یہ چوتھی دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چوتھی مناجات
إِلٰهِيْ مِنِىؔ مَا يَلِيْقُ بِلُؤ مِیْ ، وَمِنْكَ مَايَلِيقُ بِكَرَمِكَ
اے میرے اللہ مجھ سے وہی صادر ہوتا ہے جو میری بخیلی اور پستی کے لائق ہے اور تجھ سےو ہی صادر ہوتا ہے جو تیرے کرم کے لائق ہے
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) فرماتے ہیں : اے میرے اللہ مجھ سے وہی پستی اور کمینہ پن اور بخیلی اور عیوب وغیرہ اوصاف ظاہر ہوتے ہیں جو میری پستی اور کمینہ پن کے لائق ہیں ، اور تجھ سے وہی بھلائی اور احسان اور بزرگی اور بخشش اور عیوب ونقائص کی پردہ پوشی وغیرہ اوصاف ظاہر ہوتے ہیں جو تیرے بے انتہا کرم کے شایان شان ہیں۔ اور تیرے ظاہر احسان کے کمال کے لائق ہیں ۔ لہذا تو ہماری برائیوں کو اپنے احسان کے سامنے کر دے اور ہمارے عیوب کو اپنے احسان اور کرم کے وصف سے ڈھانپ لے، کیونکہ اے اکرم الاکرمین ! تو اہل تقویٰ اور اہل مغفرت ہے۔
تو تو ہے اور میں ، میں
حکایت: ایک شخص نے کہا : اے میرے اللہ ! میں تیری کتنی نافرمانی کرتا ہوں، پھر بھی تو میری پردہ پوشی فرماتا ہے۔ تو اس نے کسی کہنے والے کو یہ کہتے سنا:۔ تا کہ تو یہ جان لے کہ میں ، میں ہوں یعنی غفور رحیم و کریم ہوں اور تو تو ہے یعنی عاصی و نا فرمان ہے۔
بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جو یہ پکارتا ہے: اے آدم کی اولاد ! اے مسکین ! تو عدم میں گم تھا۔ بخشش والے اللہ کریم کے سوا کون ہے جس نے تم کو وجود کا نسخہ بنایا ؟ وہ کون ہے جس نے تم کو عالم غیب سے عالم شہادت میں ظاہر فرمایا ؟ وہ کون ہے جس نے تم کو کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں پہنچایا؟ اللہ کریم ومنان کے سوا کون ہے جو تمہارے ہر حال کا سر پرست بنا؟ لہذا تو اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرماں بردارہ، اور تو اس کا سچا بندہ بن جا اور اپنے نفس اور اپنے خواہش کی فرماں برداری نہ کر جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تو ان دونوں کا غلام ہو جائے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب سے بڑھی ہوئی ہے۔ اور یہ بھی اس کی بخشش ہے کہ اس کی توجہ نا فرمان اور فرماں بردار دونوں پر ہے، حدیث شریف میں ہے۔
لما خَلَقَ الله الْخَلْقَ قَالَ لِلْقَلَم : اُكْتُبْ ، قَالَ : وَمَا أَكْتُبُ قَالَ : اُكْتُبْ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِيْ ، فَكَتَبَهُ وَأَلْقَى الْكِتَابَ فَوْقَ الْعَرْشِ زاد بعضهم : « فَإِذَا كَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ الْكِتَابَ فَيَقْرَؤُه كُلُّ مَنْ سَبَقَتْ لَهُ السَّعَادَة ُ، وَيُحْجَبُ عَنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ
جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا۔ تو قلم کو حکم دیا ۔ لکھ قلم نے دریافت کیا ۔ کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ لکھ میری رحمت میرے غضب پر سبقت کر گئی ہے۔ (بڑھی ہوئی ہے ) پس قلم نے اس کو لکھا اور اس مکتوب کو عرش پر رکھ دیا۔
بعض محد ثین نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے ۔ پس جب قیامت کا دن قائم ہوگا ، تو لوگ اس مکتوب کو دیکھیں گے پھر اس کو ہر وہ شخص پڑھے گا جس کیلئے نیک سختی سبقت کر چکی ہے اور وہ مکتوب اہل شقاوت ( بد بختوں )سے پوشیدہ رہے گی۔
اوریہ روایت بھی حدیث شریف میں ہے۔ حضرت محمد ﷺ فرمایا ہے۔
إن الله تَعَالَى خَلَقَ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا وَاحِدَةً إِلَى الأَرْضِ وَأَمْسَكَ عِندَه ٗتِسْعًا وَتِسْعِينَ ، فَمِنْ تِلْكَ الرَّحْمَةِ الْوَاحِدَةِ التي أُهْبِطَتْ إلى الأَرْضِ تَرَاحَمَتِ الخَلائِقُ بينهم ، حَتَّى إِن الدَّابَّةَ لَتَرْفَعُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا خَشْيَةَ أَن تُصِيبَهُ ، فَإِذَا كَانَ يَومُ القِيَامَةِ ضَمَّ تِلْكَ الرَّحْمَةَ إِلَى التِّسْع وَالتَّسْعِين وَنَشَرَهَا بَينَ عِبَادِهِ ، فَتَسَعُ الخَلْقَ كأَفَةَ ، وَيُحْرَمُ مِنْهَا مَنْ هُوَ كَافِرٌ
اللہ تعالیٰ نے سورحمتیں پیدا فرمائی ہیں ان میں سے ایک رحمت زمین پر نازل فرمائی ہے اورننا نوے رحمت کو اپنے پاس روک لیا ہے۔ اس ایک رحمت کی جوز مین پر نازل کی گئی ہے، یہ برکت ہے کہ مخلوقات با ہم ایک دوسرے پر مہربان ہیں۔ یہاں تک کہ جانور اپنا کُھر اپنے بچے سےاس خوف سے اٹھالیتا ہے کہ اس کو تکلیف نہ پہنچے۔ پس جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس ایک رحمت کو بھی انہیں ننانوے رحمتوں کے ساتھ شامل کر دے گا اور ان کو اپنے بندوں کے درمیان پھیلا دے گا تو وہ ساری مخلوق پر چھا جائیں گی اور ان رحمتوں سے وہی محروم ہو گا جو کافر ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی معنی ہے۔ وَرَحْمتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ میری رحمت ہرشی کیلئے وسیع ہے۔
اور روایت کی گئی ہے
أَنَّ رَجُلًا اصْطَادَ أَفْرَاخًا ، فَلمَا أَخَذَهُم جَعَلَتْ أُمُّهُم تَطِيرُ فَوْقَھُمْ ثُمَّ سَقَطَتْ عَلَيْهِمْ فَضمَهَا مَعَ أَوْلَادِهَا ، فَأَتَى بِهَا النَّبِيِّﷺ فَأَخْبَرَہٗ، خَبَرَهَا ، فقال عليه الصلاة والسلام : أَتَعْجَبُونَ لهِذَا الطَّائرِ وَالله اَللهُ أَرْحَمُ بِعَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هذا الطَّائرِ بِأَفْرَاخِهِ
ایک شخص نے چڑیا کے بچوں کا شکار کیا، پس جب اس نے ان کو پکڑ لیا ۔ تو ان بچوں کی ماں ان کے اوپر اڑنے لگی پھر وہ ان بچوں پر گر گئی ۔ اس شخص نے اس کو بھی اس کے بچوں کے ساتھ شامل کر دیا۔ پھر وہ ان کو لے کر حضرت محمد ﷺ کے پاس آیا۔ اور آنحضرت ﷺ سے ان کا حال بیان کیا تو حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس چڑیا کی محبت پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے پر اس سے بہت زیادہ مہربان ہے، جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں پر مہربان ہے
اور روایت ہے ، حضرت محمد سلیم نے فرمایا ہے:۔ يُخْرُجُ مِنَ النَّارِ رَجُلَانِ ثُمَّ يُمْثَلَانِ – أى يُوقَفَانِ – بَيْنَ يَدِى اللهِ، فَيُوْمَرُ بِرُجُوعِهِمَا إلَى النَّارِ يُسْرَعُ أَحَدُهُمَا فَيُلْقَى نَفْسَهُ فِيهَا ، وَيَتَعَاصِي الْآخَرُ عَنِ الرُّجُوعِ ، فَيُقَالَ لِلَّذِى رَمیٰ بِنَفْسِهٖ: – لِمَ الْقَيْتَ نَفْسَكَ فِى النَّارِفَيَقُولُ: لِئَلَّا اكُونَ عَاصِیًا فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اَكُوْنَ عَاصِیًا فِي الْآخِرَةِ ، وَيُقَالُ لِلْآخَرِ: – لِمَ لَمْ تَمْتَثِل الْأَمْرَ كَمَا فَعَل هَذَا فَيَقُولُ رَجَوْتُ مِنْ كَرَمِ اللَّهِ أَنْ لَا يُعِيدَنِي إِلَيْهَا بَعْدَ أَنْ أَخْرَجَنِي، فَیُو مَرْ بِهِمَا إِلَى الْجَنَّةَِ
دو شخص دوزخ سے نکالے جائیں گے پھر وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جائیں گے ۔ پھر ان کو دوزخ میں لوٹ جانے کا حکم دیا جائے گا۔ تو ان میں سے ایک شخص فور الوٹ جائے گا اور اپنے کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ اور دوسرا شخص دوزخ میں لوٹ کر جانے کے حکم سے نافرمانی کرے گا۔ تو اس شخص سے دریافت کیا جائے گا جو اپنے کو دوزخ میں ڈالدے گا۔ تو نے کیوں اپنے کو دوزخ میں ڈال د یاوہ جواب دے گا۔ اس لیے کہ میں دنیا میں نافرمان نہیں تھا۔ تو اب میں آخرت میں کیون نافرمان ہو جاؤں ۔ دوسرے شخص سے دریافت کیا جائے گا: تو نے حکم کی تعمیل اس طرح کیوں نہیں کی، جس طرح اس نے کی ؟وہ جواب دے گا۔ اس لیے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے کرم سے یہ امید کی کہ وہ مجھ کو دوزخ سے نکالنے کے بعد پھر اس میں نہیں لوٹائے گا۔ لہذا ان دونوں کو جنت میں لے جانے کا حکم دیا جائے گا
اس کے متعلق ایک شاعر کےیہ اشعار ہیں ۔
وَلَوْ أَنَّ فِرْعَونَ لَمَّا طَغَى وَقَالَ عَلَى اللَّهِ قَوْلًا عَظِيمًا
آنَابٍ إِلى اللهِ مُسْتَغْفِرًا لَمَا وَجَدَ اللَّهَ إِلَّا رَحِيمًا
اور جب فرعون نے سرکشی کی ، اوراللہ تعالیٰ پر ایک بڑی بات کہی تو اگر وہ اپنی نافرمانی سرکشی سے استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کو رحیم و مہربان پاتا اور اللہ تعالیٰ کے حلم وکرم اور اس کی رحمت اور مہربانی کے شامل ہونے کی امید کیسے نہ کی جائے جبکہ اس کی رحمت اور مہربانی بندوں کے وجود پر پہلے ہی ہو چکی ہے۔