اٹھائیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اٹھائیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثامن والعشرون فی الحب فی اللہ ‘‘ ہے۔

 منعقده 9 جمادی الآ خر 545 مقام خانقاہ شریف

بلا پر صابر رہنا فقر پر شاکر رہنا شرط محبت ہے

رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا:

أنه جاء إليه رجل فقال له إني أحبك في الله عز وجل فقال له اتخذ البلاء جلبابا فاتخذ الفقر جلبابا لأنك تريد تتصف بصفتي تتصف بي لأن من شرط المحبة الموافقة ایک شخص آپ کے پاس حاضر ہوا، اس نے عرض کی کہ میں آپ سے اللہ کے لئے محبت رکھتا ہوں۔ تو آپ  ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فر مایا کہ ایک چادر بلا کی اور ایک چادرفقر کی بنالے کیونکہ تو میری صفت سے موصوف ہونا چاہتا ہے محبت کی شرط یہی ہے کہ مطلوب و محبوب سے سب طرح موافقت ہو جائے ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب حضرت محمد ﷺ کی محبت میں تصدیق کی تو آپ  ﷺ پر سب مال قربان کر کے آپ  ﷺ جیسے بن کر فقر میں شریک ہوئے ۔ ایک گودڑی سے گز رفر ماتے ، ظاہراور باطن ،اندراورباہر سے ہر طرح سے آپ کی موافقت کی ۔ اے جھوٹے تم نیک لوگوں اور اولیاء اللہ سے محبت کا دعوی کرتے ہو، اور ان سے اپنے درہم ودینار چھپاتے ہو اور چاہتے ہو کہ ان سے قربت اور مصاحبت حاصل ہو جائے ، عقل کر وایسی محبت جھوٹی ہے ، محبت والا اپنے محبوب سے کوئی چیزنہیں چھپا تا ،اسے ہر چیز پراختیار دے دیتا ہے۔ فقر رسول اکرم  ﷺ کے لئے لازم تھا اور آپ کے ساتھ لگا ہوا تھا، اور آپ سے الگ نہ ہوتا تھا، اسی  لئے آپ  ﷺ نے فرمایا: الفقر أسرع إلى من يحبنى من سیل الماء إلى منتهاه جو میری محبت کا دعوی کرتا ہے، فقر اس کی طرف پانی کے بہاؤ سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے۔‘‘ أم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فر مایا کہ جب تک رسول اللہ  ﷺ ہم میں (حیات رہے: دنیا ہم پر تنگ اور مکدر رہی ، جب آپ کا وصال ہو گیا تو دنیا ہم پر ایک دم برس پڑی چنانچہ فقر رسول اللہﷺ کی محبت کی شرط ہے اور بلامحبت الہی کی شرط ہے ۔ ایک ولی اللہ نے ارشادفرمایا:

وكل البلاء بالولاء كيلا يدعى محبة الله عز وجل مع كذبه ونفاقه وريائه – سب طرح کی بلامحبت کے ساتھ مسلط کر دی گئی تاکہ کوئی جھوٹا ،منافق اور ریا کار محبت کا دعوی نہ کرے۔ اے جھوٹے  تو اپنے دعوی اور جھوٹ سے باز آ، اپنے دماغ میں وسوسہ نہ لا  اگر تو سچائی کے ساتھ  اس میدان میں آیا  ہے تو بہتر ، ورنہ ہمارے پیچھے نہ لگ ، صراف کے پاس کھوٹے سکے نہ لے کے جا، وہ نہ لے گا بلکہ تجھے رسوا کریگا۔ سانپ اور درندے سے محبت نہ جتا، وہ دونوں تجھے مار ڈالیں گے۔ اگر تو (اماں حوا کی طرح) سانپ کا زہر اتارنے والا ہے تو بلا کھٹک سانپ کی طرف قدم بڑھا، اگر قوت و طاقت ہے تو درندے کے منہ میں ہاتھ ڈال- راہ سچائی کی محتاج ہے، اور سچائی کے ساتھ نور معرفت کی ضرورت ہے، ۔ معرفت کا آفتاب صدیقوں کے دلوں پر رات دن طلوع رہتا ہے کسی وقت غروب نہیں ہوتا۔

خلقت کے ہاں برائی ، خالق کے ہاں بھلائی :

بیٹا منافقین جو اللہ کے غصے کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ، ان سے رخ پھیر لے عقل سے کام لے اور بہت سے اہل  زر کے پاس نہ جا، وہ انسان کے لباس میں بھیڑیئے ہیں ، ۔ فکر کا آئینہ اٹھا اوراس میں دیکھ، اور اللہ تعالی سے دعا کر  کہ  تجھے اوران منافقوں کو اپنی ذات کی بصیرت عنایت فرمائے  میں نے مخلوق اور خالق کو دیکھ لیا ہے مخلوق کے پاس شر اور برائی پائی اور خالق کے ہاں خیر و بھلائی پائی ۔

دعا یہی ہے

اللهم سلمنا من شرورهم و رزقين خيرك دنيا واخرةالہی! ہمیں مخلوق کی شرارتوں سے سلامتی میں رکھے اور دنیا اور آخرت میں اپنی بھلائی عطا فرما۔

میں تمہیں اپنے لئے نہیں چاہتا بلکہ تمہیں تمہارے لئے چاہتا ہوں ، تمہاری رسیوں میں تمہارے لیے ہی بل دیتا ہوں اور مضبوط کرتاہوں، تم سے اگر کچھ لیتا ہوں وہ تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے، نہ کہ اپنے لئے ۔ مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے، مجھے تمہارے عطیوں کی کچھ پرواہ نہیں ،  میرے پاس نیک کمائی اور اللہ پر توکل ہے، میں تمہارے ہد یوں کے انتظار میں نہیں رہتا، جس طرح کہ ریا کار اور منافق منتظر رہتا ہے، جو کہ تم پر بھروسہ کر کے اللہ کو بھول جانے والا ہے ، میں تو اہل زمین کے لئے کسوٹی ہوں، عقل سے کام لو اور میرے سامنے اپنے کھوٹے مال کو نہ لا ، اللہ کی توفیق نے مجھے اس کا اہل کر دیا ہے کہ تمہارےکھر کے اور کھوٹے کی خوب پہچان کرسکوں،  اگر تم نجات چاہتے ہو تو میرے ہتھوڑے کا اہرن بن جا، تا کہ تمہارے نفس سے حرص اور عادت اور شیطان اور تمہارے دشمنوں اور برے ہم نشینوں کا سر کچل ڈالوں ، ان دشمنوں پر اللہ کی مد دچا ہو، — فاتح اور منصور وہی ہے جسے ان پر مدددی جائے اور محروم وہی ہے جوانہی کاہور ہے ، آفتیں بہت ہیں اور ان کے اتارنے والا ایک ہے، ۔بیماریاں کثیر ہیں طبیب ایک ہے، اے بیمارنفس والواپنے نفس طبیب کے حوالے کر دو، جو کچھ وہ کرے اس پر تہمت نہ دھرو، وہ تم پر تم سے زیادہ مہربان ہے، وہ تمہارے نفسوں سے بھی زیاہ تم پر مہربان ہے، اس کے سامنے بے زبان بن کر رہو، جھگڑانہ کرو، اس عالم میں تم دنیا اور آخرت کی بھلائی حاصل کر لو گے۔ اولیاء اللہ بڑی خاموشی اور بڑی گمنامی اور بڑی مدہوشی میں رہتے ہیں۔ جب وہ درجہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں ، اور وہ اس پر ثابت قدم ر ہیں ، تو اللہ تعالی انہیں قوت گویائی عطا فرما دیتا ہے، جس طرح کہ قیامت کے دن جمادات کو گویائی عطافرمائے گا ۔ اولیاء اللہ

نہیں بولتے جب تک بلائے نہ جائیں ۔ نہیں لیتے جب تک دیئے نہ جائیں ۔ نہیں خوش ہوتے جب تک خوش نہ کئے جائیں ۔ ان کا ہر کام اللہ کی رضا کے تابع ہوتا ہے، انکے دل ان فرشتوں کے دلوں سے مل گئے ہیں جن کے بارے میں ارشادباری ہے:

لَا ‌يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ جواللہ کی نافرمانی نہیں کرتے ، وہی کرتے ہیں جس کا حکم دیا جائے ۔ وہ فرشتوں سے جا ملے، اور  مرتبہ میں فرشتوں سے بڑھ گئےمعرفت الہی اور اس کے علم میں فرشتوں پرفوق ہو گئے۔

فرشتے ان کے تابعدار اور خادم ہیں ، وہ اولیاء اللہ سے فائدہ لیتے ہیں ، کیونکہ اہل اللہ کے دلوں پر  حکمتیں مسلسل  اترتی رہتی ہیں ، ان کے دل سب آفتوں سے محفوظ ہیں ۔ آفتیں ان کے اعضاء اور اجسام اور ان کی نفسوں پر آتی ہیں مگران کے دل سلامت رہتے ہیں ، اگر تم بھی ان کے مرتبہ ومقام کو پانا چاہتے ہو تو پہلے اسلام کی حقیقت کے بارے میں پو چھ ، اور اسے لازمی اختیار کر، پھر ظاہری اور باطنی گناہوں کو چھوڑ دواوران سے دور ہو جاؤ  پھر عمل تقوی اختیار کر، پھر دنیا کے حلال اور مباح میں بے رغبتی کرو پھر اللہ کے فضل کے ساتھ بے پرواہ ہو جاؤ ۔ پھر اس کے فضل میں زہد اور اس کے قرب میں بے نیاز ہو جاؤ ، جب اس کے قرب کے ساتھ بے نیازی تیرے لئے موزوں ہو جائے تو تم پر اس کے فضل کی بارش ہونے لگے گی ، تجھ پر ہر طرح کے دروازے کھول دے گا:

لطف کا دروازہ ، رحمت کا دروازہ، احسانوں کا دروازہ۔ پھر وہ تجھ پر دنیا کو تنگ کر دے گا ، پھر اس کی انتہا تک اسے فراخ کر دے گا، یہ وسعت اولیاء اللہ اور صدیقین میں سے کسی کو ہی حاصل ہوتی ہے، کیونکہ ان کی پر ہیز گاری اللہ تعالی کے علم میں ہے۔ کسی شے میں مشغولیت انہیں اللہ تعالی سے غافل اور جدا نہیں کرتی ، اکثر اولیاء اللہ پرد نیا تنگ ہی رہتی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالی انہیں اپنے ہی کیلئے فارغ رکھنا چاہتا ہے، اپنے قرب اور اپنی ہی طلب میں رکھتا ہے، وہ ہر دم اس کی طرف ملتفت رہتے ہیں ۔ ماسوی اللہ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں رہتا ۔ ( فرض محال ) اللہ تعالی اگر انہیں دنیا عطافرمادیتا تو وہ اس میں مشغول ہو کر اللہ تعالی سے غافل ہو جاتے ، اہل اللہ کے لئے فقر اور تنگ دستی اکثر غالب رہے ہیں، یعنی کشادگی اور فراخی ، ان کے لئے نادر و نایاب ہیں، اور نادر پرکسی طرح کا حکم نہیں لگ سکتا۔

حضور ﷺ کا زہد  نہایت ہی کامل ہے:

رسول اکرم  ﷺ انہی ( چنیدہ لوگوں میں سے ہیں کہ جن پر دنیا پیش کی گئی، آپ  ﷺ خدمت الہی میں لگے رہے اور دنیا میں مشغول نہ ہوئے ، کامل زہد اور کامل اعراض کی بناء پر آپ  ﷺ ونیاوی لذائذ کی طرف متوجہ نہ ہوئے ۔ آپ پر زمین کے کل خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں، آپ نے یہ کہتے ہوئے واپس کر دیں: رب أحيني مسكينا وامتني مسكينا واحشرني مع المساكين میرے رب! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ اورمسکین رکھ کرموت دینا،اورمسکینوں ( محتاجوں کے ساتھ میرا حشر فرمانا۔‘‘ آپ کا زہد نہایت ہی کامل ہے، ورنہ اپنی قسمت کے لکھے ہوئے کو ترک کرنے میں کون قادر ہے ایمان والاحرص کے بو جھ سے سکون میں رہتا ہے ، نہ حرص کرتا ہے نہ جلد بازی کرتا ہے، اپنے دل سے دنیاوی چیزوں کی خواہش نکال دینا ہے، اور باطن میں بھی ان سے بے پروائی کرتا ہے، اورحکم الہی کی تعمیل میں رہتا ہے، یہ سمجھ لوقسمت کا لکھا جا تا نہیں، خود طلب کرنے سے کیا فائدہ ہے، رزق خود بخود پیچھے چلا آ تا ہے، اور بڑی عاجزی سے قبولیت کر لینے کا سوال کرتا ہے۔

 اللہ کے راستے پر چلنے کے لئے ایمان کی ضرورت ہے:

بیٹا تمہیں ایسے ایمان کی ضرورت ہے جو اللہ کے راستے پر چلائے اورایسایقین جو تمہیں ثابت قدم رکھے، اس راستہ میں چلنے سے پہلے تمہیں مال وزر کی تھیلی کی ضرورت ہے، اور آخر کار ایمان کی حاجت ، بخلاف مکہ مکرمہ کو جانے والے راستہ کے۔ اس لئے کہ یہ راستہ ایمان اور مال وزر کے جمع کئے بغیر فرض نہیں ہوتا، اس راستہ پر ایمان کے بعد مال آنے پر چلنا ہوتا ہے،  بعض اولیاء اللہ نے فرمایا کہ  مکہ مکرمہ کا راستہ ایمان اور تھیلی کا محتاج ہے ۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آپ کی طالب علمی کا زمانہ تھا۔ اس کے ابتدائی دور میں آپ کی کمر سے پانچ سودینار کی تھیلی بندھی رہتی تھی۔ آپ اس میں سے خرچ کرتے اور علم سیکھتے تھے، اس پر ہاتھ مار کرفرمایا کرتے تھے۔

اگر تو نہ ہوتی تو لوگ مجھے پاؤں سے روند ڈالتے اور رومال بنا لیتے ۔“ جب آپ علم سیکھ کر فارغ ہوئے اور اللہ کی معرفت حاصل کر لی ، جتنے دینار بچے تھے ایک ہی دن میں فقیروں پر تقسیم کر دیئے اور فرمایا:

اگر آ سمان لو ہے کا بن جاۓ کہ بارش کی ایک بوند بھی نہ برساۓ ، اور زمین پتھر کی ہو جائے کہ سبزےے کاایک دانہ بھی نہ ا گائے ، اس پر بھی اگر میں رزق کی فکر کروں تو میں پکا کافر ہوں۔ نیک کمائی اور سب کے ساتھ تعلق کولازم جانو ، اس کے بعد جب ایمان قوی ہو جائے ، پھر سبب کو چھوڑ کر مسبب کی طرف چلا آ ۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام ابتدائی احوال میں کسب کر تے رہے اور قرض بھی لیتے رہے، اور اسباب کے ساتھ پابند بھی رہے۔ آخرکار تو کل اختیار کیا۔ ابتدائی اور انتہائی احوال میں انہوں نے کسب اور توکل کو شرعی اور حقیقی طور پر جمع کیا وہ دونوں کے جامع رہے۔

کسب چھوڑ کر لوگوں کے مال اور اسباب پر بھروسہ نہ کر

 اے محروم! اپنے ہاتھ سے کسب کو چھوڑ کر لوگوں کے مال واسباب پر بھروسہ نہ کر ، کہ ان سے بھیک مانگے اور قدروں کی نعمت کی ناشکری کرے ۔ کیونکہ اللہ تعالی غضب ناک ہوکرتجھے اپنے سے دور کر دے گا ، کسب کاچھوڑ دینا اور لوگوں سے بھیک مانگناہی بندے کے لئے عذاب الہی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی جب حکومت جاتی رہی تو اللہ تعالی نے انہیں کئی طرح سے آزمایا۔ ان میں ایک آزمائش لوگوں سے بھیک مانگنا بھی تھا ۔ اپنے دور حکومت میں آپ کسب کر کے کھاتے تھے۔ اللہ تعالی نے جب ان پرتنگی کی توحکومت سے باہر نکال دیئے گئے ، رزق کے سب ذرائع محدود کر دیئے گئے ، یہاں تک کہ لوگوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ،  اس آزمائش کا سبب یہ تھا آپ کے محل میں ایک عورت آپ سے در پردہ چالیس دن تک بت پرستی کرتی رہی ، لہذا اس کے بدلے میں آپ کو ایک دن کے بدلے ایک دن‘‘ چالیس دن تک قید میں رکھا گیا، اولیاء اللہ جب تک اللہ سے ملاقات نہ کر لیں تب تک نہ ان کے غم کو خوشی نصیب ہوتی ہے، نہ ان کے سر سے بوجھ اترتا ہے،  نہ ان کی آنکھوں کو قرار آ تا ہے،  نہ ان کی مصیبت کو تسلی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی سے ان کی ملاقات دوقسم کی ہے: ایک دنیا میں ، ان کے دلوں اور باطنوں کے لئے یہ بہت نادر ہے۔ دوسری آخرت میں ، جب اپنے رب سے ملاقات کریں گے تو انہیں راحت اور خوشی حاصل ہوگی اس سے پہلے ہمیشہ مصیبتوں میں پڑے رہے۔ اس کے بعد حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے نفس کے بارے میں کچھ کلام فرما کر ارشاد کیا ، بیٹا نفس کو  شہوتوں اور لذتوں سے روکو اسے   پاک روزی کھلاؤ ، جو کہ پلید نہ ہوں۔   نفس کو حلال غذا کھلاؤ  تا کہ وہ  نفس غرور  میں نہ آ جائے اور ناک منہ چڑھا کر بے ادب نہ ہو جائے ، دعا یہی ہے: اللهم عرفنا بك حتى تعرفك آمين الہی! ہمیں اپنی معرفت عطا فر ما تا کہ ہم تجھے پہچان لیں ۔ آمین!‘‘-

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 199،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 117دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں