بصیرت کی اقسام حکمت نمبر36
بصیرت کی اقسام کے عنوان سے باب سوم میں حکمت نمبر36 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
36) شُعَاعُ الْبَصِيرَةِ يُشْهِدُكَ قُرْبَهُ مِنْكَ ، وَعَيْنُ الْبَصِيرَةِ يُشْهِدُكَ عَدَمَكَ لِوُجُودِهِ ، وَحَقُّ الْبَصِيرَةِ يُشْهِدُكَ وُجُودَهُ ، لاَ عَدَمَكَ وَلاَ وُجُودَكَ.
شعاع البصيرت: تم سے اللہ تعالیٰ کا قرب تمہیں مشاہدہ کراتی ہے اورعین البصیرت: اللہ تعالیٰ کے وجود کے سامنے تمہارے وجود کا علوم تم کو مشاہدہ کراتی ہے اور حق البصیرت نہ تمہارے عدم کا ، نہ تمہارے وجود کا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کا تمہیں مشاہدہ کراتی ہے،
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ لطیف حقیقتوں کے اور اک (پانے ) کے اعتبار سے بصیرت کی پانچ قسمیں ہیں۔
بصیرت کی پہلی قسم
:۔ اس کی بصیرت خراب ہو گئی پھر اندھی ہوگئی تو اس نے اللہ تعالیٰ کے نور کااس کی اصل سے انکار کر دیا سیدی علامہ بوصیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
قد تنكِرُ الْعَيْنُ ضَوْءَ الشَّمْسِ مِنْ رَمَدٍ وَيُنْكِرُ الْفَمُ طَعْمَ الْمَاءِ مِنْ سَقَم
آنکھ آشوب چشم کی وجہ سے آفتاب کی روشنی کا انکار کردیتی ہے، اور بیماری کی وجہ سے منہ پانی کے مزے کا انکار کر دیتا ہے۔
اور یہ کفار کی بصیرت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
بصیرت کی دوسری قسم
: بصیرت کی آنکھ درست ہے لیکن کمزوری کی وجہ سے بند ہے اور یہ کمزوری کسی مرض کی وجہ سے ہے جو اسکو لاحق ہے تو وہ نور کا اقرار کرتی ہے لیکن اس کے مشاہدے کی طاقت نہیں رکھتی وہ نور کو نہ ا اپنے قریب دیکھتی ہے نہ دور، یہ عام مسلمانوں کی بصیرت ہے۔
بصیرت کی تیسری قسم
:۔ اس کا نام شعاع بصیرت ہے یہ کچھ طاقتور ہوتی ہے۔ اس کی آنکھ بھی درست ہے اور کھلنے کے قریب ہے لیکن شعاع کی تیزی کی وجہ سے آنکھ کو کھولنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے، پس وہ اپنے قرب نور کے شعاع کو پاتی ہے اور یہ عام تو جہین ( توجہ کرنے والوں ) کی بصیرت ہے۔
بصیرت کی چوتھی قسم
۔ اس کا نام عین البصیرت ہے بصیرت طاقتور ہو گئی ہے اس کی آنکھ کھل گئی ہے۔ اس بصیرت والے نے نور کو اپنے گرد گھیرے ہوئے پایا اس نور کے مشاہدہ میں وہ اپنے نفس سے غائب ہو گیا اور یہ خاص توجہین کی بصیرت ہے۔
بصیرت کی پانچویں قسم
:۔ اس کا نام حق البصیرت ہے۔ بصیرت کامل ہوئی ، اور اس کا نور تیز ہوا، پھر اس کا نور اس کی اصل کے نور سے مل گیا، تو اس بصیرت والے نے صرف اصلی نور کو دیکھا ، اور وہاں اصلی نور سے زیادہ کسی چیز کو ہونے سے انکار کر دیا اور یہی مقام ہے اللہ تعالیٰ تھا اور اسکے ساتھ کوئی بھی نہ تھی ، اور وہ اب بھی اسی حال پر ہے جس حال پر پہلے تھا۔
شعاع البصیرت کی وجہ تسمیہ : یہ ہے کہ یہ بصیرت والا جب موجودات کو دیکھتا ہے۔ تو ان کاوجود اس کی بصیرت کے آئینے میں چھپ جاتا ہے اور اس کو اصل نور کے مشاہدہ سے حجاب میں کر دیتا ہے لیکن اس وجہ سے کہ اس کی کثافت ہلکی ہے اور اس کی دلیلیں روشن ہیں وہ نور کے شعاع کو نور سے علیحد ہ اپنے قریب پاتا ہے۔ اور نو رکو نہیں پاتا ہے یہی ایمان کا نور ہے ۔ اور علم الیقین کا مقام ہے۔
عین البصیرت کی وجہ تسمیہ :۔ جب بصیرت درست اور قوی ہوئی ۔ اور اس کی آنکھ کھل گئی ۔ تو اس نے نور کو اپنے سے قریب اور اپنے کو گھیرے ہوئے دیکھا۔ تو اس کا نام عین البصیرت رکھا گیا۔ کیونکہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ اور جو کچھ دوسروں سے پوشیدہ ہے اس کو اس سے پالیا اور یہ عین الیقین کا مقام ہے۔
حق البصیرت کی وجہ تسمیہ :۔ یہ ہے۔ بصیرت نے جب حق تعالیٰ کو اس کی اصل سے پالیا۔ اور فروغ کے نور سے اصول کے نور میں غائب ہو گیا۔ تو اس کا نام حق البصیرت رکھا گیا۔ کیونکہ اس نے حق تعالیٰ کو پالیا اور خلق کے مشاہدہ سے غائب ہو گیا ۔ اور یہ حق الیقین کا مقام ہے۔ پس شعاع البصیرت ایمان کا نور ہے اور اہل مراقبہ کیلئے ہے۔
اورعین البصیرت : احسان کا نور ہے اور اہل مشاہدہ کیلئے ہے۔
اور حق البصیرت : ۔ رسوخ و تمکین کا نور ہے اور اہل مکالمہ کیلئے ہے۔ یا اس طرح کہو : شعاع البصیرت: علم الیقین کا نور ہے۔ عین البصیرت: عین الیقین کا نور ہے۔ حق البصیرت: حق الیقین کا نور ہے۔
پس علم الیقین دلیل وبرہان والوں کیلئے ہے۔ اورعین الیقین – کشف و بیان والوں کیلئے ہے۔ اور حق الیقین : شہودو عیاں والوں کیلئے ہے۔
اس کی مثال اس طرح ہے۔ ایک شخص نے مکہ معظمہ کا نام سنا ہے اور اس کو دیکھا نہیں ہے یہ علم الیقین ہے۔ اور جب وہاں تک پہنچے کا شرف حاصل کیا اور اس کو دیکھا لیکن اس مین داخل نہیں ہوا یہ عین الیقین ہے اور جب اس میں داخل ہوا اور قائم ہو گیا یہ حق الیقین ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے طالب کا حال ہے:۔ جب تک حجاب سے با ہر اعمال میں فنا ہے تو وہ علم الیقین میں ہے۔ اور جب فنافی الذات کے مقام میں پہنچے کا شرف حاصل کیا۔ لیکن فنا کے مقام میں قائم نہیں ہوا تو وہ عین الیقین میں ہے۔ اور جب فنا کے مقام میں قائم نہیں ہوا تو وہ عین الیقین میں ہے۔ اور جب فنا کے مقام میں مضبوط اور قائم ہو گیا۔ تو وہ حق الیقین میں ہے۔ یا تم اس طرح کہو:۔ شعاع البصیرت :۔ اہل عالم ملک کیلئے ہے عین البصیر ت :۔ اہل عالم حکوت کیلئے ہے۔ حق البصیرت: اہل عالم جبروت کیلئے ہے۔
یا اس طرح کہو: شعاع البصیرت : فنافی الاعمال والوں کیلئے ۔ عین البصیرت :- فنافی الذات والوں کیلئے ہے۔ حق البصیرت: فنافی الفناوالوں کیلئے ہے۔ پس شعاع البصیرت تم سے حق تعالیٰ کے قرب کا مشاہدہ تم کو کراتی ہے۔ یعنی تم سے حق تعالیٰ کے نور کے قرب کا مشاہدہ تمہارے لئے واجب کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلٍ الورید
اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کا نفس اس کے دل میں جووسوسہ پیدا کرتا ہے ہم اسے جانتے ہیں کیونکہ ہم اسکی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔ اور دوسری جگہ فرمایا:
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُم الله تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔ تم جہاں کہیں بھی ہو ۔
اورعین البصیرت – تم کو تمہارے عدم کا مشاہدہ کرتی ہے یعنی حق تعالیٰ کے وجود کے سامنے تمہارے اپنے وجود کے وہم کا زائل ہونا کیونکہ یہ محال ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ماسوا کا بھی مشاہدہ کرو تو جب تمہارے اپنے وجود کا وہم زائل ہو گیا اور تم اپنے وجود سے فنا ہو گئے۔ تو تم اپنے رب کا مشاہدہ اپنے رب کے ساتھ کیا اور یہ بصیرت کے کھلنے اور روح کے علاج کی علامت ہے۔ جیسا کہ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی عبدالرحمن مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
مَنْ رَأَى الْمُكَوِّنَ بِالْكُونِ عَزَّہ فِي عَمَى الْبَصِيرَةِ
وہ جس شخص نے خالق کو مخلوق کے ذریعہ دیکھا۔ اس نے اپنی بصیرت کے اندھا پن میں ترقی کی۔
وَمَنْ رَاى الكونَ بِالْمُكَوِّنِ صَادَفَ عِلَاجَ السَّرِيرَةِ
اور جس نے مخلوق کو خالق کے ذریعہ دیکھا اس نے روح کا علاج پا لیا۔
پس اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کی بصیرت اندھی ہو گئی ہے لیکن حقیقت وہی ہے جو پہلے بیان ہوا وہ یہ کہ ان کی بصیرت درست ہونے کے باوجود اس کی آنکھ بند ہے اس کے برعکس کفار کی بصیرت اندھی ہو چکی ہے۔
اور حق البصیرت :۔ صرف حق سبحانہ وتعالیٰ کے وجود کا نہیں ۔ کیونکہ وہ اپنے اصل سے گم ہے۔