نیت مراقبہ وقوف قلب
. فیض می آید از ذات بیچون بلطیفہ قلبی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میرے لطیفہ قلب میں فیض آتا ہے۔
تشریح
یہ مراقبہ وقوف قلبی ہے پہلا مراقبہ یہ ہے کہ اپنے شیخ کے حکم کے مطابق جتنے دنوں کی لئے ارشاد ہو اتنے دن کو مخصوص کرے
فیض : اللہ تعالی کے اسماء و صفات (صفات فعلیہ صفات ذاتیہ اور صفات سلبیہ وغیرہ) اور مراتب قرب میں اعتبارات اور شیونات اور ذات ہیں ان سے بندہ مومن کو ملنے والے انوار و تجلیات کو فیض کہتے ہیں۔
بیچون(اس جیسا کوئی نہیں) فارسی زبان کا لفظ ہے چوں کے معنی کیوں اللہ رب العزت کی ذات کی طرف کیوں؟ کب؟ کیسے؟ کے الفاظ راجح نہیں ہو سکتے ان کی ممانعت ہے تو اس سے مراد وہ ذات جس کی کوئی مثال اور نہ کوئی مشابہت ہے لفظ بیچوں اس ذات یکتا(اللہ) پر دلالت کرتا ہے۔
لطیفہ اللہ کے انوار و تجلیات کے وارد ہونے کی جگہ ، انسان کا جسم کثیف ہے اللہ جہان والوں سے بے نیاز ہے إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (العنکبوت:6) یقینا اللہ تمام دنیا جہان کے لوگوں سے بےنیاز ہے۔
لیکن بندے کو اپنا وصل اور قرب دینے کیلئے اس کے جسم میں کچھ خاص مقام ایسے رکھ دئیے جن پر اللہ کے انوار و تجلیات کا وارد ہوتے ہیں جنہیں لطائف کہتے ہیں (قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ، نفسی، قالبی)
قلب: ایک تو ہمارے جسم کا لوتھڑا ہے جسے ہم قلب کہتے ہیں دوسرا اس کا اصل قلب( غیر مادی لطیفہ ) ہے ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نےاصل قلب کی وسعت کا جو بیان کیا کہ اگر ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو وسعت قلب میں رکھ دیا جائے تو ایسے محسوس ہوگا کہ بہت بڑے صحرا میں سات سکے پڑے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے اس قلب کے بارے میں فرمایا ہے
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ (بخاری کتاب الایمان)
خبردار ہوجاؤ ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو تمام بدن خراب ہوجاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
گویا سلطنت جسم کی بادشاہت لطیفہ قلب کے پاس ہے۔
مزید ارشاد فرمایا
الشَّيْطَانُ جَاثِمٌ عَلَى قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، فَإِذَا سَهَا وَغَفَلَ وَسْوَسَ، وَإِذَا ذَكَرَ اللَّهَ خَنَسَ (مصنف ابن ابی شیبہ)
شیطان، ابن آدم کے دل پر بیٹھا ہوتا ہے پس جب انسان بھولتا ہے اور غافل ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور جب آدمی خدا کا ذکر کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد:28)
جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے
مشائخ نے قلوب سے سارے لطائف مراد لئے ہیں
لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ، وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ (الدر المنثور)
ہرشے کو کوئی نہ کوئی چیز صاف کرنے والی ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے والا اﷲ کا ذکر ہے
اس مراقبہ میں اللہ جل جلالہ کی ذات سے ہمیں لطیفہ قلب پر فیض مل رہا ہوتا ہے وہ نور تجلی صفات فعلیہ کا ہوتا ہے جو مشائخ کرام کے سینہ بسینہ ہوتا ہوا ہمارے سینوں میں داخل ہوتا ہے
بواسطہ پیران کبار یہ فیض مجھے اپنے مرشدین کے وسیلہ سے مل رہا ہے شریعت مطہرہ اور عقائد میں وسیلہ کی بہت فضیلت ہےاس وسیلہ میں اپنے مرشد کے توسط سے تمام اکابرین سلسلہ کے وسیلہ سے فیض کا حصول رسول اللہ ﷺ تک پہنچنا ہے اگرچہ عکس کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اگر وسیلہ نہ ہو تو انبیاء و رسل اور اولیاء و علماء کی ضرورت نہ ہوتی
لفظ کُبار اگر کِبار پڑھا جائے تو معنی غرور، تکبر، ہے کُبار کے معنی تعظیم عزت اور بڑائی کے ہیں پیر و مرشد وہ ہوتا ہے جو خود بھی کمال تک پہنچا ہو اور دوسروں کو بھی کمال تک پہنچا سکتا ہو ہر دعوی کرنے والا پیر نہیں ہوتا بلکہ جسے دیکھو تو اللہ یاد آجائے سر سے پاؤں تک شریعت کی پابندی کرنے والا ہو جس کی نگاہ کامل سے شریعت کی دوسروں کو پابندی نصیب ہو جائے مردہ دل زندہ غافل سے ذاکر ہو جائے