ولایت کے درجوں کا بیان مکتوب نمبر 21 دفتر اول

ولایت کے درجوں خاص کر ولایت مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کے درجوں کے بیان میں اور طریق علیہ نقشبندیہ کی تعریف اور ان بزرگوں کی نسبت کی بلندی اور باقی تمام طریقوں پر اس طریق کی فضیلت اور اس بیان میں کہ ان کا حضور دائمی ہے۔حاجی قاری موسی لاہوری کے بیٹے شیخ محمد مکی کی طرف لکھا ہے۔

آپ کا مکتوب شريف جو اس بندہ ضعیف کے نام لکھا ہوا تھا اللہ تعالی تم کو بڑا اجر دیوے اور تمہارے کام آسان کرے اور تمہارے سینے کوکھولے اور تمہارے عذر قبول فرمائے ۔ بحرمت سید البشر علیہ وعلی آلہ الصلوت والتسلیمات جو زیغ بصر یعنی کجی چشم سے پاک ہیں۔

میرے بھائی ! جان لو جب تک وہ موت جو موت معروف کے پہلے ہے( مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا یہ موت لطائف ستہ کا لطیفہ قالبیہ سے جدا ہوکر  عالم قدس کی طرف پرواز کرنا ہے اور لطیفہ قالب کو خالی چھوڑ دیتے ہیں) اور اہل اللہ اس کو فنا (ذات حق تعالیٰ کے  غلبہ مشاہدہ میں ہر چیز کو بھول جانا)سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ثابت نہ ہو جائے اللہ تعالی کی جناب میں پہنچنا محال ہے بلکہ آفاقی جھوٹے معبودوں اور انفسی ہوائی خداؤں کی پرستش سے نجات نہیں مل سکتی۔ اس کے سوا نہ تو اسلام کی حقیقت کا پتہ لگتا ہے اور نہ ہی کمال ایمان میسر ہوتا ہے۔ بھلا پھر خدا کے بندوں کے گروہ میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں اور اوتاد(وتد کی جمع بمعنی میخ  اولیاء کی ایک قسم یہ تمام دنیا میں چار ہوتے ہیں) کے درجے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ فنا پہلا قدم ہے جو درجات ولایت میں رکھا جاتا ہے اور بڑا بھاری کمال ہے جو ابتداء ہی میں حاصل ہوجاتا ہے یہی بہتر ہے کہ اس ولایت کے اول سے آخرحال اور اس کی ابتداء سے اس کی انتہا کا درجہ قیاس کیا جائے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے ۔

قياس کن گلستان من بہار مرا ترجمہ: اس گلستان سے میری بہار کو قیاس کرلے 

کسی اور نے بھی ایسا ہی کہا ہے ۔

سالیکہ نکوست از بہارش پیداست ترجمہ: ظاہر ہے سال اچھا اپنی بہارہی سے ہے

اور ولایت کے بہت سے درجے ایک دوسرے کے اوپر ہیں کیونکہ ہر نبی کے قدم پرایک ولایت ہے جو اس نبی سے مخصوص ہے اور اس کے درجات میں سے بلند اور اعلی وہی درجہ ہے جو ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے قدم پر ہے کیونکہ وہ تجلی ذاتی جس میں اسماء و صفات و شیون (اس کا مُفرد شان ہے   شان کا معنیٰ حال اور امر ہے)  و اعتبارات کا نہ اثبات کے طور پر اور نہ نفی کے طور پر کچھ اعتبار ہے۔ وہ سرور کائنات ﷺکی ولایت ہی سے مخصوص ہے اور اس مقام میں تمام وجودی اور اعتباری پردوں کا زائل ہو جانا علمی اور عینی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ پس اس وقت وصل عریانی حاصل  ہو جاتا ہے اور وجدحقیقی ثابت ہوتا ہے، نہ ظنی اور نہ تخمینی اور اس عزيز الوجود مقام سے آنحضرت ﷺکے کامل تابعداروں کو بڑا حصہ حاصل ہوتا ہے۔

پس اگر تم اس اعلی دولت کے حاصل کرنے اور اس بلند درجہ کی تکمیل کے لئے متوجہ ہوتو آنحضرت ﷺکی تابعداری لازم پکڑو اور یہ تجلی ذاتی اکثر مشائخ رحمتہ اللہ  علیہم کے نزدیک برقی ہے۔ یعنی اللہ تعالی کی بارگاہ کی طرف سے برق کی طرح تھوڑی سی مدت کے لئے تمام حجاب اٹھائے جاتے ہیں اس کے بعد اسماء و صفات کے پردے ڈالے جاتے ہیں اور ذاتی انوار ان پردوں میں ڈھانپے جاتے ہیں۔ پس حضورذاتی برقی کی طرح ایک لمحہ ہوتا ہے اور غیبت ذاتی بہت کثرت سے اور مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم کے نزدیک یہ حضور ذاتی دائمی ہے اور ان بزرگواروں کے نزدیک زائل ہو جانے والی اور غیبت کے ساتھ بدلنے والی حضور کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔

پس ان بزرگواروں کا کمال تمام کمالات سے بڑھ کر ہے اور ان کی نسبت تمام نسبتوں سے بالاتر ہے۔ جیسا کہ ان کی عبارات میں آیا ہے۔ اِنَّ نِسْبَتَنَا فَوْقَ جَمِيْعِ النِّسَبِ ہماری نسبت تمام نسبتوں سے بالاتر ہے) نسبت سے ان کی مراد حضور ذاتی دائمی ہے اور ان سب باتوں سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کاملوں کے طریقہ میں نہایت(انتہا) ، ابتدا میں درج ہے اور بزرگوار اس امر میں رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام کے پیرو ہیں کیونکہ صحابہ کرام کو نبی ﷺکی پہلی ہی صحبت میں وہ کچھ حاصل ہو جاتا تھا جو دوسروں کو انتہا میں بھی بمشکل حاصل ہو سکے اور یہ بات ابتداء میں انتہا درج ہونے کے سبب سے ہے۔

پس جس طرح ولایت محمدیہ علیہ الصلوة والسلام تمام پیغمبروں اور انبیا علیہم الصلوة والسلام کی ولایتوں سے بڑھ کر ہے اس طرح ان بزرگواروں کی ولایت بھی تمام اولیاءقدس سرہم کی ولایتوں سے بڑھ کر ہے اور کس طرح بڑھ کر نہ ہو جبکہ ان کی ولایت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔

ہاں کامل مشائخ میں سے بعض افراد کو یہ نسبت حاصل ہوئی ہے لیکن وہ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ولایت سے اقتباس ہے جیسا کہ حضرت شیخ ابوسعید قدس سرہ نے اس حدیث کے دوام کی خبر دی ہے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جبہ شیخ ابوسعید مذکور قدس سرہ کو پہنچا ہے جیسا کہ صاحب نفحات نے نقل کیا ہے اور اس طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے بعض کمالات کے اظہار سے غرض یہ ہے کہ طالبوں  کو اس طریقہ علیہ کی طرف رغبت پیدا ہو ورنہ کجا  میں اور کجا ان بزرگوں کے کمالات کا بیان ۔ مولانا روم صاحب مثنوی میں فرماتے ہیں۔ ۔

شرح او حیف است با اہل جہاں ہمچو راز عشق باید در نہاں

لیک گفتم و صف اوتاره برند پیش ازاں کزفوت آں حسرت خورسند

ترجمہ: مناسب ہے کہوں اس کا بیاں مثل رازعشق چا ہئے یہ نہاں لیک کہہ دی وصف پائیں وہ  راہ   اور اس کے فوت سے ماریں نہ آہ

والسلام عليكم وعلى جميع من التبع الهدی (تم پر اور ان لوگوں پر بھی جو ہدایت کے تابع ہیں۔ سلام ہو)

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ89 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں