بندے کیلئے اللہ کی تجلی حکمت نمبر08
بندے کیلئے اللہ کی تجلی کے عنوان سے باب اول میں حکمت نمبر08 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور چونکہ قہری تعرفات ( علامات ) جن کا ظاہر جلال ہے۔ اور ان کا باطن جمال ہے۔ اس لئے کہ ان کے بعد کمال کی صفات ظاہر ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات مرید ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وعدہ کے اور ان کے نتیجے میں مرتب ہونے والے فتوحات کے بارے میں شک وشبے میں پڑجاتا ہے۔ اس لئے حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا۔
8) إذا فَتَحَ لَكَ وِجْهَةً مِنَ التَّعَرُّفِ فَلا تُبْالِ مَعَها إنْ قَلَّ عَمَلُكَ. فإِنّهُ ما فَتَحَها لَكَ إلا وَهُوَ يُريدُ أَنْ يَتَعَرَّفَ إِليْكَ؛ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ التَّعَرُّفَ هُوَ مُوْرِدُهُ عَلَيْكَ والأَعْمالَ أَنْتَ مُهديها إلَيهِ. وَأَينَ ما تُهْديهَ إلَيهَ مِمَّا هُوُ مُوِرُدهُ عَلَيْكَ !
جب اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر معرفت کا کوئی دروازہ کھولے۔ اور اس کی وجہ سے اگر تمہارا عمل کم ہو جائے تو تم اس کی پرواہ نہ کرو۔ کیونکہ اس نے وہ دروازہ تمہارے اوپر اس لئے کھولا ہے ۔ کہ وہ تم کو اپنی پہچان کرانا چاہتا ہے۔ کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تمہارے اوپر معرفت کا وارد کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور اس کی طرف اعمال کا ہدیہ بھیجنے والے تم ہو؟ اور اس کی طرف تمہارے ہدیہ ، اور تمہاری طرف اس کے عطیہ میں کیا مناسبت ہے؟
ہدیہ اور عطیہ میں فرق
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے اسم پاک جلیل یا اپنے اسم پاک قہار کےساتھ تیرے اوپر اپنی تجلی ظاہر کرے اور اس تجلی سے تیرے اوپر کوئی دروازہ کھولے تا کہ تو اس دروازے سے اس کو پہچانے تو تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے اوپر مہربانی کی ہے۔ اور تجھ کو اپنے قرب کے لئے پسند کرنے اور اپنی بارگاہ قدس کے لئے منتخب کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ لہذا تو تعلیم و رضا کے ساتھ اس کے آداب کو لازم پکڑ ۔ اور فرحت و خوشی کے ساتھ اس کے سامنے حاضر رہ۔ اور اس جلالی وقہاری شان کی تجلی اور اس کے سامنے ادب اور تسلیم ورضا کے حاضر رہنے میں جو جسمانی اعمال تجھ سے فوت ہو جائیں۔ تو اس کا غم نہ کر ۔ کیونکہ جسمانی اعمال قلبی اعمال کے لئے وسیلہ ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کا یہ دروازہ تیرے اوپر اس لئے کھولا ہے۔ تا کہ وہ تیرے اور اپنے درمیان سے حجاب اٹھا دینا چاہتا ہے۔ کیا تو نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا ہے کہ یہ تعرفات (بلائیں)جلالی تیرے اوپر اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ تا کہ تو اس کی بارگاہ قدس میں داخل ہو جائے۔ اور جسمانی اعمال تو اس لئے بطور ہدیہ اس کے پاس بھیج رہا ہے۔ تا کہ اس کے ذریعے تو اس کے پاس پہنچ جائے ۔ اور مدخولہ ( کھوٹے ) اعمال، اور معلولہ (ناقص) احوال کا جو ہدیہ تو بھیج رہا ہے۔ اور معارف ربانی اور علوم لدنی کا جو تحفہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو عطا فر مایا ہے۔ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
لہذا اے مرید تم اپنے نفس کو اس سے راضی اور خوش رکھو۔ کیونکہ جلالی تعرفات اور قہری حادثات بیماریاں، اور ہر قسم کے درد، اور سختیاں ، اور خوف و خطر، اور وہ تمام چیزیں جو نفس پر گراں گزرتی اور اس کو تکلیف دیتی ہیں۔ اور مثلامحتاجی ، اور ذلت اور مخلوق کی ایذارسانی، اور اس کے علاوہ وہ چیزیں جو نفس کو نا گوار اور نا پسند ہوتی ہیں۔ ان امور میں سے جو بھی تمہارے اوپر نازل ہوا ہے۔ وہ بہت بڑی نعمت اور نہایت قیمتی بخشش ہے۔ اور وہ تمہارے صدق اخلاص کے قوی ہونے کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ جتنا بڑا اصدق ہوگا ۔ اتنا ہی بڑا تعرف ہوگا۔
اشَدُّكُمْ بَلَاءُ الأَنْبِيَاءُ فَالْأَمْثَلُ فَالامثل
تم میں سب سے زیادہ بلائیں انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام پر نازل ہوتی ہیں۔ پھر جو ان سے زیادہ مشابہ (یعنی ان کی اتباع کرنے والے ہیں) پھر ان کے بعد جو ان سے مشابہ (یعنی ان کی اتباع کرنے والے ہیں ۔
(اتباع کی مناسبت سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ جتنی زیادہ اتباع ہوتی ہے۔ اتنی ہی زیادہ بلائیں نازل ہوتی ہیں) پس صدق، متبوع ( پیشوا) ہے۔ اور تعرفات ( بلائیں) اس کی تابع (پیچھے چلنے والی) ہیں۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے درمیان دوری کے فاصلے کو لپیٹنا چاہتا ہے۔ تو اس کے اوپر بلا ئیں مسلط کرتا ہے تا کہ وہ خالص اور کثافتوں سے پاک وصاف ہو کر بارگاہ الہٰی کے لائق ہو جائے جیسا کہ چاندی اور سونا آگ میں جلا کر صاف کیا جاتا ہے۔ تا کہ بادشاہ کے خزانے میں رکھنے کے لائق ہو جائے ۔ اور اسی بناء پر عارفین ہمیشہ ان بلاؤں سے خوش ہوتے ہیں۔ اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بخششیں اور نعمتیں حاصل کرنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی عمرانی رضی اللہ عنہ نے بلاؤں کا نام شب قدر رکھا تھا۔ اور فرماتے تھے:۔ اس کا ہر گوشہ شب قدر ہے۔ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کے ذریعے بندہ قلوب کے اعمال کا مزہ چکھتا ہے۔ اور قلوب کے اعمال کا ایک ذرہ بدن کے پہاڑ جیسے اعمال سے افضل ہے۔ اور میں نے اس کے بارے میں دواشعار کہے ہیں ۔ وہ یہ ہیں
إِذَا طَرَقَتْ بِأَبِي مِنَ الدَّهْرِ فَاقَةٌ فَتَحْتُ لَهَا بَابِ المَسرَّة والبِشر
زندگی میں جب کبھی فاقہ نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا تو میں نے اس کیلئے مسرت اور خوشی کا دروازہ کھول دیا
وَقُلْتُ لَهَا أَهْلاً وَ سَهْلاً وَ مَرْحَبًا فَوَقتْكَ عِنْدِي أَحْظى مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
اور میں نے اس سے کہا: تم بہت خوب آئے ۔ تمہارا آنا مبارک ہو۔ تمہارا وقت میرے نزدیک شب قدر سے زیادہ مفید اور افضل ہے ۔