہا السلام کی طرف مائل ہوا، ان سے بھی جدا کر دیئے گئے ۔اوران میں تین سو سال کے سفر کی دوری ڈال دی ، حضرت آدم علیہ السلام کو سراندیپ میں اور حضرت حواعلیہا السلام کو جدہ میں ۔ – حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام سے پیار محبت کی تو اللہ تعالی نے ان  دونوں میں جدائی ڈال دی ۔ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی  ﷺ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف مائل ہوئے تو ان پر کیا کیا جھوٹ اور بہتان لگے اور جو قصہ پیش آیا وہ سب پر ظاہر ہے ۔ چند دن تک جدائی پڑی رہی۔ چنانچہ اے مخاطب! اللہ تعالی ہی میں مشغول ہو، غیر اللہ سے تعلق ختم کر دے، اللہ کے سوا کسی غیر سے الفت اور محبت نہ رکھ۔ خلقت کو اپنے دل سے باہر نکال کر اس سے الگ کر دے، دل کو فقط اللہ کے لئے خالی رکھ۔ اے جھوٹے! اے کاہل!، کسی کی بات پر کم ہی سننے والے! اگر تو میری بات مان لے اور میرے کہنے پر عمل کرے تو تیرایہ عمل تیری جان کے فائدے کے لئے ہوگا، اور اگر تو میری بات پرعمل نہ کرے تو اس میں تیرے ہی نفس کا نقصان اور وبال ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : لَهَا مَا ‌كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ نفس ہی کے لئےبھلا جوکچھ وہ عمل کرے۔ اور نفس ہی کے لئےبرا جوکچھ وہ عمل کرے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا “اگر تم نے اچھے عمل کئے تو اپنے ہی نفسوں کے لئے ،اور اگر برے عمل کے تو اپنے ہی لئے کئے ۔‘‘ کل قیامت کے دن نفس ہی جنت میں اعمال کا ثواب پائیں گے، اور دوزخ میں اعمال کا عذاب پائیں گے ۔ رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: اطعموا طعامكم الاتقياء وأعطوا خرقكم المؤمنين  ’’اپنا کھانا پرہیز گاروں کو کھلا ؤ اپنا کپڑا ایمان والوں کو پہناؤ۔ اپنا کھانا جب تو پرہیز گاروں کو کھلائے گا ، اور اس کے دنیاوی کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے گا ، تو یوں اس کے عمل میں شریک ہو جائے گا ، اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہ آئے گی کیونکہ تم نے اس کے مقصد کے لئے اس کی مدد کی ، اس کے بوجھ کو اس سے اٹھالیا ، اس کے رب کی طرف اس کے قدم تیز رفتار کر ادیئے۔

اورجب تو اپنا کھانا کسی منافق ، ریاکار اور نافرمان کو کھلائے گا ، اور اس کے دنیاوی کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے گا ، اور یوں اس کے کاموں میں شریک ہو جائے گا، اور اس کے عذاب میں کوئی کمی نہ آئے گی ، کیونکہ تم نے اللہ کی نافرمانی کرنے میں اس کی مدد کی ، اس کے رب کی طرف اس کے قدم سست رفتار کرادئیے ، اس کی برائی تیری طرف لوٹے گی ۔ اے جاہل علم سیکھ! جو عبادت علم کے بغیر ہواس میں بھلائی نہیں ہے اور نہ علم کے بغیر یقین میں خیر و خوبی ہے ۔ علم سیکھ اور عمل کر ، اس طرح تو دنیا و آخرت میں فلاح پائے گا، علم سیکھ کر اس پر عمل کرنے پر اگر تجھے صبر نہ آئے تو فلاح کیسے پا سکے گا، جب تو اپنے آپ کو مکمل طور پر علم کے سپردکر دے گا ، وہ بھی تجھے اپنا کچھ حصہ دے گا۔

علم سیکھنے کا ایک انداز یہ بھی ہے۔

کسی نے ایک عالم سے استفسار کیا کہ آپ کو جوعلم ہے، وہ کیسے حاصل ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ کوے کے سویرے اٹھنے گدھے کے صبر، خنزیر کی حرص اور کتے کی خوشامد سے حاصل کیا، اس طرح کہ میں: سویرے ہی اٹھ کر علماء کے دروازے پر پہنچا جس طرح کہ کواسویرے ہی اڑ جا تا ہے۔ ان کے ڈالے ہوئے بوجھوں پر ویسے ہی صبر کرتا جس طرح کہ گدھا بوجھ اٹھانے پر صبر کرتا ہے، علم سیکھنے پر ایسی حرص کرتا جیسے کہ کھانے کی چیز پر خنزیر حرص کرتا ہے۔ اساتذہ کی اس طرح سے خوشامد کرتا جیسے کہ کتا اپنے مالک کے دروازے پر کھانے کے لئے چاپلوسی کرتا ہے۔ اے علم سیکھنے والے اگر توعلم سیکھنا چاہتا ہے اور فلاح پانا چاہتا ہے تو اس عالم کی بات پر توجہ دے اور اس پرعمل کر علم زندگی ہے اور جہالت موت  جو عالم اپنے علم پر عامل ہو اورعمل میں مخلص ہواورعلم سکھانے پر صبر کرنے والا ہے تو ایسے عالم کے لئے موت نہیں ۔ کیونکہ جب وہ مرتا ہے تو اپنے رب سے جا ملتا ہے، اللہ کے ہاں اسے ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے

دعا یہی ہے: اللهم ارزقنا والإخلاص فيه الہی ہمیں علم اور اس میں اخلاص عنایت فرما

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 253،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 141دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں