تجلیات الہی کے آداب (باب ہفتم)

 تجلیات الہی کے آداب کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر67 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جملہ آداب سے یہ ہے ہم کسی مقام کو جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو قائم کیا ہے، حقیر نہ سمجھے۔ وہ جب تک بھی اس مقام میں قائم رہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں اس طرف اشارہ فرمایا :-
67) إِذَا رَأَيْتَ عَبْدًا أَقَامَهُ اللهُ تَعَالَى بِوُجُودِ الأَوْرَادِ ، وَأَدَامَهُ عَلَيْهَا مَعَ طُولِ الإِمْدَادِ فَلاَ تَسْتَحْقِرَنَّ مَا مَنَحَهُ مَوْلاَهُ ؛ لأَنَّكَ لَمْ تَرَ عَلَيْهِ سِيمَا الْعَارِفِينَ ، وَلاَ بَهْجَةَ الْمُحِبِّينَ ، فَلَوْلاَ وَارِدٌ مَا كَانَ وِرْدٌ.
جب تم کسی بندے کو دیکھو۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اد ( ظاہری ذکر ) میں قائم کیا ہے ۔ اور امداد کی زیادتی کے ساتھ اس کو ہمیشہ اس میں مشغول رکھا ۔ یعنی استقامت عطا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جو عطا کیا تم اس کو اس وجہ سے حقیر نہ سمجھو کہ تم نے اس میں عارفوں کی نشانی نہیں دیکھی ۔ اور محبین کی خوبی نہیں پائی۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے اوپر نہ ہوتا تو ورد میں اس کی مشغولیت نہ ہوتی ۔
شیخ یعنی مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس باب کی تاکیدی چیزوں میں یعنی آداب کے سلسلہ میں یہاں جو بیان کیا۔ وہ یہ ہے:۔ اللہ تعالیٰ کی تجلیات میں سے کسی شے کو حقیر نہ سمجھے۔ خواہ وہ کسی حال پر ہو۔ پس یہ مناسب نہیں ہے کہ مقتدر سے جھگڑا کیا جائے ۔ اور نہ یہ کہ قہار سے مخالفت کی جائے۔ اور نہ یہ کہ حکیم پر اعتراض کیا جائے ۔ تو جب کسی بندے کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اد یعنی ظاہر کے ذکر میں مشغول کیا ہے۔ جیسے نماز ، روزہ ، اور ذکر کی کثرت، اور تلاوت ، اور مجاہدہ کی کثرت اور اس کے ساتھ ہمیشہ مشغول رہنے میں اس کو استقامت عطا کی ہے۔ اور یہ اس کو باطن میں تقویت دینی، اور ظاہر میں شواغل ( مشغولیتوں ) اور شواغب (فتنوں ) سے اس کو دور رکھنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر ذوق کے علم ، اور قلب کے عمل کا دروازہ نہیں کھولا ہے ۔ تو تم ہر گز اس کے حال کو جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہے؟ اس وجہ سے حقیر نہ سمجھو کہ تم نے اس کے اندر عارفین کی نشانی (مثلا) سکون و اطمینان قلب، اور جسمانی اعضاء کا آرام نہیں دیکھی ۔ جو روحوں پر رضا و تسلیم کی ہوائیں چلنے کے باعث ان کو حاصل ہوتی ہے۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ عارفین کی نشانی تین ہیں:۔
اول:۔ ہر حال میں اور ہر طریقہ پر اپنے معروف کے ماسوی سے منہ پھیر لینا۔
دوم حظوظ کے ترک اور حقوق کے قائم کرنے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا۔
سوم : ۔ اس کے قضا و قدر کے احکام میں اس سے راضی رہنا ۔ نیز اس کے حال کو اس وجہ سے بھی حقیر نہ سمجھو کہ تم نے اس کے اندر محبین کی خوبی نہیں دیکھی۔ مثلا اپنے محبوب سے خوش رہنا، اور کثرت سے اس کا ذکر کرنا۔ اور اس کے شکر میں قائم رہنا، اور اس کی محبت پر رشک کرنا۔ اور اس کی محبت اور مرضی کی طلب میں سبقت کرنا ، اور اس کی عظمت کے سامنے عاجزی کرنا ، اور اس کے غلبہ کے سامنے ذلیل رہنا۔
ایک عارف کے اشعار ہیں:۔
تذلُلْ لِمَنْ تَهْوَى فَلَيْسَ الْهَوَى سَهْلٌ إِذَا رَضَىَ الْمَحْبُوبُ صَحَّ لَكَ الْوَصْلُ
تم جس کو محبت کرتے ہو، اس کے سامنے ذلت اختیار کرو ۔ کیونکہ محبت کرنا آسان نہیں ہے۔محبوب راضی ہو گا۔ تو تمہارے لئے وصل درست ہو گا۔
تَذَلَّلُ لَهُ تَحْظَى بِرُؤْيَا جَمَالِهِ فَفِي وَجْهِ مَنْ تَهْوَى الْفَرَائِضُ وَالنَّفْلُ
جس کے جمال کے دیدار سے تم کو لطف حاصل کرنا ہے اس کے سامنے عاجزی اختیار کرو۔ کیونکہ تمہارے محبوب کے سامنے ہی فرض و نفل ہے۔ تو تم کیسے حقیر سمجھو گے اس شخص کو جس کی خدمت ہمیشہ رہتی ہے۔
اور جس کے اور اد متصل (لگا تار ) رہتے ہیں؟ پس اگر اس کے اس کے باطن میں فضل الہٰی نہ ہوتا تو اپنے اور اد کے ہمیشہ کرنے پر قدرت نہ رکھتا۔ تو اگر فضل الہٰی نہ ہوتا تو ورد نہ ہوتا ۔ پس وارد:۔ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری طرف آئے ۔ اور ورد:۔ وہ ہے جو تمہاری طرف سے اس کی طرف پیش ہو۔ (ولو لا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنكُم مِّن اَحَدٍ ابدًا) اور اگر تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاکیزہ نہ ہوتا ۔ (وَلَو لَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَا تَبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قليلا اگر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم لوگ شیطان کی پیروی کرتے مگر تھوڑے لوگ ۔ (يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ) و ان لوگوں سے محبت کرتا ہے اور یہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں (ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا) پھر وہ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہو تا کہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں۔
تو پہلے عنایت یعنی توفیق ہوتی ہے۔ پھر ہدایت ملتی ہے اور سب معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ تحقیق میں ہے:۔ یہاں صرف توفیق کی سبقت ہے۔ اور کچھ اختیار اور قوت نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ مومنوں کی عزت کرو۔ اگر چہ وہ نافرمان فاسق ہوں۔ اور ان کے اوپر حدود قائم کرو۔ اور ان سے جدائی ان کے ساتھ رحم کی بناء پر اختیار کرو۔ نہ کہ ان کو گندہ سمجھ کر ۔ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نسبت کرنے والے کی عزت اس کی نسبت کے لحاظ سے مقرر ہوتی ہے۔ پھر اگر وہ جھوٹا ہے تو معاملہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے۔ جس سے وہ اپنے کو منسوب کرتا ہے ہمارا کام اس پر اس کے حق کو قائم کرنا ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ اس پر قائم اور ثابت ہو جائے ۔ ہم اس کے ساتھ آقا کے اس غلام کی طرح ہیں۔ جو اپنے آقا کے لڑکے کو آقا کے حکم سے مارتا ہے۔ وہ اس کو ادب سکھاتا ہے۔حقیر نہیں سمجھتا۔
حضرت ابوالحسن جرانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے اشعار ہیں:۔
ارْحَمْ بَنَى جَمِيعَ الْخَلْقِ کُلِهِمُ وانظر اليهم بِعَيْنِ اللطف وَالشَّفْقَة
اے بیٹے ! سب حقوق پر رحم کرو۔ اور ان کی طرف مہربانی اور شفقت کی نظر سے دیکھو ۔
وَقَرُ كَبيْرَهُمْ وَارْحَمْ صَغِيرَهُمْ وَرَاعٍ فِي كُلِّ خَلْقٍ حَقٌّ مَنْ خَلَقَهُ
ان کے بڑوں کی عزت کرو اور ان کے چھوٹوں پر رحم کرو۔ اور ہر حقوق میں خالق کے حق کی رعایت کرو۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں