چالیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الاربعون فی التفقہ فی الدین‘‘ ہے۔

  منعقد ہ 14رجب 545 و بروزصبح اتوار بمقام خانقاہ شریف

 اللہ تعالی جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے:

رسول اکرم  ﷺ کا ارشاد ہے: إذا أراد الله بعبده خيرا فقهه في الدين وبصرة بعيوب نفسه  اللہ تعالی کسی بندے سے جب بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے، اور اس کو نفس کے عیوب دکھادیتا ہے۔“ اللہ تعالی کو غیر اللہ پر دین کو اپنی خواہشوں پردین کی مجلس کی معرفت کا باعث ہے۔ جس نے رب کو پہچان لیا اس نے سب چیزوں کو پہچان لیا۔ اس سے اللہ کے لئے بندگی درست ہو جاتی ہے، اور غیر اللہ کی بندگی سے آزادی مل جاتی ہے۔تجھے فلاح ملے گی نہ نجات، جب تک کہ توآخرت کو اپنی دنیا پر – خالق ومخلوق پر ترجیح نہ دے گا ۔دین اور آخرت پر اپنی خواہشوں کو اور خلقت کو خالق پر مقدم سجھنا تیری ہلاکت کا باعث ہے، اسی پرعمل کر ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی تیرے ہرامر میں کفایت کرنے والا ہے مگر تو اس سے حجاب میں ہے ۔

تیری دعا قبول نہیں حکم الہی کی تعمیل کی جائے تو قبولیت ہوتی ہے۔ جب تو حکم الہی کے مطابق چلے گا تو وہ تیرے سوال کے وقت تیری التجا قول کرے گا ۔ کھیتی کرنے کے بعد ہی کھیت وجود میں آتا ہے چناکھیتی کرتا کہ تو کھیت کاٹ سکے ۔ رسول اکرم  ﷺ نے فرمایا

الدُّنْيَا ‌مَزْرَعَةُ ‌الْآخِرَةِ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔ تو کھیتی کر ، اس کھیتی کے لئے دل کی زمین ہے اور ایمان کا صحیح  ہے ۔اسے پانی دینا، نگہبانی کرنا اوراسے اعمال صالحہ کے ذریعے سیراب کرنا ۔ دل کی زمین میں نرمی و شفقت و رحمت ہوگی تو بیج اگے گا ،اور اگر دل کی زمین سخت اور کھاری ہے تو ایسی زمین میں کچھ نہیں اگتا۔ اور اگر تو کھیت کو پہاڑ کی چوٹی پر بونا چاہے گا تو وہاں کھیتی نہیں ہوگی ۔ ایسا کرنا بربادی کے بہت قریب ہے،  اپنی رائے سے کام نہ لے،ایسی کھیتی کرنے کے لئے اس کے جاننے والوں سے سیکھ، رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا:

استعينوا على كل صنعة بصالح أهلها  ہر صنعت میں اس کے نیک ماہروں سے مددلیا کرو۔

تو دنیا کی کاشت کاری میں لگا ہے آخرت کی کاشت کاری میں نہیں ۔ کیا تجھے نہیں پتہ کہ دنیا کے چاہنے والا فلاح نہیں پاتا۔ اور آخرت کے چاہنے والا اللہ تعالی کی نہیں دیکھ سکتا۔ -اگرآ خرت کو چاہتے ہو تو دنیا کو ترک کر دے۔

اگر ذات الہی کو چاہتے ہو تو دنیا کی لذتیں تمہارے لئے یہ حالت جب درست ہو جائے تو دنیا وآخرت ،لذات اور خلقت ، رغبت ونفرت کے تابع ہو جائیں گےکیونکہ اصل تو تمہارے پاس ہے اور سب شاخیں اس اصل کے تابع ہیں ۔

عقل کر، نہ تجھے ایمان ہے،  نہ عقل ہے نہ تمیز ہے، تو خلقت کے ساتھ قائم ہے اور انہیں اللہ کا شریک بنائے بیٹھا ہے۔ اگر تو بہ نہ کرے گا تو برباد ہوجائے گا تو بہ نہ کرنے پر خاصان خدا کی راہ چھوڑ دے، ان کے دروازے سے ہٹ جا، دل کی بجائے اپنے شانے ہلا ہلا کر ان کی مزاحمت نہ کر ۔اپنے جھوٹے دعوؤں اور خواہشوں اور نفاق کے ساتھ انکی مخالفت نہ کر، اولیاء اللہ میں دل اور باطن کے ذریعہ شامل ہوسکتا ہے، اس کے لئے تو کل کے کندھوں کے ساتھ مصیبتوں پر صبر کر ۔اپنے نصیب پر راضی ہونا ہوگا۔

 پریشانیوں میں ثابت قدمی اختیا کر

بیٹا اللہ کے سامنے اپنے محبت کے قدموں پر کھڑارہ، تجھے کیسی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے، تیز بارشیں ہوائیں اپنی جگہ سے ہلا نہ کیں ، اور نہ صدموں کے نیزے تجھے زخم لگاسکیں ، ظاہری اور باطنی طور پر ثابت قدم رہ ،ایسی جگہ کہ جہاں نہ خلقت ، نہ دنیا و آخرت ہو، نہ حقوق ہوں نہ لذات ہوں ، نہ چون و چرانہ ماسوی اللہ ایسی جگہ کہ جہاں  نہ خلقت کی دیکھ بھال سے مکدرہو، نہ اہل وعیال کے لئے فکر معاش ہو۔ کسی کی بیٹی سے دل میں کچھ خیال آئے۔ نہ کسی کے برائی کرنے سے اور نہ کسی کی جہالت سے دل میں رنج ہو۔ کسی کے آنے ،نہ آنے سے کوئی تبدیلی محسوس ہو۔ اللہ کے ساتھ تیرا ساتھ اس طرح سے ہو کہ جو انسان یا فرشتہ یا کسی جن کی سمجھ سے باہر ہو، اور نہ ساری خلقت کی عقل میں ایک ولی اللہ نے کیا خوب کہا ہے۔

إن كنت تصدق وإلا فلا تتبعناه“اگر تو اپنی طلب میں سچا ہے تو بہتر ورنہ ہمارے ساتھ نہ ہو۔“ جو کچھ میں نے تجھ سے کہا ہے ان سب کی بنیاد صبر اور اخلاص ہیں ، تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے نفاق برتوں اور نرمی سے بات کروں تو اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے اورغر ورکرتاہے اور یہ گمان کرتاہے کہ تو بھی کوئی شے ہے نہیں اس کی کوئی وقعت نہیں۔

میں آگ ہوں، اور آگ پر سمندل (آگ کا کیڑاجو آگ میں رہتا ہے، وہیں انڈ ے بچے دیتا) ہی ٹھہر سکتا ہے،اوراس میں اٹھتا بیٹھتا ہے تو کوشش کر کہ تو مصیبتوں مشقتوں اورسختیوں کی آگ میں سمندل بن جا ، اور قضا و قدر کے ہتھوڑوں پر صبر کرے تا کہ تو میری صحبت اور میری سخت باتیں سننے پر ثابت قدم رہ سکے۔ اور ظاہری اور باطنی ، علانیہ اور چھپے طور پر عمل کرے:

پہلے اپنی خلوت میں، پھر اپنی جلوت میں، پھر اپنے وجود میں اگر اس طرح سے تیرا یہ حال صحیح ہو جائے تو دنیا و آخرت میں اللہ کی مشیت سے اور تقدیر الہی سے تجھے فلاح مل جائے۔ خلقت میں سے جو چیز اللہ کے لئے ہو اور اس میں اللہ کا کوئی حق ہو، میں اس کے لئے کوئی رعایت یا لحاظ نہیں کر سکتا۔ اللہ کے حکم کے بغیرمخلوق  میں سے کسی کی طرف متوجہ نہیں کرتا۔ بلکہ خلقت سے اللہ کا حق حاصل کرنے کے لئے اللہ سے طاقت حاصل کرتا ہوں ۔

اور کسی طرح کی کمزوری نہیں پاتا ۔ میں اپنے نفس کے ساتھ قوی ہوں اور خلقت کے حوالے سے نفس کے موافق ہوں ایک ولی اللہ نے فرمایا:

وافق الله عز وجل في الخلق ولا توافق الخلق في الله انكسر من الكسر والخبر من الجبر خلقت کے حوالے سے اللہ عز وجل کے موافق کرو، اور اللہ تعالی کے حوالے سے خلقت کے موافق نہ کر ، جو ٹوٹا ہے ،ٹوٹار ہے، جو جڑا ہے وہ جڑار ہے۔ میں تیری کیسے پرواہ کروں حالانکہ تو اللہ کا نافرمان ہے۔ اس کے اوامر نواہی کی اہانت کرنے والا ، اس کی قدر و قضا میں اس سے جھگڑ نے والا ، رات اور دن اس کی مخالفت کرنے والا ، ہے، بے شک تو اس کے غضب میں اور اس کی لعنت میں ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے: إذا أطـعـت رضيـتُ وإذا رضيت بـاركـت وليـس لبركتى نهاية وإذا عصبت غضبت وإذا غضبت لعنت وتبلغ لعنتي إلى الولد السابع ” جب تو اطاعت کرے تو میں راضی ہوتا ہوں ، اور میں راضی ہوتا ہوں تو برکت دیتا ہوں ، ، اور میری برکت بے انتہا ہے ۔ جب تو نا فرمانی کرے تو مجھے غصہ آ جا تا ہے  اور جب مجھے غصہ آ جاتا ہے تو اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہوں اور میری لعنت ساتویں پشت تک پہنچتی ہے۔ یہ دور دین کو انجیر کے بھاؤ میں بیچنے والوں کا ہے،  آرزوں کو دراز کرنے اور حرص کو قوی کرنے کا ہے، کوشش کر تو ایسے لوگوں میں سے نہ ہو جائے جن کے بارے میں ارشاد باری ہے:

وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ ‌هَبَاءً مَنْثُورًا’’اور ہم نے انہیں ان کے عملوں کی طرف توجہ دلائی ، ان کے عملوں کواڑے ہوئے غبار کی طرح کردیا۔‘‘ ہروہ عمل جس سے اللہ کی ذات کے سوا کوئی دوسرا مراد ہو تو وہ اڑے ہوئے غبار کی طرح ہے۔

اللہ سے واصل ہونے کے لئے خلقت سے الگ ہو جا:

تجھ پر افسوس ہے،اگر :

 تیرا کام عام لوگوں سے چھپارہ سکتا ہے خواص سے نہیں چھپ سکتا، تیرا کھوٹ دیہاتی سے چھپارہ سکتا ہے، سنار سے نہیں چھپ سکتا ، تیراحال جال سے چھپارہ سکتا ہے، عالم سے نہیں چھپ سکتا ، تو عمل کر اور عمل میں اخلاص کر ، اللہ کے ساتھ مشغول ہو جا، بے فائدہ چیزوں میں مشغول نہ ہو۔ تیرے نفس کے علاوہ دوسروں سے کچھ فائدہ نہیں ، سب بیکارو بے مقصد ہیں ، تو اس کے ساتھ مشغول نہ ہو، ۔ خاص طور سے اپنے نفس کی اصلاح کر ، تا کہ تو اس پر غالب آ سکے اسے ذلیل واسیر کر کے اپنی سواری بنالے تا کہ تو اس پر سوار دنیا کے میدانوں سے گزرکر آخرت کی طرف پہنچ جائے ۔ خلقت سے الگ ہوتا کہ اللہ سے واصل ہو جائے ، ۔ جب تو اس مقام پر پہنچ کر قوت حاصل کر لے گا، تب اوروں کو اپنے پیچھے سوار کر کے اس دنیا سے نکال لے جائے گا اور مولی کے حضور میں پیش کر دے گا ۔ اور اسے حکمت کے لئے کھلائے گا۔

 تو سچی بات کرنا لازم کرلے ، تاویل نہ کر ، اس لئے کہ تاویل کرنے والا فریبی ہوتا ہے، نہ خلقت سے خوف کر ، نہ اس سے کچھ امید رکھے ۔ کیونکہ یہ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے، اپنی ہمت کو بلند کرے گا تو تجھے بلندی عطا ہوگی ، اللہ تعالی تیری ہمت اور تیری سچائی اور اخلاص کے مطابق عطا فرمائے گا ،  کوشش کر کے آگے بڑھے اور طلب کر ، کیونکہ کوئی شے تیرے ہاتھ نہیں آتی مگر جو کچھ ملتا ہے وہ تو مل کے رہے گا ، نیک اعمال کے لئے تکلیف اٹھانی پڑے تو تکلیف اٹھا جیسے کہ رزق حاصل کرنے کے لئے تکلیف اٹھاتا ہے، عام لوگوں سے شیطان یوں کھیلتا ہے جیسے کوئی گھڑ سوار اپنے گیند سے کھیلتا ہے۔ جدھر چاہتا ہے لوگوں کو گھما تا پھرتا ہے، جیسے تم اپنے چو پائے کو جدھر جی چاہے گھماتے پھرتے ہو، ان کے دلوں کی گردنیں دبا کر اس سے جس طرح کی چاہے خدمت لیتا ہے،  خلوتوں سے انہیں نکال لاتا ہے، محرابوں سے باہر کرتا ہے،اور اپنی خدمت میں ٹھہر لیتا ہے۔اس سارے کام میں نفس شیطان کی مدد کرتا ہے اور اس کے لئے اسباب مہیا کرتا ہے۔

باطن کو ہر حال میں اللہ کی فرماں برداری اور موافقت میں رکھ :

 اے بیٹا! اپنےنفس کو بھوک اور شہوتوں اور لذتوں اور فضولیات سے روکنے کے چا بک سے مار۔ اور دل کو خوف اور مراقبہ کے چا بک سے تعبیر کر ۔ اپنے نفس اور قلب اور باطن کو استغفار کی عادت ڈال، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا گناہ ہے۔ انہیں ہر حال میں اللہ کی فرماں برداری اور موافقت میں رکھ۔

اے کم سمجھ والے! تقدیر کاردکرنا یا اسے بدلنا اور مٹادینا تیرے بس میں نہیں ، لہذا اس کیخلاف ارادہ نہ کر ،  جب تقد یرکا لکھا ہوکر رہتا ہے تو تو ارادہ چھوڑ دے، کسی چیز کے لئے اگر ارادہ ہوتا ہے، اور وہ پورا نہیں ہوتا تو اس کے لئے اپنے نفس اور قلب کو کیوں مصیبت میں ڈالتا ہے۔ اپنا سب کچھ اپنے رب کے سپرد کر دے، تو بہ کے ہاتھ سے اس کی رحمت کا دامن تھام لے۔اگر اس پر ثابت قدم رہے گا تو دنیا تیرے دل اور سر کی آنکھ سے دور ہو جائے گی۔ اس کی خواہشوں اور لذتوں کا چھوڑ نا تیرے لئے آسان ہو جائے گا۔ اس کے ڈسنے اور ڈنگ مارنے کا شکوہ نہ کرے گا، اور تیرانفس مصیبتوں تکلیفوں میں حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا زوجہ فرعون کی طرح صبر کرنے والا ہو جائے گا۔ فرعون کو جب اپنی زوجہ آسیہ سلام اللہ علیہا کے ایمان لے آنے کا پختہ یقین ہو گیا تو اس نے انہیں سزا دینے کا حکم سنایا۔ ان کے ہاتھوں پیروں میں لوہے کی میخیں ٹھونک دیں اور کوڑوں سے مارنے لگا ۔ حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا۔ آپ نے جنت کے دروازے کھلے ہوئے پائے ، اور دیکھا کہ فرشتے ایک عالی شان محل تیار کر رہے ہیں ۔ اس اثناء میں ملک الموت آپ کی روح قبض کرنے کے لئے آ پہنچے۔ ان سے کہا: یہ محل آپ ہی کے لئے ہے یہ سن کر آپ ہنس دیں ۔ اور ان سے تکلیف کا احساس جا تا رہا۔ بارگاہ الہی میں التجا کی: رَبِّ ابْنِ لِي ‌عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ میرے رب! اپنے پاس جنت میں میرے لئے گھر بنوادے۔“ صبر کرنے سے تم بھی ایسے ہو جاؤ گے، کیونکہ تم  اپنے قلب ویقین کی نظر سے اللہ کا فضل دیکھو گے۔د نیا کی آفتوں مصیبتوں پر صبر کرو گے، اپنی طاقت اور ہمت سے باہر نہیں جاؤ گے -تمہارالین دین اور تمہارا چلناپھرناسب اللہ کی طاقت وقوت سے ہوگا ، اس کے رو بروفنا ہو جاؤ گے،اپنے سب معاملے اس کے سپردکر دو گے، اپنے اور خلقت کے بارے میں اس کے موافق ہو گے، اس کے حکم کے ساتھ حکم چلاؤ گےنہ اس کے اختیار کے ساتھ اپنا اختیار جتاؤ گے جس نے یہ حال پہچان لیا وہ بھی غیر کی طلب نہ کرے گا ، نہ اس کے سوا کچھ تمنا رہے گی ، عقل والا اس حال کی تمنا کیسے نہ کرے، اس لئے کہ اللہ کی صحبت اس کے بغیر میسر نہیں آتی۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 272،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 151دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں