ترک طلب کے آداب کے عنوان سے انیسویں باب میں حکمت نمبر 172 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
انیسواں باب
ترک طلب کے ادب کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :-
172) رُبَّمَا دَلَّهُمُ الأَدَبُ عَلَى تَرْكِ الطَّلَبِ اعْتِمَادًا عَلَى قِسْمَتِهِ وَاشْتِغَالاً بِذِكْرِهِ عَنْ مَسْأَلَتِهِ .
اکثر اوقات ادب، عارفین کی رہنمائی ، دعا اور طلب کے چھوڑ دینے کی طرف کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ ایسا اس لئے ہے۔ کہ عارفین اور اہل فنا پر قضا و قدر کا احکام کے ماتحت خاموشی اور سکون غالب ہوتا ہے، اس وجہ سے دعا اور طلب ان سے کم ہی صادر ہوتا ہے۔ کیونکہ عارف اپنے نفس سے فانی اور اپنی حس سے غائب ہوتا ہے نہ اس کو اپنی ذات کی خبر ہوتی ہے۔ نہ اس کو غیر اللہ کے ساتھ قرار ہوتا ہے۔ لہذا اس کی طرف سے کسی قسم کے سوال کا یا اس کے کسی مقصد کےفوت ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:-
مَنْ شَغَلَهُ ذِكْرِى عَنْ مَسْئَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ جس شخص کو میرے ذکر کی مشغولیت نے مجھ سے سوال کرنے سے غافل کر دیا ہے میں اس کو سوال کرنے والوں سے زیادہ دیتا ہوں۔
اشیاء اس کی مشتاق ہوتی ہے۔ اور وہ ان سے بے نیاز ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:- اشتاقَتِ الْجَنَّةَ إِلَى عَمَّارٍ وَصُهَيْبٍ وَبِلَالٍ جنت :۔ حضرت عمار اور حضرت صہیب اور حضرت بلال رضی اللہ عنھم کے لئے مشتاق ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ بندہ جب تک اپنے نفس سے غائب اور اپنے رب کےمشاہدے میں فانی اور اپنے حس سے جدا ہوتا ہے۔ اس سے طلب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے طلب ، دوئی چاہتی ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ وہ دریائے وحدت میں ڈوبا ہواہے۔ لہذا اس وقت اس کا طلب کرنا ، اس کے حق میں بے ادبی ہے۔ پھر اگر وہ اپنے نفس کے شعور کی طرف لوٹا دیا جائے ۔ اور یہ بقا کا مقام ہے ۔ تو عبودیت کے طریقے پر ، نہ کہ کچھ چاہنے اور طلب کرنے کے طریقے پر ، اس کی طرف سے سوال کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دعا و طلب ترک کرنے میں عارفین کے بھروسہ کی وضاحت فرمائی۔
اعْتِمَادًا عَلَى قِسْمَتِهِ وَاشْتِغَالاً بِذِكْرِهِ عَنْ مَسْأَلَتِهِ .اپنے قسمت پر بھروسہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ دعا اور طلب سے باز رہتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- از لی قسمت پر بھروسہ کا بیان حکمت کی بحث میں اس سے پہلے گزر چکاہے۔ اور ذکر میں مشغول ہونے کی بنا پر سوال سے غافل ہونا ۔ اس سلسلے میں ابھی یہ حدیث شریف درج کی گئی ہے :-
مَنْ شَعَلَهُ ذِكْرِى عَنْ مَسْئَلَةِ حضرت واسطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ ازل میں تمہارے لئے جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ اس وقت کے جھگڑے یعنی فوائد کی طلب سے بہتر ہے۔
حضرت قشیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:۔
صوفی جب اپنے قلب میں دعا کے لیے اشارہ پائے تو دعا کرے۔ مثلاً جب دعا کے لئے اپنے قلب میں خوشی اور فراخی پائے تو دعا بہتر ہے اور جب اپنے قلب میں تنگی اور رکاوٹ پائے تو خاموشی بہتر ہے
بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ پچاس سال ہوئے میں نے اپنی زبان سے اللہ تعالی سے کچھ نہیں مانگا اور نہ میں دعا کرنا چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ میرے لئے دعا کی جائے۔