بے ادبی تاخیر کا سبب کے عنوان سے گیارھویں باب میں حکمت نمبر 109 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تم بشریت کے وصف سے پاکیزگی میں اپنے رب تعالیٰ سے یہ طلب کرتے ہو کہ وہ تمہارے لئے خصوصیت کا سر ظاہر کر دے۔ لیکن تمہارا مقصد پورا ہونے میں تاخیر ہوتی ہے تو یہ صرف تمہاری بے ادبی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے۔
109) لا تُطَالِبْ رَبَّكَ بِتَأَخُّرِ مَطْلَبِكَ وَلكِنْ طَالِبْ نَفْسَكَ بِتَأَخُّرِ أَدَبكَ.
اپنے مقصد کی تاخیر کے بارے میں تم اپنے رب سے نہ طلب کرو۔ بلکہ اپنے ادب کی تاخیر کے بارے میں طلب کرو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: یہ عام قاعدہ ہے۔ اگر چہ اس کی مناسبت خاص ہے۔ جب تم کوئی شے طلب کرتے ہو، پھر اس مطلب کے پورا ہونے میں تاخیر ہوتی ہے تو یہ تمہارے حسن ادب کے فوت کر دینے کی وجہ سے ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے لیکن اس طلب کا خاص ارادہ ہے تو اپنے رب سے یہ مطالبہ نہ کرو، کہ تمہارے مطلب کو جلد پورا کرے کیونکہ اس میں تاخیر ہو گئی ہے بلکہ اپنے نفس سے ادب کی تاخیر کے بارے میں مطالبہ کرو کیونکہ اگر تم طلب میں حسن ادب اختیار کرو گے تو حقیقت میں تمہاری حاجت پوری کر دی جائے گی۔ اگرچہ ظاہر میں نہ پوری ہو۔ اور یہاں حسن ادب تمہارا اللہ تعالیٰ کے علم کو کافی سمجھنا، اور اس کے حکم پر تمہا را راضی رہنا ، اور تمہارا اس پر بھروسہ کرنا جو اس نے تمہارے لئے پسند کیا ہے۔ نہ کہ اس پر بھروسہ کرنا جو تم نے اپنے نفس کے لئے پسند کیا ہے۔ کیونکہ تمہارا علم کم ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری قبولیت کی ذمہ داری اس چیز میں لی ہے، جو وہ چاہتا ہے۔ نہ کہ اس چیز میں جو تم چاہتے ہو۔ اور اس وقت میں لی ہے، جس میں وہ چاہتا ہے نہ کہ اس وقت میں جو تم چاہتے ہو۔ کسی عارف نے کیا خوب فرمایا ہے۔
وَكَمْ رَمْتُ أَمْراً خَرْتَ لِي فِي انْصِرَافِهِ فَلَا زِلْتَ لِي مِنِّي أَبَرَّوَ أَرْحَمُهَا
اکثر میں نے ایسے کام کا ارادہ کیا جس کے الٹا ہونے ہی میں تو نے میری بھلائی رکھی۔ پس تو ہمیشہ میرے لئے مجھ سے زیادہ بھلائی کرنے والا اور مہربان رہا۔
عَزَمْتُ عَلَى إِلَّا أُحِسُّ بِخَاطِرٍ عَلى القَلْبِ إِلَّا كُنتَ أنتَ الْمُقَدَّما
میں نے یہ پختہ ارادہ کیا کہ میں اپنے دل کے خیال کو نہ محسوس کروں۔ مگر تو میرے سامنے آ گیا ۔
وَالَّا تَرَانِي عِندَ مَا قَد نهيتنی لأنكَ فِي نَفْسِي كَثيراً معظما
اور یہ ارادہ کیا کہ تو مجھے اس کے قریب نہ دیکھے جس سے تو نے مجھے منع کیا ہے، اس لئے کہ تیری کبریائی اور عظمت میرے دل میں ہے ۔۔
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے اے آدم کی اولاد! تم میری اطاعت اس چیز میں کرو جس کے کرنے کا میں نے تم کو حکم دیا ہے۔ اور تم مجھے یہ نہ بتاؤ کہ میرے لئے یہ مفید و مناسب ہے۔ میں اپنی حقوق کے بارے میں تم سے زیادہ علم رکھتا ہوں۔ میں صرف اس شخص کی عزت کرتا ہوں جو میری عزت کرتا ہے اور میں اس شخص کو رسوا کرتا ہوں جو میرے حکم کو اپنے اوپرہلکا اور حقیرسمجھتا ہے۔ اور میں اپنے بندے کے حق میں اس وقت تک نظر نہیں کرتا جب تک میرا بندہ میرے حق میں نظر نہیں کرتا۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی