اندھی بصیرت کی دلیل حکمت نمبر05
اندھی بصیرت کی دلیل کے عنوان سے باب اول میں حکمت نمبر05 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور چونکہ تدبیر اور اختیار میں کوشش اور مشغولیت، بصیرت کے ختم ہونے کی دلیل ہےاور دونوں کو ترک کر دینا، یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہو کر ان کا اختیار کرنا ، بصیرت کے کھلنے کی دلیل ہے۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسری علامت بیان فرمائی۔ جو بصیرت کے کھلنے یا ختم ہونے کی زیادہ واضح اور مشہور علامت ہے۔
چنانچہ فرمایا:
5) اجْتِهادُكَ فيما ضُمِنَ لَكَ وَتَقصيرُكَ فيما طُلِبَ مِنْكَ دَليلٌ عَلى انْطِماسِ البَصيرَةِ مِنْكَ.
تمہارے لئے جن اشیاء کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ ان کے لئے تمہاری کوشش کرنا ، اور جو چیزیں اس نے تم سے طلب کی ہیں۔ ان میں تمہاری کو تا ہی کرنا تمہاری بصیرت کے اندھی ہونے کی دلیل ہے ۔
بصیرت اور اس کی مختلف تعبیرات
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ بصیرت قلب کی آنکھ کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ بصر، سر کی آنکھ کو، پس بصیرت، حقیقت کو دیکھتی ہے اور بصر محسوس کو ۔
یا اس طرح کہو : بصیرت، لطیف کو دیکھتی ہے اور بصر، کثیف کو
یا اس طرح کہو بصیرت قدیم کو دیکھتی ہے اور بصر حادث کو
یا اس طرح کہو : بصیرت خالق کو دیکھتی ہے اور بصر مخلوق کو
پس جب اللہ تعالیٰ بندے کی بصیرت کو کھولنا چاہتا ہے تو اس کے ظاہر کو اپنی خدمت میں اور اس کے باطن کو اپنی محبت میں مشغول کرتا ہے۔ پھر جیسے جیسے باطن میں محبت اور ظاہر میں خدمت بڑھتی ہے۔ ویسے ویسے بصیرت کا نور طاقتور ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بصر پر غالب ہو جاتا ہے۔ اور بصر کا نور بصیرت کے نور میں غائب ہو جاتا ہے۔ لہذالطیف حقائق اور قدیم انوار میں سے جو کچھ بصیرت دیکھتی ہے۔ بصر بھی وہی دیکھتا ہے۔ حضرت شیخ الشیوخ مجذوب رضی اللہ عنہ کے اس قول کا یہی معنی ہے۔
غَيِبتُ نَظَرِى فِي نَظَرْ وَأُفْنِيتُ عَنْ كُلِّ فَانِي
حققت مَا وَجَدْتَ غير وَأَمْسَيْتُ في الحَالِ هَانِي
میں نے اپنی ظاہری آنکھ کو باطنی آنکھ میں گم کر دیا۔ اور کل فانی اشیاء سے میں فنا ہو گیا۔میں نے وہ حاصل کیا جو مجھے ملا سوائے اس کے اور میں فوری طور پر اپنے ہانی بن گیا۔
اور جب اللہ تعالیٰ بندے کو رسوا اور بدنصیب کرنا چاہتا ہے تو اس کے ظاہر کو مخلوق کی خدمت میں اور اس کے باطن کو اس کی محبت میں مشغول کر دیتا ہے۔ لہذاوہ ہمیشہ مخلوق ہی کی خدمت اور محبت میں مشغول رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی بصیرت کا نور ختم ہو جاتا ہے۔ اور بصر کا نور بصیرت کے نور پر غالب ہو جاتا ہے۔ لہذا وہ محسوسات ہی کو دیکھتا اور محسوسات ہی کی خدمت کرتا ہے۔ اور تقدیر میں مقرر شده روزی جس کی ذمہ واری اللہ تعالیٰ نے لی ہے اس کی تلاش میں کوشش کرتا ہے۔ اور ان فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی کرتا ہے۔ جن کے ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اس سے مطالبہ کیا ہے۔ اور اگر کوشش استغراق سے اور کوتا ہی ترک سے بدل جائے (یعنی کوشش اس درجہ پر پہنچ جائے کہ ہر وقت اس میں مشغول رہے اور فرائض کے ادا کرنے میں کوتا ہی اس درجے پر پہنچ جائے کہ وہ ترک ہو جائیں ) تو اسکی بصیرت اندھی ہو جاتی ہے ۔ اور یہی کفر ہے۔ میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔ اس لئے کہ دنیا طالوت کے نہر کی طرح ہے۔ اس سے صرف وہی شخص نجات پا سکتا ہے جو پانی نہ پئے ، یا صرف ایک چلو پئے ۔ وہ شخص نجات نہیں پاسکتاس جس نے اپنی پیاس کے مطابق شکم سیر ہو کر پی لیا۔ اس کو بخوبی سمجھو۔ یہ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔ حضرت شیخ ابوالحسن نے بیان فرمایا ہے : بصیرت، بصر کی طرح ہے ۔ آنکھ میں ذرا سی چیز پڑ جاتی ہے تو سخت تکلیف دیتی ہے۔ اور دیکھنے سے روک دیتی ہے۔ اگر چہ وہ اندھا نہ کرے۔ اسی طرح کسی شے کا وسوسہ بصیرت کے دیکھنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اور فکر کو مکدرکر دیتا ہے ۔ اور اس وسوسے پر عمل کرنے کا ارادہ بھلائی کو سرے سے ختم کر دیتا ہے اور اس پر عمل کرنا اس عمل کے موافق عمل کرنے والے کے اسلام کا ایک حصہ ختم کر دیتا ہے اور اسلام کی ضد کفر کو اسی مقدار میں لاتا ہے۔ پھر جب وہ ہمیشہ اس برائی پر قائم رہتا ہے۔ تو اس سے اسلام رخصت ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دنیاوی جاہ و مرتبہ کی محبت، اور آخرت کو ترک کر کے دنیا کی محبت میں ظالموں سے دوستی ، اور امت کی غیبت اور برائی میں مشغول ہو جاتا ہے۔ تو پورا اسلام اس سے نکل جاتا ہے۔ اور وہ اسلام سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہذا تم اس کے اسلام کے ظاہری رسوم سے دھوکا نہ کھاؤ۔ کیونکہ اس میں روح باقی نہیں ہے۔ اسلام اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے نیک بندوں کی محبت کا نام ہے۔ حضرت شیخ ابوالحسن کا کلام ختم ہوا۔