اولیاء کرام کی اتباع

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کے ملفوظات میں سے ہے۔

اولیاءاللہ کے اقوال وافعال میں اتباع کرو:

اے لوگو! اولیاء اللہ کے اقوال اور افعال میں اتباع کرو، ان کی خدمت میں رہواوراپنی جانوں اور مالوں سے ان کا قرب حاصل کروں ۔۔۔ جو کچھ تم ان کے سپرد کرو گے، وہ ان کے پاس تمہارے لئے محفوظ رہے گا کل ( روزمحشر ) تمہاری وہ امانتیں تمہارے حوالے کر دیں گئے ۔۔ تورزق میں وسعت کی تمنا کرتا ہے حالانکہ اللہ کے سابقہ علم میں اس کے لئے تنگی لکھی جا چکی ہے تجھ پر اس لئے ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے کہ تو ایسی چیز کے لئے سوال کرتا ہے جو تیرے نصیب میں نہیں لکھی گئی تودنیا کی طلب میں کب تک کوشش و حرص کر تار ہے گا ، حالانکہ قسمت میں لکھے سے زیادہ تجھے ملنے والانہیں۔ اولیاء اللہ کے قدم طاعت پر کھڑے رہتے ہیں ، ان کے دل خوف زدہ رہتے ہیں، جبکہ تم معصیت کے قدم پر کھڑے ہواورتمہارے دل کو کوئی خوف نہیں ۔ یہ خودفریبی ہے ، ڈرواس بات سے کہ کہیں اچانک گرفت میں نہ آ جاؤ اور تم فریب میں پڑے رہ جاؤ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسْتَعِينُوا عَلَى كُلِّ صَنْعَةٍ بِصَالِحِ ‌أَهْلِهَا

ہر کام میں اس کام کے ماہر اور صالح لوگوں سے مد دلیا کرو۔

یہ عبادت ایک بہت بڑا کام ہے، اس کے لائق اور اہل وہ لوگ ہیں

 جو عملوں میں اخلاص کر نے والے ہیں ،

شرعی احکام کے جاننے اوران پرعمل کرنے والے ہیں،

 اللہ کی معرفت کے بعد خلقت سے الگ ہو جانے والے ہیں ،

اپنی جانوں اور مالوں اور اولا داور سبھی ماسوا اللہ سے بھاگنے والے ہیں،

 در بارالہی میں اپنے دلوں اور باطنوں کے قدموں پر کھڑے رہنے والے ہیں،

ان کے جسم مخلوق کے درمیان آبادی میں ہوتے ہیں جبکہ دل جنگلوں اورچٹیل میدانوں میں ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ اس حالت میں رہتے ہیں ، حتی کہ ان کے دلوں کی پرورش ہو جاتی ہے، ان کے بازوؤں میں مضبوطی آ جاتی ہے،آسمان کی طرف پرواز کرنے لگتے ہیں، ان کی ہمتیں بلند ہو جاتی ہیں ، ان کے قلوب اڑنے لگتے ہیں اور اللہ کے قریب جا پہنچتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں سے ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:

وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ ‌الْأَخْيَارِ اور بے شک وہ ہمارے نزدیک کٹے ہوئے پسندیدہ ہیں‘‘۔

جب تیرا ایمان یقین کے درجے پر پہنچ جاۓ گا ،جب تیری معرفت علم بن جائے گی ، اور تو خدائی خدمت گار بن جائے گا اہل ثروت سے لے کر فقیروں کو دیا کرے گا ، پکوان خانہ تیرا ہو جائے گا، اور تیرے قلب و باطن کے ذریعے لوگوں کا رزق جاری ہوگا۔ اے منافق ! جب تک تو اس حال تک نہ پہنچےتجھ میں کوئی کمال نہیں ہوسکتا، تجھ پر افسوس ہے! تونے حکم وعلم کے جاننے والے کسی شیخ متقی ، زاہد وعالم کے ہاتھ پر تہذیب نہیں پائی۔

تجھ پر افسوس ہے کہ تو ایسی چیز کا طالب ہے جو تجھے ملنے والی نہیں، جب دنیا ہی بغیر کسی محنت و مشقت کے حاصل نہیں ہو سکتی تو اللہ کے پاس سے معرفت ولایت کسی ریاضت کے بغیر کیسے حاصل ہوسکتی ہے ۔۔۔ تیری ان لوگوں سے شناسائی کہاں ہے اور کیا نسبت ہے۔ اللہ تعالی نے ان کی کثرت عبادت کی اپنے کلام مقام قرآن مجید میں یوں تعریف فرمائی ہے۔

كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا ‌يَهْجَعُونَ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

وہ راتوں میں بہت کم سوتے اور رات کے پچھلے پہر استغفار کیا کرتے ہیں۔

 اللہ نے جب اپنی عبادت میں ان کی سچائی کو جان لیا تو ان کے لئے ایسی ایسی ہستیاں پیدا فرماد یں جو انہیں خبر دار کرتی ر ہیں ،اور ان کے بچھونوں سے انہیں اٹھاتی رہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی ، جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے: انے جبرائیل ! تو فلاں کو جگا کر کھڑا کر دے، اور فلاں کو سلادے۔

اس کے دومعنی ہیں:

 (1) ایک یہ کہ فلاں کو کھڑا کر کیونکہ وہ اپنی عبادت میں سچا ہے مخلوق سے بھاگنے والا ہے، اس سے تکلیف اور نیند کو دفع کر دے اور تو فلاں کو سلا دے کیوں کہ وہ نہایت جھوٹا اور منافق اور باطل در باطل اور سراسرلعنت کا مستحق ہے، اس پر اونگھ مسلط کر دے تا کہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنے والوں میں اس کا چہرہ نہ دیکھوں ۔

(2) دوسرے معنی یہ ہیں کہ اے جبرئیل ! فلاں کو اٹھا دو کہ وہ محبت اور طالب ہے، اور تکلیف اٹھانامحب اور محبت کی شرط ہے، اور فلاں کو سلا دے کیونکہ وہ محبوب ہے اور محبوب کے لئے راحت شرط ہے، وہ سلایا جا تا ہے اور اسے راحت دی جاتی ہے، کیونکہ اس نے عبادت میں دن کو رات سے ملا دیا ہے ،  اس نے اپنا اقرار اور وعدہ پورا کر دکھایا ہے اور اپنی محبت کو ثابت کر دیا ہے، چنانچہ جب اس نے اپناعہد واقرارصحیح کر لیا اور اسے پورا کر دکھایا، اب اللہ کے عہد کے پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے، کیونکہ وہ اپنی راہ میں دکھ اٹھانے والوں کا اپنی معیت میں راحت کا ضامن ہے۔

 اللہ کی راہ میں اولیاء اللہ کے قدموں کا سیر جب انتہاء پر پہنچ جاتا ہےتو وہ خواب میں دو چیزیں دیکھنے لگتے ہیں جو انہوں نے جاگتے نہ دیکھی تھیں۔

انہوں نے روزے رکھے اور نمازیں ادا کیں،

بھو کے رہے عزت گنوا کر اپنے نفسوں سے جہاد کیا۔

 طرح طرح کی عبادتوں میں رات دن ایک کر دیئے ۔ حتی کہ انہیں جنت حاصل ہوگئی ،

 جنت مل جانے کے بعد انہیں کہا گیا کہ راستہ یہ  نہیں اور ہے، اور وہ اللہ کی طلب ہے، چنانچہ ان کے اعمال ظاہری سے قلبی ہو گئے، اللہ تک پہنچ کر ان کے دل مضبوط اور راسخ قدم ہو گئے اور وہاں ٹھہر گئے۔جسے اپنے مطلوب کی خبر ہو جاتی ہے، اسے اللہ کی اطاعت میں اپنی قوتوں اور کوششوں کا خرچ کرنا آسان ہو جاتاہے، مسلمان ہمیشہ غم اور تکلیف میں ہی رہتا ہے جب تک کہ اللہ سے ملاقات نہیں کر لیتا۔

 مریدی کا دعوی اور شیخ پر بے اعتباری:

تجھ پر افسوس ہے کہ تجھے میرا مرید ہونے کا دعوی ہے اور اپنا مال مجھ سے چھپا کے رکھتا ہے، تو اپنے دعوے میں جھوٹا ہے، خود کو شیخ کی طرف نسبت کرنے کے اعتبار سے مرید کے لئے نہ قمیص ہوتی ہے نہ عمامہ اور نہ سونا اور نہ مال، وہ سب کچھ اپنے شیخ کا ہی جانتا ہے، وہ اس کے حکم سے اس کے طباق پر کھاتا پیتا ہے، وہ اپنی ذات سے فنا ہو جا تا ہے اور شیخ کے حکم ومنع کا منتظر رہتا ہے، وہ اس حکم ومنع کو اللہ کی طرف سے جانتا ہے، اور یہ بھی جانتا ہے کہ مرید کی سب مصلحتیں شیخ کامل کے ہاتھ پر ہوتی ہیں ، اس کی رسی کو بٹنا بھی اس کے اختیار میں ہے، اگر تو اپنے شیخ پر تہمت لگائے تو اس کی صحبت میں  نہ بیٹھے، اس لئے کہ اس حالت میں شیخ کی صحبت اختیار کرنا تیرے لیے درست نہ ہوگا ، اور نہ اسکا مرید ہونا تیرے لئے فائدہ مند ہوگا ، مریض اگر طبیب پر انگلی اٹھاۓ تو نہ اس کا معتقد ہوگا اور نہ اس کے علاج سے شفار بار ہوگا۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 574،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں