عمل پر اعتماد کرنے کی علامت (باب اول)

عمل پر اعتماد کرنے کی علامت حکمت نمبر01

عمل پر اعتماد کرنے کی علامت کے عنوان سے  باب اول میں  حکمت نمبر01 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

پہلا باب

عمل کرتے ہوئے عمل پر بھروسہ نہ کرنے کے بیان میں
1) مِنْ عَلامَةِ الاعْتِمَادِ عَلَى العَمَلِ، نُقْصَانُ الرَّجَاءِ عِنْدَ وُجُودِ الزَّلَلِ.
عمل پر اعتماد کرنے کی علامت ، گناہ سرزد ہونے سے رجاء (امید) میں کمی ہوتی ہے

عمل پراعتماد توجہ ہے

عمل : جسم یا قلب کی حرکت کا نام ہے۔ تو اگر شریعت کے موافق حرکت کی۔ تو اس کا نام عبادت رکھا گیا۔ اور اگر شریعت کے خلاف حرکت کی تو اس کا نام معصیت (گناہ) رکھا گیا۔ کسی شے پر اعتماد اس پر بھروسہ کرنا اور اس کی طرف توجہ کرنی ہے۔
کا ملین علم تصوف کے نزدیک اعمال کی تین قسمیں ہیں۔
پہلی قسم شریعت کاعمل۔ دوسری قسم طریقت کا عمل تیسری قسم حقیقت کا عمل یا اس طرح کہا جائے۔
(1) اسلام کاعمل 2- ایمان کا عمل 3۔ احسان کا عمل
یا اس طرح کہا جائے۔ 1عبادت کاعمل 2 عبودیت کاعمل 3 عبودت یعنی حریت (آزادی) کاعمل یا اس طرح کیا جائے۔ 1۔ابتدائی عمل 2۔ درمیانی عمل 3۔ انتہائی عمل
پس شریعت یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔ اور طریقت یہ ہے کہ تو اس کے دیدار کا ارادہ کرے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تو اس کا مشاہدہ کرے۔
یا اس طرح کہو۔ شریعت ظاہر کی اصلاح کے لئے ہے۔ اور طریقت باطن کی اصلاح کے لئے ہے اور حقیقت سر کی اصلاح کے لئے ہے۔
جسم کے ظاہری اعضاء کی اصلاح تین چیزوں سے ہوتی ہے۔ اول تو بہ، دوم تقوی ، سوم استقامت ، اور قلب کی اصلاح تین امور سے ہوتی ہے اول اخلاص ، دوم صدق ، سوم اطمینان ۔ سر کی اصلاح تین طریقوں سے ہوتی ہے اول مراقبہ، دوم مشاہدہ سے ، سوم معرفت
یا اس طرح کہو ۔ ظاہر کی اصلاح: جو کچھ شریعت نے منع کیا ہے ان سے پر ہیز کرنے اور شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے ہوتی ہے مراقبہ سے بری خصلتوں کو دور کر کے نیک اخلاق و صفات سے قلب کو آراستہ کرنے سے ہوتی ہے اور سر (روح) کی اصلاح: اس کی عاجزی و انکساری سے ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ وہ درست ہو جائے اور ادب و تواضع و حسن خلق پر عمل کرنے کی مشقت کا عادت ہو جائے۔ جاننا چاہیئے کہ یہاں ان اعمال کا بیان ہے جو جسم اور قلب اور روح کی صفائی کے لئے ضروری ہیں اور ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کا تعین پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور علوم و معارف تو یہ صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کا نتیجہ اور پھل ہیں ۔ جب اسرار پاک وصاف ہو جاتے ہیں تو وہ علوم و معارف سے بھر جاتے ہیں۔ اور ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہونا درست نہیں ہے۔ جب تک پہلے مقام پر مضبوطی سے قائم نہ ہو جائے ۔ کیونکہ جس شخص کی ابتدا ء روشن ہو گئی اس کی انتہا بھی روشن ہوگی ۔ لہذا طریقت کے عمل کی طرف اس وقت تک نہ منتقل ہونا چاہیئے جب تک شریعت کے عمل پر مضبوطی سے قائم نہ ہو جائے ۔ اور اعضائے جسم اس کی پابندیوں کی مشقت کے عادی نہ ہو جائیں۔ اس طریقے پر کہ تو نہ اس کی شرطوں کے ساتھ ، اور تقویٰ اس کے ارکان کے ساتھ ، اور استقامت اس کی قسموں کے ساتھ مضبوط اور ثابت ہو جائے ۔ اور حقیقتا یہی حضرت نبی کریم ﷺ کی ان کے اقوال و افعال و احوال میں اتباع ہے۔ لہذا جب ظاہر پاکیزہ اور شریعت کے عمل کے نور سے منور ہو جائے ۔ تب ظاہری شریعت کے عمل سے باطنی طریقت کے عمل کی طرف منتقل ہو نا چا ہیے اور باطنی طریقت کا عمل بشری صفات سے اپنے وجود کو پاک کرنا ہے۔
پس جب بشری صفات سے پاک وصاف ہو جائے گا تو روحانیت کے اوصاف سے آراستہ ہوگا اور روحانیت کے اوصاف اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی تجلیات میں جو اس کے مظاہر ہیں حسن ادب ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر اس کے جسم کے اعضاء مشقت اور تھکن سے نجات پا کر آرام کرتے ہیں اور صرف حسن ادب باقی رہ جاتا ہے۔
محققین نے فرمایا ہے:۔ جو شخص اسلام کی حقیقت تک پہنچ گیا۔ اس کو عمل میں کو تاہی کرنے کی قدرت باقی نہیں رہی اور جو شخص ایمان کی حقیقت تک پہنچ گیا۔ اس کو یہ قدرت نہیں رہی کہ وہ غیر اللہ کے ساتھ عمل کی طرف توجہ کرے۔ اور جو شخص احسان کی حقیقت تک پہنچا اس کو یہ قدرت نہیں رہی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شے کی طرف توجہ کرے۔ اور مرید کو ان مقامات کے سلوک میں اپنے نفس اور اپنے عمل اور اپنی طاقت اور اختیار پر بھروسہ نہ کرنا چاہیئے ۔ بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق و ہدایت پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ، مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور اختیار کرتا ہے۔ ان لوگوں کو کچھ اختیار نہیں
اوردوسری جگہ فرمایا :-
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ لوگ اس کو نہ کرتے۔
اور تیسری جگہ فرمایا ۔
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسُ أُمَّةٌ وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ اور اگر آپ کا رب چاہتا۔ تو آدمیوں کو ایک امت بنا دیتا اور لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہتے ہیں مگروہ شخص جس پر آپ کے رب نے رحم فرمایا ۔
اور حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔
لَنْ يُدْخِلَ أَحَدًا مِنْكُمْ ‌عَمَلُهُ ‌الْجَنَّةَ قَالُوا: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: وَلَا أَنَا، إِلَّا ‌أَنْ ‌يَتَغَمَّدَنِي اللهُ مِنْهُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ تم میں سے کوئی شخص اپنے عمل کی بدولت ہر گز جنت میں نہ داخل ہوگا۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ اور آپ بھی نہ داخل ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:۔ ہاں، میں بھی نہ داخل ہوں گا۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے

نفس پر بھروسہ بد بختی

لہذانفس پر بھروسہ کرنا بد بختی کی علامت ہے۔ اور اعمال پر بھروسہ کر نا زوال میں نہ پڑنے کی وجہ سے ہے۔ اور کرامت واحوال پر بھروسہ کرنا اہل اللہ کی صحبت میں نہ رہنے کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کی علامت یہ ہے کہ جب وہ گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی امید کم نہیں ہوتی ہے اور جب وہ نیک عمل کرتا ہے تو اس کی امید زیادہ نہیں ہوتی ہے۔
یا اس طرح کہہ سکتے ہو ۔ جب اس سے غفلت صادر ہوتی ہے تو اس کا خوف زیاد ہ نہیں ہوتا ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اسکی امید زیادہ نہیں ہوتی اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ور جاء ہمیشہ یکساں قائم رہتا ہے اسلئے کہ اس کا خوف اس کے جلال کے حضور سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کی رجا ءاس کے جمال کے حضور سے پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور جمال میں زیادتی و کمی کی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ لہذا جو کچھ ان دونوں صنعتوں سے پیدا ہو گا اس میں بھی زیادتی اور کمی نہیں ہو سکتی ہے۔
اس کے برعکس جو شخص اپنے اعمال پر بھروسہ کرتا ہے۔ جب اس کا عمل کم ہوتا ہے تو اس کی امید کم ہوتی ہے۔ اور جب اس کا عمل زیادہ ہوتا ہے تو اس کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنالیا ہے اور جہالت میں مبتلا ہے۔ (شرک خفی کی ایک شکل یہ بھی ہے)
اور اگر اپنے نفس سے فنا ہو جائے ، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بقاء حاصل ہو جائے تو نفس کی مشقت اور رحمت سے آرام پا جائے گا۔ (اعمال پر بھر وسہ نفس کے دخل سے ہوتا ہے۔ لہذا امشقت کا باعث نفس ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہنچ جائے گا۔
اور ایسے شیخ کامل کا ہونا ضروری ہے جو تجھ کو تیرے نفس کی مشقت و زحمت سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حضوری کی راحت میں پہنچادے۔ لہذا شیخ کامل وہی ہے جو تجھ کو زحمت و دشواری سے رہائی دے کر آرام پہنچائے ۔ وہ شیخ کامل نہیں ہے جو تجھ کو مشقت اور تھکن میں مبتلا کرے ۔ جس شخص نے عمل کی طرف تیری رہنمائی کی اس نے تجھ کو مشقت اور تھکن میں مبتلا کیا۔ اور جس نے دنیا کی طرف تیری رہنمائی کی اس نے تیرے ساتھ خیانت کی اور جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف تیری رہنمائی کی اس نے تیری خیر خواہی کی ۔ جیسا کہ حضرت شیخ ابن مشیش نے فرمایا۔
اور اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی نفس کے بھول جانے کی طرف رہنمائی ہے۔ لہذا جب تو اپنے نفس کو بھول گیا۔ تو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ تو نے اپنے رب کو یاد کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَاذْكُرُ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ جب تم ( اللہ تعالیٰ کے ماسوا کو) بھول گئے تو اپنے رب کو یاد کرو ۔
مشقت اور تھکن کا سبب نفس کو یاد رکھنا اور اس کی شانوں اورلذتوں کی طرف توجہ رکھنی ہے۔ لیکن جو شخص نفس سے غائب ہو گیا۔ اس کو حقیقتا آرام حاصل ہو گیا۔
لیکن اللہ تعالیٰ کا قول :-
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ ہم نے انسان کو مشقت میں ( رہنے والا ) پیدا کیا۔
تو یہ اہل حجاب کے لئے مخصوص ہے ۔ یا یہ کہا جائے۔ جس کا نفس زندہ ہے۔ اس کے لئے ہے۔ لیکن جس کا نفس فنا ہو گیا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحُ ورَبَّحَانُ وَ جَنَّةٌ نَعِيمٍ پس اگر وہ مقربین میں سے ہے تو اس کے لئے راحت و آرام اور خوشبو دار پھول اور نعمت والی جنت
یعنی وصال کے لئے راحت و آرام ، جمال کے لئے خوشبودار پھول اور کمال کے لئے جنت نعیم ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
لَا يَمَسُّهُمۡ فِيهَا ‌نَصَبان میں ان کو تکلیف اور تھکن نہ ہوگی۔
لیکن مشقت کے بعد ہی آرام ملتا ہے۔ اور تلاش کی پریشانیوں کے بعد ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِه جنت نفس کی نا گوار اشیاء سے گھری ہوئی ہے
یعنی جو اشیاء نفس کو نا پسند ہیں ، ان کو اختیار کرنے سے اور جو اشیاء نفس کو پسند نہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے ترک کرنے سے جنت حاصل ہوگی ۔
أَيُّهَا الْعَاشِقُ مَعنى حُسنِنَا مَهْرُنَا غَالٍ لِمَنْ يَخْطَبْنَا
اے ہمارے حقیقی حسن کے عاشق! ہمیں محبت کا پیغام دینے والے کو بہت بھاری قیمت ادا کرتی پڑتی ہے
جَسَدٌ مُضنَى وَ رُوح فِي الْعَنا وَجُفُونٌ لا تذوق الوسنا
جسم تھکا ہوا نڈھال اور روح تکلیف کہنے والی، اور پلکیں نیند کا مزہ لینے کے لئے جھپکتی بھی نہیں ۔
وَفُؤَادُ لَيْسَ فِيهِ غَيْرُنَا وَإِذَا ما شئت اد الثمنا
اور قلب ایسا جس میں ہمارے سوا کوئی بھی نہ ہو۔ اگر تم ہم سے محبت کرنا چاہتے ہو تو قیمت ادا کرو۔ یعنی گھلنے والا جسم، دکھ سہنے والی روح ، نہ سونے والی آنکھ، اور ہمارے سوا ہرشے سے خالی قلب ہماری محبت کی قیمت ہے۔
فافنَ إِنْ شِئْتَ فَنَاءً سَرْمَداً فَالْفَنَا يُدْنِي إِلَى ذَاكَ الْفِنا
پس تم اپنے کو فنا کر دو، اگر تم فنائے سرمدی چاہتے ہو کیونکہ تمہاری ذات کی فنا تم کو اس فنائے سرمدی سے قریب کر دے گی۔
وَاخْلَعِ النَّعْلَيْنِ إِنْ جِئْتَ إِلَى ذَالِكَ الْحِي فَفِيهِ قُدْسُنَا
اور اگر تم اس ہمیشہ زندہ و قائم رہنے والے مقام میں آئے ہو تو اپنے جوتوں یعنی بری صفتوں کو دور کر دو ۔ کیونکہ اس مقام میں ہماری قدوسیت ہے۔
وَعَنِ الْكُونَينِ كُنْ مُنْخَلِعًا وَازِلُ مَا بَيْنَنَا مِنْ بَيْنَنَا
اور دونوں عالم سے کنا ر ہ کش ہو جائے اور ہما ہے اور تمہارے درمیان جو پردہ حائل ہے۔ اس کو ہٹا دو۔
وَإِذَاما قِيلَ مَنْ تَهُوَىٰ فَقُلْ أَنَا مَنْ أَهْوَى وَ مَنْ أَهْوَى أَنَا
اور جب تم سے پوچھا جائے تم کس سے محبت کرتے ہو تو تم کہو۔ میں جس سے محبت کرتا ہوں وہ میں ہوں۔

طریقت کی گھاٹیاں

اور کتاب حل الرموز میں فرمایا ہے:۔ تم کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ تم قرب کی منزلوں میں نہ پہنچو گے جب تک چھ گھاٹیوں (مرحلوں) سے نہ گزرو۔
پہلی گھاٹی (پہلا مرحلہ ) :- جسمانی اعضاء کو مخالف شریعت اشیاء سے جدا کرنا۔ دوسری گھاٹی۔ نفس کو اس کی خواہشات ومرغوبات و عادات سے روکنا۔ تیسری کھاٹی۔ قلب کو بشری رعونتوں (فخر وعظمت و بڑائی ) سے پاک کرنا۔ چوتھی گھاٹی ۔ نفس کو فطری (پیدائشی ) کدورتوں اور کثافتوں سے صاف کرتا۔پانچویں گھاٹی۔ روح کو محسوسات کی تاریکیوں سے علیحدہ کرنا۔ چھٹی گھاٹی۔ عقل کووہمی خیالات سے محفوظ رکھنا۔
پہلی گھاٹی سے گزرنے کے بعد تم قلب کی حکمتوں کے چشموں پر پہنچو گے۔ اور دوسری گھاٹی سے گزرنے کے بعد تم علم لدنی کے اسرار سے واقف ہو گے۔ اور تیسری گھاٹی سے گزرنے کے بعد ملکوت کی سرگوشیوں کے علوم تم پر ظاہر ہوں گے۔ اور چوتھی گھاٹی گزرنے کے بعد مقامات قرب کے انوار تمہارے سامنے چمکیں گے۔ اور پانچویں گھاٹی کے بعد جسمی مشاہدوں کے انوار تمہارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ اور چھٹی گھاٹی گزرنے کے بعد تم بارگاہ قدس میں اترو گے۔ اور اس مقام میں تم محبت کے لطائف کے مشاہدہ کے ذریعے حسی کثافتوں سے پاک ہو جاؤ گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ تم کو مقبول بنانا چاہے گا تو تم کو اپنی محبت کے پیالے سے ایسی شربت پلائے گا۔ جس کے پینے سے تمہاری پیاس اور بڑھے گی۔ اور ذوق کے ساتھ شوق اور قرب کے ساتھ طلب، اور سکر کے ساتھ بیقراری زیادہ ہوگی۔ یہاں تک کہ تم مقصود کے آخری درجے تک پہنچ جاؤ۔
تکملہ: بعض فاضلوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے اس قول سے
ادْخُلُو الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ تم لوگ جنت میں داخل ہو جاؤا اپنے اعمال کے صلے میں جو تم دنیا میں کرتے تھے ۔
حضرت رسول کریم ﷺ کے اس قول کے ساتھ ۔ لَنْ يَدْخُلَ أَحَدُكُمُ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ
اشکال ( دشواری ) پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ دونوں متضاد ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کتاب وسنت ، شریعت اور حقیقت کے درمیان وارد ہوئی ہیں ۔ یا اس طرح کہو:۔ تشریح اور تحقیق کے درمیان وارد ہوئی ہیں۔ لہذا کبھی ایک جگہ کسی شے کے بارے میں شرعی قانون بیان کرتی ہیں اور دوسری جگہ اسی شے کے بارے میں حقیقت کے بارے میں بیان کرتی ہیں اورکبھی ایک جگہ حقیقت بیان کرتی ہیں اور دوسری جگہ اس شے کے بارے میں شرعی قانون بیان کرتی ہیں ۔ اور کبھی قرآن کسی جگہ شرعی قانون بیان کرتا ہے اور سنت اس کی حقیقت بیان کرتی ہے۔
اور کبھی کسی جگہ سنت شرعی قانون بیان کرتی ہے۔ اور قرآن اس کی حقیقت بیان کرتا ہے۔ اور حضرت رسول کریم ﷺ قر آن کریم کی تشریح کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَأَنزَلْنَا إِليكَ الذِّكْرَ لَتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمُ اور ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل فرمایا۔ تا کہ جو کچھ ان کے لئے نازل کیا گیا ہے آپ اس کی تفسیر لوگوں سے بیان کریں۔
لہذا اللہ تعالیٰ کا یہ قول : ( ادْخُلُو الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ) یہ حکمت والوں کے لئے شریعت کا قانون ہے۔ اور یہ لوگ اہل شریعت ہیں۔ اور لَنْ يَدْخُلَ أَحَدُكُمُ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ یہ قدرت والوں کیلئے تحقیق ہے اور یہ لوگ اہل حقیقت ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا إِنْ يَّشَاءَ اللَّهُ اور تم لوگ وہی چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے یہ حقیقت ہے
رسول کریم ﷺ کا یہ قول:- إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِحَسَنَةٍ كُتِبتْ لَهُ حَسَنَة
جب تم میں سے کسی نے کسی نیکی کا ارادہ کیا۔ تو اس کیلئے ایک نیکی لکھ دی گئی
یہ شریعت کا قانون ہے۔ غرضیکہ قرآن کی تشریح اور تعین سنت کرتی ہے۔ اور سنت کی تشریح اور تعین قرآن کرتا ہے۔ پس انسان پر واجب ہے کہ اس کے پاس دو آنکھیں ہیں۔ ایک آنکھ سے حقیقت کی طرف دیکھے اور دوسری آنکھ سے شریعت کی طرف نظر کرے۔ لہذا اگر کسی جگہ قرآن کو شریعت بیان کرتا ہوا پایا ہے۔ تو لازمی ہے کہ اس نے دوسری جگہ حقیقت بیان کی ہوگی ۔ یا سنت نے حقیقت بیان کی ہوگی اور اگر سنت کو کسی جگہ شریعت بیان کرتے ہوئے پایا۔ تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ اس نے حقیقت بیان کی ہوگی۔ یا قرآن نے حقیقت بیان کی ہوگی ۔ لہذا آیت اور حدیث میں کوئی تعارض اور اشکال باقی نہیں رہا۔
اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے:۔ جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو تو حید اور اطاعت کی طرف دعوت دی۔ تو اس بناء پر کہ لوگ بغیر حرص کے اس میں داخل نہ ہوں گے۔ اس نے عمل پر بدلہ دینے کا وعدہ فرمایا۔ پھر جب ان کے قدم اسلام میں مضبوط ہو گئے تو حضرت رسول کریم ﷺ نے ان کو اس عیب سے نکالا اور عبودیت و بندگی کے اخلاص کی طرف ، اور اخلاص کے مقام میں ثابت قدمی سے قائم ہونے کی طرف ترقی دی۔ اور فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے عمل کی بدولت جنت میں ہرگز نہ داخل ہوگا ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور یہاں اہل ظاہر کے لئے دوسرے جوابات بھی ہیں۔ لیکن ان کے بیان کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا ۔ اور جب ظاہری عمل سے باطنی عمل کی طرف منتقل ہوا ، تو یہ ضروری ہے کہ اس کا اثر اعضائے جسم پر ظاہر ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرُبَةٌ أَفَسَدُوهَا
بیشک بادشاہ جب کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کرتے ہیں اس تباہی کی وجہ سے وہ خالی ہو کر ویران ہو جاتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں