امت محمدیہ میں اضافہ (پہلا مراسلہ)

امت محمدیہ میں اضافہ کے عنوان سے پہلے مراسلے کا نواں حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

اسی حقیقت کی بناء پر سید نا حضرت عمر فاروق  نے فرمایا:۔ میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں اور ان سے مباشرت کرتا ہوں حالانکہ مجھ کو اس کی خواہش نہیں ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا ۔ اے امیر المؤمنین پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا۔ میں ایسا اس امید پر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری پشت سے کوئی اولاد پیدا کرے جس سے حضرت محمد ﷺ امت کی تعدادبڑھائیں۔

اور سید نا حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا ہے ۔ جب حق خواہش کی موافقت کرتا ہے تو وہ شہد ملے ہوئے مکھن کی طرح ہو جاتا ہے۔ یعنی جس خواہش کے ساتھ صالح نیت شامل ہوتی ہے تو وہ خواہش شہدملے ہوئے مکھن کی طرح ہو جاتی ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔

لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَابِعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ    تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش اس شریعت کی تابع نہ ہو جائے ، جو میں لے کر آیا ہوں

لہذا حاصل یہ ہوا۔ نزول کے مقام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کل فوائد سے آتا ہو جائے اور صرف اللہ واحد احد باقی رہ جائے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا

بَلْ دَخَلُوا فِي ذَالِكَ بِاللَّهِ وَلِلَّهِ وَمِنَ اللَّهِ وَإِلَى اللَّهِ بلکہ وہ لوگ اس مقام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کیلئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ کی طرف داخل ہوئے  ۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : – بل :- اضراب (منہ پھیر لینے ) کے مفہوم کیلئے ہے اس سے جو پہلے بیان کیا گیا ہے یعنی حقوق میں بے ادبی اور غفلت کے ساتھ داخل ہونے ، یا فوائد کی زمین میں خواہش اورفائدے کے ساتھ نزول کرنے سے۔ اور حقوق یا حظوظ میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس لیے داخل ہوئے کہ ان کے نفوس کی فنا ثابت ہو چکی ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کیلئے اس لیے داخل ہوئے کہ ان کا اخلاص ثابت ہو چکا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے داخل ہوئے کہ وہ ہر فعل اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیکھتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے داخل ہوئے کہ وہ یقین کر چکے ہیں کہ کل امور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتے ہیں

۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-وَاللهِ يُرْجَعُ الْأمْرُ كُلَّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ.

اور تمام امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، لہذا آپ اسی کی عبادت کیجئے اور اسی پر بھروسہ رکھیئے

لہذا بندوں کے کل معاملات اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں اور اسی کی طرف سے صادر ہوتے ہیں اور اسی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس پر آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ اشیاء میں داخل ہونا اور ان سےخارج ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ۔ وَقُلْ رَّبِ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرَجَنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ لِيَكُونَ نَظْرِى إِلَى حَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ إِذَا ادْخَلَتنِى وَانْقِيَادِى إِلَيْكَ إِذَا أَخْرَجْتَنِي ، وَاجْعَلْ لِي مِن لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا يَنصُرُنِى وَلَا يَنْصُرُ عَلَى ، يَنصُرْنِي عَلَى شُهُودِ نَفْسِي وَيُغِيبنَى عَنْ دَائِرَةِ حِسّى

آپ کیسے : اے میرے رب! تو مجھ کو داخل کر سچائی کا داخل کرنا اور تو مجھ کو نکال سچائی کانکالنا، یہ اس لیے کہ میری نظر اس وقت تیرے اختیار اور قوت کی طرف ہو، جب تو مجھ کو داخل کرے اور میری اطاعت تیرے لیے ہو جب تو مجھ کو اس سے نکالے اور تو میرے لیے اپنے پاس سے ایک ایسی مدد کر نیوالی طاقت عطا فرما، جو میری مدد کرے اور میرے مقابلے میں دوسرے کی مدد نہ کرے۔ اپنے نفس کے شہود کے مقابلے میں وہ میری مدد کرے اور مجھ کو میرے ظاہر کے دائرے سے غائب کردے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اس آیت کریمہ کی ایک ظاہری تفسیر ہے اور ایک باطنی تفسیر ہے یعنی اہل اشارہ کے طریقے پر۔ اہل ظاہر کی تفسیر یہ ہے:۔ مفسرین نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت کریمہ فتح مکہ میں نازل ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ حکم دیا آپ فتح مکہ ہونے کی حالت میں مکہ معظمہ میں داخل ہونے کے وقت یہ دعا کیجئے:۔ اے میرے رب ! تو مجھ کو مکہ معظمہ میں داخل کر سچائی کا داخل کرنا اس طریقے پر میرا داخل ہونا تیرے ساتھ اور میرا بھروسہ تیرے اوپر ہو اس حال میں کہ میں تیرے اختیار اور تیری قوت سےتیرے دین کی مددکرنے والا ہوں۔ اور یہ حضرت نبی کریم ﷺ کی ان بعض دعاؤں کے قول کی طرح ہے کہ جب آپ سفر سےتشریف لاتے تھے تو فرمایا کرتے تھے۔ صَدَقَ اللهُ وَعْدَةَ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَأَعَزَّ جُنْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو سچا کیا اور اپنے بندے کی مددفرمائی اور اپنے لشکر کو غالب کیا اورفوجوں کو تنہا شکست دیدی

اور تو مجھ کو مکہ معظمہ سے نکال سچائی کا نکالنا اس حال میں کہ میں تیرے دشمن سے جہاد کیلئےہجرت کرنے والا ہو ؤں اس طریقے پر کہ میں تیرے ساتھ فتح یاب ہو ں۔ اور تیری حفاظت و نگرانی کے ساتھ میں محفوظ رہوں اور تو میرے لیے اپنے پاس سے ایک ایسی طاقت عطافرما جو ہر باطل کا سرتوڑ دے اور ایسا مددگار ہو جو میرے دشمن کے مقابلہ میں میری مدد کرے ۔

اور اہل باطن کی تفسیر :۔ وہ ہے کہ جس کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے اشارہ فرمایا ہے، کہ کل اشیاء میں عارفین کا داخل ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے ۔

اور ان میں سے نکلنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ۔ اے عارف تم اس طرح دعا کرو ۔ اے میرے رب ! تو مجھ کو اشیاء میں خواہ وہ حقوق ہوں یا حظوظ (فوائد ) داخل کر سچائی کا داخل کرنا اس طریقے پر کہ یہ داخل کرنا تیرے ساتھ ہو اس حال میں کہ اس داخل کرنے میں تیری اختیار اور قوت پر میں بھروسہ کرنے والا رہوں اور اپنے اختیار اور قوت اور اپنے نفس کے شہود سےمیں بری رہوں ۔

اور مجھ کو اشیاء سے نکال ، سچائی کا نکالنا اس طریقے پر کہ مجھ کو اس نکالنے میں تیری خاص اجازت سے اجازت حاصل ہوتی ہو ۔ اس حال میں کہ تیرے خوف اور اخلاص کا سر میرے ساتھ ہو۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں