اللہ کے اختیار پرراضی حکمت نمبر06
اللہ کے اختیار پرراضی کے عنوان سے باب اول میں حکمت نمبر06 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور چونکہ جن اشیاء کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے لی ہے ان کے لئے کوشش کرنی بری ہے ۔ خواہ وہ فعل میں ہو یا قول میں، اور دعا کے ذریعے ہو یا کسی دوسرے ذریعے سے، اور کسی شے کے ملنے سے پہلے اس کے حاصل کرنے میں جلدی چاہنے کا نام ہی کوشش ہے۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا :۔
6) لا يَكُنْ تأَخُّرُ أَمَدِ العَطاءِ مَعَ الإلْحاحِ في الدُّعاءِ مُوْجِباً لِيأْسِكَ. فَهُوَ ضَمِنَ لَكَ الإِجابةَ فيما يَخْتارُهُ لَكَ لا فيما تَخْتارُهُ لِنَفْسِكَ. وَفي الوَقْتِ الَّذي يُريدُ لا فِي الوَقْتِ الَّذي تُريدُ.
بار بار عاجزی سے دعا کرنے کے باوجود، دعا کے قبول ہونے اور بخشش ملنے میں تاخیر، تمہاری نا امیدی کا سبب نہ ہونا چاہیئے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اجابت کی ذمہ داری اس شے میں لی ہے جو تمہارے لئے وہ پسند کرتا ہے۔ نہ کہ اس شے میں جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اس وقت میں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ نہ کہ اس وقت میں جو تم چاہتے ہو۔ جاننا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں ایک نامی قیوم ہے اور اس کے معنی بہت بڑا قائم کرنا والا ۔ بہت بڑا قائم رہنے والا ہیں۔
آثارقبولیت
پس حقیقت یہ ہے کہ عرش سے فرش تک اپنی کل مخلوق کے تمام امور کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا۔ اور ہر مظہر کے لئے ایک محدود وقت اور اجل مقرر کیا۔ اور ہرشے کے لئے ایک خاص شکل اور مقسوم روزی مقرر فرمائی۔
فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ جب ان کا مقررہ وقت آ جائے گا تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہو سکتے ہیں نہ آگے ہو سکتے ہیں ۔
لہذا جب تمہارا قلب دنیا و آخرت کی حاجتوں میں سے کسی حاجت کے ساتھ وابستہ ہو جائے ۔ تو تم اللہ تعالیٰ کے وعدے کی طرف رجوع کرو ۔ اور اس کے علم پر قناعت کرو۔ اور حرص نہ کرو۔ کیونکہ حرص میں تکلیف اور ذلت ہے۔
ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ لوگ اپنی حاجتیں حرص سے اور ان کے لئے کوشش میں مشغول ہو کر پوری کرتے ہیں ۔ اور ہم اپنی حاجتیں زہد سے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو کر پوری کرتے ہیں۔
اور اگر دعا کرنی ضروری ہو جائے تو تمہاری دعا عبادت کے لئے ہونی چاہیئے ۔ نہ کہ دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لئے ۔ کیونکہ اگر تم نے دنیاوی فوائد کوترک کرد یا تو تمہارے اوپر دنیاوی فوائد کی بارش ہوگی۔ اور اگر تمہارے اوپر طلب کا حال غالب ہو جائے اور تم کچھ طلب کرو۔ لیکن (قبولیت دعا پر پختہ یقین کرے آثار قبولیت میں تاخیر ہو جائے تو ملول نہ ہو ) اس کے ملنے میں دیر ہو جائے تو تم اللہ تعالیٰ پر اتہام نہ لگاؤ۔ جیسا کہ فرمایا۔
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ تم لوگ مجھ سے دعا کرو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔
اور اللہ تعالیٰ کی بخشش سے نا امید نہ ہوؤ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی بھلائی میں سے جو تمہارے لئے چاہتا اور پسند کرتا ہے اس کی اجابت کی اس نے ضمانت لی ہے۔ اور تمہارے ساتھ یہ اس کی مہربانی اور احسان ہے کہ تمہارے اس مقصد کو جو تمہارے لائق نہیں ہے۔ وہ روک دیتا ہے۔
جیسا کہ حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ نے اپنی دعا میں فرمایا ہے۔
اللَّهُمَّ إِنَّا قَدْ عَجَزْنَا عَنْ دَفْعِ الضُّرِ عَنْ أَنْفُسِنَا مِنْ حَيْثُ نَعْلَمُ بِمَا نَعْلَمُ، فَكَيْفَ لَا تَعْجِرُ عَنْ ذَالِكَ مِنْ حَيْثُ لَا تَعْلَمُ بِمَا لَا تَعْلَمُ
اے اللہ جس نقصان کا ہم کو علم ہے۔ اس کا علم ہونے کے باوجود ہم اس کو اپنی ذات سے دور کرنے سے عاجز ہیں۔ تو جس نقصان کا ہم کو علم نہیں ہے۔ ہم اس کے دور کرنے سے کیوں عاجز نہ ہوں گے۔
بعض مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے:۔ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ
اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ شے اختیار کرتا ہے جس میں ان کے لئے بھلائی ہوتی ہے۔
ما کو موصولہ قرار دے کر یعنی
وَيَخْتَارُ الْأَمْرَ الَّذِي لَهُمْ فِيهِ خِيَرَتُهُمْ وہ اس امر کو اختیار کرتا ہے جس میں ان کی بھلائی ہوتی ہے۔
اورکبھی وہ تمہاری دعا قبول کر لیتا ہے۔ اور اس کے لئے ایک وقت مقرر کر دیتا ہے جو تمہارے لئے زیادہ بہتر اور مفید ہوتا ہے۔ لہذا وہ شے تم کو اس وقت دیتا ہے جس وقت وہ چاہتا ہے۔ نہ کہ اس وقت جس وقت تم چاہتے ہو ۔
قبولیت دعا کے لوازمات
اور کبھی وہ تمہاری دعا کو تمہاری آخرت کے لئے موخر کر دیتا ہے اور وہ تمہارے لئے زیادہ بہتر اور قائم رہنے والی ہے۔ حدیث شریف میں حضرت رسول کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے۔
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا
ہر دعا کرنے والا تین صورتوں میں سے ایک کے درمیان ہوتا ہے۔ یا یہ کہ اس کی دعا فوراً پوری کر دی جائے۔ یا یہ کہ اس کی آخرت کے لئے اس کا ثواب جمع کر دیا جائے۔ یا یہ کہ اس کی دعا کے برابر برائی اس سے پھیر دی جائے۔
حضرت شیخ عبد العزیز مہدوی نے فرمایا ہے:۔ جس شخص نے دعا میں اپنا اختیار نہ چھوڑا ۔اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو پسند کیا ہے۔ اس پر راضی نہ ہوا۔ وہ مستدرج (بہکا ہوا)ہے۔ ان لوگوں میں سے ہے جن کے لئے کہا گیا ہے۔ اس کی حاجت پوری کر دو۔ مجھے اس کی آواز بھی سننا پسند نہیں ہے۔ اور اگر دعا اللہ تعالیٰ کے اختیار کے ساتھ ہو نہ کہ اپنے نفس کے لئے اپنے اختیار کے ساتھ ۔ تو وہ دعا قبول کی جاتی ہے۔ اگر چہ اس کی مانگی ہوئی شے اس کو نہ دی جائے ۔ اور اعمال کا اعتبار ان کے انجام کے لحاظ سے ہوتا ہے۔