تعرفات جلالیہ (باب اول)

تعرفات جلالیہ حکمت نمبر08

تعرفات جلالیہ کے عنوان سے  باب اول میں  حکمت نمبر08 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

جھوٹے دعویدار

یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ تعرفات جلالیہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے۔ اور انسان کے پرکھنے کے لئے کسوٹی ہے۔ اور کسوٹی ہی کے ذریعے چاندی اور سونا پرکھ کر پیتل اور تانبہ سے الگ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بہت سے جھوٹا دعوی کرنے والے ہیں جو اپنی زبان سے معرفت اور یقین کا دعوی کرتے ہیں۔ لیکن جب قضا و قدر کی آندھیاں ان کے اوپر پہنچ جاتی ہیں تو ان کو مایوسی اور انکار کے گڑ ھوں میں ڈال دیتی ہیں۔ جس نے بھی ایسی شےکا دعوی کیا جو اس میں نہیں ہے تو امتحان کے گواہوں نے اس کو ذلیل ورسوا کر دیا ۔
ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔ ان لوگوں کے حال پر بہت سخت تعجب ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی صفات جلالی کی تجلی سے ان کو بلاؤں اور مصیبتوں میں مبتلا کر کے اپنی معرفت ان کو عطا کرنا چاہتا ہے تو وہ بھاگتے اور انکار کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ حضرت بوزیدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:۔ تعرفات جلالیہ کی تین قسمیں ہیں۔
پہلی قسم :- سزا دینی اور ہٹا دینا ہے۔ دوسری قسم : ادب سکھانا اور خبر دار کرنا ہے۔ تیسری قسم : زیادتی اور ترقی دینی ہے۔

پہلی قسم

سزا دینی اور ہٹا دینا: وہ یہ ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کیسا تھ بے ادبی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سزا دینے کے لئے بلا میں مبتلا کرتا ہے۔ پس وہ اس میں مبتلا ہو کر جہالت و نادانی کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ناراض ہوتا ہے۔ مایوس ہوتا ہے اور منکر ہو جاتا ہے۔ لہذا وہ شخص اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا اور اس کی بارگاہ قدس سے ہٹادیا جاتا ہے۔

دوسری قسم

ادب سکھانا اور خبردار کرنا:۔ وہ یہ ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے ادبی کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو ادب سکھانے اور تنبیہ کرنے کے لئے بلا میں مبتلا کرتا ہے۔ پس وہ اس بلا میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے۔ اور اپنی بے ادبی سے خبردار، اور اپنی غفلت سے ہوشیار ہو جاتا ہے۔ لہذا بلا اور مصیبت کے مظہر میں یہ تصرف جلالی اس کے حق میں نعمت ہے۔

تیسری قسم

زیادتی اور ترقی دینا: وہ یہ ہے کہ اس کے اوپر تعرفات جلالی یعنی بلا ئیں بغیر کسی سبب کے نازل ہوتی ہیں ۔ پس وہ ان بلاؤں میں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اور اس کے آداب کا پورا لحاظ رکھتا ہے۔ اور اس کے ذریعے رسوخ و تمکین (معرفت الہٰی میں مضبوطی کے ساتھ قائم ہونے )کے مقام پر ترقی کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں اسی وجہ سے بزرگوں نے فرمایا ہے:
بِقَدْرِ الْأَمْتِحَانِ يَكُونُ الْإِمْتِكَانُ امتحان کے مطابق درجات کی بلندی ہوتی ہے
نیز فرمایا ہے: اخْتِبارُ الْبَاقِي يَقْطَعُ التباقِی اللہ باقی کا امتحان بندے کے باقی رہنےکو ختم کر دیتا ہے ۔
فائدہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے او پر جلال آسان ہو جائے تو تم اس کی ضد کے ساتھ اس کا مقابلہ (سامنا) کرو ۔ اور اس کی ضد جمال ہے۔ تو جلال فورا ًجمال سے بدل جائے گا۔ یعنی جمال کی صورت اختیار کر لے گا ۔ اور اس کی صورت یہ ہے:۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے اسم پاک قابض کے ساتھ تمہارے ظاہر میں تجلی کرے۔ تو تم اپنے باطن میں بسط پیدا کر کے اس کا مقابلہ کرو ۔ اور جب وہ اپنے اسم پاک عزیز تمہارے ظاہر میں تجلی کرے تو تم اپنے باطن میں ذلت پیدا کر کے اس کا مقابلہ کرو۔ اور جب وہ اپنے اسم پاک قوی کے ساتھ تمہارے ظاہر میں تجلی کرے تو تم اپنے باطن میں کمزوری کی کیفیت پیدا کر کے اس کا سامنا کرو۔ اسی طرح ہر صفت کی تجلی کا مقابلہ اس کی ضد سے قدرت اور حکمت کے ساتھ قائم رہتے ہوئے کرو۔ ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔ حقیقت صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر تم نے شہد سمجھ کر پیا ہے تو تم اس کو شہد پاؤ گے۔ اور اگر دودھ سمجھ کر پیا ہے تو تم اس کو دودھ پاؤ گے۔ اور اگر اندرائن (بہت تلخ اور بدمزہ پھل) سمجھ کر پیا ہے تو تم اس کو اندرائن پاؤگے۔ تو اے بر ادر ! تم اس کو اچھا سمجھ کر پئو ۔ تا کہ وہ تمہارے حق میں اچھا ہو۔ اور برا سمجھ کر نہ پئو۔ (یعنی اگر تم نے تعرفات جلالیہ یعنی بلاؤں کو اللہ تعالیٰ کی نعمت تصور کر کے تسلیم و رضا کے ساتھ قبول کیا ہے تو وہ تمہارے حق میں نعمت ثابت ہوں گے۔ اور اگر تم نے انہیں سزا سمجھ کر برا تصور کیا ہے تو وہ تمہارے حق میں عذاب ثابت ہوں گے) لہذا اس کو اچھاسمجھو برا نہ سمجھو ۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے قول:
كَما تقابله يُقابِلكَ جس طرح تم اللہ تعالیٰ سے پیش آؤ گے اسی طرح اللہ تعالیٰ تم سے پیش آئے گا کا مفہوم یہی ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں