انتیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس التاسع والعشرون فی عدم التواضع لغنی لاجل غناء ‘‘ ہے۔

 منعقدہ 11/ جمادی الآخر  545 مقام مدرسہ قادریہ

 دنیادار کی تعظیم دین کے ضیاع کا باعث ہے:

 رسول اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَضَعْضَعَ لِغَنِيٍّ ‌ذَهَبَ ‌ثُلُثَا ‌دِينِهِو جو شخص کسی مال دار کے مال کی خواہش لئے اس کی تعظیم کے لئے اپنے جگہ سے اٹھا، اس کا دو تہائی دین جاتا رہا۔‘‘ منافقو سنو! یہ حال ایسے شخص کا ہے جو مال والوں کے سامنے جھکے، اور ان کی امارت کی وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھے ،اور جو ان کے لئے نماز ، روزہ اور حج کرے، اور ان کی چوکھٹ کو بوسہ دے ، اس کا کیا حال ہوگا ۔ شرک کرنے والو! اللہ اوراس کے رسول  ﷺ کی تمہیں کیا خبر ہے، ایمان لاؤ اورتوبہ کرو، اور اس پر ثابت قدم رہوتا کہ تمہارا ایمان درست ہو جائے اور یقین میں استقامت ہو اور تمہاری تو حیدنشو ونما پا کر اپنی شاخیں عرش تک پھیلا دے

 ایمان کی ترقی مخلوق اور کسب کمائی سے بے پرواہ کر دے گی :

اے بیٹا ! جب تیرا ایمان ترقی کر لے اور اس کا درخت بلند ہو تو اللہ تعالی تجھے اپنے آپ سے اور خلقت سے اور تیرے کسب کمائی سے بے پرواہ کر دے گا ۔ تیرے نفس اور قلب اور باطن کو سیر کر دے گا اور اپنے دروازے پر لا کھڑا کر دے گا۔ اس کے ذکر اور قرب اور انس سے تیری تنگدستی تو نگری سے بدل جائے گی ۔ جولوگ دنیا کو حاصل کرنے اور اس میں مشغول رہنے والے ہیں ، تو ان سے بے پرواہ ہو جائے گا۔ تو کسی دنیا دار کی پرواہ نہ کرے گا، دنیا دارکو تیرا دیکھنا باعث زحمت و تکلیف اور تاریکی ہوگا ،

اسے علم کا دعوی کرنے والے دنیا کو دنیا داروں سے طلب کرنے والے اور ان کے سامنے ذلالت اٹھانے والے اللہ سے علم پانے کے باوجود بہک گیا ، علم کی برکت اور اس کا مغز جا تارہا صرف چھلکا رہ گیا۔ اے عبادت الہی کا دعوی کر نے والے! تیرادل خلقت کی عبادت کرتا ہے، انہی سے خوف اور امید رکھتا ہے ۔بظاہر اللہ کی عبادت کرتا ہے، باطن میں خلقت کا بندہ ہے تیری طلب اور خواہش اور دنیا داروں کے روپے پیسے اور مال اسباب میں ہے،ان سے تعریف اور صفت وثنا کی امید رکھتا ہے، ان کی برائی اور بے رخی سے ڈرتا ہے ، ان کے دینے کا خوف رکھتا ہے، ان کے در پر بار بار جاتا ہے،ان کی خوشامد کرتا ہے نرم اور میٹھی باتیں کر کے ان سے عطا کی امید کرتا ہے ۔

تیری زبان تیری دل کی رفیق نہیں:

تجھ پر افسوس ! تو مشرک ہے، منافق ، ریا کار، بے دین مرتد ہے، تجھ پر افسوس ہے کہ اپنا کھوٹا مال کس پر پیش کر رہا ہے، جو آنکھوں کی خیانت اور سینے کے رازوں سے واقف ہے ۔ تجھ پر افسوس ! نماز میں کھڑا ہو کراللہ اکبر کہتا ہے مگرجھوٹ کہتا ہے ( تیری زبان تیرے دل کی رفیق نہیں ، تیرے دل میں مخلوق اللہ سے بڑی ہے، اللہ کے حضور میں تو بہ کراس کے سوا کسی کے لئے کوئی نیک عمل نہ کر ، نہ دنیا کے لئے نہ آخرت کے لئے ،تو ان میں سے ہو جا جو کہ صرف اللہ تعالی کے طالب ہیں ۔ربانی پرورش کا حق ادا کر ، کوئی عمل حمد وثنا اور منع وعطاکے لئے نہ کر ۔ ہرعمل کی غرض وغایت ذات الہی ہو،  تجھ پر افسوس! تیرا رزق کم یا زیادہ نہیں ہوسکتا، جو بھلائی اور برائی تیرے مقدر میں لکھی جا چکی ہے، وہ تو آ کے رہے گی ۔ جس چیز سے فراغت ہے اس میں مشغول نہ ہو، اس کی عبادت میں لگارہ، اپنی حرص کو کم کر دے اور امید کو گھٹادے اور موت کو ہر وقت سامنے رکھے، یقینا نجات پائے گا ، سب احوال میں شریعت کی موافقت کر۔

 شرع کی موافقت چھوڑ کر خواہشوں کے پیچھے لگ گئے ۔

اے لوگو! شرع کی موافقت سے تم محروم ہو گئے ، اپنے ظاہر و باطن کے ہاتھوں سے تم نے اسے چھوڑ دیا ، اپنے نفسوں اور خواہشوں کے پیچھے لگ رہے ہو، اللہ کی بردباری اور شفقت سے تم کس گمان میں پڑ گئے ، وہ گاہے بگاہے دن بدن تمہیں ڈھیل دیتا رہتا ہے، آخرت میں سب طرف سے مار پڑے گی ، پکڑ ہوگی اور پوچھ گچھ ہوگی، پھر موت آئے گی، قبر میں اتار دیا جائے گا قبر کی تنگی اور اس کا عذاب گھیر لیں گے، یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا، پھر دوبارہ کھڑا کر کے بڑی کچہری میں پیش کیا جائے گا۔ اس وقت ہر ایک گھڑی اور ہر ایک پل میں جو جو کچھ کیا ، ذرے ذرے کا حساب ہوگا ، چھوٹی بڑی ہر بات کا سوال ہو گا ، تو بے روح کے بت اور قوت وحقیقت کے بغیر سوکھا ہوا چمڑا ہے، تو سوائے جہنم کی آگ کے کسی قابل نہیں ۔ تیری عبادت میں اخلاص نہیں ،  جب عبادت روح کے بغیر ہے تو تیری عبادت اور تو جہنم کی آگ کے سواکسی کام کے نہیں ، اخلاص کے بغیر عمل بے فائدہ ہے ۔ پھر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔تجھے ان میں سے کسی چیز سے کچھ فائدہ نہ ہوگا، تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں ارشاد الہی ہے:

انت من العاملة الناصية عاملة في الدنيا ناصبة في النار يوم القيامة  یعنی کہ عمل کرنے والے مشقت اٹھانے والے وہ دنیا میں عمل کر نے والے ہیں اور قیامت کے دن مشقت اٹھانے والے ، ہاں اگر مرنے سے پہلے توبہ اور معذرت کر لے تو بہتر ہے ، اخلاص کے ساتھ تو بہ کر کے نئے سرے سے اسلام لا کر اللہ کی طرف رجوع کر ، مرنے سے پہلے ایسا کر لے ورنہ تو بہ کا دروازہ بند ہو جائے گا ، پھر اس میں داخل نہ ہو سکو گے،  اس کے فضل کا دروازہ بند ہونے سے پہلے اپنے دل کے قدموں سے چل کر رجوع کر ، تجھے تیرے نفس اور قوت اور طاقت اور تیرے مال کے سپرد نہ کر دے اور پھرتجھے کسی حالت میں برکت نہ ملے۔ تجھ پر افسوس! اللہ تعالی سے شرم نہیں کرتا، تونے دینار کواپنارب اور درهم کو اپنی فکر بنالیا ہے ، اوراللہ کو بالکل ہی بھلا دیا۔ عنقریب تجھے پتہ چل جائے گا اور اپنا انجام دیکھ لے گا۔ تجھ پر افسوس! اپنی دکان اور مال کو اپنے اہل وعیال کا حصہ بنا، ان کے لئے شرع کے مطابق کمائی کر اور دل سے اللہ پر توکل کر اپنا اور اپنے کنبے کا رزق مال اور دکان کی بجائے اللہ سے طلب کر ، تمہارا اور ان کا رزق اللہ تعالی تمہارے ہاتھ پر جاری فرما دے گا۔ اور تمہارے دل کو   اس کا فضل اور قرب اورانس ملے گا۔ تمہارا کنبہ تم سے ، اورتم اللہ کی رحمت سے تو نگر ہو جاؤ گے، وہ انہیں جس چیز کے ساتھ اور جس طرح سے چاہے تو نگر کر دے گا ،۔ اور تیرے دل سے ارشاد ہوگا: یہ دل کی بے نیازی تیرے لئے ، اور ظاہری مال تیرے کنبے کے لئے ہے۔

مگر تجھے یہ بات کیسے نصیب ہو، ساری عمرتو شرک میں گزری، حجاب میں اور راندہ درگاہ رہے، دنیا اور اس کے جمع کرنےسے تیرا جی نہیں بھرا۔ اپنے دل کے دروازے کو بند کر دے تا کہ کوئی بھی دنیادی چیز اس میں داخل ہونے سے مایوس ہوجائے ، اس میں صرف اور صرف اللہ کی یاد کا گزر ہو، اپنے برے اعمال سے توبہ در توبہ کرو، اور پشیمان وشرمندہ ہو اپنی اکڑ اور بے ادبی پر شرمسار ہے۔۔۔ اور جو کچھ ہاتھ سے ہوا، اسے یاد کر کے رویا کر ، بخیلی چھوڑ دے اور اپنے کچھ مال سے فقیروں کی غم خواری کرتارہ ،تو عنقریب اپنے مال سے جدا ہو جائے گا، ایمان والا اور یقین والا اس عمل سے کوتاہی وبخیلی نہیں کرتا، جس کا اجر دنیا وآخرت میں ملنا ہے، جو کہ اس نعمت کا بدل ہے ۔

 بخیل و فاسق سخی ، شیطان کے محبوب  ومبغوض :

حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے ابلیس لعین سے پوچھا کہ مخلوق میں تیرا سب سے زیادہ محبوب شخص کون ہے؟‘‘ اس نے کہا: ”ایمان والا جو بخیل ہو – آپ نے پوچھا: ” تیرے نزدیک سب سے برا کون ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’ فاسق سخی آپ نے دریافت فرمایا: کہ ایسا کیوں؟ اس نے جواب دیا: ’’ایمان والے بخیل سے مجھے امید ہے کہ اس کا بخل ایک نہ ایک دن اسے گناہ میں مبتلا کر دے گا ۔ اور سخی  فاسق کے بارے میں خوف ہے کہ اس کی سخاوت سے اس کے گناہ نہ مٹ جائیں ‘‘ تو دنیا میں دنیا کے لئے مشغول نہ ہو، کسب کو مشروع اس لئے کیا گیا تا کہ اس کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت پر مدد حاصل کی جائے ، تم جب کماتے ہو تو اس سے گناہ پر مددحاصل کر تے ہو نماز اور نیکی کے کام چھوڑ دیتے ہو نہ زکوۃ نکالتے ہو، لہذا تم گناہ میں لگے رہے نہ کہ عبادت میں تمہاری کمائی رہزنی کی مثل ہوگی عنقریب موت آئے گی تو ایمان والا اس سے خوش ہوگا، کافر اور منافق اس سے غم میں ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إذا مات المؤمن يتمنى أنه ما كان في الدنيا ولا ساعة لما يرى من كرامة الله عز وجل له ه ایمان والا مرنے کے بعد اللہ تعالی کی جوعنایتیں دیکھتا ہے، پھر یہی تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ  ٹھہرتا کہاں ہے اللہ سے حیا کرنے والا، سب احوال میں اس کی طرف دھیان کرنے والا  کہاں ہے حرام چیزوں سے بچنے والا ، کہاں ہیں تو بہ کر کے اس پر قائم رہنے والا ، کہاں ہے خلوت وجلوت میں محروموں سے پارسائی کرنے والا ۔ کہاں ہے اپنے دل اور بدن کی نگاہ نیچی رکھنے والا!1

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذی شان ہے

إن العينين لتزنيان وزناهما النظر إلى المحرمات آنکھیں بھی ضرورز نا کرتی ہیں، ان کا زنا حرام ( اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنا ہے۔“ اے مخاطب! تیری آنکھیں ( اجنبی ) غیر محرم عورتوں اور نوخیز لڑکوں کو دیکھ کر کس قدرز نا کرتی ہیں۔ تو نے یہ ارشاد باری تعالی نہیں سنا:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ ‌يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ و اے محبوب! ایمان والوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظر میں جھکائے رکھیں۔‘‘

دنیا کی تلخی آخرت کی نعمتوں کے لئے پی جاؤ:

 اے فقر والے دنیا کی تنگی پرصبرکر ، یہ چند روزہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے ارشادفرمایا: دنیا کی تلخی کوآ خرت کی نعمتوں کے لئے شوق میں گھونٹ گھونٹ کر کے پی جاؤ‘‘ تم نہیں جانتے کہ اولیاء اللہ کے نزدیک تمہارا کیا نام ہے: نیک بخت یا بد بخت ،  یہ تو اللہ کے علم ہے اور سابقہ تقدیر میں لکھ دیا گیا لیکن تو نڈرنہ بن ، اوراللہ کے علم اور سابقے پر بھروسہ نہ کر ، کیونکہ اس طرح تو شرعی حد سے نکل جائے۔ گا، تجھے جو حکم ملا ہے، اس پرعمل کرنے کی ہرممکن  کوشش کر  سابق علم سے تجھے کیا غرض، یہ توغیبی بات ہے جسے نہ تو جانتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا جانتا ہے ۔

اللہ والوں نے بستر باندھ دیا اور دنیا سے الگ ہو گئے ،مولی کے حضور میں حاضر ہو کر دوسرے خداموں کے ساتھ خدمت میں لگے ہیں، وہ دنیا سے جو بھی لیتے ہیں زادراہ کی مثل لیتے ہیں ، مزے اڑانے کے لئے نہیں، صرف ضرورت کے ابدان عبادت الہی پر قائم کر لیں، اور شیطان کے مکر وفریب سے اپنی شرمگاہوں کو بچاسکیں ۔ ایسا کرنے میں بھی حکم الہی کی تعمیل ہے۔ اور رسول اللہ  ﷺ کی سنت کی اتباع ہے، ان کی ساری کارگزاری اللہ کے حکم اور سنت رسول اکرم  ﷺ کی پابندی ہے،  اس کے باوجود ان سب مراحل میں نور ہمت سے بلند حوصلہ اور زہد میں قوی ہیں   

دعا یہی ہے

اللهم اجعلنا منهم واعد علينا من بركاتهم آمین!الہی! ہمیں انہی میں سے کر ، اور ان کی برکتوں سے ہمیں بھی عطافرما‘‘

دنیا کی رغبت حائل ہے:

بیٹا! تیرے دل میں جب تک دنیا کی رغبت ہے، تو صالحین کے احوال کو نہیں پہنچ سکتا ، ۔ جب تک مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہے گا، ان کے ساتھ شرک کرتا رہے گا اور دکھ اٹھاتا رہے گا ، تیرے دل کی آنکھیں نہ کھلیں گی جب تک تو دنیا اور مخلوق سے بے رغبت نہ ہو جائے ، تیرا کچھ کہنا کچھ وزن نہیں رکھتا۔ کوشش کر کہ تجھے وہ دکھائی دینے لگے جو غیر کو دکھائی نہیں دیتا، خلاف عادت کے ظاہر ہونے سے تو صاحب کرامت ہو جائے۔اپنے حساب میں آنے والے کو چھوڑ دے، اور وہ کچھ پالے جو تیرے حساب میں نہیں ۔ اللہ پر بھروسہ کرو ،خلوت اور جلوت میں اس سے ڈرو، تو ایسی جگہ سے رزق دے گا کہ جس کا تمہیں بھی گمان بھی نہ تھا۔ شروع میں دنیا کو چھوڑ نے اور خواہشیں ترک کرنے سے دل کو تکلیف تو ہوگی ، آخر میں اس کے حصول سے تکلیف اٹھانا ہو اس سے گی۔ پہلی حالت پرہیز گاروں کے لئے ہے، اور دوسری حالت ابدال کے لئے جو کہ طاعت الہی تک پہنچنے والے ہیں۔

اے ریا کار! اے منافق! اے مشرک!، ان سے مزاحمت نہ کر کہ کس چیز کو چھوڑا جاتا ہے، وہ تو گنتی کے لوگ ہیں۔ تو ان کے احوال نہ پوچھ تیرے ہاتھ کیا آئے گا ۔ انہوں نے اپنی عادتوں کے خلاف کیا اور تو نے اپنی عادتیں ویسے ہی رکھیں ۔ اس لئے ان سے کرامتیں ظاہر ہوئیں اور تجھ سے ہیں ۔

تو سوتار ہاوہ قیام کرتے رہے۔ تو کھانے میں رہا، وہ روزے میں رہے، تو چین سے رہا، وہ ڈرتے رہے، تیرے ڈرنے کے وقت وہ امن سے رہے۔ تیرے بخل کے وقت انہوں نے خرچ کیا۔ ان کے سارے کام اللہ کے لئے ، تیرا ہرعمل غیر کے لئے ، انہوں نے اللہ کو چاہا اور تو نے غیر کو -انہوں نے سب کچھ اللہ کے سپرد کیا ، اورتونے اس سے لڑائی جھگڑا کیا۔ وہ اس کی رضا میں راضی رہے اورغنی ہوئے ، انہوں نے مخلوق سے گلہ شکوہ کرنے والی زبانیں کاٹ ڈالیں ،تو نے ایسا نہ کیا، انہوں نے زمانے کی سختی وتلخی  پر صبر کیا ،صبر ورضا سے وہی شیر ینی بن گئی۔ – تقدیر کی چھریاں ان کے گوشت کاٹتی رہیں، وہ لا پرواہ رہے،نہ غم ناک ہوئے۔

ان کی نظر تو صرف رنج دینے والے کو دیکھتی ہے ، وہ اس کے ساتھ مد ہوش ہیں مخلوق ان سے چین میں ہے ،ان کے ہاتھوں کوئی دکھی نہیں ، ارشاد ہے کہ ابرار وہی ہیں جو کہ ذراسی چیونٹی کو بھی دکھ نہیں دیتے ، ابرار اطاعت کے ساتھ اللہ سے واصل ہیں ، خلقت سے نیک برتاؤ اور اہل خانہ سے بہتر سلوک کرتے ہیں دنیا وآخرت میں نعمتوں میں ہیں، دنیا میں قرب الہی کی نعمت ، اور آخرت میں جنت کی نعمت اور دیدار الہی اور اس کے کلام کی ساعت اور خلعت الہی کا پہننا ہے، تیرا، ان کا کیا جوڑ ، گناہوں سے توبہ کر اللہ سے بے حیائی اور ڈھٹائی چھوڑ دے۔ تجھ پر افسوس !شرم وحیا تو اللہ سے ہوتی ہے مخلوق سے نہیں، اللہ کی ذات تو ہر شے سے پہلے ہے، اور مخلوق حادث  ہےجس سے تو شرماتا ہے، اور اللہ جو قدیم ہے اس سے بے شرمی کرتا ہے ۔ اللہ کریم ہے،اس کا غیر بخیل ہے، وہی غنی ہے،اس کا غیرمحتاج اور تنگ دست ،اس کی عادت عطا ہے، اور غیر کی عادت بخل و مناهی ، اپنی سب حاجتیں اس کے پاس لے جا،وہ غیر سے اچھا ہے ، اس کی کاری گری سے اس پر دلیل پکڑ ، شرعی حدود کا پاس کر، اس کا تقوی لازم پکڑ تقوی پر مداومت سے اس تک رسائی ہے ۔ مصنوع کو چھوڑ کر صانع میں مشغول ہو، اس کی راہ تلاش کر ، اس کی طلب کر ،دنیا و آخرت کو چھوڑ دے، ان میں سے تجھے جو ملتا ہے مل کر ہی رہے گا ،کہیں جانے کانہیں ماسوی اللہ کو چھوڑ دینا تیرے دل کی کدورتیں صاف کر دے گا ۔ تیرادل اگر اس کی طرف رہنمائی نہ کرے تو تو چوپایوں کی طرح بے عقل ہے، تو دنیا سے اٹھ کھڑا ہو اور عقل والوں کے پاس آ ، جن کی عقلیں اللہ کی طرف ان کی رہنما ہوئیں، ان سے عقل سیکھ، اس سے اپنے نفس ۔ اور رب کی معرفت حاصل کر ۔

دین رہے یا جائے ، کچھ پروا نہیں کیسی بے حسی ہے:

 تجھ پر افسوس! تیری عمر کا ضیاع ہورہا ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں ، آخرت سے اعراض اور دنیا کی طرف توجہ کب تک رہے گی ، تجھ پر افسوس ! تیرا رزق کوئی اور نہ کھائے گا، جنت یا دوزخ میں جہاں بھی تیرا ٹھکانہ ہے کوئی اور نہ وہاں ٹھہرے گا، تجھے غفلت نے گھیر لیا ہے اور خواہش نے اسیر کر لیا ہے ، تیرا سارا فکر کھانے پینے نکاح کرنے سونے اور دوسری غرضیں پوری کرنے میں ہے ۔ تیرا مقصد کا فروں اور منافقون سے ملتا جلتا ہے ، حلال یا حرام سے پیٹ بھر لینے پر دل میں کچھ خیال نہیں کہ دین رہایا گیا۔

اے مسکین! اپنی جان پر آنسو بہا، تیرا بچہ مرجائے تو تجھ پر قیامت آ جاتی ہے لیکن دین مر جائے تو تیری آنکھ نم نہیں ہوتی ، تجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ( کیسی بے حسی ہے، وہ فرشتے جو تجھ پر مقرر ہیں ، تیرے دین کا نقصان دیکھ کر روتے ہیں ۔ تجھے اس سرمائے کے ضیاع پر کوئی رنج نہیں، گویا تجھے کچھ سمجھ نہیں ،اگر ذرا بھی سمجھ ہوتی تو دین کے چلے جانے پر ضرور روتا۔ تیرے پاس سرمایہ ہے مگر تجارت کا سلیقہ نہیں ۔ یہی عقل اور حیا سرمایہ ہے۔

وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے ۔ وہ عقل جس سے فائدہ نہ لیا جائے ، وہ زندگی جس سے کچھ مفاد نہ ہو،اس گھر کی طرح ہے جو اجاڑ ہو، جس میں رہا نہ جا سکے ۔ اس خزانے کی مثل ہے جس کا پتہ نہ ہو ، اس کھانے کی مانند ہے جو کھایا نہ جائے، جب تو اپنے اس حال کو نہیں جانتا جس میں تجھے ہونا چاہئے مگر میں جانتا پہچانتا ہوں، مجھ سے توپوچھ ہی میرے پاس – ایک شرع کا آئینہ ہے جو کہ علم ظاہری رکھتا ہے۔ ایک معرفت الہی کا آئینہ ہے جو کہ علم باطنی رکھتا ہے۔ تو غفلت کی نیند سے بیدار ہو جا، بیداری کے پانی سے اپنا چہرہ دھو ڈال ، پھردیکھ کہ تو کون ہے، آیا

تو مسلمان ہے یا کافر، مومن ہے یا منافق ، موحد ہے یا مشرک،  ریا کار ہے، یا اخلاص والا ،  اللہ کے موافق ہے یا مخالف، اللہ کو تیری کچھ پرواہ نہیں اس کا نفع یا نقصان تیری ہی طرف لوٹنے والا ہے ۔ وہ پاک ذات ہے، کریم وعلیم ہے، فضل فرمانے والا ہے، ہر چیز اس کے لطف وکرم کی محتاج ہے، اگر وہ ہم پر لطف نہ فرمائے تو ہم سب ہلاک ہو جائیں ۔ اگر وہ ہمارے قول وفعل کا پورا مقابلہ کرے تو ہم سب اپنے کئے کی بناپر ہلاک کر دیئے جائیں ۔

بھول اور دکھاوے کی عبادت کا اللہ پر احسان جتا تا ہے۔

بیٹا! تو بھول اور دکھاوے اور منافقت کی عبادت کا اللہ پر احسان جتا تا ہے، اور نیک بندوں سے الجھتا ہے، باوجوداپنی کوتاہیوں کے عزت وکرامت چاہتا ہے،تجھے ان کے ذکر سے کیا فائدہ، اور ان کی معرفت کے دعوے کے ذکر سے کیا مطلب ، شرم کر! اے بھاگنے والے نافرمان غلام ! توحید والوں ، اخلاص والوں کے حلقے سے نکلنے والے!  تجھ پر افسوس ! اتنارو کہ تیرے ساتھ رویا جائے ، دوسرے تجھے روئیں ۔ ماتمی لباس پہن کر اپنی مصیبت میں بیٹھ تا کہ دوسرے تیرےساتھ بیٹھیں، تیراد کھ بانٹیں، تو محروم ہے، تجھے کچھ خبرنہیں ۔ بعض صالحین نے ارشادفرمایا: ويل تلمحجوبين الذين لا يعلمون أنهم محجوبونهایسے حجاب والوں پر افسوس ہے جو اپنے حجاب کے بارے میں نہیں جانتے ‘‘

تجھ پر افسوس ہے کس چیز نے تیرا جی برا کیا، تو کیا سمجھتا ہے،  تو کس سے گلہ شکوہ کرتا ہے، اور کس کے پاس فریاد کرتاہے اور کس کے ساتھ سوتا ہے، کسی مصیبت میں پڑ کر کس پر بھروسہ کرتا ہے، تو مجھ سے کہہ، میں تیرا جھوٹ اور منافقت سب جانتا ہوں تو اور ساری خلقت میرے نزدیک مچھر کی طرح ( حقیر ) ہے، تم میں سے جوسچا ہے میں اس کا ادنی خدمت گزار ہوں ۔ اگر وہ چا ہے تو مجھے لے جا کر بازار میں بیچ ڈالے یا مکاتب بنا لے۔ پس جو جی میں آئے کر گزرے۔ میرے پاس جو کپڑے ہیں اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے لینا چاہے تو لے لے، یا مجھے محنت مزدوری کرنے کا حکم دے۔ پس وہ کر گزرے، تجھ میں نہ تو سچائی ہے اور نہ تو حید اور نہ ایمان ۔ میں تجھے کس کام میں لاؤں؟ شگاف بند کرنے کے لئے تجھے دیوار میں لگاؤں ، تو تو بیکارلکڑی کی طرح ہے جوصرف آگ جلانے کے کام آ سکتی ہے۔

اللہ تعالی بندے سے اپنی نعمت کا اظہار چاہتا ہے:

اے لوگو!دنیا ختم ہونے کو ہے، عمریں فنا ہورہی ہیں ، یوم آخرت قریب ہے، تمہیں اس کا بالکل کوئی غم فکرنہیں ۔ تمہاری ساری فکر اور مقصد فقط دنیا کمانا اور دنیا جمع کرنا ہے، تم اللہ کی نعمتوں کے دشمن ہو۔ اگر اس کی طرف سے کوئی برائی آئے تو اس کا اظہار کر تے ہو، اور جب اس کی طرف سے تمہیں کوئی بھلائی اور اچھائی آئے تو اسے چھپاتے ہو، جب تم اللہ کی نعمت کو چھپاؤ گے اور ان کا شکرنہ ادا کرو گے رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفر مایا: إنَّ اللهَ ‌إذَا ‌أَنْعَمَ عَلَى عَبْدِهِ نِعْمَةً أَحَبَّ ‌أَنْ ‌يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَيْهِ

اللہ تعالی اپنے بندے کو جب نعمت عطا کرتا ہے تو اس سے اپنی نعمت کا اظہار چاہتا ہے۔ اولیاء اللہ نے (اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بنالیا ہے کہ اپنے دل کو سب چیزوں سے خالی کر کے اس میں ایک ہی چیز کو آباد کر لیا ہے ۔ انہوں نے اپنی عبادتوں کو دکھلا وے منافقت اور شدت سے خالص کر لیا ہے۔ اپنے بندگی صرف اللہ کے لئے ثابت کر دی ہے، تم ریا اور منافقت کے بندے ہو، خلقت اور خواہشوں اور لذات نفسانی اور تعریف کے بندے ہو تم میں سے ایسا کوئی نہیں جس کی عبادت خالص اللہ کے لئے ہو، الا ما شاء اللہ گنتی کے چند بندے ہیں ۔تم میں سے کوئی دنیا کی عبادت کرتا ہے اور اس کا دوام چاہتا ہے، اور اس کے زوال سے خوف زدہ ہے،

کوئی مخلوق کی عبادت کرتا ہے اور اس سے خوف زدہ ہے،اور اس سے امید لگائے ہوئے ہے۔ کوئی جنت کی عبادت کرتا ہے اور جنت کی نعمتوں کی امیدواری کرتا ہے، اور اس کے خالق سے کچھ مطلب نہیں رکھتا۔کوئی دوزخ کی عبادت کرتا ہے ،اور اس سے خوف زدہ ہے،اور اس کے خالق کا (ذرا بھی خوف نہیں رکھتا، خلقت کیا چیز ہے؟ ۔ بہشت کیا چیز ہے؟ – دوزخ کیا چیز ہے؟ -، اور ماسوا اللہ کیا چیز ہے؟ – ارشاد باری تعالی ہے

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ اور انہیں تو یہی حکم ہے کہ یکسو ہو کر خالص اللہ کا دین سمجھ کر اسی کی بندگی کر یں ۔“ جنہیں اس کی معرفت حاصل ہے، اور علم رکھتے ہیں ، اور عمل کرتے ہیں ، وہ اس کی عبادت کرتے ہیں ، اس کے غیر کی نہیں ، انہوں نے ربوبیت اور عبودیت کا پورا حق ادا کیا ۔ انہوں نے اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی محبت میں اسی کی عبادت کی ، اس کو اپنی مراد سمجھا غیر کو نہیں، اور ماسوا اللہ کو بالکل ترک کر دیا۔ اے دنیا کے بندو! تمہاری شکلیں تو ہیں، روحیں نہیں ۔ تم ظاہر پرست ہو اور اولیاء اللہ باطن والے ہیں۔ تم الفاظ ہو اور اولیاء اللہ معنی ہیں

تم ( کھلی کتاب کی طرح ظاہر ہو، اولیاء اللہ صاحب راز ہیں ۔ اولیاءالله انبیاء کرام علیہم السلام کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے افواج میں انبیاء کرام علیہم السلام کا بچا ہوا کھانا پینا انہیں اولیاء اللہ کے لئے ہے، ان کے علموں پر عمل کرتے ہیں ، اولیاء کرام انبیاء کرام کی خلافت کے لئے اہل ہیں  اور یہی اولیاء انبیاء کرام کے نیچے وارث ہیں ، رسول اکرم  ﷺ نے فرمایا: الْعُلَمَاءَ ‌وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ

” (باعمل ) عالم (ہی) نبیوں کے وارث ہیں “ ان علماء نے جب انبیاء کرام علیہم السلام کے علموں پرعمل کیا ، میدان کے خلیفہ اور وارث اور نائب ہو گئے۔تجھ پر افسوس ہے کہ یہ مقام صرف علم پڑھ لینے سے حاصل نہیں ہوتا ، جس طرح دعوے کا گواہوں کے بغیر کچھ فائدہ نہیں ، اس طرح علم کے بغیر عمل کچھ فائدہ نہیں، رسول اکرم  ﷺ نے فرمایا: ‘ ‌يَهْتِفُ ‌الْعِلْمُ بِالْعَمَلِ. فَإِنْ أَجَابَهُ وَإِلَّا ارْتَحَلَ

علم عمل کو بلاتا ہے۔ عمل اگر اسے جواب دے تو علم ٹھہر جا تا ہے ورنہ علم جاتا رہتا ہے، اور اس کی برکت جاتی رہتی ہے۔ وگرنہ خالی خولی پڑھنا پڑھانا باقی رہ جاتا ہے ۔ (یعنی) مغز (علم) چلا جا تا ہے اور چھلکا پڑارہ جا تا ہے۔ اے علم پڑھ کر عمل نہ کرنے والو! تم میں سے کوئی فصاحت و بلاغت سے عبارت آرائی کرتے ہوئے شعر کہتا ہے،جبکہ علم کے مطابق وہ عمل واخلاص سے خالی ہاتھ ہوتا ہے ۔ اگر دل مہذب ہو جائے تو باقی سب اعضاء بھی مہذب ہو جائیں کیونکہ دل اعضاء کا بادشاہ ہے، بادشاہ مہذب ہوتو رعایا بھی مہذب ہو جاتی ہے، علم چھلکا ہے اورعمل مغز – چھلکے کی حفاظت مغز کی حفاظت کے لئے ہے، مغز کی حفاظت اس لئے کہ روغن نکالا جائے ۔ اگرچھلکے میں مغز نہ ہو تو اس کا ہونا نہ  ہونا ایک سا ہے  اگر مغز میں روغن نہ ہو تو بھی بیکار ہے، علم تو جا تا رہا، کیونکہ جب اس پر عمل ہی نہ ر ہا تو علم نے تو جانا ہی ہے۔ ایسے علم کا سیکھنا سکھانا جس پرعمل نہ کیا جائے، کیا فائدہ دے گا۔اے علم والے! اگر تو دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو علم پر عمل کرو۔ لوگوں کو سکھاؤ ، اے مال دارو! اگرتم دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو اپنے مال میں سے کچھ فقیروں کو دے کر ان کی دل جوئی کر ، رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: الْخَلْقُ كُلُّهُمْ ‌عِيَالُ ‌اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَحَبُّهُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفَعُهُمْ ‌لِعِيَالِهِ’’انسان اللہ کا کنبہ ہیں ،اور انسانوں میں سے اللہ کوو ہی شخص پیارا ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع پہنچائے ۔‘‘ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے ایک دوسرے کا محتاج کر رکھا ہے، اس میں اس کی بہت سی حکمتیں ہیں ۔ اے مال والے! تو مجھ سے بھا گتا ہے کہ کہیں کچھ دینا نہ پڑے، میں تجھ سے تیرے ہی لئے لیتا ہوں، عنقریب اللہ تعالی مجھے بہت سامال عطا فرمائے گا، جو مجھے تم سے بے پرواہ کر کے تجھے میرا محتاج کر دے گا۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کسی فقیر میں جب بے صبری دیکھتے تو یوں دعا فرماتے : اللهم وسع علينا في الدنيا وزهدنا فيها ولا تزويها وترغبنا فيها فنهلك بطلبها ا للهم الطف بنا في أقضيتك واقدارك ’’الہی! ہم پر دنیا میں فراخی عطا فرما اور ہمیں اس میں بے رغبتی عنایت فرما، اسے ہم پر تنگ نہ کر کہ ہم اس میں رغبت کریں ، اور اس کی طلب میں ہلاک ہو جا ئیں ۔ الہی! اپنی قضاوقدر میں ہم پر لطف و کرم فرما

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 207،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 120دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں