ماسوی اللہ سے بے تعلقی (باب اول)

ماسوی اللہ سے بے تعلقی حکمت نمبر02

ماسوی اللہ سے بے تعلقی کے عنوان سے  باب اول میں  حکمت نمبر02 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
باطنی عمل کی طرف منتقل ہونے کا اثر اعضائے جسم پر ظاہر ہوا، تجرید (خالی کرنا) ہے۔ چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں تجرید کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
2) إرادَتُكَ التَّجْريدَ مَعَ إقامَةِ اللهِ إيّاكَ في الأسْبابِ مِنَ الشَّهْوَةِ الخَفيَّةِ، وإرادَتُكَ الأَسْبابَ مَعَ إقامَةِ اللهِ إيّاكَ فِي التَّجْريدِ انْحِطاطٌ عَنِ الهِمَّةِ العَلِيَّةِ.
تمہارا تجرید اختیار کرنے کا ارادہ کرنا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اسباب میں قائم کیا ہو، تمہارے نفس کی پوشیدہ خواہش میں سے ہے۔ اور تمہارا اسباب و ذرائع اختیار کرنے کا ارادہ کرنا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو تجرید میں قائم کیا ہو، بلند ہمت سے پستی کی طرف گرنا ہے۔

بے تعلقی کی اقسام

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ تجرید کے معنی خالی کرنا، دور کرنا ہیں۔ یعنی اسباب و ذرائع کو دور کر کے خالی ہو جانا تجرید ہے۔ اور صوفیائے کرام کے نزدیک تجرید کی تین قسمیں ہیں:۔
پہلی قسم ظاہر کی تجرید دوسری قسم ۔ باطن کی تجرید تیسری قسم۔ ظاہر و باطن دونوں کی تجرید
ظاہر کی تجرید دنیاوی اسباب و ذرائع کو ترک کرنا ، اور جسمانی فوائد و عادات کو چھوڑنا ہے۔
باطن کی تجرید – نفسانی تعلقات اور وہمی مانعات ( رو کنے والی اشیاء ) کو ترک کرنا ہے۔
ظاہر و باطن دونوں کی تجرید : باطنی تعلقات اور جسمانی فوائد و عادات کو ترک کرنا ہے۔ یا اس طرح کہو –
ظاہر کی تجرید : ہر اس شے کو ترک کر دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کر دے
باطن کی تجرید ۔ ہر اس شے کو ترک کر دینا ہے جو قلب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور سے غافل کردے۔ اور ظاہر و باطن کی تجرید :۔ قلب اور جسم کو سب سے منقطع کر کے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرنا
اور ظاہر کی تجرید کامل – اسباب و ذرائع کو ترک کرنا ، اور بدن کو ان کپڑوں سے جن کا دہ عادی ہےننگا کرنا ہے۔
اور باطن کی تجرید کامل ۔ قلب کو تمام بری صفتوں سے پاک کرنا ، اور اچھی صفتوں سے آراستہ کرناہے۔
اسی تجرید کامل کی طرف ہمارے شیخ الشیوخ سیدی عبد الرحمن مجذوب نے اپنے قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
آقَارِئِينَ عِلْمَ التَّوْحِيدِ هنَا الْبُحُورُ إِلَى تنبی
اے علم توحید کے پڑھنے والو! میرے راستے میں بہت سے سمندر ہیں جو میری طرف موجیں ماررہے ہیں۔
هَذَا مُقَامُ أَهْلِ التَّجْرِيدِ الْوَاقِفِينَ مَعَ رَبِّي
یہ اہل تجرید کا مقام ہے جو اپنے رب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں ۔
جس شخص نے باطن کو چھوڑ کر صرف ظاہر کی تجرید کی وہ بہت بڑا جھوٹا ہے۔ وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے تانبے پر چاندی کا خول چڑھایا ۔ جو اندر سے خراب ہے اور اوپر سے خوب صورت ہے۔
اور جس شخص نے ظاہر کو چھوڑ کر صرف باطن کی تجرید کی ۔ تو اگر وہ اس پر قائم رہ سکے تو بہتر ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے چاندی پر تانبے کا خول چڑھایا۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے اس لئے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس شخص کا ظاہر دنیاوی تعلقات و اسباب و ذرائع میں مشغول ہوتا ہے اس کا باطن بھی اس میں مشغول ہو جاتا ہے۔ جس میں اس کا ظاہر مشغول ہوتا ہے۔ کیونکہ طاقت دونوں طرف تقسیم نہیں ہوتی ہے۔ (یعنی ظاہر کی مشغولیت ایک طرف اور باطن کی دوسری طرف ۔ اس طرح طاقت دو طرف تقسیم ہوگی )
اور جس شخص نے ظاہر و باطن دونوں کی تجرید کی۔ وہ صدیق کامل ہے۔ وہ چمکتا ہوا خالص سونا ہے جو بادشاہوں کے خزانے میں رکھنے کے لائق ہے۔ حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی نے فرمایا ہے۔ تجرید اختیار کرنے والے فقیر کے چار آداب ہیں:۔ اول:۔ بڑوں کی عزت و تعظیم کرنی۔
دوم:۔چھوٹوں سے رحم و پیار کرنا
سوم۔ اپنے نفس سے انصاف کرنا (کسی معاملے میں اپنی ذات کی طرف داری نہ کرنا)
چہارم۔ اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہ لینا ۔
اور اسباب و ذرائع اختیار کرنے والے فقیر کے چار آداب ہیں:۔
اول ۔ نیک لوگوں سے دوستی و محبت رکھنی
دوم۔ برے لوگوں سے پر ہیز و کنارہ کشی کرنی
سوم جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنی
چہارم ۔ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس سے فقیروں اور مسکینوں کی ہمدردی اور امداد کرنی ۔

تجرید اختیار کرنے والوں کے آداب

اور اس کے لئے یہ بھی مناسب ہے کہ تجرید اختیار کرنے والوں کے آداب بھی اختیار کرے۔کیونکہ یہ اس کے حق میں کمال کا ذریعہ ہے۔
اور اس کے آداب میں یہ بھی ہے کہ جس سبب میں اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے اس میں قائم رہے۔ یہاں تک کہ خود حق سبحانہ تعالیٰ اس کو اس سبب سے منتقل کرے۔ اور یہ منتقل کرنا یا شیخ کے حکم سے ہو ، یا کسی واضح اشارہ سے۔ مثلا یہ کہ وہ سبب ہر طریقے سے دشوار و نا ممکن ، اور یہ ہر طرف سے معذور ہو جائے ۔ تو اب وہ تجرید اختیار کرے۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ نے اس کو اسباب میں قائم کیا تو اس کا تجرید کے لئے ارادہ کرنا نفس کی پوشیدہ خواہش ہے۔ اس لئے کہ نفس اس کے ذریعے آرام حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ اور نفس کو یقین کا وہ درجہ حاصل نہیں ہے جس سے وہ فاقہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو برداشت کر سکے۔ لہذا جب فاقہ کی نوبت آتی ہے تو قدم ڈگمگا جاتا ہے۔ اور وہ پریشان ہو کر پھر اسباب کی طرف ہوتا ہے۔ تو یہ اس کے لئے تجرید میں قیام کرنے سے زیادہ برا ہوتا ہے۔ اس کے خواہش ہونے کی وجہ یہ ہے۔ اور پوشیدہ، اس لئے ہے کہ نفس نے یہ ظاہر اسباب کو ترک کر کے ہر تعلق سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ظاہر کیا اور یہ اعلی مقام اور بہترین حال ہے۔ لیکن در حقیقت نفس نے اپنا فائدہ چھپایا۔ اور نفس کا فائدہ آرام وراحت یا کرامت، یا ولایت ، یا اس کے سواد وسرے مقاصد ہیں۔ اور اس نے عبادت کی حقیقت اور یقین کی درستی و مضبوطی کا ارادہ نہیں کیا۔ اور اس طرح اس سے حق سبحانہ تعالیٰ کا ادب بھی فوت ہو گیا۔ کہ اس نے اپنی طبیعت سے تجرید کے ترک کرنے کا ارادہ کیا ۔ اور صبر کر کے اس کی اجازت پانے کا انتظار نہیں کیا ۔ ( کیونکہ اجازت کا انتظار نہ کر کے اپنی مرضی سے کچھ کرنا بے ادبی ہے ) اور اس کے تجرید میں قائم کرنے کی علامت یہ ہے کہ وہ نتیجوں کے حاصل ہونے ، اور دین سے منقطع کرنے والی رکاوٹوں کے ختم ہونے ، اور کفایت کے حاصل ہونے کے ساتھ ہمیشہ اس کے لئے قائم رہتی ہے۔ اور کفایت کا حاصل ہونا ا س حیثیت سے ہے کہ اگر وہ تجرید کو ترک کر دے گا۔ تو حقوق کی طرف توجہ اور روزی کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔ اور انہی التزامات کے ختم ہونے پر وہ تجرید کی طرف منتقل ہوا تھا۔ (یہ ہے واضح اشارہ)
حضر ت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تنویر میں فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے یہ چاہتا ہے کہ اس نے تجھے جس مقام پر قائم کیا ہے۔ تو اسی مقام پر قائم رہو۔ یہاں تک کہ خود اللہ تعالیٰ اس مقام سے تیرے نکالنے کی ذمہ داری لے جیسا کہ اس نے اس مقام میں تیرے داخل کرنے کی ذمہ داری اور در حقیقت شان یہ نہیں ہے کہ تو سبب کو چھوڑ دے۔ بلکہ شان یہ ہے کہ سبب تجھ کو چھوڑ دے۔
ایک بزرگ نے فرمایا ہے۔ میں نے سبب کو بہت مرتبہ چھوڑا۔ اور پھر اختیار کیا۔ بالآخر سبب نے مجھ کو چھوڑ دیا۔ پھر میں نے اس کو اختیار نہیں کیا۔ نیز مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔ میں حضرت شیخ ابو العباس مرسی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے
دل میں تجرید اختیار کرنے کا پختہ ارادہ تھا۔ میں اپنے دل میں یہ سوچ رہا تھا۔ میں جس حال میں ہوں کہ علم ظاہر میں مشغول ہوں۔ اور لوگوں سے تعلق اور میل جول رکھتا ہوں۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ تک پہنچنا بعید اور ناممکن ہے۔ حضرت شیخ نے میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی فرمایا۔ ایک شخص معلوم ظاہری میں مشغول رہنے والے اور ان کی مجلسوں میں بیٹھنے والے نے میری صحبت اختیار کی۔ اور اس طریقے کا کچھ ذوق حاصل کیا۔ ایک مرتبہ وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا۔ یا حضرت میں جس حالت اور مشغولیت میں ہوں اس کو چھوڑ کر آپ کی صحبت اختیار کرنے کے لئےفا رغ ہو جاؤں ؟ میں نے ان سے کہا۔ یہ کچھ شان نہیں ہے کہ تم سب کو چھوڑ دو۔ بلکہ تم اپنی حالت پر قائم رہو اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے جو حصہ تمہارے لئے مقرر کیا ہے، وہ تم کو ضرور ملے گا۔ پھر حضرت شیخ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا۔ صدیقوں کی یہی شان ہے کہ کسی حال سے وہ خود نہیں نکلتے ہیں۔ بلکہ حق سبحانہ تعالیٰ ان کو کسی حال سے نکالنے کا ذمہ دار اور متولی ہے ۔ پھر میں ان کے پاس سے واپس آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان وسوسوں کو میرے دل سے دھو کر پاک کر دیا۔ اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے میں مجھ کو راحت و آرام ملا۔ در حقیقت یہ اہل اللہ ویسے ہی ہیں جیسا کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيْسُهُم وہ ایسے لوگ ہیں جن کی صحبت میں بیٹھنے والا بد بخت نہیں ہوتا ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔ حضرت شیخ نے اس شخص کو تجرید اختیار کرنے سے اس لئے منع فرمایا۔ کہ یہ اس کے نفس کی خواہش تھی۔ اور نفس جب کسی شے کی خواہش کرتا ہے تو وہ شے اس کے لئے ہلکی یعنی خوشگوار ہوتی ہے اور جو شے نفس کیلئے خوشگوار ہوتی ہے اس میں کچھ نیکی نہیں ہوتی اور نفس کیلئے وہی شے خوشگوار ہوتی ہے جس میں اس کے لئے کچھ لذت اور فائدہ ہو ۔
پھر مصنف نے فرمایا:۔ مرید کو چاہیئے کہ اگر اپنے نفس کو قبضے میں کرنے کا ارادہ ہے تو وہ طاقت کی حالت میں تجرید کو نہ اختیار کرے۔ یہاں تک کہ طاقت ختم ہو جائے۔ کیونکہ اگر طاقت کی حالت میں تجرید اختیار کرے گا۔ تو اس کو کمزوری لاحق ہوگی۔ پھر دشمن اس کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ اور اس کو پریشانی اور فتنے میں مبتلا کریں گے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس کی دستگیری نہیں کی۔ تو وہ پھر لوگوں سے میل جول اور تعلقات قائم کرنے میں آسانی سمجھے گا اور جس حالت سے وہ نکلا تھا پھر اسی حالت کی طرف لوٹ جائے گا۔ یہاں تک کہ اہل تجرید سے اس کو بدگمانی ہو جائے گی ۔ اور وہ کہے گا کہ اہل تجرید کسی حقیقت پر نہیں ہیں ۔ ہم نے تجرید کو اختیار کیا۔ مگر ہم کو اس میں کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوا ۔ اور جس شخص کو ابتدا میں تجرید گراں و ناگوار معلوم ہو ۔ اس کے لئے تجرید اختیار کرنا موزوں و مناسب ہے۔ اس لئے کہ نفس کو وہی حالت گراں و ناگوار معلوم ہوتی ہے جس میں وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی گردن تلوار کے نیچے ہے۔ جیسے ہی ہاتھ میں حرکت ہوگی ۔ گردن کی رگیں کٹ جائیں گی اور یہی تجرید کا انتہائی مقصد ہے کہ دنیاوی و نفسانی تعلقات سے علیحدہ ہو کر اور اسباب و ذرائع سے نظر ہٹا کر پوری توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو جا ئے ۔
اور کسی اہل تجرید نے کھلی اجازت کے بغیر اگر اسباب کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا تو یہ اس کیلئے بلند ہمت سے پست ہمتی کی طرف زوال ہے۔ یا ولایت کبری سے منقطع ہو کر ولایت صغری کی طرف آنا ہے۔
ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی نے فرمایا ہے:۔ مجھ سے میرے شیخ سیدی عربی نے فرمایا:۔ اے فرزند! اگر میں تجرید سے بہتر زیادہ قریب اور زیادہ مفید کوئی شے دیکھتا تو میں تمکو اس کی خبر ضرور دیتا۔ لیکن اہل طریقت کے نزدیک وہ ایسے اکسیر کے مثل ہے جس کی ایک رتی کل زمین کے سونا سے زیادہ ہے۔ طریقت میں تجرید کی یہ وقعت ہے۔
اور میں نے اپنے شیخ کے شیخ رضی اللہ عنہما سے سنا ہے:۔ متجرد کی معرفت افضل ہے اور اس کی فکر خالص اور روشن ہے۔ اس لئے کہ صفائی سے صفائی پیدا ہوتی ہے اور گندگی سے گندگی ۔ ظاہر کی صفائی سے باطن کی صفائی، اور ظاہر کی سیاہی سے باطن کی سیاہی ہوتی ہے۔ اور جب ظاہری محسوسات میں ترقی ہوگی تو باطن میں نقص پیدا ہوگا ۔
اور بعض خبر میں ہے:۔ جب عالم نے دنیا سے کچھ حاصل کیا تو اس کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کم ہو گیا۔ اگر چہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بزرگ ہو۔ اور جس شخص کو سبب اختیار کرنے کی اجازت دی گئی وہ متجرد کی طرح ہے۔ اس لئے کہ اب اجازت کی وجہ سے اس کا سبب عبادت ہو گیا ۔ حاصل یہ ہے:۔ بغیر اجازت کے تجرید سبب ہے۔ اور اجازت کے ساتھ سبب تجرید ہے۔ وباللہ التوفیق
تنبیہ: یہ سب کلام سائرین (سیر کرنے والوں) کے بارے میں ہے۔ لیکن واصلین جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے بلند درجے پر قائم ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ کلام نہیں ہے۔ کیونکہ وہ حضرات رضی اللہ عنہم اپنے نفوس سے لے لئے گئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رو کے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دفع کئے جاتے ہیں۔ ان کے معاملات کا متولی اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ خودان کے اسرار کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اپنے انوار کے لشکر سے ان کے قلوب کی نگہبانی کرتا ہے۔ لہذا اغیار کی تاریکیاں ان میں اثر نہیں کرتی ہیں۔ اور ا سباب و ذرائع کے متعلق صحابہ کرام کا حال اسی پر محمول کیا جاتا ہے۔
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ نَفَعْنَا بِبَرَكَاتِهِمْ
اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ۔ اور ان کی برکتوں سے ہم کو فیض پہنچائے ۔ آمین
جاننا چاہیئے کہ متسبب (اہل سبب ) اور متجرد (اہل تجرید ) دونوں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے عمل کرنے والے ہیں۔ اس لئے کہ دونوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف صدق توجہ حاصل ہے۔ جیسا کہ ایک بزرگ نے فرمایا ہے:۔ متسبب اور متجر د کی مثال ، ایک بادشاہ کے دو غلام کی طرح ہے۔ بادشاہ نے ایک غلام سے کہا: کام کرو اور کھاؤ۔ اور دوسرے کو حکم دیا۔ میری خدمت میں حاضر رہو۔ تمہاری کل ضروریات کا ذمے دار میں ہوں ۔ لیکن متجر د میں رکاوٹوں کے کم ہونے اور تعلقات کے منقطع ہونے کی وجہ سے صدق توجہ زیادہ قوی ہے۔ اور چونکہ متجر دفقیر کی ہمت حضرت رسول کریم ﷺ کے قول کے مطابق اکثر خطا نہیں کرتی ہے:۔
إِنَّ لِلَّهِ رِجَالاً لَوْ أَقْسَمُوا عَلَى اللَّهِ لَا بَرَّهُمْ فِي قَسَمِهِمْ بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے خاص بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی قسم کو پوری کرے گا
ہمارے شیخ نے فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے خاص بندے ہیں کہ جب انہوں نے کسی شے کے لئے اہتمام کیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
اتَّقُوا فَرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنظُرُ بِنُورِ اللَّهِ
مومن کی فراست سے ڈور ۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں