عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ – قَالَ مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلاَء َ لَمْ یَنْظُرِ اللَّہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ أَبُو بَکْرٍ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ أَحَدَ شِقَّیْ إِزَارِی یَسْتَرْخِی ، إِلاَّ أَنْ أَتَعَاہَدَ ذٰلِکَ مِنْہُ فَقَالَ النَّبِیُّ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ لَسْتَ مِمَّنْ یَصْنَعُہُ خُیَلاَء َ .
( صحیح البخاری : کتاب اللباس باب مَنْ جَرَّ إِزَارَہُ مِنْ غَیْرِ خُیَلاَء َ)
حضرت سالم بن عبد اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنھمااپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ حضور انے فرمایا : جس شخص نے تکبرسے کپڑا لٹکایا اور نیچے گھسیٹا تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہ فرمائے گا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کی۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرا تہبند ایک طرف نیچے لٹک جاتاہے مگریہ کہ میں اس کی پوری حفاظت کرتاہوں (یعنی حفاظت میں ذرا سی کوتاہی یا لاپروائی ہوجائے تو تہبند ایک طرف لٹک جاتاہے) آپ صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو طرز تکبر سے ایسا کرتے ہیں (یعنی علت تکبر نہ ہونے کی وجہ سے تمہارے ازار کے لٹک جانے سے کوئی حرج نہیں) ۔
اس حدیث مبارکہ میں افضل الاولیا ء الاولین و الاخرین امیر المومنین امام المتقین سیّدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہکے تہبند کے لٹک جانے کا ذکر ہے لیکن آج ہروہ شخص جو تکبر کا مرتکب ہو رہا ہے جب اسے کہا جائے کہ ٹخنوں سے نیچے شلوار کا لٹکنا حرام ہے تو اس حدیث کا حوالہ دیکر اپنے آپ کوصدیق اکبرص سے بھی افضل ظاہر کرتا نظر آتا ہے ۔ سب سے پہلے اسبال کی تعریف اور حکم ملاحظہ فرمائیں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الامام الاحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ جلد 22میں اسبال کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’ پائچوں کا ٹخنوں سے نیچا ہونا جسے عربی میں اسبال کہتے ہیں اگر راہ عجب وتکبر ہے تو قطعا ًممنوع وحرام ہے ‘‘۔اور جلد 21میں فرماتے ہیں۔
’’ اسبال ازار ہے یعنی تہبند یا پائچے ٹخنوں سے نیچے خصوصا زمین تک رکھنا کہ اس کے بارے میں کیا کیا سخت وعیدیں واردہیں‘‘۔
اس چیز کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ تکبر اور فخرکی نیت سے کوئی لباس بھی پہنا جائیگا تو اس کا پہننا بھی حرام اور ممنوع ہے جو ہم صرف اسبال کیلئے استعمال کرتے ہیں اور یہ قرآنی حکم ہے إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ(لقمان:18)
(1)اگر ہم سیدنا ابوبکر صدیقص کی سیرت کو دیکھیں تو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ رسول اﷲ ﷺ کے کسی حکم میں حیلہ سازی کرتے ہوں جو آج ہم کر رہے ہیں آپؓ تو ادنیٰ مستحب کو ترک کرنابھی گوارا نہ کرتے ایسی بات کاآپ ؓکی طرف نسبت کرنابھی بے ادبی شمار ہوتاہے۔
(2)حضرت ابوبکر صدیقص کا کپڑا کبھی بھی تکبر یا غیر تکبر سے ٹخنوں سے نیچے نہ ہو تا بلکہ سختی سے اوپر ہوتا (کوئی آدمی ثابت نہیں کرسکتا کہ کبھی رخصت پر آپ ؓنے عمل کیا ہو )لیکن آپؓ نحیف و کمزور تھے جسکی وجہ سے کبھی ایسا ہوجاتا اور یہ بطور عذر ہے مثلاً طبقات ابن سعد میں قیس بن أبی حازم سے روایت ہے:
ہو رجل نحیف خفیف اللحم حضرت ابوبکر صدیقص بڑے کمزور انسان تھے جنکے جسم پر ہلکا سا گوشت تھا۔
اور یہ بھی طبقات ابن سعد میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا سے مروی ہے’’ کان أبو بکر رجلا نحیفا یسترخی إزارہحضرت ابوبکر صدیقص کمزورآدمی تھے جنکا تہبند لٹک جاتا تھا ‘‘ یہ سب کچھ باوجود کوشش کرنے کبھی کبھارہوجاتا تھااس عمل کو جان بوجھ کر ترک کرنے والے نہ تھے یہ قیاس باطل ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جان بوجھ کر تہبند کو نیچے لٹکاتے تھے اس کو دلیل وہ لوگ بناتے ہیں جو برائے تکبر ہمیشگی ایسا کرتے ہیں ۔اور کبھی خیال آنے پر بھی حضرت ابوبکرؓ کی طرح کپڑا اوپر نہیں کرتے۔یہود کی طرح (سمعنا وعصینا(ہم نے سنا اور نافرمانی کی )کے مرتکب ہوتے ہیں۔
(3)اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا تہبند ٹخنوں سے نیچے ہوتا تھا تو صدیق اکبرؓکیلئے تو نص قطعی سے استثناء ثابت ہے جوصرف اور صرف آپ ؓکی خصوصیت میں سے ہے ۔کیونکہ آپؓ کیلئے تو رسول اﷲا کی شہادت موجود ہے جنکا مقام افضل البشر بعد الانبیاء ہے ان کا تزکیہ نگاہ رسول ا سے ہو ا اور یہ عمل کرنے والوں کی شہادت توشیطان بھی نہیں دیتا ۔
(4)کسی ایک حدیث میں یہ بھی تو نہیں لکھا کہ ’’ بغیر تکبر کے کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھناجائز ہے‘‘جبکہ اسبال کی ممانعت میں تقریبا 15 احادیث ہیں جو اسبال کو حرام قرار دیتی ہیں۔بلکہ رسول اﷲا نے ایک شخص کوتین بار وضو کرکے دوبارہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا جب پوچھا تو فرمایا انہ کان یصلی وھو مسبل ازارہ یہ شخص اپنے تہہ بند کو لٹکا کر نماز پڑھتا ہے(ابوداؤد)
(5)ٹخنوں سے نیچے لٹکانے میں عورتوں سے مشابہت آتی ہے جیسا کہ النسائی وأبی داؤد وغیرہما میں ہے یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد ام المؤمنین حضرت أم سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھانے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺفماذا تفعل النساء بذیولہن ؟ عورتیں اپنی چادروں کے ساتھ کیا کریں قال “یرخین شبرا” – ایک بالشت نیچا کریں توحضرت أم سلمہ ؓنے عرض کیا اذا تنکشف أقدامہن – اس سے تو ان کے پاؤں نظر آئیں گے تو فرمایا برغم انہ شبراایک ہاتھ نیچا کریں اس سے زیادہ نہ کریں ۔
عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت کی گئی ہے اور اس سے آدمی سنت لباس اور اجرو ثواب سے محروم بھی ہوجاتا ہے کہ خلاف سنت لباس بدن تو ڈھانکتا ہے مگر اجرو ثواب نہیں ملتا ۔
صحاح ، السنن ، المسانید جماعت صحابہث کی روایت سے اسبال کی ممانعت کی حدیث متواترمعنوی(جس کے روایت کرنے والے اتنے زیادہ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا محال ہواور معنی کے لحاظ سے بھی متواتر ہو ) کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے جسے 21 صحابہث نے روایت کیا اور سب نے اسے صریح نہی میں شمار کیا تبھی تو اس پر وعید اور حرام ہونے کا سخت حکم لگایا گیا ۔امام ابن العربی ؒامام الذہبیؒ ، إمام ابن حجر العسقلانیؒ وغیرھم تو مطلق اسبال کوگناہ کبیرہ اور حرام قرار دیتے ہیں ۔امام ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں اسبال کامعنی ہی کپڑوں کا لٹکانا ہے اور کپڑوں کا لٹکانا تکبر میں شامل ہے چاہے اس کا قصد نہ بھی ہو کیونکہ مومن کا لباس نصف پنڈلی سے ٹخنوں کے اوپر تک ہے ۔
بخاری ونسائی میں ہے کہ :مااسفل الکعبین من الازار ففی النار ۔ازار کا جو حصہ لٹک کر ٹخنوں سے نیچے ہوگیا وہ آگ میں ہوگا۔
مسلم اورنسائی میں ہے من جر إزارہ من الخیلاء لم ینظر اﷲ الیہجس شخص نے ازراہ تکبر کپڑا لٹکایا اور نیچے گھسیٹا تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہ فرمائے گا۔
پہلی حدیث میں بغیر تکبر کا ذکراور جہنم کی وعید ہے جو اپنے اندر حرام کا حکم رکھتی ہے ۔ دوسری حدیث میں تکبر کاذکراور اﷲ تعالیٰ کا نظر رحمت کا نہ ہوناہے یہ بھی حرمت کا فائدہ دیتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا دونوں کا حکم ایک ہے یا مختلف ؟ جواب یہ ہے کہ حکم تو مختلف ہے یعنی بغیر تکبر کے سزا ہلکی اور ایک ہے جہنم کی وعید اورتکبر کی وجہ سے سخت اور چار سزائیں ہیں أن لا ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ ولا یکلمہ ولا یزکیہ ولہ عذابٌ ألیم(1) اﷲ تعالیٰ کاقیامت کے دن نہ دیکھنا(2) کلام نہ کرنا (3)تزکیہ نہ کرنا (4)دردناک عذاب لیکن دونوں کا سبب ایک ہے اور وہ کپڑے کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ہے ان دونوں احادیث کا ترجمہ اس طرح ہو گا کہ ٹخنوں سے نیچے اسبال کرنا تکبر ہے اور اور تکبر کی سزا جہنم کی آگ اور اﷲ تعالیٰ کی نظررحمت کا نہ ہونا ہے۔ جبکہ ہم اس مفہوم کو بدل کر ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ اگر بغیر تکبر کے کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکے تو اس حدیث میں وعید نہیں ہے ۔
اس ترجمہ کی تائید المسند میں جابر بن سلیمص کی حدیث ہے: و ایاک و الاسبال فانہ من المخیلۃ اور اسبال سے بچو بے شک یہ تکبر کی علامت ہے ۔
اس حدیث میں مطلقا اسبال کو تکبر کہا گیا وہ تکبر کے ارادے سے ہو یا بغیر ارادہ کے۔
جب ایک حدیث میں تکبر کا ذکر ہو اور دوسری میں ذکر نہ ہو تو اصول اور دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ دوسری حدیث پر بھی تکبر کا حکم لاگو ہو جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں تکبر کا ذکر نہیں لیکن حکم تکبر والی احادیث کا ہے اور یہ حدیث سوائے بخاری کے تمام صحاح ،سنن دارمی اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں بیان کی ہے ۔
ثلثۃ لایکلمھم اﷲ یوم القیمۃ ولاینظر الیھم ولا یزکیہم ولھم عذاب الیم المسبل والمنان والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب ۔تین شخص (یعنی تین قسم کے لوگ) ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن نہ توان سے کلام کریگا ،نہ نظر رحمت فرمائے گا اورنہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا: (1) ازارٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا (2) احسان جتلانے والا (3) جھوٹی قسم کھاکر اپنے اسباب کو رائج کرنیوالا (یعنی فروغ دینے والا ہے)
جب نبی کریم ﷺنے اسبال کی ممانعت فرمائی تو یہ ممانعت اسے گناہ کبیرہ بناتی ہے کیونکہ اس پرجہنم کی آگ کی وعید دی گئی اگر یہ کام مکروہ ہوتا تو اہل علم جانتے ہیں کسی بھی مکروہ کے ترک پر جہنم کی وعید نہیں سنائی جاتی یہ وعید ترک واجب پر ہوتی ہے اور اس کے ترک پر مکروہ تنزیہی کا حکم بھی نہیں لگتا ۔
حضرت عمر بن الخطاب ص کے پاس ایک شخص کپڑا لٹکائے آیا تو آپ ؓنے فرمایا : ارفع ازارک فانہ أنقی لثوبک و أتقی لربک)اپنے کپڑے کو اوپر رکھو اس سے تمہارا لباس پاک رہتا ہے اور تو اپنے رب کے ہاں متقی بنے گا( مصنف ابن ابی شیبہ)
کنز العمال میں حدیث نمبر41894 حضرت خرشہ بن الحرؓسے مروی ہے
حضرت عمر بن الخطاب ص کے سامنے سے ایک آدمی اسبال کئے گذرا جسکا کپڑازمین پر لٹک رہا تھااسے بلایا ( فقال لہ: أحائض أنت؟)اور پوچھا کیا تو حیض سے ہے؟ ( قال: یا أمیر المؤمنین! وہل یحیض الرجل؟)اس نے کہا یا امیر المؤمنین کیا مردوں کو بھی حیض آتاہے ؟تو آپ ؓنے فرمایاتجھے کیا ہے کہ تیرا ازار قدموں کو لگ رہا ہے پھر اس کے ٹخنوں سے نیچے کا حصہ کٹوا دیا ۔
اور شیخ بکرکہتے ہیں کہ أمیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے : فضول الثیاب فی النار)فالتو کپڑ ا آگ میں ہو گا ۔ ذکرہ ابن عبد البر فی الاستذکار
ابن ماجہ اور مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ رسول اﷲا نے سفیان بن ابی سہلص سے فرمایا : لا تسبل ازارک فان اﷲ لا یحب المسبلین اپنے کپڑے کو نیچے نہ لٹکا اﷲ تعالیٰ کپڑا لٹکانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسبال قمیص شلوار اور عمامہ وغیرہ میں ہوتا ہے
عمامہ کے شملہ کی کم سے کم مقدار 4انگلیاں اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ ہے بہتر یہ ہے کہ نصف پشت سے زیادہ نہ ہو جبکہ اس میں بیٹھنے کی صورت میں زمین تک بھی گنجائیش ۔
اشعۃاللمعات شرح مشکوٰۃ میں ہے :اقل مقدارِ عذ بہ چہار انگشت ست وتطویل آں متجاوز از نصف ظہر بدعت ست وداخل اسبال واسراف ممنوع واگر بطریق تکبر وخیلاء باشد حرام و الا مکروہ مخالف سنت۔(اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب اللباس)
پگڑی کے شملہ کی کم سے کم مقدار چارانگلیوں کے برابر ہے اور شملے کو اتنا لمبارکھنا کہ آدھی پشت سے بھی آگے چلا جائے بدعت ہے کپڑا لٹکانے میں اسراف ہے جو ممنوع ہے۔ اور اگر تکبر اور تفاخر کے طو رپر ہو تو حرام ہے۔ ورنہ مکروہ اور خلاف سنت ہے۔
دستوار اللباس میں ہے :از فتاوٰی حجۃ وجامع آوردہ کہ الذنب ستۃ انواع للقاضی خمس وثلثون اصابع واللخطیب احدی وعشرون اصابع وللعالم سبع وعشرون اصابع وللمتعلم سبعۃ عشر اصبعا وللصوفی سبع اصابع وللعامی ار بع اصابع ۔
فتاوٰی حجۃ اور جامع میں نقل کیا گیاہے کہ شملہ کی چھ اقسام ہیں: (1) قاضی کے لئے 35انگشت کے بمقدار (2) خطیب کے لئے بمقدار21 انگشت (3)عالم کے لئے بمقدار 27انگشت (4) متعلم کے لئے بمقدار17 انگشت (5) صوفی کیلئے بمقدار 7انگشت (6) عام آدمی کے لئے بمقدار 4 انگشت ۔ ) دستور اللباس(
وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی سیّدنا ومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ واصھارہٖ وانصارہٖ واتباعہ اجمعین الٰی یوم الدین اٰمین والحمدللّٰہ رب العٰلمین ۔