بیالیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بیالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثانی والاربعون فی التقوی‘‘ ہے۔

  منعقده 19/ رجب 545 ھ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ  

تقوی اور ذات الہی پر توکل اور بھروسہ

 رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: مـن أحـب أن يكون أكرم الناس فليتق الله ومن أحب أن يكون أقوى الناس فليتوكل على الله ومن أحب أن يكون أغني الناس فليكن واثقا بما في يد الله أوثق على ما يده من أحب الكرامة دنيا واخرة فليتق الله عزوجل إن أكرمكم عند الله أتقاكم جوشخص یہ چاہے کہ سب لوگوں میں زیادہ عزت والا ہوا سے چاہئے کہ تقوی اختیار کرے، اور جو یہ چاہے کہ وہ سب سے زیادہ غنی ہو جاۓ ، اسے چاہئے کہ وہ اپنی دسترس کی چیزوں کی بجاۓ ان چیزوں پر بھروسہ کرے جو دست قدرت کے قبضے میں ہیں ، جو دنیا و آخرت میں عزت و بزرگی چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ تقوی اختیار کرے‘‘ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے:

إن أكرمكم عند الله أتقاكم” تم میں سے اللہ کے ہاں وہی عزت والا ہے جوتقوی شعار ہے ۔‘‘ تقوی میں عزت و اکرام ہے، نا فرمانی میں ذلت و رسوائی ہے، جو شخص اللہ کے دین میں قوت چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پر توکل رکھے  کیونہ توکل  دل کو درست رکھتا ہے؟ اسے قوی اور مہذب بنا تا ہے۔

 ( راہ سلوک) میں عجائبات قدرت دکھا تا ہے۔ تو اپنے درہم و دینار اور اسباب پر بھروسہ نہ کر کیونکہ یہ تجھے کمز ور اور عاجز کر دیں گے ، اللہ پر ہی توکل کر کیونکہ وہ تجھے قوی کر دے گا اور تیری مدد کرے گا، اور تیرے ساتھ مہربانی فرمائے گا ، اور ایسی جگہ سے فتح دے گا، جہاں کا تجھے بھی گمان بھی نہیں ہوا۔ اور تیرے دل کو اتنی طاقت دے گا، اتنی کہ تجھے نہ دنیا کےآنے کی پرواہ ہو گی نہ اس کے جانے کی نہ خلقت کی توجہ کرنے کی اور نہ اس کی بے رخی کی کچھ پرواہ ہوگی ، اب تو سب سے زیادہ قوی ہوگا ۔

جب تو اپنے مال واسباب، اہل دمرتبہ پر بھروسہ کرنے لگے گا تو اللہ کی ناراضی اور ان چیزوں کے زوال کا باعث بن جائے گا، کیونکہ غیرت الہی کو یہ بات گوارا نہیں کہ تیرے دل میں اپنے غیر کو دیکھے، جو شخص دنیا و آخرت میں غنی بنناچاہتا ہے، اسے چاہئے۔ – اللہ سے ڈرے کسی کی پرواہ نہ کرے – اس کے دروازے پر ٹھہرے کسی کے دروازے پر جانے سے گریز کرے، – نگاہوں کو غیر کی طرف نظر کرنے سے روکے، ان نگاہوں سے میری مراد دل کی آنکھیں ہیں بدن کی آنکھیں نہیں ۔ جو کچھ تیری دسترس میں ہے اس پر بھروسہ نہ کر کیونکہ وہ زوال پذیر ہیں ، اللہ کے بھروسہ کو نہ چھوڑ ، اسے بھی زوال نہیں، تیری جہالت اللہ کے بجائے دوسروں پر بھروسہ کے لئے ترغیب دے رہی ہے ۔ اللہ پر تیرا بھروسہ کامل تو نگری ہے اور غیر پر بھروسہ کرنا سراسر تنگ دستی ہے ۔ اے تقوی کو ترک کرنے والے تو دنیا وآخرت کی عزت و اکرام سے محروم ہو گیا،اے خلقت واسباب پر تکیہ کرنے والے! تو دنیا وآخرت میں اللہ کی قوت اور بھروسے سے محروم ہو گیا ۔اے اپنی دسترس کی چیزوں پر بھروسہ کرنے والے تو دنیاو آخرت میں اللہ کے ساتھ تو نگری سے محروم ہو گیا۔

بھلائی کی بنیا دصبر پر ہے:

اے بیٹا! اگر تو پرہیزگار، توکل کرنے والا اور اللہ پر بھروسہ کرنے والا بننا چاہتا ہے تو صبر کو اختیار کر ، کیونکہ صبر ہر بھلائی کی بنیاد ہے،  جب صبر کے لئے تیری نیت صحیح  ہو گی تو اللہ کی ذات کے لئے صبر کرے گا۔ اس صبر کا بدلہ یہ ہے کہ دنیا وآخر کے لئے تیرے دل میں اللہ کی محبت اور قرب داخل ہو جائیں گے ۔صبر اللہ سے اس کی قضا وقدر میں موافقت کرنے  کا نام ہے، جو کچھ کہ اس کے علم میں پہلے سے ہے، اور خلقت میں سے کوئی بھی اسے مٹانہیں سکتا۔ یہ بات ایمان والے ، یقین وا  لوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے مقدر پر مجبور نہیں بلکہ اختیاری طور پر خود صبر کیا صبر پہلے پہل اضطراری ہے، پھر اختیاری ہے۔

صبر کے بغیر تو ایمان کا دعوی کیسے کرتا ہے۔ اللہ کی رضا کے بغیر تو معرفت کا کیسے دعوی ہے۔ یہ شے فقط  دعوی سے حاصل نہیں ہوتی ۔ تیری بات اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک کہ  اللہ کا دروازہ نہ دیکھ لے – اس کی دہلیز پر سر نہ ر کھدے، تقدیر کے قدموں کے روند نے پر صابر نہ بن جائے ۔ فائدہ نقصان تیرے بدن کی کھال کی بجائے تیرے دل کا وجود نہ روند ڈالیں، اور تو اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے گویا کہ تو بے خودومتوالا ہے، گویا کہ تو روح کے بغیر بدن ہے۔ یہ عالم ایسے سکون کا محتاج ہے کہ جس میں حرکت نہ ہو ۔ – ایسی گم نامی کا محتاج ہے جس کا ذکر نہ ہو۔- قلب و باطن اور معنی اور باطن در باطن کی حیثیت سے یوں غائب ہونے کا محتاج ہے جس میں خلقت کے ساتھ مطلق حضور موجودگی نہ ہو۔میں تم سے بہت کچھ کہنا سنتا ہوں مگرتم اس پر عمل نہیں کرتے ،

جو دوا میں تجویز کرتا ہوں اسے استعمال نہیں کرتے ،بڑی وضاحت کے ساتھ باتیں کرتا ہوں لیکن تم انہیں نہیں سمجھتے، میں تمہیں بہت کچھ دینا چاہتا ہوں مگر تم نہیں لیتے۔ میں تمہیں بہت نصیحت کرتا ہوں لیکن ذرا کان نہیں دھرتے ۔کس چیز نے تمہارے دلوں کو سخت کر دیا ہے اور اپنے رب سے کس چیز نے جاہل بنا دیا ہے، اگر تم اپنے رب پہچان رکھتے ، اور اس سے ملاقات پر تمہارا ایمان ہوتا ،اورتم موت اور اس کے بعد کے حالات جو یقینا رونما ہوں گے، کو یاد کرتے تو تم قطعا ایسے نہ ہوتے ۔ کیا تم نے اپنے ماں باپ اور  اور عزیز اقارب کی موت کا حال نہ دیکھا، کیا تم نے اپنے حکمرانوں کا مرنا نہ دیکھا ، پھر بھی تم نے ان سے کوئی سبق نہ سیکھا، اپنے نفسوں کو دنیا کے طلب کرنے اور دنیا میں ہمیشہ ٹھہرنے کی محبت سے کیوں نہ ٹو کا  اپنے دلوں کی حالت کو کیوں نہ بدل اور انہیں بدل کے خلقت کو اپنے دلوں سے کیوں نہ باہر نکال کیا  ارشاد باری تعالی ہے: –

إِنَّ اللَّهَ لَا ‌يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى ‌يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ

اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔“ تم کہتے ہوعمل نہیں کرتے ، اور اگر کبھی کرتے بھی ہو تو اخلاص نہیں ہوتا ، عقل کرو، اللہ کے حضور بے ادب نہ بنو، ادب ے رہو، مدد چا ہوتو ہوشیار رہو، پر کھ کر اور استقامت سے کام  لو، اور غور کرو جس حالت میں تم مشغول ہو یہ حالت آخرت میں فائدہ نہ دے گی ، تم اپنے نفسوں پر بخل کرتے ہو۔ اگر سخاوت کر دتو وہ کچھ پاؤ جو انہیں آخرت میں فائدہ مند ہو۔ تم مٹ جانے والی چیزوں میں مشغول ہو ، اور رہ جانے والی چیز یں چھوڑ بیٹھے ہو، مال جمع کرنے اور بیوی بچوں میں مشغول نہ رہو عنقریب تمہارے اور ان کے بیچ حجاب آ جائے گا، دنیا کی طلب اور خلقت میں عزت کے لئے مشغول نہ رہوں اللہ کے سامنے یہ چیزیں کچھ کام نہ آ ئیں گی۔

تیرادل شرک سے ناپاک ہے۔ اللہ کے بارے میں شک کرنے والا ، اس پر تہمت لگانے والا ، اور اپنی سب حالتوں میں اس پر اعتراض کرنے والا ہے، لہذا اللہ نے تیرا یہ حال دیکھا توتجھے اپنا دشمن جانا، اور اپنے خاص بندوں کے دل میں تیرے لئے نفرت ڈال دی۔

اللہ کے لئے غیرت کا ایک نظارہ:

ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے نکلتے تھے تو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے تھے، ان کا بیٹا ان کا ہاتھ تھام کر لے جاتا، ان سے اس سے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے: میں یہ اس لئے کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والے کو نہ دیکھوں ۔“ اتفاق سے ایک دن آنکھوں سے پٹی ہٹائے گھر سے نکلے ۔اچانک ایک کافر پر نظر پڑگئی، وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ سبحان اللہ! – اللہ کے لئے ان کی کیسی غیرت تھی ، تو کس دل سے غیر کی عبادت کرتا ہے، اور اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے کیسے(مزے لے لے کر اس کی نعمتیں کھا تا ہے اور اس کی ناشکری کرتا ہے، یہ سب کرتے ہوئےتجھے احساس تک نہیں ہوتا، تمہارا کافروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، اس لئے نہ تمہارے دلوں میں ایمان ہے نہ اللہ کے لئے غیرت ۔ توبہ واستغفار کر اوراللہ سے حیا اور غیرت کر اس کے سامنے بے شرمی نہ کر دلیری کا پہناوا تاردے۔

مباحات کا خواہش اور شہوت سے حاصل کر نا غافل کرتا ہے:

 دنیا کی حرام اور شبہ والی چیزوں سے بچو، اس کے ساتھ مباح چیزیں جو خواہش و شہوت کے ساتھ ملیں ، ان سے بھی پرہیز کرو، کیونکہ مباحات کا خواہش اور شہوت کے ساتھ حاصل کرنا اللہ سے غافل کرتا ہے۔ رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا:

الدُّنْيَا ‌سِجْنُ ‌الْمُؤْمِنِ– دنیا ایمان والے کے لئے قید خانہ ہے۔“ قیدی، قید خانے میں کیسے خوش رہ سکتا ہے، اس کے لئے کوئی خوشی نہیں، بظاہر اس کے چہرے پر خوشی ہے لیکن دل میں رنج وغم ہے۔ ظاہری طور پر خوش ہے جبکہ باطن اور خلوت میں اور معنی کے اعتبار سے مصیبتیں اسے کاٹ کھائے جا رہی ہیں۔ کپڑوں کے نیچے زخموں پر پٹیاں بندھی ہیں، اور وہ اپنے زخموں کومسکراہٹ کے کرتے میں چھپائے ہوئے ہے کہیں کوئی اس کے حال کو نہ جان لے ۔

اس لئے اللہ تعالی اپنے فرشتوں پر ایسے شخص پر فخر کرتا ہے، اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کئے جاتے ہیں، ان میں سے ہر بندہ اللہ کے دین کی دولت اور اپنے باطن میں نہایت دلیر ہے، وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں، اورتقدیر کی تلخیوں کوگھونٹ گھونٹ کر کے پیتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنا محبوب بنالیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:۔ وَاللَّهُ يُحِبُّ ‌الصَّابِرِينَ اللہ صابروں کو چاہتا ہے۔

وہ محبت کی پرکھ کرنے کے لئے آزماتا ہے، جتنی زیادہ اس کی فرماں برداری کرے گا اور حتی الوسع نا فرمانی سے بچے گا ،اتنی ہی محبت اور زیادہ ہوگی ، اور جتنا اس کی بلاؤں پر صبر کرے گا ، اس قد رقرب اور بڑھے گا۔ ایک بزرگ ارشادفرماتے ہیں۔ ’’اللہ اپنے محبوب کو عذاب دینے سے انکاری ہے لیکن اسے بلا میں مبتلا کر کے صبر کی توفیق سے دیتا ہے۔“

رسول اکرم  ﷺ نے فرمایا: وكأنك بالدنيا ‌لم ‌تكن، وبالآخرة لم تزلجیسے کہ د نیا تھی ہی نہیں ، جیسے کہ آخرت سدا سے ہے۔‘‘

دنیا کی طلب چھوڑ کر ذات الہی کے طالب بنو :

اے دنیا کی طلب کرنے والو! اےدنیا سے پیار کر نے والو ، میری طرف آؤ تا کہ تمہیں دنیا کے عیب دکھلاؤں اور حق کا راستہ دکھاؤں ، اور ان لوگوں سے ملاؤں جوذات الہی کے طالب ہیں ، تم مجسم ہوس بنے ہوئے ہو۔ میری بات سنو اور اس پر عمل کرو، اور اخلاص سے عمل کرو،  میرے کہنے پرعمل کرو گے، اور اس پر عمل کرتے ہوئے جب دنیا سے چلے جاؤ گے۔ تو اعلی علیین کی طرف بلند مراتب کے ساتھ اٹھائے جاؤ گے، جب وہاں نظر دوڑاؤ گے تو میرے کہے گئے کی اصلیت اور حقیقت سامنے آ جائے گی۔ تب میرے لئے دعائے خیر کرو گے ، اور جن باتوں کی طرف میں اشارہ کرتا ہوں ، ان کی اصلیت و حقیقت معلوم ہو جائے گی ۔

اے لوگو! اپنے دلوں میں مجھ پر تہمت نہ دھرو، میں کھیلنے کودنے والا اور دنیا کا طالب نہیں ، میں تو جو کچھ بھی کہتا ہوں ۔ سچ ہی کہتا ہوں ، اور سچ ہی کی طرف اشارہ کرتا ہوں ، میں زندگی بھر صالحین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے ان کی خدمت کرتا رہا، آج مجھے اس خدمت کا صلہ مل رہا ہے، میں اپنے وعظ ونصیحت کی اجرت نہیں مانگتا، میرے کہے ہوئے کیا قیمت یہی ہے کہ اس پر عمل کرو ۔ میرا کہا ہوا خلوت اور اخلاص کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے شایان شان ہے، حیلوں اور اسباب کے جاتے رہنے سے نفاق بھی جا تارہتا ہے نفسوں کی بجائے ایمان وایقان کی تربیت کی جاتی ہے وہی پھلتے پھولتے ہیں خواہشوں کے لئے جو کچھ بھی خرچ کیا جا تا ہے وہ ایمان دار کے لئے ہے،منافق کے لئے نہیں۔

 جاہل کی زبان دل کے آگے ، عاقل و عالم کی زبان دل کے پیچھے

اے لوگو! بے ہودہ آرزوؤں اور حرص کو چھوڑ دو، اللہ کی یاد میں لگ جاؤ فائدہ دینے والوں سے بات کرو، نقصان دینے والوں سے چپ رہو، جب بات کرنا چاہو تو پہلے اس میں سوچ بچار کر لو، پھر نیک نیتی کے ساتھ بات کیا کرو،  اس لئے کہا گیا ہے: ’’جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے ہے ، عاقل وعالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے “ تو چپ سادھ لے – اللہ تعالی جب:تجھے بلوانا چاہے گا تو بلوالے گا۔تجھ سے کچھ کام لینا چاہے گا تو اس کے لئے تجھے تیار کر دے گا۔ اس کی معیت اور صحت کے لئے گونگا ہونا شرط ہے، جب گونگائی کامل ہو جائے گی ،اللہ چاہے تو گویائی مل جائے گی ، اور اگر وہ چاہے تو آخرت تک گونگاہی رکھے ۔ رسول اکرم  ﷺ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: مَنْ ‌عَرَفَ ‌اللَّه كَلَّ ‌لِسَانُهُو اللہ کو پہچان لینے والے کو بولنے سے روک دیا جا تا ہے ۔‘‘

ہر چیز میں اللہ پر اعتراض کرنے سے اس کے ظاہر و باطن کی زبان بند ہو جاتی ہے  جھگڑے بغیر وہ ہر کام میں موافق ہو جاتا ہے۔ ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہتا ہے، اس کے دل کی آنکھیں غیر کی طرف دیکھنے سے اندھی ہو جاتی ہیں ۔ اس کا باطن پاش پاش ہو جا تا ہے ، اس کے معاملات درست نہیں رہتے ، اس کا مال بکھر جاتا ہے، اپنے وجود اور دنیا و آخرت سے نکل جا تا ہے، اس کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ پھر اگر اللہ چاہے تو اسے زندہ کر دیتا ہے، غیر موجود ہونے کے بعد دوبارہ موجود کر دیتا ہے۔ فنا کے ہاتھ سے اسے فنا کرتا ہے، پھر بقا کے ہاتھوں دوبارہ زندہ کر دیتا ہے ، تا کہ طالب بقاالہی ہو جائے ۔ پھراسے خلقت کی طرف لوٹا دیتا ہے تا کہ اسے خلقت کی محتاجی سے نکال دے اورفقر سے غنا کی طرف لائے ، غنا دراصل اللہ کی ذات سے متصل ہونے کا نام ہے ۔ اور اللہ کی ذات سے دوری اور اس کے غیر سے غنا طلب کرنا فقر ومحتاجی ہے، غنی وتو نگر وہی ہے جو اللہ کے قرب میں ظفر یاب ہو، اور فقیر ومحتاج وہ ہے جو قرب الہی کے دروازے سے دور جا پڑا، جو بندہ اس غنا کا طالب ہو تو دنیا وآخرت اور جو کچھ ان میں ہے اور ماسوی اللہ سب کو ترک کر دے – سب چیزوں کو اپنے دل سے آہستہ آہستہ نکال ڈالے، اور جو کچھ تھوڑا بہت تمہارے پاس ہے، اس کے چکر میں نہ پڑو، یہ جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے اللہ نے اسے تمہارے لئے سفر خرچ بنا دیا ہے تا کہ اسے اس کی راہ میں چلنے کے لئے توشہ سفر بناؤ۔ اس نے اپنی نعمتیں تمہیں اس لئے عطا کی ہیں کہ انہیں اس کی طرف نسبت دو، اورتمہیں علم اس لئے عطا فرمایا ہے کہ اس پرعمل کر داور اس کے نور سے ہدایت پاؤ۔ اللهم اهد قلوبنا إليك ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! ہمارے دلوں کو اپنی طرف ہدایت دے  اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرماء  اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 283،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 156دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں