معرفت کی قرارگاہ

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

زمیں معرفت الہی کی قرارگاہ ہے:

اللہ تعالی نے دل کی زمین کو اپنی معرفت و علم کی قرارگاہ قرار دیا ہے ، رات اور دن میں تین سو ساٹھ بار اس کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے، اگر وہ دل کے لئے قرار عطانہ فر ما تا ،تو دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جا تا اور پھٹ جا تا۔ دل جب درست اور صحیح ہو جا تا ہے تو قرب الہٰی میں قرار پکڑ لیتا ہے، اور خلقت کے ان سے نفع حاصل کرنے کے لئے اس کے درمیان حکمت و دانش کی نہریں جاری فرمادیتا ہے ۔

اللہ تعالی نے اولیاء اللہ کو دین کے لئے بلند پہاڑ بنادیا ہے ، ان میں سب سے اونچا مقام رسول اللہ ﷺ کا ہے، ان کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جگہ ہے ، اور ان سے کم رتبہ تابعین علیہم الرحمہ کی جگہ ان کا قائم مقام ہونا ہے، اولیاءاللہ علیہم الرحمہ نے حکم کی بجا آوری کے لئے ان حضرات کرام کے ارشادات پرقولی اور فعلی ، ظاہری اور باطنی طور پرعمل کیا ۔ جس سے انبیاء کرام کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ، اور اللہ تعالی نے ان سے فرشتوں پر فخر فرمایا۔

خیر و برکت ہے ان کے لئے جنہوں نے ان کا اتباع کیا ، دنیا اور اہل وعیال کے بوجھ ان پر سے ہلکے کر دیئے گئے ،  اللہ والوں کی جماعت ایسے کام میں لگی ہے جو انہیں کمائی کرنے سے روکتا ہے، وہ خلق کی مصلحتوں کے لئے قیام کرتے ہیں مخلوق ان کے لئے اولاد کی طرح ہے، وہ دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھتے حالانکہ دنیا ان پر اپنا آپ پیش کرتی ہے، وہ اور اس سے منہ موڑے رہتے ہیں، یہ چیز جو کہ تیری دسترس میں ہے صرف تیری نہیں بلکہ مشتر کہ ہے، تیرے ہمسائے بھی اس پر حق رکھتے ہیں، تیرے ہاتھ میں تیری کمائی دینے کا مقصد تیرا مواخذہ اور تیرے لئے اجر ہے، — ارشاد باری ہے:

وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ ‌مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ “تم اس مال میں سے خرچ کرو جس میں تمہیں خلیفہ بنایا گیا ہے تا کہ اللہ تمہارے عمل کو دیکھے۔ تو اپنے ہمسایوں کی خبر گیری کیا کر ، فقیروں کو کھانا کھلایا کر، کیونکہ دوست کا گھر تنگ ہے مگر اس میں داخل ہونے والا کشائش والا ہے وہ کہاں ہے جس نے مخلوق پر دروازہ بند کیا ہو اور اللہ کے دروازے پر آ کھڑا ہو، اور اس کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کی ہوں ،تو اسباب کو چھوڑ دے اور دوستوں سے علیحدگی اختیار کر لے، پھر دیکھ تجھے کیا نظر آتا ہے، اللہ کے دروازے پر کھڑا ہوجا اور مصیبتوں پر صبر کرنے کی ٹھان لے، اس کی قضا وقدرتجھے پارہ پارہ کر دے اور تجھے محسوس نہ ہو، تب تو عجائبات قدرت کا نظار کرے گا۔

تو تکوین کو دیکھے گا کہ وہ تیرا کیا حال بناتی ہے ۔ تو رحمت کو دیکھے گا کہ وہ تیری کیسی پرورش کرتی ہے۔ تو محبت کو دیکھے گا کہ وہ تجھے کیسے رزق پہنچاتی ہے۔ سارادارومدار حاجت کے بعد خاموشی اختیار کرنے پر ہے، اور یہی حالت اللہ تعالی کی بندے پر فخر فرمانے کی ہے، اس پرمخلوق اور اسباب کے سب منافع اور مواقع حرام کر دیتا ہےحتی کہ اسے اپنے قرب کے مواضع پر واپس لے آتا ہے، اس بندے کو جب اللہ کے کنار عاطفت اور اس کے لطف کی گود کی مہک آنے لگتی ہے تو اسے وہ مہک رحمت بن کر تکلیفوں کی بو سے کفایت کرتی ہے۔

 ارشاد باری ہے: أَمَّنْ يُجِيبُ ‌الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ ہے کوئی جو مضطر (لا چار ) کی دعا قبول کرے جب وہ اسے پکارے۔ تجھے وہ مضطر اس لئے کرتا ہے تا کہ تو اسے پکارے، وہ دعا میں گڑگڑانا پسند کرتا ہے، وہ تجھ پر سب دروازے بند کر دیتا ہے تا کہ تو اس کے دروازے پر جا کرٹھہرے اور قرار پکڑے، چنانچہ اولیاء اللہ اور مقربان الہٰی نے اسباب کے دروازے بند پائے ، اور قرب الہٰی کا دروازہ کھلا پایا تو اس میں داخل ہو گئے ، اس کی مثال اس طرح سے ہے جیسے کوئی ماں اپنے بچے پر دروازہ بند کر دے اور ہمسایوں کو تاکید کر دے کہ یہ دروازہ ایک وجہ سے بند کیا ہے جس کا کہ اس نے ارادہ کیا ہے؟ لہذا دروازہ نہ کھول دینا، بچہ آیا یہ معاملہ دیکھ کر پریشان ہوا اور روتے ہوئے بیٹھ گیا، جس دروازے کی طرف دیکھا  اسے بند پایا، چنانچہ پھر پھرا کر ماں ہی کے دروازے پر لوٹ آیا، اللہ تعالی اپنے بندے پر اس لئے بھی ڈالتا ہے تا کہ اسے اپنی طرف لوٹائے ، اور اس کا دل مخلوق کے ساتھ وابستہ نہ ہو جائے ، سچے فقیر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے آرام طلبی نہ کرے، اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے طلب کی ضرورت آ پڑے تو بقدر کفایت ہی طلب کرے نہ کہ ضرورت سے زائد، ۔ اللہ تعالی جب تجھے قریب کر لے اور بلا میں مبتلا کر دے تو تو اس کی بلا پرخوش رہو، ورنہ وہ تجھے تیری مصیبت اور بلا میں گھیرادے گا، دنیا کی چیزوں میں رغبت تجھ پر تیرے قرب الہٰی کو ، اور بلا پر صبر کرنے کوتشویش میں ڈال دے گی ،  جواللہ کا ڈر نہیں رکھتا، اسےسمجھ ہی نہیں ہے ۔ کوتوال کے بغیر شہر ویران و بر باد ہے،  چرواہے کے بغیر بکریاں بھیڑئیے کی خوراک ہیں۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 628،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں