اکسٹھویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکسٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الحادی والستون فی خواطر الانسان‘‘ ہے۔

  منعقده20/ رجب546ھ بمقام مدرسہ قادر یہ

گزرتے ہیں دل میں خطرات کیا کیا:۔

کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ دل میں گزر نے والے خطرات کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:” تجھے کیا خبر یہ خطرے کیا ہیں تیرے دل میں جو خطرے آتے ہیں وہ شیطان اور عادت اور حرص اور دنیا سے ہیں، تیری فکر وہی ہے جو تجھے غم میں ڈالے، تیرے خطرے بھی تیری فکر کی جنس سے ہیں ، تو جیسے عمل کرے گا ویساہی خطرہ سر  اٹھائے گا، جو خطرہ اللہ کی طرف سے ہے وہ ایسے دل میں آتا ہے وہ ایسے دل میں آتا ہے  جوما سوا اللہ سے خالی ہوں ۔ جیسے کہ ارشاد باری ہے: أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا ‌مَتَاعَنَا عِنْدَهُ   ہم اس کو پکڑتے ہیں جس کے پاس ہمارا مال اسباب ہے۔ جب تیرے پاس اللہ اور اس کا ذکر ہوگا تو تیرا دل ضرور اس کے قرب سے سیراب ہو گا اور شیطان اور حرص اور دنیا کے خطرے تیرے پاس سے بھاگ جائیں گئے، ایک خطرہ دنیا کا اور ایک خطرہ آخرت کا ، ایک خطرہ فرشتے کا اور ایک خطرہ نفس کا، ایک خطرہ دل کا اور ایک خطرہ اللہ کا چنانچہ صادق کے لئے ضروری ہے کہ سب خطرے دفع کر کے صرف اللہ کے خطرے پر ٹھہرے، جب تو نفس کے خطرے اور مرض کے خطرے اور شیطان کے خطرے اور دنیا کے خطرے سے منہ موڑے گا تو آخرت کا خطرہ آۓ گا ، پھر فرشتے کا خطرہ ، آخر کار اللہ کا خطرہ آئے گا اور یہی مقصودحقیقی ہے ۔ جب تیرادل صحیح ہو جائے گا تو اس خطرے کے پاس ٹھہرے گا اور اس سے کہے گا: تو کون سا خطرہ ہے اور کہاں سے ہے؟‘‘ ۔

اس کا جواب دے گا۔ میں فلاں فلاں خطرہ ہوں ، میں اللہ کا خطرہ ہوں اور اس کی طرف سے آیا ہوں ۔ میں تیرا خیر خواہ اور دوست ہوں تو اللہ کا محبوب ہے، اس لئے میں بھی تجھے محبوب رکھتا ہوں، میں اللہ کا سفیر ہوں ، اور نبوت کے حال میں سے تیرا نصیب ہوں ۔

معرفت الہی ہر بھلائی کی جڑ ہے: اے بیٹا تو اللہ کی معرفت کی طرف دھیان دے کیونکہ وہ ہر بھلائی کی جڑ ہے، تو جب اس کی کثرت سے اطاعت کرے تو تجھے اپنی معرفت عطافرمادے گا ،اس لئے رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: بندہ جب اللہ کی فرماں برداری کرتا ہے تو اللہ سے اپنی معرفت عطا کرتا ہے۔ اگر بندہ اس کی اطاعت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس سے اس معرفت کو واپس نہیں لیتا بلکہ اس کے دل میں باقی رہنے دیتا ہے تا کہ روز قیامت اس کے خلاف حجت قائم فرمائے ، اور اس سے یہ کہے : ”میں نے تجھے اپنی معرفت کے ساتھ دوسروں میں اعزاز بخشا تھا، اس کے ذریعے تجھے فضیلت عطا کی تھی تو نے اپنے اس علم پرعمل کیوں نہ کیا۔‘‘

اللہ کی جو نعمت میسر آئے اس کا اظہار کر:

اے بیٹا! تیرے نفاق اور فصاحت اور خوش بیانی، تیرے زرد چہرے اور تیرے پیوند لگے لباس اور مونڈھے سیکڑ لینے اور رونے پیٹنے سے اللہ کے ہاں سے تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا ۔ یہ ساری باتیں تیرے نفس اور تیرے شیطان اور مخلوق کو اللہ کا  شریک ٹھہرانے اور اس سے دنیا طلب کرنے کے باعث پیدا ہوئیں ، ذراسوچ! اس کے بعد کچھ وقفے کے بعد آپ نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: اللہ ان سے راضی ہو اور وہ انہیں ہم سے راضی کر دے ،اپنے مولی کے ساتھ ان کا قرب لمحہ بہ لمحہ زیادہ ہو، تو اپنے نفس کوحقیر سمجھتے ہوئے اپنے امر کو چھپائے رکھ، اور اس پر اس طرح سے قائم ہو جا کہ تجھ سے کہا جائے کہ تو اپنے رب کی نعمت کوبیان کر ۔ حضرت ابن شمعون رحمۃ اللہ علیہ سے جب کوئی کرامت ظاہر ہوتی تو فرمایا کرتے کہ یہ دھوکا ہے،  یا شیطان کی طرف سے وسوسہ ہے، اور ہمیشہ ان کا یہی معمول رہا حتی کہ آپ سے کہا گیا: تم کون ہو اور تمہارا باپ کون ہے، تم پر ہماری جونعمتیں ہیں انہیں بیان کیا کرو۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے مناجات میں اللہ تعالی سے عرض کیا: اے رب! مجھے کچھ وصیت کر ۔۔۔‘‘ آپ کو کم الہی ہوا۔

أوصيك بي وبطلبی میں اپنی اور اپنی طلب کی وصیت کرتا ہوں ‘‘ حضرت موسی علیہ السلام نے چار بار عرض کیا اور ہر بار یہی ایک جواب ملا ، اللہ تعالی نے ان سے یہ نہ فرمایا کہ تم دنیا طلب کرو، اور نہ یہ فر مایا کہ:” تم آ خرت طلب کرو‘‘، انہیں ہر بار گویا یہی ارشاد ہوتا تھا۔ میں اپنی اطاعت کرنے اور نافرمانی چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں ، – میں اپنے قرب کے طلب کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، اور – اپنی توحید اور اپنے لئے عمل کرنے کی وصیت کرتا ہوں، ‘

 میں اپنے ماسوا کو چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں ، دل جب صحیح ہو جا تا ہے اور وہ اللہ تعالی کو پہچان لیتا ہےتو وہ غیراللہ کوبرا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ مانوس ہوتا ہے اور غیر اللہ سے وحشت محسوس کرتا ہے ۔ وہ اللہ کی معیت میں راحت پا تا ہے اور اس کے غیر کی معیت میں تکلیف اٹھاتا

اللهم اشهدلي ابي مبالغ في مواعظ عبادك مجتهد في صلاحهم انا ناحية عن جميع ما أنا فيه آنا خارج عنه كخروجكم عنه من حيث المعنى والسر لاكرامة لي أن أكون معه في شيء من تدبیرہ و تصاریفہ الہی! تو گواہ رہنا کہ میں تیرے بندوں کو ضرورت سے زیادہ نصیحت کرنے والا ہوں ، اور ان کی اصلاح و بھلائی میں کوشش کرنے والا ہوں ،  میں جن چیزوں میں مشغول ہوں سب سے الگ ہوں، ان کے معنی اور باطن کے اعتبار سے ان سے خارج اور جدا ہوں جیسے (سامعین ) تم باہر ہو۔ میں اگر کسی چیز میں اس کی تد بیراور تصرفات میں کسی طرح کا دخل دوں تو میرے لئے اس میں کوئی کرامت نہیں ۔

 اے خانقاہوں میں بیٹھنے والو!

اے گوشہ تنہائی سجانے والو! آؤ میرے وعظ وکلام سے لطف اٹھاؤ خواہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو، میری صحبت میں ایک دن یا ایک ہفتہ ر ہوتا کہ اپنے فائدے کی کوئی بات سیکھ لو ۔ تم پر افسوس! تم میں سے اکثر طمع ہی طمع ہیں ، تم اپنے خلوت خانوں میں بیٹھ کر مخلوق کی پوجا کرتے ہو، یہ بات خلوتوں میں جہالت کے ساتھ بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوتی ،لہذا جہالت چھوڑ دو۔ تم پر افسوس تو علم اور باعمل علماء کی طلب میں اتناسفر کر کہ تجھ میں مزید چلنے کی سکت نہ رہے، جب تو لا چار ہو جائے تو بیٹھ جا، پہلے اپنے ظاہر کے ساتھ سیر کر، پھر دل اور باطن کے ساتھ سیر کر ۔ جب تو ظاہر و باطن کے لحاظ سے تھک کر ٹھہر جائے ، قرب الی اللہ تیرے پاس آ جاۓ گا تو اس سے واصل ہو جاۓ گا ، چلتے چلتے دل کے قدم جب تھک جائیں اور چلنے میں قوتیں جواب دے دیں تو یہ اللہ سے قرب کی علامت ہے، اس مقام پر پہنچ کر تو خود کو اس کے سپرد کر دے اور اس کے دروازے پر کھڑارہ ، وہ تیرے لئے اس میں خانقاہ بنادے، یا تجھے ویرانے میں بٹھا دے، یا پھر تجھے آبادی کی طرف لوٹا دے ، تو دنیا و آخرت اور جن دانساں ، اور فرشتوں اور روحوں کو تیری خدمت کے لئے مقرر کر دے گا ۔ بندے کا جب قرب صحیح ہو جاۓ تو اللہ کی طرف سے اسے ولایت اور نیابت مل جاتی ہے، سب خزانے اس کے سامنے پیش کر دیئے جاتے ہیں ، زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے ،سب اس کی شفاعت کرتے ہیں ، کیونکہ اسے

بادشاہ کے ہاں قرب کا مرتبہ مل چکا ہے۔ باطن وحقیقت کی صفائی مل چکی ہے،  قلب کی نورانیت حاصل ہو چکی ہے تو دل کی صفائی حاصل کرتا کہ اسلام اور ایمان تیرے پاس فقط عاریتاً  ہی نہ ہوں، اس سے تیرا خوف اور روزہ ونماز اور شب بیداری بڑھ جائیں گے، اس سے اولیاء اللہ :حیران ہو کر منہ کے بل جا گرے،وحشی ، جانوروں میں جا ملے،جنگلوں کی گھاس پر ان کے مزاحم ہوۓ، تالابوں کے پانی پر جھگڑے،آفتاب ان کا سایہ بن گیا ، چاند تارے ان کا چراغ بن گئے ، انہوں نے بکواس کرنا ، بے مقصد بات چیت کرنا اور مال کا ضائع کرنا چھوڑ دیا، پڑوسیوں اور دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں کے پاس بے وجہ نہ بیٹھو، کیونکہ یہ سراسر حرص ہے، جھوٹ اور غیبت اکثر دو بندوں کے ملنے سے ہوتی ہے، اور معصیت بھی دو بندوں کے درمیان پوری ہوتی ہے، تم میں سے کوئی آ دمی اپنے گھر سے بغیر ضرورت کے نہ نکلا کرے، خواہ اس کی مصلحت کے متعلق ہو یا اس کے اہل وعیال سے متعلق ہو ۔ تو اس بات کی کوشش کر کہ پہلےتجھے بات نہ کرنی پڑے، بلکہ تیری گفتگو دوسرے کی بات کے جواب میں ہو،  اگر کوئی سوال کر ہے، اس کے جواب میں اگر تیری یا اس کی مصلحت ہوتو جواب دے ورنہ خاموش رہ ، اولیاء اللہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں، جو کام بھی کرتے ہیں انکے دل میں خوف رہتا ہے ۔ اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں دھو کے میں ان سے پوچھ گچھ نہ ہو، اس سے ڈرتے ہیں کہ ان کا ایمان ان کے لئے عاریت نہ ہو ، ان میں سے گنے چنے بندوں پر اللہ کی طرف سے احسان وانعام ہوتے ہیں، ان کے دل اس کے قرب کے دروازے میں داخل ہو جاتے ہیں ، انہیں اندر داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے، اللہ ان کا والی ومددگار ہوتا ہے، اور انہیں سرداری عطافرمادیتا ہے، انہیں اپنے اولیا ء وابدال اورچنے ہوۓ بندوں میں سے بنالیتا ہے، انہیں اپنے بندوں کا رہبراور بادشاہ بنا لیتا ہے، انہیں زمین میں اپنانائب اور خلیفہ بنادیتا ہے، وہ خلافت کے فرائض انجام دیتے ہیں، اللہ تعالی انہیں خاصوں میں سے برگزیدہ کرتا ہے۔ انہیں اپناعلم سکھاتا اور اپنے حکم سے بلواتا ہے، اپنی کرامت سے مکرم کرتا اور اپنی مدد سے کامران کرتا ہے، ان کا نفع و نقصان انہیں سمجھا دیتا ہے، ان کے دلوں میں ایمان کے قدم مضبوط کرتا ہے، ان کے ایمان کے سر پر معرفت کا تاج رکھتا ہے، تقدیر ان کی خادم بن جاتی ہے، انسان اور جن اور فرشتے اس کے سامنے دست بستہ حاضر ہیں، اللہ کے فرمان ان کے دلوں اور باطنوں میں آتے رہتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک مستقل بادشاہ ہے ، اور اپنے ملک کے آستانے کے تخت پر بیٹھا ہے، خلقت کی اصلاح کے لئے اپنا لشکر زمین میں پھیلاتا ہے اور یہ کہ شیطان کے کام بکھرتےرہیں۔

اللہ والوں کا مقصودعبادت اور ترک عادت ہے:

اے لوگو! اولیاء اللہ کے نقش قدم پر چلو تمہارا مقصد فقط کھانا اور پینا اور پہننا اور نکاح کرنا اور دنیا کا جمع کرنا نہ ہو ۔ بہت ذلیل اور کمینہ مقصد ہے۔ اللہ والوں کا مقصودعبادت اور ترک عادت ہے ، اللہ کا دروازہ تلاش کر واوروہیں خیمہ لگا دو، آفتوں سے ڈر کر اس کے دروازے سے نہ بھا گو، و ہ مصیبت و آفت اور مرض اور تکلیف بھیج کر تمہیں آگاہ کرتا رہتا ہے کہ تم اسے طلب کرتے رہو اور اس کا دروازہ نہ چھوڑو، ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جنہیں خبط ہو گیا ہے اور نہیں جانتے کہ اللہ ان سے کیا چاہتا ہے، اس کی عبادت کرو اور عبادت میں اخلاص پیدا کرو، کیا تم نے سنانہیں، ارشاد باری ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ”میں نے جن اور انسان کو عبادت ہی کے لئے پیدا کیا ہے۔

جب تم نے اس بات کو سمجھ لیا اورسچ جان لیا تو اس کی عبادت کو کیوں چھوڑتے ہو، اور اس کی راہ میں حواس کھوۓے ادھر ادھر کیوں بھٹکتے پھرتے ہوں، جو بندہ اللہ کی عبادت نہیں کرتا، وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہیں اپنے پیدا ہونے کے مقصد کا پتہ نہیں، اور جولوگ حقیقت اور تحقیق میں ثابت قدم ہیں، انہیں بخوبی علم ہے کہ وہ عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ۔ اور یقینا وہ مر یں گے اور پھر زندہ کئے جائیں گے، چنانچہ وہ عبادت کر کے اپنی بندگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔

 کئی باطنی امور ہیں جن کا کشف وصول حق کے بغیر نہیں ہوتا:

اسے بیٹا! وہاں کئی باطنی امور ہیں جن کا کشف وصول حق کے بغیر نہیں ہوتا ، اس طرح کہ اس کے دروازے پر ڈیرہ ڈال دے، اور اس کے منتخب بندے اور نائب جو وہاں کھڑے رہنے والے ہیں ان سے ملاقات کرے،  جب تو اللہ کے دروازے پرپہنچ جائے گا اور حسن ادب کے ساتھ سر جھکائے ہمیشہ وہاں کھڑارہے گا تو تیرے دل کی جانب قرب کا دروازہ کھول  دیا جاۓ گا ، ا اور اسے

کھینچنے والا کھینچ لے گا۔ مقرب بنانے والامقرب بنا لے گا۔ – آرائش کرنے والا آ راستہ کر دے گا ،

سلانے والا سلا دے گا ، -سرمہ لگانے والا سرمہ لگادے گا – زیور پہنانے والا زیور پہنا دے گا۔

 کشادگی دینے والا کشادگی دے گا، امن دینے والا ،امن دے گا۔ بات کرنے والا بات کرے گا، کلام کرنے والا ،کلام کرے گا ،اے نعمتوں سے غافل رہنے والو! تم کہاں ہو، جس امر کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، کس نے تمہارے دلوں کو اس سے دور کر دیا ہے۔ تمہارا خیال ہے کہ یہ امر آسان ہے اور تکلف اور بناوٹ اور نفاق سے حاصل ہوسکتا ہے ۔ یہ امر تو سچائی اور تقدیر کے ہتھوڑوں پر صبر کا محتاج ہے،۔

اگر توغنی ہوکر عافیت وتندرستی سے اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، پھر سب گنا ہوں اور ظاہری و باطنی لغزشوں سے توبہ کرے اور جنگلوں بیابانوں میں نکل جائے اور اللہ کی ذات کا طالب ہو تو اس وقت تیری آزمائش کا سمے ہو جاۓ گا ، تجھ پرمصیبتیں آئیں گی ، اس وقت تیر انفس دنیا کی لذتوں اور عافیت کا تمنائی ہوگا ، اس کی کوئی بات نہ ماننا اور نہ اسے کوئی حصہ دینا ، اگرتو : نے صبر سے کام لیا تو دنیاو آخرت کی حکومت مل جائے گی ، اور اگر صبر سے کام نہ لیا تو تجھے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔ اے تو بہ کرنے والے! ثابت قدم رہ اور اخلاص پیدا کر ، اپنے نفس کو حالت کے بدلنے اور بلاؤں کے اترنے پرثابت قدم رکھ، اور اس پر یہ واضح کر دے کہ – اللہ تعالی راتوں کو جگاۓ گا ، اور دن بھر بھوکارکھے گا ، اس کے اور اس کے اہل وعیال اور پڑوسیوں اور جان پہچان والوں کے بیچ میں تفرقہ پڑے گا ، ان کے دلوں میں تیری طرف سے نفرت اور عداوت آۓ گی ، کوئی نزدیک آۓ گا اور نینز دیک ہونے دے گا ،

قصہ حضرت ایوب علیہ السلام :

کیا تو نے حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ نہیں سنا، کہ اللہ تعالی نے جب ان کی محبت اور برگزیدگی کو پرکھنے کا ارادہ فرمایا اور یہ کہ ان میں غیر اللہ کا کچھ حصہ نہ ر ہے،  انہیں ان کے مال اور اہل وعیال اور خادموں سے کس طرح جدا کر دیا ، اور انہیں آبادی سے باہر ویرانے میں کچرے کے ڈھیر پر بٹھا دیا ۔ اہل خانہ میں سے انکے پاس بیوی کے سوا کوئی نہ رہا۔ وہ لوگوں کی خدمت کر کے آپ کا پیٹ پالتی تھیں۔ پھر ان کا گوشت اور کھال اور قوت بھی نہ رہے، لیکن آ نکھ اور کان اور دل باقی رہے، جس میں اللہ کی قدرت کے عجائبات نظر آتے تھے، آپ:

 زبان سے اللہ کا ذکر کرتے ، دل سے اس کی مناجات کرتے ۔آنکھوں سے عجائبات قدرت کا نظارہ کرتے ، روح بدن سےکبھی نکلتی اور کبھی داخل ہوتی ، فرشتے ملنے کو آتے اور آپ پر درود بھیجتے انسان آپ سے جدا ہوۓ تو انس الہی سے جاملے، آپ سے قوت اور طاقت اور اسباب منقطع ہوۓ ، اور خود اس کی محبت اور تقدیر اور قدرت اور ارادہ الہی اور علم الہی کے اسیر ہو کر رہ گئے ،شروح میں آپ کا کام فقط صبر کرنا تھا، جومخفی تھا۔ بعد میں ظاہر ہو گیا۔ شروع میں تلخ تھا، بعد میں شیریں ہو گیا، یہ تکلیف ومصیبت کی زندگی آپ کے لئے لطف کا باعث بن گئی جس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نارنمر ودلطف کا باعث بن گئی تھی ۔

اولیاءاللہ بلا پر صبر کے عادی ہیں :

اولیاء اللہ بلا پرصبر کرنے کے عادی ہیں تمہاری طرح پریشان و بے قرار نہیں ہوتے ،  بلائیں طرح طرح کی ہوتی ہیں، کوئی بدن میں کوئی دل میں اور کوئی مخلوق کے ساتھ ۔ اور جو تکلیف نہ اٹھاۓ اس کے لئے بھلائی نہیں ، بلائیں اللہ کے مکڑے ہیں۔

عابد وزاہد کا مقصود نیا میں کرامتیں اور آخرت میں جنتیں ہے، عارف کا مقصود دنیا میں ایمان کی بقا اور آخرت میں اللہ کی آگ سے نجات و خلاصی ۔ عارف ہمیشہ اس نعمت وخواہش میں رہتا ہے۔ حتی کہ اس کے دل کو اللہ کی طرف سے کہا جا تا ہے ۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے ، سکون کر اور ثابت قدم رہ ، تیرے پاس ایمان قائم ہے، اور دوسرے مسلمان اپنے ایمان کے لئے تجھ سے نور حاصل کرتے ہیں۔ قیامت کے دن تیری سفارش قبول کی جاۓ گی ، تیرا کہا قبول ہوگا، تیرے ذریعے بہت سی مخلوق کو دوزخ سے نجات ملے گی ، تو اپنے نبی کریم ﷺکے سامنے ہوگا جو شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔“ اسے چھوڑ کر کسی اور کام میں نہ لگ، یہ تیرے پاس ایمان کی بقا اور معرفت اور عاقبت میں سلامتی کا پروانہ ہے، تمہاری سنگت نبیوں اور رسولوں اور صدیقوں کے ساتھ ہے جومخلوق  میں برگزیدہ ہیں ، جتنی بارا سے امن کا یقین دلایا جائے اس کا خوف اور حسن ادب اور شکر کی کثرت بڑھتی جاتی ہے، اولیاء اللہ نے ان فرمانات الہی کے معنی سمجھ لئے ہیں: ‌يَفْعَلُ ‌مَا يُرِيدُ – جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘ – لَا يُسْأَلُ عَمَّا ‌يَفْعَلُ ‌وَهُمْ يُسْأَلُونَ  وہ جو چاہے کرے کوئی پوچھنے والانہیں اور انہیں پوچھا جائے گا۔‘‘

وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

“تمہارا چاہنا کیا ہے مگر جو کچھ سارے جہانوں کا رب ۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ جو کچھ چاہے کر لینے والا ہے مخلوق جو چاہےنہیں ہوتا اور اللہ کی ذات كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍہ  ہ ہرایک دن نئی شان میں ہے ۔ آگے اور پیچھے کرتا ہے، بلند اور پست کرتا ہے، عزت اور ذلت دیتا ہے، معزول کرتا اور حاکم بنا تا ہے۔  مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے، فقیر اورغنی کرتا ہے۔ کسی کو دینا اور روکتا ہے۔

 اولیاء اللہ کے دلوں کو اللہ کے ساتھ قرارنہیں ہے ، ڈرتے رہتے ہیں، وہ ان میں تغیر وتبدل کر تا رہتا ہے ۔ انہیں نزدیک اور دور کرتا ہے، انہیں اٹھاتا ہے اوربٹھا تا ہے۔ کبھی عزت اور کبھی ذلت دیتا ہے، کبھی عطا کرتا اورکبھی روکتا ہے۔

اولیاءاللہ کے حال بدلتے رہتے ہیں اور وہ سچی بندگی اور حسن ادب کے ساتھ آستانہ الہی پر سر جھکائے رہتے ہیں  ۔ اللهم ارزقـنـا حـسـن الأدب معك ومـع خـواصـك مـن خـلقك لا تبتلنا بالتعلق بالأسباب والإعتماد عليها ثبت علينا توحيدنا لك وتوكلنا عليك يقينا بك ورد الحوائج إليك لا تبتلنا بأقوالنا وأعمالنا ولا تؤاخذنا بها عاملنا بكرمك و تجاوزك و مساحتك . امين الہی ہمیں اپنے ساتھ اور اپنی مخلوق میں سے خاص بندوں کے ساتھ حسن ادب عنایت فرما، اور ہمیں اسباب کے ساتھ متعلق ہوجانے میں اور ان پر اعتماد کر لینے میں مبتلا نہ کر دینا ۔ اپنی توحید ہمارے لئے ثابت رکھ، اور اپنے پر توکل اور اپنے ساتھ غنا اور اپنی طرف حاجتیں قائم کر ہمیں ہمارے اقوال اور اعمال پر نہ چھوڑ ، اور ان کے باعث ہمارا مواخذہ نہ کر ۔ ہمارے ساتھ اپنے کرم اور درگزر اور چشم پوشی کا معاملہ فرما۔

اللہ کے راستے میں مخلوق ہے نہ سبب ، نہ اپنی شناسائی ہے نہ کوئی جہت ، نہ کوئی دروازہ اور خلقت کا وجود، چنانچہ بدن دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور دل آخرت کے ساتھ ، اور باطن مولی کے ساتھ ،  باطن دل پر حاکم ہے اور دل نفس مطمنہ پر،نفس مطمئنہ بدن پر حاکم ہے اور اعضاء خلقت پر، بندے کے لئے جب یہ حال صحیح  اور کامل ہو جائے تو انسان اور جن اور فرشتے اس کے قدموں تلے خدمت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ خودقرب کی مسند پر بیٹھا ہوتا ہے۔

کسی ایسے شیخ کی صحبت میں رہو جو اللہ کے حکم اور علم کا جاننے والا ہو: ۔

 اے منافق یہ مقام تیرے نفاق اور بناوٹ کے ساتھ ہاتھ نہ لگے گا۔

تو اپنی عزت کی پرورش کر رہا ہے ۔تو مخلوق کے دلوں میں اپنے مقبولیت کی پرورش کر رہا ہے ۔

تواپنی دست بوسی کرانے کی پرورش کر رہا ہے۔ تو اپنے نفس پر دنیا وآخرت میں، اور جن کی پرورش کر کے تو انہیں اپنی اتباع کرنے کا حکم دے رہا ہے، سب کے لئے شامت ہے تو دکھاوا کرنے والا ، دجال اور لوگوں کے مال پر نظر رکھنے والا ہے ۔ اس لئے تیری دعا قبول نہیں اور نہ صدیقوں کے دلوں میں تیری جگہ ہے، اللہ نے تجھے علم پر بہکا دیا ہے، گرد جب بیٹھ جاۓ گی تو جلد ہی تجھے خبر ہو جاۓ گی کہ تیرے نیچے گھوڑا تھا یا گدھا،  جب غبار دور ہو جائے گا تو تو دیکھے گا کہ اولیاءاللہ گھوڑوں اور بختی اونٹوں پر سوار ہیں اور تو یک شکستہ حال گدھے پر سوار ہے، ۔ تجھے شیطانوں اور ابلیسوں کے شریر وسرکش پکڑ لیں گے، کوشش کرو کہ تمہارےد لوں سے اس کے قرب کا دروازہ بند نہ ہو، تم کسی قابل قدر چیز پرنہیں ہو کسی ایسے شیخ کی صحبت میں رہو، جو اللہ کے حکم اور علم کا جاننے والا ہو، اور تمہیں اس کا راستہ بتائے ،  جو کسی فلاح والے کو نہ دیکھے گا فلاح نہیں پاسکتا، جو باعمل علماء کی صحبت میں نہ رہے، وہ مردود ہے، اس کے لئے نہ دلیل ہے نہ اصل ہے، ایسے کی صحبت میں رہو جسے اللہ کی صحبت نصیب ہو، ہر ایک کے لئے چاہئے کہ جب رات کا اندھیرا چھپالے اور ساری مخلوق سو جائے ، اور اس کی آوازیں تھم جائیں تو اٹھے اور وضواکر کے دورکعت پڑھے اور اس طرح دعا مانگے يا رب دلني على عبد من عبادك الصالحين المقربين حتى يدلني عليك و يعرفني اے رب! اپنے صالحین مقربین بندوں میں سے کسی بندے کی طرف میری رہنمائی کر جو تیری طرف میری رہنمائی کرے، اور تیری معرفت کا راستہ بتائے۔آمین!۔“

سبب کا ہونا ضروری ہے، ورنہ اللہ قادر ہے کہ نبیوں کے بغیر ہی ہدایت کر دیتا ، تم عقل کرو ،تم کسی اچھی حالت پرنہیں ہو غفلت چھوڑ دو، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: مَنْ ‌اسْتَغْنَى بِرَأْيِهِ ‌ضَلَّ  – اپنی رائے پر اکتفا کرنے والا گمراہ ہوا۔ ایسے شخص کی تلاش کر کہ جو تیرے دین کے چہرے کا آئینہ ہو، تو اس میں ویسے ہی دیکھے جیسے کہ آئینہ دیکھتا ہے اور اپنے چہرے کا ظاہر اور عمامہ اور بالوں کو سنوارتا ہے، عقل کر ، یہ کیسی حرص ہے، تیرا کہنا ہے کہ مجھے تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں ، جبکہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا: الْمُؤْمِنُ ‌مِرْآةُ ‌الْمُؤْمِنِ ایمان والے کے لئے ایمان والا آئینہ ہے۔

مسلمان کا ایمان جب درست اور صحیح ہو جا تا ہے تو وہ ساری مخلوق کے لئے آئینہ بن جا تا ہے ۔ وہ ان کے دیکھنے اور قرب کے وقت ان کے دینوں کے چہرے اپنے کلام سے آئینہ میں دیکھتا ہے ۔ یہ  کیسی حرص ہے! – ہر وقت اللہ سے یہی کہتے رہتے ہو کہ وہ تمہارے کھانے پینے ، اور لباس اور نکاح اور رزق کو بڑھادے، یہ ایسی چیز ہے کہ اس میں ذرہ بھر کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ، اگر چہ تیرے ساتھ ایک مستجاب الدعوات دعا مانگے ،رزق کا ایک ذرہ نہ کم ہوگا۔ اور نہ زیادہ ہوگا، یہ ایسی چیز ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، تمہیں جو کچھ کرنے کا حکم ہوا ہے وہ کرتے رہو، جس سے رکنے کے لئے کہا گیا، اس سے رکے رہو، ۔ جس نے از خود آ نا ہے ، اس کی طلب نہ کرو، کیونکہ اس کے آنے کا اللہ ضامن ہے، رزق اپنے مقررہ وقتوں پر تاریخ کے حساب سے آتے ہیں ، شیر یں بھی تلخ بھی ، پسند اور ناپسند بھی، اولیاء اللہ ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں نہ ان کے لئے دعا باقی رہتی ہے نہ سوال کی حاجت ، منافع کے حصول اور ضرر کے رفع کے لئے سوال نہیں کرتے ، جو دعائیں حکم کے طور پر ان کے دل پر دارد ہوتی ہیں، وہی کبھی اپنے لئے اورکبھی مخلوق کے لئے کرتے ہیں، چنانچہ ضرورت کے تحت وہ اس سے غائب رہ کر دعائیہ کلمات زبان سے نکالتے ہیں: اللهم ارزقنا حسن الأدب معك في جميع الأحوال

الہی! ہمیں سب احوال میں اپنے ساتھ حسن ادب عطا فرما، آمین!‘‘

 نماز ، روزہ اور ذکر اور سب طرح کی عبادتیں عادت ہو جاتی ہیں ، اور اس کے گوشت اور خون میں گھل مل جاتی ہیں ۔ پھر سب احوال میں اللہ کی طرف سے حفاظت ہوتی ہے، شرع کی پابندی ایک پل کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتی ، حالانکہ یہ اس سے ہٹ جاتا ہے، شرعی حکم اس کے لئے کشتی کی مانند ہو جا تا ہے کہ جس میں بیٹھ کر قدرت الہی کے سمندر میں سیر کرتا رہتا ہے، چلتے چلتے سیر کرتے ہوئے آخرت کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے، جو کہ لطف اور دوست کے قرب کے سمندر کا کنارا ہے،۔ کبھی وہ مخلوق کے ساتھ رہتا ہے اور کبھی خالق کے ساتھ مخلوق کے ساتھ مشقت کا معاملہ ہے اور خالق کے ساتھ چین ۔ و آرام اور راحت ہے ۔ اے  منافق! تجھ پر افسوس، تجھے اس میں سے کچھ خبر نہیں ہے،تجھ پر افسوس تیرے کاموں میں اس سے کوئی شے نہیں۔

اے خانقاہوں میں بیٹھنے والو! مخلوق سے تمہارے دل بھرے ہوئے ہیں ۔ میری آواز کو لازم سنو اور اس سے بچو، تم سنتے نہیں ، کیا بہرے ہو گئے ہوئے اٹھو، کھڑے ہو جاؤ ، میرے پاس آؤ، جو ہوا سو ہوا، کوئی ڈرنہیں۔ تمہارے رویئے تمہاری بے ادبی  اور بدتہذیبی کے باعث تم سے معاملہ یا خطاب نہیں کروں گا، بلکہ اللہ کی نرمی وشفقت کے حکم کے مطابق تم سے نرمی اختیار کروں گا ۔ میرے سخت کلام سے مت بھاگو، یہ لہجہ میرا نہیں ہے، بلکہ جس طرح سے اللہ مجھے بلواتا ہے، میں بولتا ہوں ۔

اللہ والوں کو ڈر اور خوف

اے لوگو! اولیاءاللہ خوف اور ڈر کے قدموں پر کھڑے اللہ کی عبادت میں رات اور دن کو ایک کر دیتے ہیں، وہ اپنے انجام کار کی برائی سے ڈرتے رہتے ہیں، وہ اپنے بارے اور اپنے خاتمہ سے متعلق علم الہی سے نا آشنا ہیں، غم اور رنج اور زاری کر کے عبادت میں رات اور دن کو ایک کر ڈالتے ہیں وہ نماز روزہ ، حج اور تمام عبادتوں میں ہمیشگی کرتے ہیں، اپنے دلوں اور زبانوں سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، آخرت میں پہنچ کر جنت میں داخل ہوتے ہیں ۔ اللہ کے دیدار کا شرف پائیں گے، اور اپنی عزت افزائی دیکھ کر اللہ کی حمد بجالائیں گے۔

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا ‌الْحَزَنَ اور کہتے ہیں کہ سب طرح کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمارے غم کو دور کیا۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو ان کے استاذ اور شیخ ہیں، سردار اور امیر اور بادشاہ ہیں ، اس طرح عرض کرتے ہیں:

الحمد لله الذي أذهب عنا الحزن في الدنيا قبل الأخرة و سب طرح کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمارے غم کو آخرت سے پہلے دنیا میں دور کیا۔‘‘

جب ان کے دل اللہ کے دروازے کی طرف پہنچتے ہیں تو اسے کھلا پاتے ہیں ، اور اپنے استقبال کے لئے لشکر کا ہجوم پاتے ہیں جو صف در صف ان کی آمد کا منتظر ہے، انہیں سلام پیش کرتے ہیں اور ان کے سامنےگردنیں جھکاتے ہیں ، اور قربت کے مکان میں باادب داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں وہ کچھ سیکھتے ہیں مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا ‌أُذُنٌ ‌سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ  کسی آنکھ نے کبھی دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا خیال ہی گزرا۔‘‘

 اور اس طرح شکر گزار ہوتے ہیں:

 الحمد لله الذي اذهب عنا الحزن حزن العبد حزن الحجاب ۔سب طرح کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہم سے دوری اورحجاب کاغم دور کیا۔‘‘

 الحمد الله كيف ما اشغلنا باالدنيا والاخرة والخلق۔سب حمد اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں دنیا اور آخرت اور خلقت میں مشغول رکھا۔‘‘

الحمد لله الذي اصطفانا لنفسه واختارنا لقربه وأذهب عنا حزن الانقطاع عنه حزن الاشتغال بغیرہ

سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے نفس کے لئے برگزیدہ کیا اور اپنے قرب کے لئے منتخب فرمالیا اور ہم سے الگ ہونے کاغم دور کیا اور غیر کے ساتھ مشغول ہونے سے نجات بخشی ‘‘ الحمد لله الذي رزقنا الانقطاع إليه إن ربنا لغفور شكور’’سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے سب سے الگ کر کے ہمیں اپنا بنا لیا ہے۔ بے شک ہمارا رب بخشے والا شکر قبول کرنے والا ہے۔“

معرفت کے گھر اورعلم اور فنا کے میدان میں:

اے بیٹا! جب تو ایمان کو مضبوط کر لے گا تو پہلے معرفت کے گھر میں پہنچ گا، پھر علم کے میدان میں اور اس کے بعد فنا کے میدان میں جہاں پہنچ کر تو خودی اور تمام مخلوق سے فنا ہو کر اللہ کے ساتھ وجود قائم کر لیتا ہے،  جہاں وہ ہی وہ ہو گا ،نہ تو اور نہ کوئی اورمخلوق ! – اس وقت تیراغم دور ہو جائے گا اوراللہ کی حفاظت تیری خدمت کرتی ہے اور غیرت احاطہ کرتی ہے ۔ توفیق تیرے سامنے سر جھکالے گی ، اور فرشتے تیرے ارد گر دچلیں گے، پاک روحیں آ کر تجھے سلام کریں گی ، اللہ تعالی تیرے ساتھ مخلوق پر فخر کرے گا ، اور اس کی رحمت بھری نظریں تیری نگہبانی کریں گی ۔ جو تجھے قرب اور اس کے گھر اور مناجات کی طرف کھینچیں گی ۔

وہ شخص خسارے میں رہا جو بغیر عذر کے مجھ سے دور بیٹھارہا، تجھ پرافسوس! میں جس مقام پر ہوں تو اس میں مزاحمت کرتا ہے، تجھے قدرت نہیں ہے، مزاحمت سے تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا ۔ یہ مقام آسمانوں سے زمین کی طرف نازل ہوتا ہے، ارشاد باری ہے:

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا ‌خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم ہر چیز کومقر رو اندازے سے اتارتے ہیں۔

مینہ آسمان سے زمین پر اترتا ہے، پھر اس سے سبزہ ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ امر آسمانوں سے دلوں کی زمین کی طرف اترتا ہے، اور ہرقسم کی بھلائی سے اگنے اور لہلہانے لگتے ہیں، اس سے اللہ کے اسرار اورحکمتیں اور توحید اور توکل اور مناجات اور قرب الہی کے شجر اگتے ہیں ، اس دل میں طرح طرح کی جھاڑیاں ، اور پھل پھول نکلتے ہیں ،  اس میں بڑے بڑے جنگل اورچٹیل میدان اور دریا اورنہریں اور پہاڑ ظاہر ہو جاتے ہیں، اور وہ انسانوں اور جنوں اور فرشتوں اور روحوں کا مسکن بن جاتے ہیں ۔ یہ ایسی چیز ہے جوعقلوں سے بالا تر ہے،  صرف قدرت اور ارادے اور علم سے اللہ تعالی اسے اختیار کرنا ہے ، اور یہ مقام اس کی مخلوق میں سے امت کے خاص بندوں کے لئے ہے۔ اس بات کی کوشش کرو کہ میرے کلام کے جال میں پھنس جاؤ، میری مجلس اور میرا کلام کرنا ایک جال ہے، میں تم میں سے کسی کے پھنسنے کامنتظر رہتاہوں،یہ دسترخوان اللہ کاہے، میرا نہیں۔ میری آواز  سن کر اس پرعمل  کرو، میں تمہیں اللہ طرف بلاتا ہوں۔ اللہ تم پر رحم کرے، میرے کہے پرعمل کرو، میری فرماں برداری کرو تا کہ میں تمہیں اللہ کے  دروازے کی طرف اٹھا کر لے چلوں۔

سچائی اللہ کا بلاوا ہے۔جھوٹ ، شیطان کا بلاوا ہے،حق، الگ چیز ہے۔باطل،الگ چیز ہے۔

یہ دونوں ہر مسلمان پر ظاہر ہیں جو اپنے ایمان کے نور سے دیکھتا ہے ۔

 عراق والوں سے خطاب:

انے عراق والو تمہیں اپنے علم اور فہم کی تیزی کا دعوی ہے، حالانکہ یہ بات تم سے پوشیدہ ہے کہ سچا اور جھوٹا کون ہے اور حق پر اور باطل پر کون ہے۔ تمہارے بتلانے کا نقصان تم ہی پر پلٹے گا ،اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں، اللہ کو چاہنے والا جنت کی خواہش اور دوزخ کا ڈرنہیں رکھتا ، بلکہ وہ تو صرف اس ذات کو چاہتا ہے ، ہمیشہ اس کا قرب چاہتا ہے، اور اس کی دوری سے ڈرتا ہے تو شیطان اور حرص اور نفس اور دنیا اور شہوتوں کا قیدی ہے ،اور تو اس سے بے خبر ہے ۔ تیرادل ” اسیر ہے اور تجھے کچھ پتہ نہیں ۔۔ اللهم خلصه من إسره و خلصنا امين ۔ الہی! اسے اور ہمیں قید سے رہائی دے۔آمین!‘‘

رخصت سے گر کر اور عزیمت( فرائض) کو لازم پکڑ لے ۔ جس بندے نے رخصت کو لازم پکڑا اور فرائض کوترک کیا، اس کے دین کے ضائع ہونے کا خوف ہے ۔ عزیمت، مردوں کے لئے ہے، کیونکہ وہ خطروں ،مشکلوں اور امر کے برداشت کرنے والے ہیں ۔ رخصت عورتوں اور بچوں کے لئے ہے کیونکہ اس میں آسانی ہے۔

 پہلی صف والے اور پچھلی صف والے:

اے بیٹا! تو پہلی صف میں کھڑا ہو کیونکہ وہ ہمت والے مردوں کی صف ہے، اور پچھلی صف سے الگ ہو کیونکہ وہ نامردوں  کی صف ہے ۔ نفس کو خدمت پر لگا اور اسے عزیمت کا عادی بنا، کیونکہ تو اس پر جتنا بوجھ ڈالے گا، وہ اسے اٹھائے گا ۔ اس پرلکڑی نہ اٹھا، کیونکہ وہ سویا ہوا ہے ورنہ بو جھ کو اپنے سے گرادے گا تو اسے اپنے دانتوں اور آنکھوں کی سفیدی نہ دکھا، نہ مذاق کر ، نہ پیار کی نظر سے دیکھ ۔ وہ نہایت ہی بر اغلام ہے، پٹائی کے بغیر کام نہ کرے گا، اسے پیٹ بھر کر کھانا نہ دے جب تک کہ جان لے کہ سیر ہو کر سرکشی نہ کرے گا ، اور وہ پیٹ بھرے کے مقابلہ پر کام بھی کرے گا ،  حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ عبادت بھی بہت کر تے تھے اور کھاتے بھی بہت تھے ۔ اور پیٹ بھرنے پر مثال دیتے ۔ کہ حبشی کا پیٹ بھر اور اس سے خوب مشقت کراؤ، کیونکہ حبشی تو گدھا ہے ۔ اس کے بعد عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے ۔

اور کثرت سے عبادت کرتے ، ایک بزرگ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا کھانا دیکھا تو مجھے ان پر غصہ آ گیا، لیکن جب انہوں نے نماز پڑھی اور بہت روۓ تو ان کی حالت دیکھ کر مجھے ان پر رحم آ گیا، تو حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی کثرت عبادت میں پیروی کر ان کے زیادہ کھانے میں پیروی نہ کر ، کیونکہ تو سفیان نہیں ہے ۔ اپنے نفس کو جیسے وہ سیر کرتے تھے، اتنا سیر نہ کر، کیونکہ جیسے وہ نفس پر قدرت رکھتے تھے تو ان کی مانند قدرت نہیں رکھتا،  حرام چھوڑ دے اور تھوڑ امگر حلال کھانے کی کوشش کر ، ایمان اور یقین کی قوت کے ساتھ ہرشے میں بے رغبتی کر تو اللہ کے خاص بندوں میں سے ہو جاۓ گا ، اور یہ کہ مخلوق اور اسباب کا بندہ نہ بنے ، دنیا اور لذتوں اور شہوتوں کا بندہ نہ بنے ، خلقت کے نزدیک مرتبے کی حب کا بندو نہ بنے ، خلق کی توجہ اور بے تو جہی اور اس کی تعریف اور برائی کا اسیر نہ ر ہے، یہ اچھی باتیں نہیں ہیں،  تیرادل اللہ کے آستانے کے دروازے کی طرف ایک قدم بھی نہیں چلتا کیونکہ تو نفس کے ساتھ اپنی خواہش اور عادت کے گھر میں رہتا ہے، میں ہمیشہ تجھے مخلوق اور  اور اسباب کی قید میں دیکھتا ہوں ۔ ان کی قیدوں سے نجات کی حکمت مجھ سے سیکھ لے،اوررہاہوجا ۔  اے جاہل ! تیرا دل اللہ تعالی کو کیسے دیکھ سکتا ہے کیونکہ وہ مخلوق سے بھرا ہوا ہے، تو گھر بیٹھے جامع مسجد کا دروازہ کیسے دیکھ سکتا ہے، جب تو اپنے گھر اور بیوی بچوں سے لکھے گا تو جامع مسجد کے دروازے کو دیکھےگا، جب تو سب کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑے گا تب ہی اسے دیکھ سکے گا، اس طرح سے تو جب تک مخلوق کے ساتھ رہے گا تو خالق کو نہیں دیکھ سکے گا ،د نیا کے ساتھ رہے گا تو آخرت کو نہیں دیکھ سکے گا۔ آخرت کے ساتھ رہے گا تو دنیا و آخرت کے رب کو نہیں دیکھ سکے گا۔

 ان سب سے جب الگ ہوگا تو تیرا باطن رب سے ملے گا، ظاہری طور پرنہیں بلکہ معنوی طور پر،عمل دلوں کے لئے ہے اور معنی باطنوں کے لئے ہے،اولیاء اللہ نے اپنے اعمال کو نظر انداز کر کے اپنی ساری نیکیاں بھلا دیں، اور ان کے بدلے میں کوئی صلہ نہ چاہا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انہیں ایسی جگہ اتارا جہاں انہیں نہ تو کوئی غم در پیش ہوتا ہے نہ کسی طرح کا رنج اور تھکان ہے اور نہ جدائی ہے اور نہ کمزوری اور نہ وہاں محنت ہے اور نہ کسب ۔ بعض مفسرین نے ارشاد باری لَا يَمَسُّنَا فِيهَا ‌نَصَبٌ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جنت میں روٹی کا اور نہ اس کے حصول کام ہوگا نہ اہل وعیال کے لئے فکر معاش ۔ جنت تو بالکل فضل ہے، بالکل راحت ہے، بے حساب  بخشش ہے

دل کی حضوری کا دار و مدار

سارا دار و مدار اللہ کے لئے تیرے دل کی حضوری پر ہے، جو دنیا و آخرت اور مخلوق کی غرض اور علت سے بالا تر ہو، اللہ کے لئے دل کی حضوری موت کے بغیر اور اس کی سچی یادداشت کے بغیر صحیح و درست نہیں ہوسکتی، اگر تو دیکھے تو موت کودیکھے ،اگر تو سنے تو موت ہی کو سنے حقیقت میں موت کا ذکر کامل بیداری پر ہر خواہش سے نفرت پیدا کر دیتا ہے، اور ہر خوشی سے منہ موڑ دیتا ہے ۔ موت کو یاد کیا کرو، اس سے کہیں بچاؤ نہیں ، دل جب درست ہو جا تا ہے تو ماسوئی اللہ کو بھلا دیتا ، جوازل سے قائم اور دائم ہے، اس کے سوا سب چیز یں حادث اور نو پیدا ہیں ،  دل جب درست ہو جا تا ہے تو اس سےنکلنے والا کلام حق وصواب ہوتا ہے جسے کوئی بھی ردنہیں کر سکتا ۔

 دل، دل کو۔ باطن، باطن کو ۔خلوت خلوت کو ، معنی معنی کو ۔مغز مغز کو۔ نیکی ، نیکی کو

خطاب کرتا ہے۔ اس وقت اس کا کلام دلوں میں یوں بیٹھ جا تا ہے جیسے عمدہ نرم اور غیر کھاری زمین میں بیج اگتا ہے، دل جب صحیح ہو جاتا ہے تو وہ ایسا جھاڑ بن جا تا ہے جس میں شاخیں، پتے اور پھل سب کچھ ہوتا ہے، اس میں ساری  خلقت انسانوں ، جنوں اورفرشتوں کے لئے فائدے ہوتے ہیں ۔ جب دل بیمار ہو تو وہ حیوانوں کے دل کی طرح ہے

– معنی کےبغیر صورت ،مظروف کے بغیر برتن، پھل کے بغیر درخت، پرند کے بغیر پنجرہ،مکین کے بغیر مکان، درہموں اور اشرفیوں اور موتیوں سے لبریز خزانہ، جسے خرچ کرنے والا کوئی نہیں ۔  روح کے بغیر بدن ،مسخ ہوکر پتھر ہونے والا جسم، چنانچہ ایسے دل کی صورت تو ہے معنی نہیں ، وہ دل کہ جو اللہ کے راستے میں منہ موڑ نے والا اور اس کے ساتھ کفر کرنے والا موڑنے ہے، وہ مسخ شدہ ہے، اس لئے اللہ نے اسے پتھر سے تشبیہ دی ، ارشاد باری ہےثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے تو وہ پتھر کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ بنی اسرائیل نے جب تو ریت پر عمل نہ کیا تو اللہ نے ان کے دل پھر سے بدل دیئے اور اپنے دروازے سے انہیں دھکیل دیا۔ اسی طرح سے محمدﷺکے امتیو ! جب تم نے بھی قرآن پرعمل نہ کیا اور اس کے احکام پر استقامت سے نہ چلے تو تمہارے دل بھی مسخ کر دیئے جائیں گے اور اس کے دروازے سے دھکیل دیئے جائیں گے، تم ان لوگوں میں سے نہ ہونا ،جن کوعلم ہونے کے باوجود اللہ نے بہکا دیا:-

 اگر مخلوق کے لئے پڑھا تو عمل مخلوق کے لئے ہے،اگر اللہ کے لئے پڑھا تو عمل اللہ کے لئے ہے،اگر دنیا کے لئے سیکھاتو عمل دنیا کے لئے ہے،اگر آخرت کے لئے سیکھا توعمل آخرت کے لئے ہے۔

کیونکہ شاخوں کی بنیا د جڑوں پر ہوا کرتی ہے، جیسا کرے گا ویسا بھرے گا، جو کچھ برتن میں ہے وہی ٹپکے گا ۔ ایسانہ ہوگا کہ برتن میں رال بھر کر عرق گلاب ٹپکایا جاۓ ، تیری کوئی عزت نہیں ، تو دنیا میں دنیا اور دنیاوالوں کے لئے عمل کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ کل تجھے آخرت ملے، تیری کوئی عزت نہیں ، توعمل مخلوق کے لئے کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تجھے کل خالق مل جاۓ اور اس کا قرب اور توجہ نصیب ہو،  تیری کوئی عزت نہیں، ظاہر اور غائب تو یہی ہے ۔اللہ تعالی اگر تجھے عمل کے بغیر اپنے فضل و کرم سے عطافرمادے تو اس کے اختیار میں ہے ۔

 فرماں برداری جنت کاعمل ہے اور نافرمانی دوزخ کاعمل  ہے اس کے بعد کا اختیاراللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے توعمل کے بغیر کسی کو ثواب عطا فر مادے وہ چاہے توعمل کے بغیر کسی کو عذاب دے،

‌فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ  لَا يُسْأَلُ عَمَّا ‌يَفْعَلُ ‌وَهُمْ يُسْأَلُونَ’’ وہ جو چاہے کرنے والا ہے، جو کچھ وہ کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ، اورلوگ پوچھے جائیں گے ۔‘‘

 ( فرض محال ) اگر وہ نبیوں اور صالحین میں سے کسی کو دوزخ میں ڈال دے تو وہ عدل کرنے والا ہے ، اور یہی روشن دلیل ہے ۔ ہم پر واجب ہے کہ اس طرح کہیں:’’معاملہ وحکم سچا ہے ۔ اور ہم چون و چرانہ کریں ، ایسا ہوسکتا ہے اور ممکن ہے، اور اگر ہوگا تو حق بجانب ہو گا اور سراپا انصاب ہوگا، میری بات سنو اور جو کچھ میں کہ رہا ہوں اسے سمجھو، کیونکہ میں پہلوں کا غلام ہوں ، ان کے سامنے کھڑا ہوں ، ان کے اسباب پھیلا کر ان پر منادی کرتا ہوں ، اس میں خیانت نہ کروں گا ، اور نہ ان سے کلام پر کبھی بھی اپنی ملکیت کا دعوی کروں گا ، میں ان کے کلام سے آغاز کرتا ہوں اور پھر اسے اپنی طرف سے دو ہرادیتا ہوں اور ان سے بھلائی چاہتا ہوں اور برکت اللہ سے چاہتا ہوں ، اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺکی فرماں برداری اور میرے ماں باپ کی نیکی سے (اللہ ان دونوں پر رحمت فرماۓ ) مجھے بات کرنے کا اہل بنا دیا۔ میرے والد ماجدنے دنیا پر قدرت ہونے کے باوجود اس سے بے رغبتی کی ، اور میری والدہ ماجدہ نے بھی رضامندی سے ان کی موافقت کی ، کیونکہ وہ دونوں صلاحیت والے، دیانت دار اور خلقت پر مہربانی کرنے والے تھے ۔ میں ان دونوں سے اور مخلوق سے الگ ہو کر رسول اکرم ﷺاور اللہ تعالی کی بارگاہ میں آ گیا۔ اب انہی دونوں سے فوز وفلاح پا تا ہوں اور میرے لئے ہر طرح کی خیر اور نعمت انہی دونوں کے ساتھ اور انہی دونوں کے پاس ہے، مخلوق میں سے میں سرکار دو عالم ﷺکے سوا اور ارباب میں سے حق تعالی کے سوا کسی اور کونہیں چاہتا،  اے عالم! تیرا وعظ فقط زبان سے ہے دل سے نہیں ، صورت سے ہے معنی سے نہیں ، جو دل سے نہیں زبان سے نکلے صحیح دل اس کلام سے بھا گتا اور نفرت کرتا ہے، ایسا کلام سننے کے وقت ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی پرندہ پنجرے میں یا کوئی منافق مسجد میں اتفاق سے صالحین میں سے کوئی اگر منافقوں کے عالم کی مسجد میں جا نکلے تو اس کی ہرممکن یہی آرزو ہوتی ہے کہ جیسے بن پاۓ وہاں سے نکل جاۓ  ۔

 منافقوں کی پہچان اور ان کا کردار

ریا کاروں اور منافقوں اور دجالوں اور بدعتیوں کے چہرے دور سے پہچانے جاتے ہیں ، اللہ اور اس کے رسولوں کے ان دشمنوں کے چہروں کی علامتیں، اللہ والوں کے علم میں ہیں ، ان کے چہرے اور ان کی باتوں سے انکی علامتیں جھلکتی ہیں ، وہ صدیقوں سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیر سے خوف کھا کر بھاگتے ہیں ، وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے دلوں کی آگ سے نہ جل جائیں، فرشتے انہیں صدیقوں اور صالحوں سے دھکے دے کر دور ہٹا دیتے ہیں، ایسا مکار عالم عوام کے نزدیک بڑا اور بظاہر بزرگ ہوتا ہے لیکن صدیقوں کے نزدیک ذلیل وحقیر، عام لوگوں کے لئے وہ آدمی کہلا تا ہے جبکہ صدیقوں کے لئے بلی ، ان کی نظروں میں اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی ، صدیق اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، نہ آنکھوں کے نور سے اور نہ چاند سورج کے نور ہے ۔ یہ اللہ کا عام نور ہے، جبکہ صدیق کے لئے ایک خاص نور ہے، — کتاب وسنت پر صدیق کا جو یقین ہے اور حکم مضبوطی کے بعد اللہ سے نور عطا کرتا ہے۔ صدیق جب کتاب و سنت پر علم کرتا ہے تو اسے علم کا نور عطا فرمایا جاتا ۔

 اللهم ارزقنا حكمت و علمك وقربك . امين – الہی! ہمیں اپنا حکم اورعلم اور قرب عطافرما۔آمین!‘‘

اے منافقو اللہ تعالی تمہیں برکت نہ دے۔ تمہاری پوری کوشش ہے کہ اپنے اور مخلوق کے درمیان تعلقات بنانا اور اللہ اور اپنے درمیان معاملات کو بگاڑنا ہے  اللهم سلطنى على رؤسهم حتى أطهر الأرض منهم – الہی! مجھے ان کے سروں پر مسلط کر دے تا کہ ان سے زمین کو پاک کر دوں۔‘‘

منافقوں کے نفاق کی یہ عالم ہے کہ وہ میری طرف اورمیرے پاس نہیں آتے اگر ملے گا تو سلام نہیں کریگا اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا ایسا کرنا بھی تکلف سے ہوگا ، یہ دین پستی پر ہے جس کی دیوار یں گر رہی ہیں ۔

اللهم ارزقني أعوانا على بنائه ما يبنى على ايديكم  الہی! مجھے اس کے بنانے کے لئے مددگار عطافرما۔ آمین ۔‘‘ اے منافقو! یہ عمارت تمہارے ہاتھوں سے نہیں بن سکتی تمہاری کیا وقعت ہے جو تمہارے ہاتھوں سے بن سکے ۔ تم بنا بھی کیسے پاؤ گے، نہ تم بنانے کا فن جانتے ہو اور نہ تمہارے پاس اس کے لئے آلات ہیں ۔ اے جاہلو! پہلے اپنے دین کی دیوار یں اٹھاؤ ، پھر دوسروں کی بنانے کا سوچو، جب تم مجھ سے عداوت رکھتے ہوتو میں اللہ اور رسول اللہﷺکے لئے تم سے عداوت رکھتا ہوں ، کیونکہ میں ان دونوں کی مدد کے ساتھ قائم ہوں، سرکشی نہ کرو ، کیونکہ وَاللَّهُ ‌غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ – بے شک اللہ اپنے امر( کے نافذ کرنے پر غالب ہے ۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے قتل کی کوشش کی مگر قدرت نہ رکھتے تھے، قدرت ہوتی بھی کیسے ، کیونکہ آپ اللہ کے نزدیک بادشاہ اور اس کے نبیوں کے نبی اور صدیقوں میں سے ایک صدیق تھے اللہ کے سابق علم میں تھا کہ ان  کے ہاتھوں  پر مخلوق  کی مصلحتیں  ہونگی  اے زمانے کے منافقو  تمہارابھی یہی حال ہے، مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہو ۔ مگر  تمہاری کوئی وقعت نہیں  تمہارے ہاتھ  ایسا کرنے سے قصر  ہیں  اگر احکام  شرعیہ کی حکمتیں آڑے نہ ہوتیں تو میں یقینی طور پر ہر ایک پر واضح کر دیتا کہ فلاں فلاں منافق ہے اور اللہ ورسول کا دشمن ہے،  حکم اور علم کے ساتھ قائم رہنے میں ہر امر کی بنیا داورحکمتیں ہیں ، اولیاء اللہ مخلوق سے نہیں ڈرتے ، کیونکہ وہ اللہ کی سر  پرستی کے پہلو میں امن اورحفاظت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے دشمنوں کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی ، کیونکہ عنقریب ان کے ہاتھ پاؤں اور زبانیں کٹی ہوئی دیکھیں گے ۔ انہوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ مخلوق عاجز ہے اورمحض  فانی ہے ۔ نہ ان کے ہاتھوں میں ہلاکت ہے، نہ حکومت ، نہ ان کے ہاتھ میں امیری ہے نہ محتاجی ، نہ ان کے ہاتھ میں نفع ہے نہ نقصان ، ان کے نزدیک تو اللہ کے سوا کوئی بادشاہ ہی نہیں ، اور نہ کوئی قادر ہے، وہی عطا کرنے والا اور روکنے والا ہے وہی ضرر  دینے والا اور نفع دینے والا ہے ، اس کے سوامار نے والا اور زندہ کرنے والا اور کوئی نہیں ،

و تو شرک کے بوجھ سے راحت میں ہیں، وہ تو اللہ کے انس کے ساتھ برگزیدہ اور منتخب ہیں ، وہ اس کی راحت ولطف اور مناجات سے لذت پاتے ہیں۔

انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ دنیار ہے یا نہ ر ہے ، آخرت رہے یا نہ ر ہے، خیر اور شر ہو یا نہ ہو،  انہوں نے امر کی ابتداء میں دنیا اورمخلوق  اور شہوتوں کے بارے میں زہدمیں تکالیف برداشت کیں، انہوں نے جب اس پر ہمیشگی کی تو اللہ تعالی نے ان کے تکلف کو ان کی عادت اور عطیہ الہی بنا دیا، ان کا زہد ، کامل زہد بن گیا، ان کی عادت کامل عادت بن گئی ، ان سے سیکھو، اللہ کی عبادات میں تکلیف و تکلف برداشت کرو، نا فرمانی چھوڑ دو، بری باتیں ترک کر دو، اپنے رب کے کلام کوسمجھو اور اس پرعمل کر،یہ عمل اخلاص سے کرو ۔

ایمان اور معرفت اور قرب الہی پیدا کر پھر……

اے بیٹا! تو سرا پانفس اور عادت اور حرص ہے، پرائی عورتوں اور لڑکوں کے پاس بیٹھتا ہے، پھر کہتا ہے مجھے ان کی کوئی ” پرواہ نہیں، توجھوٹا ہے، تیری بات شرع وعقل کے موافق نہیں ، آگ میں آگ کو، لکڑی کولکڑی سے ملائے جاتا ہے، تیرے دین وایمان کا گھر ضرور بھڑک اٹھے گا ،شعلے اٹھیں گے ۔ اس امر میں شریعت انکار کرتی ہے، اس حکم سے کوئی بھی بری نہیں ۔ اللہ کے ساتھ ایمان اور معرفت اور قرب کے لئے قوت پیدا کر ، پھر مخلوق کا طبیب بن کر اللہ کا نائب ہو۔

تجھ پرافسوس ہے تو سانپوں کو کیسے چھوتا اور الٹ پلٹ کرتا ہے، حالانکہ تو نہ سانپ پکڑنے کا ڈھنگ جانتا ہے اور نہ ہی تو نے تریاق کھایا ہے ۔

خوداندھا ہے، دوسروں کی آنکھیں کیسے بنائے گا، خودگونگا ہے، اوروں کو کیا سکھاۓ گا۔-خود جاہل ہے، دین کو کیسےصحیح  کرے گا۔  جو در ہان نہیں ، وہ لوگوں کو شاہی دروازے تک کیسے لے جاۓ گا، ۔ تو اللہ کی قدرت اور قرب، اورمخلوق کے بارے میں اس کی سیاست سے بے خبر ہے،یہ ایسی چیز ہے جو نہ میری عقل میں آ سکتی ہے نہ تمہاری سمجھ میں نہ میں اس کا احاطہ کر سکتا ہوں نہ تم اس کے حقیقت اور تفسیر سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتاء تم سنواورقبول کرو، کیونکہ میں بادشاہ کی طرف بلانے والا اور تم میں اس کے رسول ﷺکا نائب ہوں،۔ میں دین کے معاملے میں مخلوق سے زیادہ بے شرم ہوں ، اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام میں تم میں سے کسی سے حیا نہیں کرتا ۔ میں انہی کا خادم ہوں انہی کی نگرانی میں کام کرتا ہوں ، میری انہی سے نسبت ہے – یہ دنیا جانے والی اور فانی ہے، یہ آفتوں اور بلاؤں کا گھر ہے، اس میں کسی کے لئے عیش و آسائش نہیں، خاص طور پر سمجھ دار اور عقل والے کے ہے کے لئے، جیسا کہ کسی نے کہا ہے: الدنيا لا تقر فيها عين عليهم وعين ذاكر الموت

دنیا میں حکمت والے اور موت کے یاد کر نے والے کی آنکھ بھی ٹھنڈی نہیں ہوتی ۔‘‘

جس کے مقابلے میں درندے منہ کھولے ہوئے کھڑے ہیں ، اس کے قریب کیسے چین آۓ گا، کیسے آنکھ لگے گی ، غافلو! قبر اپنا منہ کھولے ہوۓ ہے ،اور موت کا درندہ اوراژ دھا اپنا منہ کھولے ہوۓ ہیں، قضاوقدرکا جلا داپنے ہاتھ میں تلوار لئے حکم کے انتظار میں کھڑا ہے، لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا ہوگا جو کہ اس حکمت کو جانتا ہواور غافل ہوۓ بغیر بیدار رہے، امر کے شروع میں تیرے لئے لازم ہے کہ کوئی ہنر سیکھ کر اس میں مہارت حاصل کرے اور اس ہنر سے کماۓ اور کھاۓ ، تا کہ تیرا ایمان قوی ہو جائے ۔ جب تو اس پرہمیشگی کرے گا اور ثابت قدم رہے گاتو اللہ توکل کی طرف لے جا کر تجھے بلا سبب کھلائے گا، اے اپنے سبب کے ساتھ شرک کرنے والے!۔ اگر توکل کے کھانے کا مزہ چکھ لیتا تو کبھی شرک نہ کرتا اور اس کے دروازے پر توکل اور اعتماد کر کے بیٹھ جاتا ۔ میں صرف دو طرح سے کھانا پینا جانتا ہوں ۔ یاشرعی پابندی کے ساتھ کسب کر نے سے ، یا توکل بر خدا ہو

تجھ پر افسوس! اللہ سے حیا نہیں کرتا اور لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے، کسب اور کمائی تو آغاز ہے جبکہ توکل انتہا ہے، میں تیرے لئے نہ ابتداد یکھتا ہوں نہ انتہا، میں تجھ سے حق بات کہنے میں حیا نہیں کرتا ،سن اور قبول کر اور حق کے ساتھ جھگڑانہ کر مجھے تمہاری تعریف یا برائی کی کوئی پرواہ نہیں تمہاری ذات اور تمہارے مال ومتاع اور مخلوق میں تم سے زیادہ زاہد ہوں، اگر کچھ لیتا ہوں تو اپنے لئے نہیں اوروں کے لئے لیتا ہوں ، تمہارے سامنے میرا وعظ اور کلام ایک کاری ضرب اور حملہ ہے، اس کے لئے مجھے حکم دیا گیا ہے، جسے میں جانتا ہوں اور اس کی سچائی پر یقین رکھتا ہوں ۔ اللہ کا حکم مٹانے والا کوئی نہیں اور نہ کوئی روکنے والا روک سکتا ہے۔

تجھ پر افسوس ! تو لوگوں کی باتوں سے دھوکہ میں نہ آ ،ان کے نفع اور نقصان کو پہچان۔ارشاد باری تعالی ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌبلکہ انسان اپنا ذاتی نقصان دیکھنے والا ہے ۔ عام لوگوں کی نظروں میں تجھے کس نے اچھا بنادیا اور خاص لوگوں کی نظروں میں تجھے کس نے برا بنا دیا ۔ اے دنیا میں رغبت کر نے والو! اے دنیا سے خوش ہونے والو! عقل وضبط کے دھوکے دارو!

کیا تم نے ارشاد باری نہیں سنا:

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل کو داور تماشا اور زینت ہے۔“

کھیل اور تماشا اور زینت نادان بچوں کا کام ہے، عقل مند مردوں کے لئے نہیں، اس نے تمہیں جتلا دیا ہے کہ تم کھیل کود کے لئے نہیں پیدا کئے گئے،د نیا میں مشغول ہونے والا ( اصل میں) کھیلنے کودنے والا ہے، جس نے آخرت کو چھوڑ کر دنیا پر قناعت کر لی اس نے گویا نا چیز پر قناعت کی،دنیادہ سب چیز یں جوتمہیں دے گی سانپ اور بچھو اور قاتل زہر ہیں جبکہ تم انہیں نفس اور خواہشوں اور شہوت کے ہاتھوں سے لو، آخرت کے ساتھ مشغول ہو اور دلوں کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرو، پھر اس کے فضل کے ہاتھوں سے اپنا حصہ وصول کر لو، اپنے دل کے قدموں سے اللہ کی طرف کھڑے ہو اور اس کی طرف مشغول ہو، پھر وہ جو کچھ بھی تھے اپنے فضل کے ہاتھ سے عطا کرے اسے لو،دنیا وآخرت میں فکر کر و اوران میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دو ۔ اگر تو کوئی چیز بھی سیکھے گا تو میرے پاس اس سے کہیں زیادہ پائے گا ، میری کھیتی پک گئی ہے اور اس نے جمال پالیا ہے تمہاری فصل جب آتی ہے جلا دی جاتی ہے۔عقل کر اور اپنی ریاست چھوڑ دے، اور لوگوں کی طرح آ کر یہاں بیٹھ جا تا کہ میرا کلام تیرے دل کی زمین میں زراعت کرے، اگر تو عقل کرتا تو میری صحبت میں رہتا، اور میری طرف سے روزانہ ملنے والے ایک لقمے پر اکتفا کر لیتا، اور کلام کی تختی برداشت کرتا ۔ جس بندے کے لئے ایمان ہے وہ ثابت قدم رہے گا اور پھلے پھولے گا ۔ اور جس کا ایمان نہیں وہ مجھ سے دور بھاگتا ہے ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 461،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 233 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں