تیرھویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تیرھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثالث عشر فی تقدیم الاخرۃ علی الدنیا ‘‘ ہے۔

 منعقدہ4/ ذیعقدہ 545  بروزمنگل بوقت عشاء، بمقام : مدرسہ قادر یہ

آخرت کود نیا پر مقدم کر ، دونوں میں فائدہ ہوگا :

بیٹا! آخرت کو دنیا پر مقدم کر، دونوں میں فائدہ ہوگا ، لیکن جب دنیا کو آخرت پر مقدم کرے گا تو تو دونوں میں نقصان اٹھائے گا ۔ اور یہ تیرے عذاب کا باعث ہوگا ،  جس کا تجھے حکم نہیں ملا، اس میں کیوں لگتا ہے۔ اگر دنیا میں نہ لگو گے تو اللہ کی مدد حاصل ہوگی ، اس کے حصول کی توفیق عنایت فرمائے گا، جب اس سے کوئی چیز لے گا اس میں برکت رکھ دی جائے گی، ایمان والا دنیا وآخرت دونوں کے لئے عمل کرتا ہے، دنیا کے کام ضرورت کے مطابق انجام ویتا ہے، وہ اتنی مقدار پرگزر کرتا ہے جتنی کسی سوار کوتو شہ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ دنیا سے ( ضرورت سے زیادہ حاصل نہیں کرتا ، جاہل اپنی ساری توانائیاں دنیا کے لے اور عارف کی ساری  کوششیں آخرت  اور پھر اللہ کیلئے ہوتی ہیں ۔تیرے سامنے جب دنیا سے ایک روٹی آ جائے اور تیرا نفس تجھ سے جھگڑنے لگے اورکی  خواہش کرے تو اس لمحے اس کی طرف دیکھ جسے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہیں ۔ تیرے لئے فلاح ہے نہ نجات، جب تک کہ تو اپنے نفس سے اللہ کے لئے عداوت اور بغض نہ رکھے ، صدیق لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ، آپس میں صدق اور قبول کی خوشبو سونگھتے ہیں۔

اے اللہ اور اس کے صدیقوں اور نیکیوں سے منہ موڑنے والے،خلقت کی طرف توجہ کرنے والے، خدا کا شریک ٹھہرانے والے، تیرا دھیان ان کی طرف کب تک رہے گا، وہ تمہیں کیا نفع دے سکتے ہیں؟ ۔ ان کے ہاتھ میں نہ نفع اور نہ ضرر، نہ عطا ہے نہ منع ، جمادات اور ان میں کچھ فرق نہیں، ان سے نفع اور نقصان کی کیا امید رکھتے ہوں ۔ شہنشا حقیقی ایک ہی ہے، نفع ونقصان پہنچانے والا ایک ہی ہے۔ حرکت وسکون دینے والا ایک ہے، مسلط کرنے والا بھی ایک ہی ہے۔ مسخر کرنے والا ایک ہی ہے۔ عطا کرنے والا ایک ہی ہے,عطا سے روکنے والا ایک ہی ہے، پیدا کر نے والا ایک ہی ہے رزق دینے والا ایک ہی ہے یعنی اللہ کی ذات پاک!

وی قدیم ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا ، وہی خلقت سے پہلے اور تمہارے ماں باپ اور مال والوں سے پہلے موجود تھا۔ وہی آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں ، اور ان کے درمیان ہے، پیدا کرنے والا ہے، – لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس کی مثل کوئی نہیں ، وہی سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔‘‘

اے مخلوق الہی! تجھ پر سخت افسوس ہے، کہ اپنے خالق کو جیسا کہ پہچاننا چاہئے تم نہیں پہچانتے ۔ قیامت کے دن اگر  اللہ نے مجھے کچھ اختیار بخشا تو تمہارے شروع سے اخیر تک سب بو جھ اٹھالوں گا،۔

اے قرآن پڑھنے والے ز مین و آسمان والوں کو چھوڑ کے میرے سامنے پڑھ ۔ میں اس کی خوب سمجھ رکھتا ہوں، جو کوئی علم شریعت پر عمل کرتا ہے تو اس کے اور اللہ کے درمیان دروازہ کھل جاتا ہے ، جس کے ذریعے سے اس کا دل بارگاہ الہی میں داخل ہو جا تا ہے، لیکن اے عالم ! تو تو قیل وقال کرنے اور مال جمع کرنے میں لگا ہے مگر اپنے علم پرعمل کرنے کی طرف توجہ نہیں ۔ اس حال میں تیرے ہاتھ علم کا ظاہر لگتا ہے، اس کا باطن نہیں ۔ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جب کسی کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے، تو پہلے اسے علم عطا کرتا ہے ، پھر اس کے دل میں عمل اور عمل کے لئے اخلاص ڈالتا ہے ۔ اور یوں اسے اپنے سے اپنی طرف اور قریب کر دیتا ہے ، پھر اسے علم قلوب اور اسرار کی تعلیم دیتا ہے ، پھر اسے اپنے غیر کےسوا اپنے لئے خاص کر لیتا ہے، اور اسے اپنا برگزیدہ بنالیتا ہے، جیسے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو برگزیدہ بنا کر ارشاد فر مایا وَاصْطَنَعْتُكَ ‌لِنَفْسِي میں نے تمہیں خاص اپنے لئے بنایا۔‘‘ نہ اپنے غیر کے لئے ، نہ خواہشوں اور لذتوں اور عادتوں کے لئے ، نہ زمین کے لئے نہ آسمان کے لئے ، نہ جنت اور دوزخ کے لئے ،سلطنت کے لئے اور نہ تباہی کے لئے ، تمہیں کوئی چیز مجھ سے نہیں روک سکتی ، اور نہ کوئی شغل اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، نہ میری طرف سے کوئی صورت تمہیں قید کر سکتی ہے، اور نہ کوئی مخلوق میرے اور تمہارے درمیان حجاب بن سکتی ہے، اور نہ کوئی خواہش مجھے بے پرواہ کر سکتی ہے،۔

گناہ کی نجاست تو بہ اور اخلاص کے پانی سے دھو :

 اے بیٹا! گناہ کر کے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بلکہ اپنے کپڑوں سے گناہ کی نجاست کو توبہ کے پانی سے دھودے تو بہ اخلاص سے کر ، اور اس پر استقامت اختیار کر ۔ اور دین کے کپڑے میں جو گناہ کی بد بو پڑی ہے، اسےمعرفت الہی کی خوشبو سے پاک اور معطر کر ۔ تو جس مقام پر ہے، اس سے بچ اور ڈر، اس حالت میں تو جس طرف بھی  رخ کرے گا، درندے اور تکلیفیں تیرے اردگرد ہوں گے، جو تجھے ضرر دیں گے ، تو ان سے اپنا رخ پھیر کر اللہ کی طرف اپنے دل سے رجوع کر ، اپنی عادت اور حرص اور خواہش سے نہ کھا، ان پر دو عادل گواہوں کی گواہی لے یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ، پھر ان پر دوسرے دو گواہ اور طلب کریعنی قلب اور امرالہی کی گواہی لے، جب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  ﷺ اور قلب کی اجازت مل جائے تو چوتھے کی اجازت یعنی امرالہی کا انتظار کر ۔ رات کو لکڑیاں جمع کرنے والے کی طرح نہ ہو، کہ جو وہ جمع کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ کیا لگے گا، خالق یا مخلوق یہ چیز تنہائی اور آرزو اور تمنا اور تکلیف اور بناوٹ سے ہاتھ نہیں لگتی ، بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو سینوں کے اندر قرار پکڑتی ہے، اور عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، اس عمل سے کہ جس سے مقصود اللہ کی رضا ہو نہ کہ اس کے غیر کی ۔

دعوی طالب حق ہونے کا طلب مخلوق کی ہے:

اے بیٹا عافیت و آرام یہی ہے کہ عافیت چاہنا چھوڑ دے تونگری یہی ہے کہ تو نگری کی طلب ترک کر دے ،دوایہی ہے کہ دوا کی تمنا نہ ر ہے،  کامل دوا یہ ہے کہ-اپنے سب معاملات اللہ کے سپردکر دے، تمام اسباب سے قطع تعلق کر لے، اعزاء واقارب سے دلی طور پر جدا ہو جا، زبانی اقرار کی بجائے اللہ کو دل سے ایک جان ، توحید اورز ہد دونوں کا جسم اور جان سے تعلق نہیں بلکہ توحیددل میں  ،زہد دل میں، تقوی دل میں، معرفت دل میں علم الہی دل میں، محبت الہی دل میں ،قربت الہی دل میں ہے،  تو عقل کر ، حرص نہ کر، بناوٹ اور تکلف نہ کر،تو حرص اور بناوٹ، تکلف اور جھوٹ ، ریا اور نفاق میں گھر گیا ہے تمہارا کامل مقصود یہی ہے کہ خلقت کو اپنی طرف کھینچ لو، تمہیں نہیں معلوم کہ جب تم دل سے ایک قدم خلقت کی طرف چلتے ہو تو خدا سے کس قدر دور جا پڑتے ہو، تمہیں دعوی تو طالب حق ہونے کا ہے، جبکہ دل میں طلب مخلوق کی ہے، تمہارا حال اس شخص کی طرح ہے جس نے کہا کہ میرا ارادہ مکہ معظمہ جانے کا ہے، اور چل دیا خراسان کو، چنانچہ مکہ سے دور ہوتا چلا گیا ،تجھے یہ دعوی ہے کہ میرا دل مخلوق سے الگ ہو چکا ہے تو پھر مخلوق کا ڈر خوف کیونکر ہے، اورمخلوق  سے کوئی،امید کس لئے ہے،  تمہاراظا ہرز ہد ہے جبکہ باطن میں خلقت کی رغبت ہے ، تمہارا ظاہر حق کا ہے جبکہ باطن خلقت کا ہے۔یہ امر زبان درازی سے حاصل نہیں ہوتا ۔ ایسی حالت میں نہ خلقت ہے نہ دنیا – نہ آ خرت اور نہ ماسوا اللہ – خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ واحد ہے ، واحد کو پسند کرتا ہے، واحد ہے ،شریک کونا پسند کرتا ہے، تیرے ہرامر کی تدبیر وہی کرتا ہے ۔ جو کچھ تجھے کہا جائے ، قبول کر ، مخلوق تو عاجز ہے جو تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں دے سکتی ، بلکہ اللہ تعالی ہی تیرے نفع یا نقصان کوان کے ہاتھوں پر جاری فرمادیتا ہے، اللہ کا فعل تجھ میں اور ان میں تصرف کرتا ہے، تیرے نفع ونقصان کی جو چیز یں ہیں، اللہ تعالی کا قلم اس کے علم کے مطابق تیرا نصیب لکھ چکا ہے،  توحید والے صالحین باقی خلقت پر اللہ کی حجت ہیں ، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنے ظاہر اور باطن کے ساتھ دنیا سے الگ تھلگ ہیں، بعض وہ ہیں جو باطنی طور پر دنیا سے قطع تعلق کئے ہوئے ہیں ، اور ظاہر میں دولت والے ہیں ، ان کے باطن پر دنیا کاذرہ  سا بھی اثر نہیں دیکھتا ،

دلوں کی صفائی والے ہی اس پر قدرت رکھتے ہیں اور ایسوں ہی کو خلقت کی سلطنت عطا کر دی جاتی ہے، یہی فرد بہادر و بے باک ہے،  بہادر وہی ہے جس نے ماسوا اللہ سے اپنا دل پاک کیا اور اللہ کے دروازے پر تو حید وشرع کی تلوار لے کر کھڑا ہو گیا ، مخلوقات میں سے کسی کو اپنے دل کی طرف آنے کی اجازت نہیں دیتا، مقلب القلوب ہی اس کے قلب میں جلوہ فرما ہے،  شرع اس کے ظاہر کو مہذب کرتی ہے، توحید و معرفت اس کے باطن کو تہذیب سکھاتے ہیں، اور علم الہی ظاہر و باطن پر اسرار کا اظہار کرتا ہے ۔

 اے بندے! اس بات میں کوئی فائدہ نہیں کہ اس نے یہ کہا اور ہم نے یہ کہا توکسی چیز کو حرام کہتا ہے جبکہ تو اسے خود کرتا ہے،کسی چیز کو حلال کہتا ہے جبکہ تو اسے خود نہیں کرتا ،

تو سر سے پاؤں تک ہوس  ہی ہوس ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

وَيْلٌ لِلْجَاهِلِ مَرَّةً وَوَيْلٌ لِلْعَالِمِ ‌سَبْعَ ‌مَرَّاتٍوجاہل کے لئے ایک دوز رخ اور عالم کے لئے سات دوزخ ہیں۔ جاہل کے لئے ایک دوزخ ہے کیونکہ وہ علم نہیں رکھتا، اور عالم کے لئے سات دوزخ اس لئے ہیں کہ وہ علم رکھتا ہے۔ لیکن  عمل نہیں کرتا ،  اس سے علم کی برکت اٹھ جاتی ہے اور اس کے خلاف حجت باقی رہتی ہے، علم پڑھ، پھر اس پرعمل کر، خلقت سے جدا ہوکرمحبت الہی میں مشغول ہو، جب تیری خلوت اور محبت صحیح  ہو جائے گی تو تمہیں اپنے قریب اور نزدیک کر کے اپنی ذات میں فنا کر دے گا ، فنافی اللہ کے بعد اگر چاہے تو تمہیں مشہور کر کے خلقت پر ظاہر کرے، اور تیرے نصیب کا لکھا پورا کرنے کے لئے تجھے مخلوق میں واپس کر دے، تیرے بارے میں اپنے علم سابق اور تقدیر سابق کی ہوا کو حکم دے گا ، وہ ہوا تیری خلوت کی دیواروں پر چلے گی اور انہیں گرادے گی، اور یوں خلقت پر تیرا حال کھول دے گی۔ ایسی حالت میں تم خلقت کے دوران اللہ کے ساتھ ہو گے ، اپنے ساتھ نہیں ، اپنے نصیب کونفس اور حرص اور خواہش کے بغیر حاصل کرو گے، وہ تجھے قسمت کا لکھا پورا کرنے کے لئے واپس کر دیتا ہے تا کہ اس کا عملی قانون تم میں باطل نہ ہو جائے تو اپنا نصیب حاصل کرے گا کیونکہ تمہارا دل اللہ کی ذات کے ساتھ ہے ، سنو، پڑھو اور اس پرعمل کرو۔ اے اللہ اور اس کے پیاروں سے بے خبرو! – اللہ اور اس کے ولیوں پر انگلی اٹھانے والو! ـ حق تو وہی حق تعالی ہے اور تم مخلوق باطل ہو، حق دلوں اور باطنوں اور اسرار میں ہے، جبکہ باطل نفسوں اور خواہشوں اور حرصوں اور عادتوں اور دنیا اور ماسوا اللہ میں ہے، قلب کے لئے فلاح ونجات نہیں جب تک کہ وہ قدیم وازلی ، دائم وابدی اللہ کے قرب سے متصل نہ ہو ۔ اے منافق اتو جھگڑانہ کرے جو اس سے بہتر ہیں تو تو روٹی اور سالن اور شیرینی  اور کپڑوں اور تیرے گھوڑے اور اپنی حکومت کا بندہ ہے،سچا دل خلقت سے گزرکر خالق کی طرف سفر کرتا ہے ۔ راستے میں بہت سی چیزیں دیکھتا ہے، اور انہیں سلام کرتا ہوا ( ر کے بغیر )اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا جا تا ہے ۔ باعمل علماء اپنے علم کی وجہ سے اگلے علماء کے نائب ہیں اور انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔ اور جو بقیۃ السلف ہیں وہ ان کے پیش رو ہیں، خلقت کو شریعت کے شہر میں عمل کرنے کا حکم دیتے ہیں ، اور انہیں اس کی ویرانی سے روکتے ہیں ،  وہ اور انبیاء کرام قیامت کے دن ایک جگہ اکٹھے ہوں گے، انبیاء کرام ان علماء واللہ تعالی سے انکی پوری پوری مزدوری دلائیں گے ،  جو عالم اپنے علم مکمل نہیں کرتا ،اللہ نے اس کی مثال گدھے سے دی ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے: كَمَثَلِ ‌الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا – گدھے کی مثل جو کتابیں اٹھاتا ہے۔ کیا گدھا ان علمی کتابوں کو اٹھا کر فائدہ حاصل کر سکتا ہے؟ – سوائے اس بات کے کہ مشقت اور غم اٹھائے – بے عمل علماء کا یہی حال ہے، ان کے ہاتھ کیا آ تا ہے؟ ۔ جسے زیادہ علم ہو اسے چاہیے کہ اللہ سے زیادہ خوف کرے اور زیادہ اطاعت کرے ۔

اے علم کا دعوی کرنے والے! خوف الہی سے تیرا رونا کہاں ہے تیرا ڈ راور دہشت کہاں ہے؟گناہوں کا اقرار کہاں ہے۔عبادت میں رات دن ایک کرنا کہاں ہے، اپنے نفس کو ادب سکھانا کہاں ہے، اللہ کے لئے حب اور بغض کہاں ہے؟ تیری ہمت تو قمیص اور دستار ، کھانا اور نکاح ، گھر اور دکانیں ،خلقت میں اٹھنا بیٹھنا اور ان سے محبت ہے، اپنی ہمت کو ان سب چیزوں سے الگ کر دے، اگر یہ سب کچھ تیرے نصیب میں ہے تو اپنے وقت پر مل کر رہے گا، تیرادل انتظار کی تکلیف سے آرام پائے گا ، اور حرص کی گرانی سے راحت اٹھائے گا ، اور اللہ کی معیت میں قائم رہے گا، جس سے تجھے فراغت مل چکی ، اس چیز میں مشقت اٹھانے کا کیا فائدہ؟

 تیری خلوت فاسد ہے، تیرا اخلاص وتو حیدیہ نہیں:

اے بیٹا! تیری خلوت فاسد ہے صحیح  نہیں ، پلید ہے پاک نہیں ، تیرے دل نے تیرے ساتھ کیا کیا جبکہ اس کا نہ اخلاص درست ہے نہ تو حید صحیح ہے ۔ اے ایسے سونے والو! جن سے غفلت نہ کی جائے ،اے ایسے اعراض کرنے والو! جن سے اعراض نہ کیا جائے ۔اے ایسے بھول جانے والو! جو نہ بھلائے جاؤ گے۔ -اے وہ چھوڑ نے والو! جو نہ چھوڑے جاؤ گے، اللہ اور رسول  ﷺ اور اگلوں پچھلوں سے جاہلو! – تم تو کٹی ہوئی پرانی لکڑی کی طرح ہو جس کا کچھ فائدہ نہیں ، سو چواور سنبھلو!! ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔آمین!‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 93،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 63دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں