پینتالیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پینتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الخامس والاربعون فی التمسک بالعروۃ الوثقی‘‘ ہے۔

  منعقده 26 رجب 545 ھ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ

 خلقت پر بھروسہ کرنے والا ملعون ہے۔

 رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: ملعون ملعون من كانت ثقته بمخلوق مثله  «ملعون ہے ملعون ہے ، جس کا اپنے جیسی مخلوق پر بھروسہ ہے۔ بہت سے لوگ اس لعنت کا شکار ہیں ، بہت سی خلقت میں سے کوئی ایک ہوگا جس کا اللہ پر بھروسہ ہو، اور جس نے اللہ پر بھروسہ کیا اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا، اور جس نے اپنےجیسی مخلوق  پر بھروسہ کیا  اس  کی مثال ایسی ہے کہ جس نے مٹھی میں  پانی بند کیا ہاتھ کھولا تو کچھ نہ پایا۔

تجھ پرافسوس! خلقت ایک دن یا دودن یا تین دن ، ایک مہینہ یا ایک سال ، حد دوسال تک تیری ضرورتیں پوری کرے گی ، بالا خرا کتا کر تجھ سے منہ پھیر لے گی تو ان کی صحبت اختیار کر اور اپنی سب حاجتیں اس پر پیش کر۔ وہ تجھ سے بھی نہ ا کتائے گا، نہ دنیا و آخرت میں تیری حاجت روائی سے گھبرائے گا، توحید کے ماننے والے کے لئے اس کی توحید کی قوت کے باعث نہ ماں باپ باقی رہتے ہیں ، اور نہ دوست نہ دشمن، نہ مال نہ مقام رہتا ہے۔ کسی شے میں نہ سکون ملتا ہے نہ قرار اللہ کے دروازے اور اس کے احسانوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔

اے درہم ودینار پر بھروسہ کرنے والے ! یہ جلد ہی تیرے ہاتھ سے نکل جائیں گے، ان کا وبال رہ جائے گا،  جیسے دوسرے کے ہاتھ میں نہ رہے، ان سے چھین کر تجھے دیئے گئے تا کہ ان کے ذریعے اللہ کی اطاعت پر مددحاصل کرے، مگر تو نے انہیں اپنابت بنالیا۔

اے جاہل اللہ کے لئے علم سیکھ اور اس پرعمل کر ، وہ تجھے ادب سکھادے گا، علم زندگی ہے اور جہل موت ہے، علم مشترک سیکھنے کے بعد صد یق جب فارغ ہوتا ہے تو اسے علم قلوب اور علم باطن جو کہ علم خاص ہے، اس میں داخل کر دیا جا تا ہے۔ جب اس علم خاص میں وہ دسترس حاصل کر لیتا ہے تو اللہ کے دین کا بادشاہ ہو جا تا ہے ۔ بادشاہ گر کی رضا سے حکم دیتا ہے،باز رکھتا ہے،عطا کرتا ہے، روکتا ہے، اللہ کی مشیت سے خلقت کا بادشاہ بن جاتا ہے، اس کے حکم سےحکم دیتاہے، جس چیز سے منع کیا ہے، اس کے کرنے سے منع کرتا ہے، اللہ کے امر کے ساتھ لیتا ہے اور اس کے امر کے ساتھ دیتا ہے، حکم کے مطابق وہ خلقت کے ہمراہ ہوتا ہے، اور علم کے مطابق خالق کے ہمراہ حکم در بارالہی کے دروازے کا پاسبان ہے، اور علم گھر میں داخل اور اس کا اندرون ہے،حکم عام ہے اور علم خاص ہے،  عارف اللہ کے دروازے پر کھڑا ہے، اس کے سپردمعرفت کا علم اور ایسے امور سے خبر داری ہے کہ جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اسے عطا کر نے کا حکم ہوتا ہے، تو وہ عطا کرتا ہے ، اسے روک لینے کا حکم ہوتا ہے تو وہ روک لیتا ہے، کھانے کا امر ہوتا ہے تو کھالیتا ہے، بھوکا رہنے کا امر ہوتا ہے تو بھو کار ہتا ہے، کسی پر توجہ دینے کا حکم ملتا ہے، کسی سے اعراض کا ، کسی سے نذر لینے کا حکم ہوتا ہے، کسی پر خرچ کا ، – اس کی مددکر نے والا منصور ہوتا ہے۔

اسے حقیر سمجھنے والا رسوا ہوتا ہے، خلقت میں سے وہ کسی کے محتاج نہیں ، وہ مخلوق کی رسیاں بٹتے رہتے ہیں ، ان کی عمارتیں مضبوط کرتے ہیں ، ان پر شفقت و مہربانی کرتے ہیں ۔ وہ اللہ کی طرف سے دنیا وآخرت کے سردار ہیں، وہ جو کچھ تم سے لیتے ہیں تمہارے ہی لئے لیتے ہیں اپنے لئے نہیں ، خلقت کی خیر خواہی ان کا شیوہ ہے کیونکہ جو چیز اللہ کی طرف سے ہے وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے، اور جو غیر اللہ کی طرف سے ہو وہ ہمیشہ نہیں رہتی،۔

علم اور باعمل علماء کی خدمت کر اور اس پر صبر کر، پہلے پہل جب تو علم کا خادم ہوگا، پھرعلم تیرا خادم ہوگا، اورتمہاری  اس خدمت پر علم صبر کرے گا جیسے تو نے اس کی خدمت پر صبر کیا ، علم کی خدمت کرنے پر جب تو صبر کرے گا تو تجھے دل کی سمجھ اور نور باطن عطا کیا جائے گا۔

اے لوگو! تم اپنے سارے کام اللہ کے سپرد کر دو، وہ تم سے بہتر جاننے والا ہے، اس کی کشائش کے منتظر رہو، ایک گھڑی سے دوسری گھڑی تک کثیر کشائش ہے۔ اللہ کی خدمت کرو، اس کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرو اور خلقت کے سب دروازے بند کر دو، وہ تمہیں ایسے عجائبات دکھائے گا جوتمہارے خیال وشمار میں نہیں آ سکتے ۔ تجھ پر افسوس ! اللہ تعالی اگر تجھے مخلوق کے ہاتھوں سے نفع پہنچانا چاہے گا تو نفع پہنچا دے گا، اور اگر اس کے ہاتھوں سےنقصان پہنچانا چاہے گا تو نقصان ہوگا ، اس لئے کہ

 وہی دلوں کو مسخر کرنے والا اور نرم یا سخت کر نے والا ہے،  وہی زندہ کرنے والا اور وہی مارنے والا ہے، وہی عطا کرنے والا اور وہی روکنے والا ہے۔ وہی عزت دینے والا اور وہی ذلت دینے والا ہے۔ وہی بیمار بنانے والا اور وہی عافیت دینے والا ہے، وہی پیٹ بھرنے والا اور وہی بھوکا رکھنے والا ہے۔ وہی کپڑے پہنانے والا اور وہی ہر ہنہ رکھنے والا ہے، وہی احسان کرنے والا اور وہی وحشت میں ڈالنے والا ہے۔ وہی اول ہے وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے وہ باطن ہے،سب کچھ وہی ہے، دوسرا نہیں ۔ ان باتوں پر دل سے اعتقاد رکھ اور مخلوق کے ساتھ ظاہری زندگی اچھائی کے ساتھ بسرکر، کیونکہ پر ہیز گاروں اور صالحین کا شیوہ یہی ہے، سب احوال میں خوف خدا رکھتے ہیں ،خلقت کے ساتھ خاطر مدارات سے پیش آتے ہیں ۔ ان کی سمجھ  کے مطابق  اپنے دلوں کی بات کرتے ہیں ، ان کا خلق  نیک ہے  کتاب وسنت کے مطابق حکم  دیتے ہیں اگر وہ مان لیں تو ان  کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ اگر حکم نہ مانیں تو خلقت اور اولیاء اللہ میں  دوستی اور محبت بالکل نہیں  رہتی ۔ اللہ کے امرونہی کے معاملے میں خلقت کا لحاظ نہیں کرتے ۔ تو اپنے دل کو مسجد بنالے اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا” بے شک مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

بندہ جب کسی درجے میں ترقی کرتا ہے تو – اسلام سے ایمان کی طرف ،ایمان سے یقین کی طرف،یقین سے معرفت کی طرف، معرفت سے علم کی طرف، علم سے محبت کی طرف ،محبت سے محبوبیت کی طرف – طالب سے مطلوب کی طرف ترقی کرتا ہے، تو اس وقت ، جب غافل ہوتا ہے تو غفلت پرنہیں چھوڑ دیا جا تا ،- جب بھولتا ہے تو اسے یاد دلا یا جا تا ہے۔اگر سوجائے تو بیدار کر دیا جاتا ہے۔ غافل ہوتا ہے تو ہشیار کر دیا جاتا ہے۔جب پیٹھ پھیرتا ہے تو متوجہ کر دیا جا تا ہے،  جب خاموش ہو جائے تو بلوایا جا تا ہے۔

چنانچہ وہ ہمیشہ بیدار اور صاف رہتا ہے۔ کیونکہ اس کے دل کا آئینہ ایساصاف ہو گیا کہ اس کا اندرونی حصہ باہر سے دکھائی دیتا ہے، اور اسے یہ بیداری و ہوشیاری نبی اکرم علیہ الصلوۃ والسلام سے ورثہ میں ملی ہے۔ رسول اکرم  ﷺ کا دل جاگتا اور آنکھیں سوتی تھیں۔ کوئی بھی شخص رسول اکرم  ﷺ کی بیداری تک تو پہنچ ہی نہیں سکتا۔ نہ کوئی آپ کے خصائص میں جاگتا اور آنکھیں سوتی تھیں ۔ جیسے سامنے دیکھتے تھے ویسے ہی پیچھے سے دیکھتے تھے۔ ہر ایک کی بیداری اس کے حال کے شرکت کی قدرت رکھتا ہے، سوائے اس کے کہ آپ کی امت کے ابدال واولیاء آپ  ﷺ کے پس خوردہ کھانے اور پینے کے دستر خوان پر آتے ہیں، اور انہیں آپ  ﷺ کے مقامات عالیہ کے سمندروں میں سے ایک قطرہ اور آپ  ﷺ کی کرامات کے پہاڑوں میں سے ایک ذرہ عطا کر دیا جا تا ہے، کیونکہ وہ – آپ  ﷺ کے وارث ہیں ، – آپ  ﷺ کے دین کو مضبوطی سے پکڑنے والے ہیں،   آپ  ﷺ کے دین کے مددگار ہیں،آپ  ﷺ تک پہنچنے کا راستہ بتانے والے ہیں ، آپ  ﷺ کے دین اور علم شرع کے پھیلانے والے ہیں، ان پر اور ان کے وارثوں پر قیامت تک اللہ کی رحمت اور سلام نازل ہوتا رہے۔آمین!

 سب کو چھوڑ کر اسی ایک کے ہور ہو:

مومن نے دنیا پر نظر ڈالی ،اسے چاہا اور طلب کیا، اس سے اپنے دل کو بھر لیا، دنیانے اس کے دل کا مالک ہونا چاہا مگرمومن نے اسے طلاق دے دی ۔ اس کے بعد آخرت کو طلب کیاحتی کہ اسے بھی پالیا، اس سے اپنے دل کو بھر لیا، اسے گمان ہوا کہیں یہ ا سے پابند نہ کر لے اور ذات الہی سے نہ روک لے، اس نے اسے بھی طلاق دے دی ، اور دنیا کے پہلو میں بٹھا دیا، اور آخرت کا فرض ادا کر دیا ، اورخوداللہ کے دروازے پر جا کھڑا ہوا اور وہاں خیمہ لگالیا اور اس کی چوکھٹ کو تکیہ بنالیا۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی پیروی کر ، جنہوں نے پہلے تاروں سے منہ موڑا، پھر چاند اور پھر سورج سے توجہ ہٹائی ،پھر فرمایا: .

لَا أُحِبُّ ‌الْآفِلِينَ میں چھپ جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘ اور یہ کہ

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ میں اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں دین حق کا ماننے والا ہوں ، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔ چوکھٹ الہی پر اس کا تکیہ مدتوں لگا رہا، اور اللہ نے ظاہری طور پر اس کی طلب کوسچ جان لیا تو اس پر اپنے قرب کا دروازہ کھول دیا، اور اس کے دل کو اپنے حضور میں داخل ہونے کی اجازت دے دی، دنیا و آخرت میں اس پر جو کچھ گزری ہے اس کا اور اپنا حال سنا دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ بندے سے زیادہ جانتا ہے، جوگزری اسے سب کہہ دیتا ہے، اللہ اسے اپنا قرب اور انس عطا فر ما تا ہے اور اس سے بات کرنے کا شرف بخشتا ہے، اپنی رضا کی خلعت عنایت فرماتا ہے، اور اسے اپنے علم وحکمت سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اس کے طلاق یافتہ دنیا وآخرت کو نئے سرے سے عقد کر دیتا ہے ۔ اس کے اور دنیا و آخرت کے درمیان عہد اور شرائط لکھ لی جاتی ہیں۔ جن میں اسے کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچانے کی شرط بھی ہے ۔اور ان دونوں کو اس کا خدمت گزار بنادیا تا کہ اس کے نصیب کا لکھا اسے ادا کرتی رہیں ۔ دونوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی ، اس کے حق میں حکم بدل گیا، اس کے دل کا مقام اللہ کے قریب ہو جاتا ہے ، سب ماسوی اللہ اس سے الگ ہو گئے، وہ اللہ کا بندہ آزاد ہو گیا ماسوی اللہ سے آ زاد، زمین و آسمان میں کوئی چیز اس کی مالک نہیں، اور وہ سب چیزوں کا مالک ہو گیا ، بادشاہ ہو گیا ۔ اللہ کے سوا کوئی اس کا مالک نہ ر ہا ، قرب الہی کا دروازہ اس کے لئے کھلا ہے۔ اس کے لئے عام اجازت ہے ۔ کوئی دربان اور چوکیدارا سے نہیں روک سکتا۔ اے بیٹا! اللہ والوں کا خدمت گزار بن جا کیونکہ دنیا وآخرت دونوں ان کے خدمت گزار ہیں، وہ جب جو کچھ ان دونوں سے لینا چاہتے ہیں بحکم الہی سے حاصل کر لیتے ہیں، وہ تمہیں دنیا ظاہری طور پر عنایت کرتے ہیں اور آخرت باطنی طورپر

اللهم عرف بيننا وبينهم دنيا واخرة و الہی! ہمارے اور ان کے درمیان دنیاد آ خرت کی پہچان کرادے۔“

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 307،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 167دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں