تصوف میں “مشرب” کا مفہوم

تصوف میں “مشرب” کا مفہوم

تصوف میں “مشرب” کا معنی

مشرب کے معنی مسلک  مذہب ،عقیدہ اور دین کے ہیں

تصوف میں “مشرب” کا مطلب وہ مخصوص روحانی طریقہ، نظریہ یا رنگ ہے جو کسی صوفی سلسلے یا روحانی شخصیت کی تعلیمات میں غالب ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح دراصل “شرب” (پینا) سے نکلی ہے، جو کسی خاص روحانی فیض یا معرفت سے سیراب ہونے کی علامت ہے۔ ہر صوفی کا ایک الگ ذوق، طریقہ، اور فہم ہوتا ہے، جسے اس کا “مشرب ” کہا جاتا ہے۔
“مشرب” اور سلاسلِ تصوف
تصوف میں مختلف سلاسل (طریقے) پائے جاتے ہیں، جن کے اپنے اپنے مشرب ہوتے ہیں۔ جیسے:
– چشتیہ مشرب ۔ عشقِ الٰہی، سماع (قوالی)، نرمی اور وسعتِ قلبی
– قادریہ مشرب۔ جلال، شریعت پر سختی، قوتِ روحانی، اور کرامات
– نقشبندیہ مشرب۔ خاموش ذکر، مراقبہ، اور سخت مجاہدہ
– سہروردیہ مشرب۔ علم و حکمت، فقہ و شریعت کی پاسداری
اگرچہ یہ تمام سلاسل ایک ہی منزل (اللہ کی معرفت) کی طرف لے جاتے ہیں، لیکن ان کے طریقے یا “مشرب” مختلف ہو سکتے ہیں۔
“مشرب کی اقسام “
1. “مشربِ عشق”۔اللہ سے بے پناہ محبت اور فنا فی اللہ کی کیفیت (مثلاً حضرت بایزید بسطامیؒ)
2. “مشربِ معرفت ” اللہ کی حقیقت و صفات کی گہری پہچان (مثلاً حضرت جنید بغدادیؒ)
3. “مشربِ زہد”دنیا سے مکمل بے رغبتی اور فقر (مثلاً حضرت رابعہ بصریؒ)
4. “مشربِ جلال” جاہ و جلال، ہیبت اور روحانی قوت (مثلاً حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ)
5. “مشربِ جمال” نرمی، حلم، محبت اور کرم (مثلاً حضرت نظام الدین اولیاءؒ)
“مشرب اور سالک (طالبِ معرفت)
ہر سالک (راہِ سلوک کا مسافر) کی طبیعت، استعداد اور رجحان کے مطابق اسے ایک خاص “مشرب” دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اللہ کی طرف آسانی سے سفر کر سکے۔ بعض لوگ عشق کی راہ سے پہنچتے ہیں، بعض معرفت کی راہ سے، اور بعض عبادت و زہد سے۔
“حاصل کلام”
تصوف میں “مشرب”ایک گہرا روحانی نظریہ ہے، جو ہر صوفی کی اندرونی کیفیت، روحانی طریقہ اور اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کو بیان کرتا ہے۔ تمام مشارب کا مقصد ایک ہی ہے: “حق تعالیٰ کی معرفت اور وصال” لیکن ان کے طریقے اور رنگ مختلف ہوتے ہیں۔

ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں