آفاقی و انفسی باطل خداؤں کی نفی مکتوب نمبر 126 دفتر اول

 اس بیان میں کہ طالب کو چاہیئے کہ باطل خداؤں کی نفی کرنے میں خواہ آفاقی ہو خواہ انفسی کوشش کرے اور معبود برحق کے اثبات کی طرف میں جو کچھ حوصلہ فہم اور احاطہ ادراک میں آئے۔ اس کو بھی نفی کے نیچے لا کر صرف موجودیت پر کفایت کرے اگر چہ وجود کی بھی اس مقام میں گنجائش نہیں اور اس کے مناسب بيان میں میر صالح نیشا پوری کی طرف لکھا ہے 

اے سرداری و شرافت کی مسند والے طالب علم کو چاہیئے کہ انفسی(اندرونی) اور آفاقی (بیرونی)جھوٹے خداوں کی نفی(دل سے دور) کرنے میں کوشش کرے اور معبود و برحق کے اثبات کی جانب میں جو کچھ فہم کے حوصلہ اور وہم کے احاطہ میں آئے اس کو بھی نفی کےنیچے لا کر صرف مطلوب(حق تعالیٰ) کی موجودیت(ولایت کا ایک مقام جس کے بعد  مقام ظلیت اور پھر سب سے بلند مقام  عبدیت ہے) پر کفایت کرے ۔ 

پیش ازیں پے نبرده اند کہ ہست ترجمہ : اس سے زیادہ علم نہیں کہ بس وہ ہے وہ ہے۔ 

اگر چہ وجود کی بھی اس مقام میں کوئی گنجائش نہیں اس کو وجود کے ماسوا طلب کرنا علماء اہل سنت و جماعت نے اچها کہاہے کے واجب تعالی کا وجوداس کی ذات پر زائد ہے۔ وجود کہ عین ذات کہنا اور وجود کے سوا دوسرا امر ثابت نہ کرنا قصور نظر سے ہے۔ شیخ علاء الدولہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ فوق عالم الوجود عالم الملك الودود(عالم وجود کے اوپر مالک ودو(حق تعالیٰ) کا عالم ہے)۔

اور اس درویش کا جب مر تبہ وجود سے اوپر گزرا تو کچھ مدت تک کے مغلوب الحال تھا اپنے آپ کوذوق و وجدان کی وجہ سے ارباب تعطیل سے پاتا تھا اور حق تعالیٰ  کے وجود کاحکم نہیں کرتا تھا کیونکہ و جود راہ میں چھوڑ گیا تھا۔ مرتبہ ذات میں وجود کی گنجائش نہ پاتا تھا۔ فقیر کا اسلام اس وقت تقلیدی تھا نہ حقیقی ۔ غرض جو کچھ حوصلہ ممکن میں آئے بطریق اولی ممکن ہوگا۔

سبحان لَم يَجْعَل لِلْخلقِ سَبِيلا إِلَى مَعْرفَته إِلَّا بِالْعَجزِ عَن مَعْرفَته پس پاک ہے وہ ذات جس نے خلق کے لئے اپنی طرف کوئی راستہ سوائے اس کے نہیں بنایا کہ اس کی معرفت سےعجز کا اقرار کیا جائے۔ 

فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے حاصل ہونے سے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ ممکن واجب ہو جاتا ہے کیونکہ یہ محال ہے اور اس سے حقائق کا تغیر و تبدل لازم آتا ہے۔ پس جب ممکن واجب نہ ہوا توممکن کا نصیب سوائے  عجز کے کچھ نہ ہوگا۔ 

عنقا شکار کس نشود دام بازچیں کاینجا ہمیشہ باد بدست است دام را 

ترجمه بیت اٹھائے جال عنقا کب کسی کے ہاتھ آتا ہے لگاتا ہے یہاں جو جال خالی ہاتھ جاتا ہے ۔

بلندہمتی اسی طرح کا مطلب چاہتی ہے کہ کچھ بھی اس سے ہاتھ نہ آئے اور اس سے کچھ نام و نشان پیدا نہ ہو ۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو یہ مطلب چاہتے ہیں کہ اس کو اپنا عین  پائیں اور اس کے ساتھ قرب ومعیت پیدا کریں۔ 

آن ایشا نندمن چنینم یارب ترجمہ: وہ ایسے ہیں میں ایسا ہوں خدایا

  والسلام اولا و اخرا. 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ313ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں