چوبیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چوبیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الرابع والعشرون فی عدم مشارکۃ اللہ فی تدبیرہ ‘‘ ہے۔

  منعقد ہ 14 ذی الحج 545 اتوار کی صبح بمقام خانقاہ شریف

تدبیر علم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی صائب ہے:

اللہ تعالی کی تدبیر اور علم میں اپنے نفسوں اور خواہشوں اور عادتوں کو شریک نہ بناؤ ، اپنے اور پرائے کے معاملے میں اللہ سے ڈروبعض اولیاء اللہ نے فرمایا:

خلقت میں اللہ تعالی کی موافقت کرو، اور اللہ سے خلقت کی موافقت نہ کرو ،ٹوٹے کوتوڑو، جڑے کو جوڑو ۔ اللہ سے موافقت اس کے نیک بندوں اور موافقت والوں سے سیکھوعلم عمل کے لئے بنایا گیا ہے۔ صرف یاد کرنےاور مخلوق کو سنانے کے لئے نہیں ہے، ۔علم پڑھ اور عمل کر ، پھر دوسرے کو بتا، جب علم پڑھا اور عمل کیا تو علم تمہاری طرف سے خود کلام کرے گا ، اگر تم خاموش رہے توعمل کی زبان علم کی زبان سے زیادہ کام کرے گی ، اس لئے بعض اہل اللہ نے فرمایا:

جس کی آنکھ کا اشارہ تمہیں نفع نہ دے ، اس کے وعظ سے بھی نفع نہ ہوگا۔‘‘ جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے تو وہ اس علم سے خود بھی نفع حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی نفع پہنچا تا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی میرے پاس حاضر ہونے والوں کے حالات میں سے جس قد رضروری چاہتا ہے ، مجھ سے کہلوا دیتا ہے،  ورنہ میرے اور تمہارے درمیان عداوت ہے کیونکہ میری آبرو اور مال سب کچھ تمہارے لئے ہے۔ میرے پاس اور کچھ نہیں ، اگر میرے پاس اور کچھ ہوتا تو اس سے بھی تم کو نہ روکتا، میرے اور تمہارے درمیان صرف خیر خواہی اور نصیحت ہے، میں اپنے لئے نہیں ۔ بلکہ اللہ کے لئے تمہیں نصیحت کرتا ہوں ، تقدیر کے ساتھ موافقت کرو ورنہ بُھرکس نکال دے گی ، اس کے اختیار کے ساتھ ساتھ چلو ورنہ وہ تجھے کاٹ ڈالے گی ، کوئی بے جا حرکت نہ کرو، اس کے سامنے بیٹھے رہو، یہاں تک کہ تم پر رحم کر کے اپنی سواری پر پیچھے بٹھالے۔

اولیاء اللہ کے معاملہ کی ابتداء کسب سے ہوتی ہے، وہ دنیا کی بقدر ضرورت شریعت کے ہاتھ سے لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان کے جسم کسب سے تھک جاتے ہیں تو تو کل آ کر ان کے دلوں پر مہر لگا کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتا ہے وہ فکر دنیا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ۔ ان کا دنیاوی نصیب ان کے پاس خوشگواری سے کثیر مقدار میں بغیر کسی محنت ومشقت کے خود چلا آتا ہے، مقربین الہی میں سے ہر ایک آخرت میں بغیر ارادہ وخواہش کے جنت کی نعمتیں حاصل کرے گا، بلکہ وہ اس میں بھی اللہ تعالی کی موافقت کرے گا جیسے کہ دنیا میں اپنے نصیب پر موافقت کرتا تھا، اللہ تعالی ان کے نصیب دنیا اور آخرت میں پورے عنایت فرماتا ہے، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں رکھتا ہے۔

اللہ کے ساتھ جینا چاہتے ہو تو اپنے آپ سے مر جاؤ

اے بیٹا! تجھے تیری سوچ کے اندازے پر عطا کیا جائے گا ،تو جتنی فکر کرے گا ، اس قدر پائے گا، اپنے دل کے ساتھ ما سوا اللہ سے دور رہو، یہاں تک کہ حق تعالی سے قریب ہو جائے تو اپنی ذات اورمخلوق  کی طرف سے مرجا، تیرے اور حق تعالی کے درمیان جو پردے ہیں، اٹھادئیے جائیں گے۔

اگر تو کہے: میں کیسے مروں؟ اس کا جواب یہ ہے: اپنے نفس اور خواہش اور حرص اور عادت کی تابعداری سے مر جا ، خلقت کو چھوڑ اور اسباب سے نا امید ہو جا، شرک چھوڑ دے اور اللہ کے سوا کسی سے سوال مت کر، اپنے سب اعمال اللہ کے لئے کر نعمتوں کی طلب نہ رکھ، اس کی تدبیر اور قضا اور افعال پر راضی ہو جا، جب تو ایسا کرے گا تو اپنے آپ سے مر جائے گا اور اللہ کے ساتھ زندہ ہو جائے گا، تمہارا دل اس ذات کا مقام ہوگا ، وہ اسے جدھر چاہے پھیردے، اس  کے

کعبہ قرب کے پردوں کو تھامے اس کا ذکر کر رہا ہوگا اور ماسوی اللہ کی کچھ خبر نہ ہوگی، دنیا اور آخرت میں جنت کی کنجی کلمہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ ہے، اپنے سے اور غیر سے اور کل ماسوی اللہ سے شرعی حدود کی حفاظت کر کے فنا ہو جاؤ۔

اولیاءاللہ کی جنت وردوزخ؛

اولیاء اللہ کی جنت اللہ کا قرب ہے اور دوزخ اللہ سے دوری ہے ، نہیں کرتے امیداسی جنت کی ، اور نہیں ڈرتے مگر اسی دوزخ سے ، ان کے نزدیک آگ کی جلن ہے کیا چیز کہ اس سے ڈریں، وہ ہر وقت قرب الہی کے طالب رہتے ہیں، ان کے پاس کھوٹ ہی کیا ہے جو دوز رخ سے ڈریں آگ تو ایمان والے سے پناہ مانگتی ہے اور اس سے بھاگتی ہے، پھر دہ محبین مقربین اورمخلصین سے کیوں نہ بھاگے گی ، ایمان والے کا دنیا اور آخرت میں کیا ہی اچھا حال ہے ۔ اسے علم ہو جائے کہ اللہ اس سے راضی ہے، پھر وہ دنیا میں کسی حال پر ہوا سے کچھ پرواہ نہیں، وہ جہاں بھی اتر تا ہے اپنا نصیب پالیتا ہے،اور اس پر خوش رہتا ہے،  جدھر دیکھتا ہے، اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، اس کے پاس تاریکی نہیں رہتی، اس کے سب اشارے اللہ کی طرف ہیں ، اسی پر بھروسہ اورتوکل ہے۔

 ایمان والے کوستا نا ،بستانے والے کی محتاجی کا سبب ہے:

ایمان والے کو ستانے سے بچو، کیونکہ اس کاستانا ستانے والے کے جسم میں زہر قاتل اور اس کی محتاجی اور سزا اور عذاب کا سبب ہے او جاہل ! تو اللہ اور خاصان خدا سے نادان ہے، ان کی غیبت اور بدگوئی کا مزہ نہ چکھ ، وہ زہر قاتل ہے، بچا  اپنے آپ کو، اور پھر بچا اپنے آپ کو ان کی بد دعا سے ، ڈر، گر یز کر ، ورنہ تو ہلاک ہو جائے گا اور ان کا کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ ان کے رب کو ان کے لئے بڑی غیرت ہے،  اے منافق ! نفاق کا شک تیرے دل میں جو نک کی طرح لگا ہے۔ تیرے ظاہر و باطن کا مالک بن گیا ہے۔ سب حالتوں میں توحید اور اخلاص کا استعمال کر ، تجھے شفا ہوکر شک جا تا رہے گا، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اکثر شرعی حدود کوتوڑتے ہو اور اپنے تقوی کے ذروں کو تار تار کرتے ہو، اپنے توحید کے کپڑوں کو ناپاک کرتے ہواورنورایمان کو بجھاتے ہو، اپنے سب فعلوں اور حالوں میں اللہ کے دشمن بنے ہوئے ہو، تم میں سے جب کوئی فلاح پائے اور نیک عمل بھی کرے تو وہ غرور اور خلقت کے دکھلاوے کے ساتھ اور خلقت سے ستائش کی تمنا لئے ہوتا ہے تم میں سے جو کوئی اللہ کی عبادت کا ارادہ کرے، اسے چاہئے کہ خلقت سے گوشہ نشین ہو جائے ، کیونکہ عملوں کی طرف دیکھنا عملوں کو ضائع کرنا ہے ۔ رسول اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 عليكم بالعزلة ف بالعزلة فإنها عبادة واتها ذاب الصالحين من قبلكم –

” تم تنہائی کولازم پکڑو، کیونکہ وہ عبادت ہے اور تم سے پہلے نیکوکاروں کی عادت ہے۔‘‘ لوگوں تم ایمان کو لازم پکڑو پھر یقین ،پھر فنا اور اس کے بعد اللہ تعالی کے ساتھ وجود کو نہ کہ اپنے اور اپنے غیر کے ساتھ یہ  سب شرعی حدود کی حفاظت اور رسول اللہ  ﷺ کی رضا کے ساتھ ، اور کلام الہی کی رضا تلاوت کئے گئے ، سنے گئے، پڑھے گئے کے ساتھ ، جوشخص اس کے سوا کچھ کہے، اس کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ یہ وہی ہے جو صحیفوں اور تختیوں میں ہے، اللہ تعالی کا کلام ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں اور دوسری طرف ہمارے ہاتھوں میں ہے، تمہیں لازم ہے کہ اللہ کے ساتھ رہو اور اس کی طرف سب سے الگ ہو کر لگو۔ اور اس کے ساتھ علاقہ رکھو، کیونکہ دنیا اور آخرت کی مشقت میں وہی تمہارے لئے کافی ہے۔ زندگی اور موت میں وہی حفاظت کرنے والا ہے، تمام حالتوں میں مصائب کو وہی دور کرنے والا ہے۔ تو اس سیاہی کو سفیدی سے لازم پکڑ یعنی لکھے ہوئے پر عمل کر اس کی خدمت کرتا کہ وہ تیری خدمت کرائے ، اور وہ تیرے دل کے ہاتھ کو پکڑ کر اللہ کے رو برو کھڑا کر دے، اس پرعمل تیرے دل کے دونوں بازوؤں پر پر لگائے گا ،ان کے ساتھ تو اپنے رب کی طرف پرواز کرے گا،۔

اسلام ہے ،اللہ کا امراللہ کے سپرد کر دینا:

اے صوف پوش! – پہلے تو اپنے باطن کوصوف پہنا، پھر قلب کو پھر نفس کو، پھر اپنے بدن کو، زہد کی ابتداء اسی طرح سے ہوتی ہے ، ظاہر سے باطن کی طرف نہیں ۔ جب باطن صفا ہو جائے تو دل اور نفس اور دیگر ظاہری اعضاء اور کھانے پینے اور پہننے کی طرف صفائی پہنچ جائے گی حتی کہ تمام احوال میں ظاہر ہو جاتی ہے، پہلے مکان کے اندرونی حصے کی تعمیر ہوتی ہے، وہ مکمل ہو جائے تو دروازے کی عمارت تعمیر ہوتی ہے، ظاہر باطن کے بغیر کچھ نہیں ، خلقت بغیر خالق کے، دروازہ بغیر مکان اندرونی کے کچھ نہیں ، اور ویرانے پر تالا لگانا کچھ نہیں ۔

اے دنیا کو آخرت کے بغیر ، اور خلقت کو خالق کے بغیر طلب کرنے والے! تو جن مشغلوں میں لگا ہے، قیامت کے دن بجائے فائدہ کے نقصان اٹھاؤ گے، یہ جو مال اسباب تیرے پاس ہے وہاں اس کا خریدنے والا کوئی نہیں ، – تیرامال ریا اور نفاق اور گناہ ایسی چیز یں ہیں، بازار آ خرت میں جن کی ذرا بھی کھپت نہیں ۔ پہلے اپنا اسلام صحیح  کرو، پھر نصیب طلب کر لفظ اسلام ، استسلام سے نکلا ہے ،استسلام یہ ہے کہ تو اللہ کا امراللہ کے سپرد کر دے، اپنا نفس اس کوسونپ دے اور اسی پر بھروسہ کر اپنی قوت اور طاقت کو بھلا دے، اور تیرے پاس جو کچھ دنیا کا مال ہے اللہ کی اطاعت میں صرف کر دے، اطاعت وعبادت کے عمل کر کے اس کے سپرد کر کے بھول جاؤ ، تیراعمل ایسے اخروٹ کی طرح ہے جس میں مغز نہ ہو، جس عمل میں اخلاص نہ ہو وہ بغیر مغز کے چھلکا ہے، یا لکڑی ہے جسے کھینچ کر لایا گیا ہو، روح کے بغیر جسم اور صورت معنی کے بغیر ہے یہی منافقوں کاعمل ہے۔

مخلوق کے ساتھ رہنا اور ہے، خالق کے ساتھ رہنا اور ہے:

 اے بیٹا! ساری خلقت ایک آلہ ہے اور اللہ تعالی صانع ہے یعنی بنانے والا ، اور وہی تصرف کرنے والا ہے، جس نے اسے سمجھا اور اس پر اعتقاد رکھا، وہ آلہ کی قید سے رہائی پا گیا، اور ان میں تصرف کرنے والے کو دیکھ لیا ، خلقت کے ساتھ رہنا نفرت اور تکلیف اور مشقت ہے، جبکہ اللہ تعالی کے قرب میں رہنا خوشی اور راحت اور نعمت ہے، تم پہلے لوگوں کے راستے سے الگ جا پڑے تمہارے اور ان کے درمیان کوئی نسبت نہ رہی ، تم نے اپنی رائے پر قناعت کر لی ہےاور اپنے لئے استاد عارف ادب سکھانے والا نہ پکڑا۔اے رستے سے بھٹک جانے والے! اے وہ شخص جسے شیطانوں، انسانوں اور جنوں نے اپنا کھیل بنارکھا ہے!اے نفس اور حرص اور خواہش کے بندے! تجھ پر افسوس ہے تو حق سے گونگا بن گیا ہے، تو اللہ سے مدد مانگ ، ندامت اور عذر کے قدموں سے اس کی طرف رجوع کرتا کہ دشمنوں سے تیری جان چھٹرائے ، اور ہلاکت کے دریا کی موج سے نجات دے، تو جس امر میں پھنس گیا ہے اس کے انجام کی فکر کر اسے چھوڑ دینا تیرے لئے آسان ہے، تم غفلت کے درخت کے سائے میں بیٹھ رہے ہو، اس کے سائے سے نکل آؤ، تم نے سورج کی روشنی دیکھ لی ہے، اور اس کی روشنی میں راستہ پہچان لیا ہے،  غفلت کا درخت جہالت کے پانی سے پرورش پاتا ہے،جبکہ بیداری اور معرفت کا درخت فکر کے پانی سے سینچا جا تا ہے۔ توبہ کا درخت آب ندامت سے پروان چڑھتا ہے، محبت کا درخت موافقت کے پانی سے پرورش کیا جا تا ہے۔

 جس نے نافرمانی کی ،اس نے اللہ کو بھلا دیا:

اے بیٹا! بچپنے کی عمر میں تم کچھ عذر بھی کر لیتے تھے، اب جوان ہو  جبکہ عمر چالیس برس ہو گئی یا کچھ اس سے بھی بڑھ گئی ،جو کم سن بچے کھیلتے ہیں تو وہی کھیل کھیلے جارہا ہے، جاہلوں سے میل ملاپ سے بچ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ خلوت چھوڑ عمر رسیدہ پر ہیز گاروں کی صحبت اختیار کرو، جاہل نو جوانوں کی صحبت سے بھاگو،لوگوں سے ایک طرف ہو کر کھڑا ہو جا، جب ان میں سے کوئی تمہارے پاس آئے تو اس کا طبیب بن جاء خلقت کے ساتھ ایسے رہو جیسے کوئی مہربان باپ اپنی اولادپر۔ اللہ تعالی کی عبادت کثرت سے کرو، کیونکہ اس کی عبادت ہی اس کا ذکر ہے، رسول اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا

مَنْ أَطَاعَ اللَّهَ فَقَدَ ذَكَرَ اللَّهَ وَإِنْ ‌قَلَّتْ ‌صَلَاتُهُ، وَصِيَامُهُ، وَتِلَاوَتُهُ الْقُرْآنَ، وَمَنْ عَصَى اللَّهَ فَقَدْ نَسِيَ اللَّهَ، وَإِنْ كَثُرَتْ صَلَاتُهُ، وَصِيَامُهُ، وَتِلَاوَتُهُ الْقُرْآنَ جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ، پس تحقیق اس کا ذکر کیا، اگر چہ اس کی نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن کم  ہو ، اور جس شخص نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، پس تحقیق اسے بھلا دیا،اگرچہ اس کی نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن بکثرت ہو۔

ایمان والا اپنے رب کا تابعدار ہے اور اس کی موافقت کرنے والا ہے، اس کے ساتھ صبر کرنے والا ہے، وہ اپنی  لذتوں اور کلام اور کھانے پینے اور پہننے اور جملہ تصرفات الہی میں ٹھہرارہتا ہے، اور منافق اپنے سب احوال میں ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا۔

جو خوبی تجھ میں نہیں اسے اپنے نفس کے لئے ثابت نہ کر :

اے بیٹا! تو اپنے معاملے میں غوروفکر کر جو خوبی تجھ میں نہیں اسے اپنے نفس کے لئے ثابت  نہ  کرتم نہ صادق ہونہ صدیق،نہ  محب ہونہ موافق، نہ راضی بہ رضانہ عارف -تم نے معرفت الہی کا دعوی کر رکھا ہے لیکن یہ تو بتا اس کی معرفت کی علامت کیا ہے، تو اپنے قلب میں علم اور نورالہی سے کیا چیز دیکھتا ہے ۔ اولیاء اللہ اور انبیاء کرام کے جانشین ابدالوں کی کیا علامت ہے، تمہارا گمان ہے کہ جو کچھ دعوی کرو گے اسے تسلیم کر لیا جائے گا،۔ عارف کی صفات میں سے یہ ہے کہ آفتوں پر صبر کرے ، اللہ تعالی کی قضاؤں اور قدروں سے اپنے تمام احوال نفس، اپنے اہل وعیال اورساری خلقت میں راضی برضار ہے۔

اللہ اور اس کے غیر کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی

اے بیٹا! اللہ کی محبت اور اس کے غیر کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی۔ارشاد باری تعالی ہے: مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ ‌قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ اللہ نے کسی سینے میں دو دل نہیں بنائے ،د نیا اور آخرت جمع نہیں ہوسکتیں، اور نہ ہی خالق مخلوق ایک دل میں جمع ہو سکتے ہیں ، فنا ہونے والی چیز یں چھوڑ دے تا کہ غیر فانی تمہیں مل جائے ، جنت کے حصول کے لئے اپنی جان اور مال خرچ کرو، ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ ‌اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اللہ تعالی نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں۔ پھر اپنے دل سے ماسوی اللہ کی رغبت دور کر دے تا کہ قرب الہی حاصل ہو اور دنیا و آخرت میں اس کی صحبت میں  رہو۔ اے اللہ کے محب! اس کی تقدیر کے ساتھ چلو ، جدھر کو بھی چلائے ، اور دل کو جو قرب الہی کا مکان ہے، ماسوی اللہ سے پاک صاف کرو، اس کے قرب کے دروازے پر تو حید اور اخلاص اور سچائی کی تلوار لے کر بیٹھو، اسے اللہ کی ذات کے سواکسی کے سامنے نہ کھول ، اور دل کے کسی گوشہ میں غیر کے ساتھ مشغول نہ ہو۔ اے تماش بینو! میرے پاس تماشہ نہیں ۔ اے مجسم چھلکو! میرے پاس مغز کے  سوا کچھ نہیں ، میرے پاس اخلاص ہے نفاق نہیں ، سچ  ہے جھوٹ نہیں ، اللہ تعالی تمہارے دلوں سے تقوی اور اخلاص چاہتا ہے تمہارے ظاہری اعمال نہیں دیکھتا۔

ارشاد باری تعالی ہے: لَنْ يَنَالَ اللَّهَ ‌لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ اللہ کوان کے گوشت اور نہ خون پہنچتے ہیں لیکن خدا کو تم سے تقوی پہنچتا ہے۔ اے اولاد آدم! دنیا و آخرت میں سب کچھ تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تمہاراشکر اور تقوی ، اور اس کی طرف اشارے اور خدمات کہاں ہیں؟  روح کے بغیر عمل کرتے ہوئے تم تھکتے نہیں ہو اعمال کے لئے روحیں بھی ہیں ، اور روح کیا ہے اخلاص۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 173،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 104دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں