مراقبات نقشبندیہ / مراقبات سیفیہ

مراقبات نقشبندیہ / مراقبات سیفیہ

مراقبہ ترقب سے مشتق ہے۔ اور اس کا معنی ہے فیض کا انتظار کرنا۔ اس میں چونکہ الله تعالی کے فیض کا انتظار کیا جاتا ہے اس لئے اس کو مراقبہ کہتے ہیں۔ اسرارالہی کو حاصل کرنے کے لئے آنکھ، کان اور لب کو بند کرنا پڑتا ہے۔

چشم بند و گوش بند و لب به بند گر نہ بینی سر حق بر من بخند

ترجمہ: یعنی آنکھیں، کان اورلبوں کو بند کرلے (اورمحو انتظار ہو جا ) اگر تجھے راز الہی نظر نہ آئے تو مجھ پرہنس لینا۔ (یعنی مجھے برا بھلا کہہ لینا)۔ معمولا ت مظہری میں ہے کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں مراقبہ یہ ہے کہ پہلے آنکھ بند کر کے لطائف عشرہ میں سے کسی ایک لطیفہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے اور باری تعالی جل جلالہ کی جانب سے اس لطیفہ پر فیض کا انتظار کرنا چاہیے وقال رسول الله الله الا حسان ان تعبدالله کا نک تراه فان لم تكن تراه فانه يراک

 اور رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ احسان یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت ایسے کرو گویاتم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور اگر اس کو نہیں دیکھے تو وہ تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ مذکورہ  حدیث کےیہ  الفاظ مراقبہ کی  صاف اور واضح دلیل ہیں۔ اس بات کا ہے ہردم دھیان رکھنا  کہ خدا ہم کودیکھ رہا ہے اس کی جانب سے مر اقبہ ہے

حضرت خواجہ باقی باللہ  کے فرزندارجمند نے اپنی کتاب فوائح  میں فرمایا۔ ”مراقبہ یہ ہے کہ اپنی طاقت و قوت اور اپنے احوال و اوصاف سے منہ پھیر کر جمال الہی کا شوق پیدا کرنا اور اس کے عشق و محبت میں غرق ہو کر خداوند تعالی کے انتظار میں متوجہ ہو جانا۔‘ ہمارے امام قبلہ حضرت شیخ بہاؤ الدین نقشبند نے فرمایا۔ مراقبہ کا طریق تمام راستوں سے زیادہ قریب ہے۔ مراقبہ کا ثبوت بہت سی آیتوں اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ واذكر ربك اذا نسيت (اپنے رب کو یاد کر جب تو اس کو بھول جائے)

 مراقبہ  تمام سلاسل کے بزرگوں کا معمول ہے۔ بالخصوص حضرات نقشبند یہ اس کو بہت ہی اہم سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ عبارت مذکورہ بالا سے ظاہر ہوا کہ خدا تک رسائی کیلئے یہ راستہ تمام راستوں سے زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ علامہ ابوالقاسم قشیری نے اپنے رسالہ میں زیر حدیث مذکور فرمایا شیخ کا ارشاد ہے کہ نبی مکرم ﷺ کایہ فرمان کہ اگر تو اس کو نہیں دیکھا تو وہ تجھ کو دیکھتا ہے  یہ حالت مراقبہ  کی طرف اشارہ ہے۔

مراقبہ یہی ہے کہ بندہ یہ یقین رکھے کہ رب سبحانہ وتعالی اس کے ہرحال کو جانتا ہے۔ بندہ ہر دم اور ہر حال میں اس کا علم و یقین رکھے۔ یہی بندہ کے لئے ہر خیر اور نیکی کی جڑ ہے۔

مراقبات کی شرائط

یہ مراقبات اس وقت تجویز ہوتے ہیں جبکہ مراقب (مراقبہ  کرنے والا ) مرشد کامل ومکمل کی مجلس میں رہ کر لطائف عالم امر اور عالم خلق کی تکمیل کر لے، ذکر الہی جاری ہو چکا ہو اور نفی اثبات کا جس طرح کہ ضروری ہے عامل ہو۔ اس کے بعد مراقبات شروع کرے۔ مراقبات ہراس شخص کیلئے مفید ہیں جو اہل سنت و جماعت ہے۔ اور ہر طرح سے تائب ہو کر مرشد کامل و مکمل سے اجازت حاصل کر چکا ہو۔

 1۔ وقت مراقبہ با وضو ہو مکمل توجہ سے اس طرح فیضان الہی کی طرف متوجہ ہو کہ سوائے اصل کے اور کسی طرف میلان نہ ہو۔

2۔ہر مراقبہ میں توقف ایام یعنی دنوں کی تعداد مرشد موصوف کے حکم پر موقوف ہے۔

3۔ ہر مراقبہ کی ایک کیفیت اور آثار ہوتے ہیں۔ مراقب کو چا ہئے کہ سنن اور آداب طریقت کی پیروی ( متابعت) کے خلاف نہ کرے تا کہ اس کی چاشنی اور کیفیت کو پالے اور اس سلسلہ میں از حد کوشش کرے۔

4۔ مراقبہ کے وقت بیٹھار ہے۔ اگر نیند کی حالت طاری ہو تو تجدید وضو کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ مراقبہ میں کیفیت نیند بھی ہے۔ جیسا کہ علامہ بحرالعلوم نے شرح فقہ اکبر میں کرامات اولیاء میں تحریر کیا ہے۔

 5۔ جو کیفیات واقعات حالت مراقبہ میں مراقب پر ظاہر ہوں وہ اپنے مرشد گرامی کے حضور عرض کرے ۔ بالخصوص عالم امر کے ظہور میں کہ اس مقام پر مشابہت بیچونیت کو دیکھے گا۔ اپنے آپ کو اس صورت میں دیکھ کر فریفتہ نہ ہو کیونکہ بہت سے سادہ لوح حضرات اس وادی میں سوئے ہوئے ہیں۔ (یعنی اس مقام میں رہ گئے ہیں)۔

 6۔ مراقب کو چاہئے کہ جن ایام کی گنتی مرشد نے ارشاد فرمائی ہے اس میں غفلت اور سستی نہ کرے ۔ ہر طالب حق کو چاہئے کہ حتی الامکان کوشش کر کے مراقبات کی نیت کو یاد کر لے۔ اور مشائخ کے طریقہ کسی وقت بھی ہاتھ سے جانے نہ دے کیونکہ طریقت، فقط جبہ اور دستار کا نام نہیں مشائخ کا طریقہ اپنا کر اپنی منزل کی ضرورت اور اس کے تقاضوں کی پہچان کرے۔ ہر جاہل، غافل اورسست انسان بزرگی اور اقبال کے لائق نہیں ہوتا سالک کی تسلیک شیخ کامل و مکمل کی توجہ کے ساتھ مربوط  ہے اگرمراقبہ کرنے والا ایسا ہو کہ اسے حیات  لطائف کی اطلاع   نہ  ہو تو اس کو مراقبات فائدہ نہیں دیتے۔

 7۔ طالب کو چاہئے کہ مرشد کے فیض اور توجہ کا ہر دم انتظار کرے ۔ بلکہ مرشد کی توجہات سے پورا پورا فائدہ اٹھائے تا کہ مراقبہ معیت سے حاصل ہونے والے ولایت صغری کے دائرے کو تیزی سے عبور کر سکے ورنہ یہ مقام نہایت دشوار گزار ہے۔ ہزاروں سلوک کے راہی اس وادی میں رک کر اپنی ترقی کی منزلیں کھو بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کی اور اپنے عروج کی کچھ خبر نہیں رکھتے۔ اور وحدت الوجود کے قائل اس مقام میں انا الحق کے اقرار میں مبتلا ہوئے ہیں۔

اس مقام پر مرشد کامل و مکمل کی توجہات اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یہ خاص طریقے سے اس مقام سے سلوک طے کروا کے ولایت کبری  کے دائرے میں شامل کر دیتی ہیں اور طالب اپنی تیز رفتاری پر حیران رہ جاتا ہے۔

8- مراقبات شریفہ کی نیت فارسی میں یاد کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے ان مراقبات کی نیت فارسی مقرر فرمائی ہے نیز دوسری زبان اختیار کرنے سے الفاظ بدل جانے اور فیض ختم ہوجانے کا اندیشہ اور ترقی رک جانے کا خدشہ ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں