انبیاءدین کے اصول میں متفق ہیں مکتوب نمبر63دفتر اول

 اس بیان میں کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام دین کے اصول میں متفق ہیں اور ان بزرگواروں کا اختلاف صرف دین کے فروع میں ہے اور ان بعض متفق علیہ کلمات کے بیان میں سرداری کی پناہ والے شرافت کے مرتبہ والے شخ فرید کی طرف لکھاہے: ۔

ثبتکم الله سبحانہ على جادة ابائكم الكرام على أفضلهم أصالة و على بواقيهم متابعة الصلوة والسلام الله تعالی ہم کو اور آپ کو آپ کے بزرگ باپ دادوں کے سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے۔ ان میں سے افضل پر اصلی طور پر اور باقیوں پر متابعت کی رو سے صلوۃ و سلام ہو۔

انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کہ اللہ کی صلوة اور سلام اور برکات ان سب پر بالعموم اور ان کے افضل پر بالخصوص ہو اور الله کی رحمتیں ہوں کیونکہ ان بزرگواروں کے طفیل جہان کونجات ابدی کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور ہمیشہ کی گرفتاری سے آزادی حاصل ہوئی ہے ۔ اگر ان کا وجودشریف نہ ہوتا تو حق تعالی جوغنی مطلق ہے جہان کو اپنی ذات و صفات کی نسبت کچھ خبر نہ دیتا اور اس طرف کا رستہ نہ دکھاتا اور کوئی شخص اس کو نہ پہچا نتا اور امر و نواہی جن کے ساتھ بندوں کو اپنے کرم سے ان کے نفع کے لئے مکلف کیا ہے۔ ان کے بجالانے کی تکلیف نہ دیتا اور اس کی رضامندی نا رضامندی سے جدا نہ ہوتی پس اس نعمت عظمی کا شکر کس زبان سے ادا کیا جائے اور کس کو یہ طاقت ہے کہ اس کا شکر ادا کر سکے اللہ کی  حمد ہے جس نے ہم پر انعام کیا اور ہم کو اسلام کی طرف ہدایت کی اور انبیاء علیھم السلام کے تصدیق کرنیوالوں میں  سے بنایا اور یہ بزرگوار اصول میں متفق ہیں۔ اورذا ت وصفات اور حشر و نشر۔ پیغمبروں کے بھیجنے اور فرشتوں کے نازل ہونے اور دحی کے وارد ہونے اور ہمیشہ کیلئے جنت کے آرام اور دوزخ کے عذاب کے بارے میں ان سب کی بات ایک ہی ہے اور ان کا اختلاف صرف بعض احکا م میں ہے جو دین کے فروغ سے تعلق  رکھتے ہیں حق تعالی نے ہر ایک زمانہ اولوالعزم پیغمبر پر مناسب احکام کے ساتھ وحی بھیجی  ہے اور اس زمانہ کے لوگوں کو احکام مخصوصہ کے ساتھ تکلیف فرمائی ہے۔

احکام شرعیہ میں نسخ اور تبدیل کاہو نا خدائے تعالی کی حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے اور اس قسم کی مثالیں بہت سی ہیں کہ ایک ہی صاحب شریعت پیغمبر پر مختلف وقتوں میں ایک دوسرے کے متضاد احکام نسخ اور تبدیل کے طور پر وارد ہوئے ہوں اور ان بزرگواروں کے متفق علیہ کلمات میں سے یہ چند کلمے ہیں۔

خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور مخلوقات میں سے کسی کو خدا کے سوا اپنا رب نہ بنانا یہ حکم انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے ہی مخصوص ہیں اور ان کے تابع داروں کے سوا اور لوگ اس دولت سے مشرف نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کے سوا کسی نے اس قسم کے کلمات کہے ہیں۔

نبوت کے منکر اگرچہ خدا کو ایک مانتے ہیں لیکن ان کا حال دو عمل سے خالی نہیں ہے یا تو اہل اسلام کی تقلید کرتے ہیں یا وجود کے و جوب میں واحد جانتے ہیں نہ کہ عبادت کے استحقاق میں

کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ سے مراد جھوٹے خداؤں کی عبادت کی نفی کرنا اور معبود برحق کا ثابت کرنا اور کلمہ دوسرا جو ان بزرگوں سے مخصوص ہے یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور لوگوں کی طرح بشر جانتے ہیں اور عبادت کے لائق خدا ہی کو جانتے ہیں اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں اور حق تعالی کو حلول اور اتحاد سے پاک بتلاتے ہیں اور منکرین نبوت ایسے نہیں ہے بلکہ ان کے سردار خدائی کا دعوی کرتے ہیں اور اپنے آپ میں خدا کو حلول کیا ہوا ثابت کرتے ہیں  اور عبادت کے حقدار بننے اور خدا کا نام اپنے اوپر بولنے سے احتراز نہیں کرتے ۔ اس واسطے بندگی سے پاؤں  نکال کر کئی قسم کی بد فعلیوں  اور بداعمالیوں میں پڑ جاتےہیں اور اباحت کا رستہ ان کی طرف کھل جاتا ہے اور گمان کرتے ہیں کہ اللہ کسی چیز سے ممنوع نہیں اور جو کچھ کہتے ہیں بہتر جانتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں بس یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوں گئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا پس ان کے لیے اور ان کے تابعداروں کے لیے اور ان کی تقلید  کرنے والوں پر ہلاکت ہے ۔

 اور کلمہ جس میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام باہم متفق ہیں اور ان کے منکر اس دولت سے بے نصیب ہیں یہ ہے کہ یہ بزرگوار فرشتوں کے نازل ہونے کے( جو معصوم مطلق ہیں اور کسی قسم کا تعلق اور آلودگی نہیں رکھتے )قائل ہیں اور وحی کے امین اور کلام ربانی کے اٹھانے والے انہی کو جانتے ہیں بس یہ بزرگوار جو کچھ کہتے ہیں خدا کی طرف سے کہتے ہیں اور جو کچھ پہنچاتے ہیں خدا کی طرف سے پہنچاتے ہیں اور ان کے اجتہادی احکام بھی وحی سے موید ہیں اگر بالفرض کسی قسم لغزش  واقع ہو جاتی  تو حق تعالیٰ خود اس کا تدارک وحی قطعی سے فرما دیتا تھا اور منکروں کے رئیس جو الوہیت کے مدعی ہیں جو کچھ کہتے ہیں اپنی طرف سے کہتے ہیں اور الوہیت کے خیال سے اسی کو بہتر جانتے ہیں پس انصاف سے کام لینا چاہیے کہ جو شخص بے وقوفی سے اپنے آپ کو خدا بنائے اور عبادت کا مستحق جانے اور اس خیال سے بہت ناشائستہ فعل اس سے سرزد ہوں تو اس کی باتوں کا کیا اعتبار ہے اور اس کی تابعداری پر کیا مدار ہے

سالے کے نکوست از بہارش پیداست ترجمه: ظاہر ہے سال اچھا ہے اپنی بہارہی سے

اس قسم کی باتوں کا ظاہرکرنا زیادہ تشریح  کیلئے ہے ورنہ حق باطل سے جدا ہے اور نور اندھیرے سے ظاہر ہے۔ جَاءَ الْحَقُّ ‌وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا

اللهم ثبتنا على متابعة هؤلاء الأكابر عليه الصلوات و التحيات أولا و اخرا

 یا اللہ تو ہم کواول داخرانہی بز رگواروں کی تابعداری پر ثابت قدم رکھ۔

بقیہ مقصود یہ  ہے کہ سیادت پناہ میاں  پیر کمال کوآپ خوب جانتے ہیں۔ کچھ حاجت نہیں کہ ان کے بارے میں کچھ لکھا جائے لیکن اس قد رلکھنا ضروری ہے  فقیر کو  کچھ عرصہ  سے ان کی ملا قات حاصل ہے۔ مدت سے آپ کی قدم بوسی کا شوق رکھتے تھے لیکن ضعف لاحق ہونے سے کچھ مدت فرش پر پڑے تھے۔ اب صحت یاب  ہونے کے بعد آپ کی خدمت عالی کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور آپ کی عنایت کے امیدوار ہیں۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ199ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں