بہترین تدبیر کرنے والا حکمت نمبر04
بہترین تدبیر کرنے والا کے عنوان سے باب اول میں حکمت نمبر04 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
4) أَرِحْ نَفْسَكَ مِنَ التَّدْبيرِ. فَما قامَ بِهِ غَيرُكَ عَنْكَ لا تَقُمْ بهِ لِنَفْسِكَ.
تم اپنی ذات کو تدبیر ( کی تکلیف) سے آرام دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے جتنی بہتر تدبیر کر سکتا ہے۔ اتنی بہتر تدبیر تم اپنے لئے نہیں کر سکتے ہو ۔
بہترین تدبیر اور اسکی اقسام
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ تدبیر کے معنی :۔ کام اور اس کے انجام پر توجہ کرنا ہے۔ اور اہل تصوف کی اصطلاح میں وہ اس طرح ہے، جس طرح حضرت شیخ زروق نے فرمایا:۔ شانو ں کی تقدیران پر مستقبل میں اس طریقے پر ہوتی ہے۔ جس طریقے پر خوف کیا جاتا ہے۔ یا امید کی جاتی ہے۔ حکم کے ساتھ ، نہ کہ سپردگی کے ساتھ ۔ پس اگر سپردگی کے ساتھ ہو اور وہ اخروی ہو تو بھلائی کی نیت ہے۔ اور اگر طبعی ہو، تو وہ خواہش ہے ۔ اور اگر دنیاوی ہو تو وہ آرزو ہے۔ پس حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ کے کلام کا تقاضا یہ ہے کہ تدبیر کی تین قسمیں ہیں:
پہلی :۔ مذموم (بری) دوسری مطلوب تیسری مباح
مذموم تدبیر وہ ہے جس کے ساتھ پختہ اور مضبوط ارادہ ہو ۔ خواہ وہ دینی ہو یا د نیا وی۔ اس وجہ سے کہ اس میں ادب کی کمی ہے۔ اور جلدی کرنے کی وجہ سے تدبیر کرنے والے کی ذات کے لئے تکلیف اورتھکن ہے۔ اس لئے کہ اللہ حی وقیوم تیرے لئے جتنی بہتر اور مضبوط تد بیر کرے گا۔ اتنی بہتر تد بیر تم اپنی ذات کے لئے نہ کر سکو گے۔ اور اکثر تدبیر جو تم اپنی ذات کے لئے کرو گے، تقدیر اس سے موافقت نہ کرے گی۔ اور ان تدبیروں کے پیچھے غم اور کدورتیں لگی رہیں گی۔
اس لئے حضرت احمدبن مسروق نے فرمایا ہے،جس شخص نے تدبیر چھوڑ دی ، وہ راحت و آرام میں ہے۔
اور حضرت سہل بن عبد اللہ نے فرمایا ہے:۔ تدبیر اور اختیار کو ترک کر دو ۔ کیونکہ یہ دونوں، آدمیوں کے عیش و آرام کو خراب اورتلخ کر دیتے ہیں۔ اور حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا
إِنَّ اللهَ جَعَلَ الرَّوحَ وَ الرَّاحَةَ فِي الرِّضَى وَالْيَقِينِ اللہ تعالیٰ نے خوشی اور آرام رضا اور یقین میں بنایا ہے۔
حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی نے فرمایا ہے:۔ اپنے امور سے کچھ نہ اختیار کرو۔ اور اختیار نہ کرنا ، اختیار کرو۔ اور اس مختار سے، اور اپنے فرار سے اللہ تعالیٰ کی طرف بھا گو۔
وَرَبُّكَ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخۡتَارُۗاور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اختیار کرتا ہے
نیز فرمایا اگر تد بیر ضروری ہو تو یہ تدبیر کرو کہ کچھ تدبیر نہ کروو
نیز بزرگوں کا قول ہے: جس شخص نے تدبیر نہیں کی۔ اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) تدبیر کی گئی۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی نے فرمایا ہے:۔ ولی کامل کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ صرف اسی حال کا محتاج ہوتا ہے جس میں اس کا مولائے حقیقی اس کو قائم کرتا ہے اور اس کی مراد صرف وہ ہے جو قدرت کی اصل سے ظاہر ہوتا ہے۔
پس ان بزرگوں کا کلام اس تدبیر پر صادق ہوتا ہے جو یقین اور مضبوط ارادے کے ساتھ نفس کے لئے ہو اور جو تد بیر سپردگی کے ساتھ ہو وہ بری نہیں ہے۔ اگر لمبی نہ ہو۔
مطلوب تدبیر:۔ وہ مشیت الہٰی کی سپردگی اور اس کی قدرت کی طرف توجہ کے ساتھ ان فرائض اور واجبات کی جن کی پابندی کا تم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور ان اطاعتوں کی ، جن کی طرف تم کو دعوت دی گئی ہے۔ تدبیر کرنی ہے اور اس تدبیر کا نام صالح نیت رکھا گیا ہے۔ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا:
نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَملہ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے
نیز حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے روایت کر کے فرمایا ہے:۔
إِذَا هَمَّ عَبْدِى بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلَهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةٌ كَامِلَةٌ
جب میرے بندے نے کسی نیکی کا ارادہ کیا۔ لیکن اس کو کیا نہیں ۔ تو اس کے لئے ایک پوری نیکی لکھی گئی۔
اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے قول اللہ تعالیٰ تمہارے لئے جتنی بہتر تدبیر کر سکتا ہے کا مفہوم یہی ہے۔ اس لئے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے جن کاموں کی تدبیر کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے نہیں لی ہے۔ وہ اطاعت اور عبادت ہے۔ لہذا اس کی تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچائے گی۔
اس لئے حضرت ابراہیم خواص نے فرمایا ہے:۔ کل علم صرف دو لفظوں میں ہے۔ اس کیلئے تکلیف نہ کرو ۔ جس کے لئے تم کافی ہو ( یعنی تمہارے وجود کے لئے جو چیز یں ضروری ہیں ان کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ ان کے حاصل ہونے کے لئے تمہارا موجود ہونا کافی ہے ) اور اس کو ضائع نہ کرو جو تمہارے لئے کافی ہے۔ (یعنی فرائض و واجبات جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ) تو ان کا یہ قول اس کیلئے تکلیف نہ کرو جس کے لئے تم کافی ہو یہی مذموم تدبیر ہے اور اس کو ضائع نہ کرو جو تمہارے لئے کافی ہے یہی مطلوب تدبیر ہے۔
حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ جتنے امور شریعت نے مرتب کئے ہیں ۔ ان میں تمہارے لئے کچھ اختیار نہیں ہے۔ وہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے مرتب کیا ہے۔ ان کو سنو اور اطاعت کرو ۔ یہ ربانی فقہ اور الہامی علم کا مقام ہے۔ یہ ایسی زمین ہے جس پر اللہ تعالیٰ سے حاصل کی ہوئی حقیقت کا علم نازل ہوتا ہے۔ اس شخص کے لئے جو استوا کے مقام میں قائم ہوا۔ یعنی اس کی عقل کامل ہوئی۔ اور اس کی معرفت مکمل ہوئی۔ اور اس کی حقیقت اس کی شریعت کے ساتھ مضبوطی سے قائم ہوئی۔ لیکن ان احکام ہی کو مقصود سمجھ کر ان کی محبت مناسب نہیں ہے تا کہ ان میں مشغولیت اللہ تعالیٰ سے غافل نہ کر دے۔
مباح تدبیر:۔ وہ ہے کہ دنیاوی یا طبعی معاملات میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے لئے سپردگی ، اور اس کی قدرت سے جو ظا ہر ہو۔ اس پر نظر رکھتے ہوئے ان معاملات میں سے کسی شے پر بھروسہ کئے بغیر تد بیر کرنا ، اور حضرت نبی کریم ﷺ کے اس قول کو اس پر محمول کیا جائے گا۔ التَّدْبِيرُ نِصْفُ الْعَيْشِ تدبیر آدھی زندگی ہے
اس شرط کے ساتھ کہ یکے بعد دیگرے متواتر تدبیر کرتے رہنا فکر اور پریشانی میں نہ ڈالے ۔ لہذا اس قدر تد بیر مباح ہے، کہ اس کا گزر دل پر اس طرح ہو جیسے ہوا ایک کھڑ کی سے داخل ہوتی ہے اور دوسری کھڑکی سے نکل جاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ متعلق ہو کر تدبیر کرنا نہیں ہے اور یہ عارفین محققین کی شان ہے۔
اور اس تدبیر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تدبیر کا نتیجہ الٹا اور خلاف ظاہر ہوتا ہے تو دل کو کچھ فکر اور پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اس کا حال اس شعر کے مطابق ہوتا ہے:۔
سَلِّمُ لِسَلْمَى وَ سِرحَيْثُ سَارَتْ وَاتْبَعُ رِيَاحَ الْقَضَا وَ دُرُحَيْثُ دَارَتُ
تم سلمی کے فرمان بردار ہو ۔ اور جہاں وہ گئی تم بھی وہیں جاؤ ۔ اور قضا کی ہوا کے پیچھے چلو۔ اور جدھر وہ پھرتی ہے تم بھی ادھر ہی پھر جاؤ۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تنویر میں فرمایا ہے:۔
فائدہ:- جاننا چاہیئے ، کہ اشیاء اپنے نتیجے کے اعتبار سے بری اور اچھی کہی جاتی ہیں۔ لہذا بری تقدیر وہ ہے جو تم کو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے۔ اور اس کی خدمت انجام دینے کے قابل نہ رکھے۔ اور اس کے معاملے سے تم کو روک دے۔ اور اچھی تدبیر وہ ہو جو تم کو اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا مندی تک پہنچادے۔ تدبیر کے متعلق جو کچھ میرے اوپر ظاہر ہوا۔ وہ میں نے یہاں تحریر کیا۔ اور حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تدبیر کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ اس کا نام التنویر فی اسقاط التدبير رکھا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے تدبیر کے بارے میں بہت حسن و خوبی کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس کتاب کا مرجع وہی ہے جو ہم نے بیان کیاہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور جب میں نے اس کتاب کو مکمل کیا۔ تو ولی کامل سیدی حضرت یا قوت العرشی کو خبر ہوئی انہوں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ اور جو کچھ میں نے بیان کیا ہے۔ اس کو انہوں نے دو اشعار میں بیان فرمایا۔ وہ یہ ہیں :۔
مَا ثَمَّ إِلَّا مَا أَرَادَ فَاتْرُكُ هَمُوُمَكَ وَانْطَرِحُ
یہاں صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے۔ لہذا اپنی فکروں کو ترک کر کے خاموش پڑے رہو
وَاتُرُكُ شَوَاغِلَكَ الَّتِي شُغِلْتَ بِهَا تَسْتَرِحُ
اور جن تد بیروں میں تم مشغول ہو۔ انہیں ترک کر کے آرام حاصل کرو